قسط: 10 – فضیلت قرأتِ قرآن : – مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

دین میں قرآن فہمی کی اہمیت
قسط: 10
فضیلت قرأتِ قرآن

مفتی کلیم رحمانی
پوسد ۔ مہاراشٹرا
موبائیل : 09850331536
———
دین میں قرآن فہمی کی اہمیت ۔ نویں قسط کے لیے کلک کریں
———

لفظ ’’قرأت‘‘ تلاوت کا ہم معنیٰ ہے یعنی جس طرح تلاوت کے معنیٰ میں الفاظِ قرآن کے ساتھ معانی قرآن میں داخل ہیں اسی طرح قرأت میں الفاظِ قرآن کے ساتھ معانی قرآن بھی داخل ہیں۔ ’’لفظِ قرأت ‘‘ میں معانی قرآن کا مفہوم شامل ہونے کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ خود لفظِ قرآن ، قرأت سے مشتق ہے اور قرآن کی تعریف اصول فقہ رو سے اَلْقُرآنَ ہُوَا لَّفظُ وَالمَعَنیٰ جَمِیْعَاً ہے۔ یعنی قرآن الفاظ و معانی کے مجموعہ کا نام ہے، اس تعریف کی رو سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرأتِ قرآن میں ، قرآن کا وہی پڑھنا اور سننا داخل ہوگا جب کہ پڑھنے والا سننے والا معانی قرآن کو جانتے ہوئے پڑھے یا سنے-

قرأت میں معانی کا مفہوم شامل ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ دور نبویﷺ میں جو صحابہ کرامؓ قرآن کے معانی و مطالب و مراد کو خصوصی طور پر جانتے تھے اور بیان کرتے تھے انہیں ’’قاری قرآن‘‘ کہاجاتا تھا۔ اور لفظ ’’قاری‘‘ قرأت ہی کا اسم فاعل ہے، اور دور نبویﷺ وہ دور ہے جو دین اسلام میں علمی و عملی لحاظ سے سند کا درجہ رکھتا ہے۔ دین اسلام سے واقفیت کے لیے جس طرح قرآن کو زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ سمجھ کر پڑھنا یا سننا ضروری ہے اسی طرح اپنے ایمان اور عمل میں اضافہ کے لیے قرآن کو باربار سمجھ کر پڑھنا یا سننا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں قرأت قرآن کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:عَنْ عَبدِ اللّٰہِ ابْنِ عُمَرَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ﷺ یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرآنِ اِقْرَأوزتقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا فَاِنَّ مَنْزِلَکَ عِنْدَاٰخِرِاٰیَۃٍ تَقْرَاُہَا (ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، احمد ، مشکٰوۃ) ترجمہ :۔ (حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : صاحب قرآن کو کہاجائے گا قرآن پڑھتا جا اور جنت میں اوپر چڑھتا جا، اور تو دنیا میں جس طرح ٹھہر ٹھہرکر پڑھتا تھا۔ اسی طرح ٹھہرکر پڑھ ، تیرا مقام قرآن کی آخری آیت پر ہوگا، جو تو پڑھے گا۔
مذکورہ حدیث سے دو اہم باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ قرآن کا پڑھنا آخرت میں درجات کی بلندی کا معیار قرار پائے گااور دوسرے یہ کہ صاحب قرآن کی یہ صفت بیا ن کی گئی کہ وہ دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتا تھا یہ بات اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قرآن کے معانی و مطالب کو سمجھ کر پڑھتا تھا کیوں کہ جو تحریر بغیر سمجھے پڑھی جائے اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
نیز حدیث میں صاحب قرآن کا ذکر ہے اور صاحب قرآن وہی کہلائے گا جس کو قرآن سے خصوصی لگاؤ ہو۔ یعنی قرآن کے نظریہ و تعلیمات کو بلا چوں و چراتسلیم کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی دعوت بھی دیتا ہو۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں صاحب قرآن سے مراد صرف حافظ قرآن ہے یعنی جس کو پورا قرآن زبانی یاد ہو، جب کہ یہ صحیح نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شخص صاحب قرآن کہلائے گا جس کو قرآن سے خصوصی لگاؤ ہو چاہے اسے قرآن زبانی یاد ہو یا نہ ہو، اور جہاں تک حافظ قرآن کا تعلق ہے جو آج عرف عام میں الفاظ قرآن کے زبانی یاد کرنے والے کو کہا جاتا ہے، اگر وہ معانی قرآن بھی جانتاہو اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو تو یقیناًوہ صاحب قرآن کہلانے کا مستحق ہے لیکن اگر وہ معانی قرآن نہ جانتا ہو اور نہ اس کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو تو وہ صاحب قرآن کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا ۔ ایک اور حدیث میں آنحضورﷺ نے قرأت قرآن کی یوں فضیلت بیان فرمائی۔عَنْ اَبِیْ ہُرَیْر ۃؓ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِﷺ تَعَلَّمُوا الْقُراٰنَ فَاقْرا ؤْہُ فَاِنَّ مَثَلَ الْقُرْاٰنَ لِمَنْ تَعَلَّمَ فَقَرَءَ وَقَامَ بِہٖ کَمَثَلِ جِرَابٍ مَّحْشُوٍّ مِّسْکاً تَفْوحً رِیْحُہٗ کُلَّ مَکَانٍ وَّ مَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَُہٗ فَرَقَدَ وَہُو فِیْ جَوْفِہٖ کَمَثْلِ جِرَابٍ اُوْکِیَ عَلَی مِسْکٍ (ابن ماجہ ، ترمذی ، نسائی ، مشکوٰۃ) ترجمہ : (حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قرآن سیکھو اور اس کو پڑھو! پس بے شک جس نے قرآن سیکھا اور اس کو پڑھا اور اس کے ساتھ قیام کیا (یعنی نماز میں پڑھا) اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک کی تھیلی بھری ہوئی ہو اور اس کی خوشبو پورے مکان میں پہنچ رہی ہو۔ اور اس کی مثال جس نے قرآن سیکھا اور اس سے غافل ہوگیا، مشک کی اس تھیلی کی مانند ہے جس کا منہ بند کردیا گیا ہو۔ اس حدیث میں جہاں قرآن کے سیکھنے اور پڑھنے والے کو حضور ﷺ خوشخبری سنائی گئی ہے وہیں قرآن سے غفلت برتنے والے کو وعید سنائی گئی ہے۔ ایک اور حدیث میں آنحضورﷺ نے قرأتِ قرآن کی فضیلت اس طرح بیان فرمائیعَنْ عبداللّٰہِ اِبْنِ عُمْرؓ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِﷺ قَال اَلصِّیَامُ وَالْقُرْاٰنُ یَشْفَعَانِ لِلعَبْدِ یَقُولُ الصِّیَامُ اَیْ رَبِّ اِنِّی مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ والشَّھَوٰتِ بِالنَّہَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ فَیُشَفَّعاَنِ (بیہقی ، مشکٰوۃ)ترجمہ : ۔ (حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : روزے اور قرآن بندہ کے لیے شفاعت کریں گے روزہ کہے گا ٗ اے میرے رب !میں نے اس کو کھانے اور شہوات (خواہشات ) سے روکے رکھا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما، قرآن کہے گا میں نے اسکو رات میں نیند سے روکے رکھا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما، پس دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔)
مذکورہ حدیث سے تین اہم باتوں پر روشنی پڑتی ہے ایک یہ کہ روزوں اور قرآن میں گہرا تعلق ہے وہ یہ کہ روزوں کے ذریعہ جہاں دین پر چلنے کی مشق ہوتی ہے، تو وہیں قرآن کے ذریعہ دین سے واقفیت حاصل ہوتی ہے اور یہی دین کا مقصد ہے۔ اور غالباً یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن اور فرضیت صیام کو ماہ رمضان میں جمع فرمادیا ٗ چنانچہ ماہ رمضان جہاں ایک طرف نزول قرآن کا مہینہ ہے تو وہیں دوسری طرف روزوں کی فرضیت کا مہینہ بھی ہے۔دوسری بات یہ کہ قرآن کو رات سے خصوصی نسبت حاصل ہے، چنانچہ مذکورہ حدیث میں شفاعت کے متعلق قرآن کے جو کلمات بیان کئے گئے ہیں وہ یہ کہ میں نے بندہ کو رات میں سونے سے روکے رکھا، رات کے کچھ حصہ میں قرآن کے پڑھنے کی اس لیے اہمیت ہے کہ وہ یکسوئی کا وقت ہوتا ہے اور یکسوئی قرآن کے فہم و تدبر میں اضافہ کا باعث بنتی ہے، خصوصاً رات کا آخری حصہ ، ویسے نزول کے لحاظ سے بھی قرآن کو رات سے ایک خاص نسبت حاصل ہے کیوں کہ ارشاد خداوندی کے مطابق قرآن شب قدر میں نازل ہوا، نیز سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۷۹؍ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضور کو ہدایت فرمائی : وَمِنْ اللّیْلِ فَتَھَجَّدُ بِہٖ یعنی رات کا کچھ حصہ قرآن کے ساتھ جاگیے ، مطلب یہ کہ رات کے کچھ حصہ میں قرآن پڑھئے۔
تیسری بات یہ کہ روزہ اور قرآن کی شفاعت رد نہ ہوگی بلکہ قبول ہوگی اور صرف یہی دوچیزیں ہیں جن کی شفاعت کی قبولیت کا آپﷺ نے صراحت کے ساتھ ذکر فرمایا اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ روزہ اور قرآن کا اللہ کی بارگاہ میں کتنا عظیم مقام ہے لیکن یہ تب ہوگا جب کہ بندہ روزہ اور قرآن کے تقاضوں کو پورا کرے۔

Share
Share
Share