برسوں پرانا یارانہ کیوں ٹوٹا ؟ ماہنامہ شگوفہ کے حوالے سے :- ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز

Share
سید فاضل حسین پرویز

چھوٹا قلم بڑی بات…!
برسوں پرانا یارانہ کیوں ٹوٹا؟
ماہنامہ شگوفہ کے حوالے سے

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
‘ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔
فون:9395381226

پہلی بار قلم اٹھاتے ہوئے ایک سے زائد بار سوچنا پڑا۔ اس موضوع پر چاہتے ہوئے بھی لکھنا نہیں چاہتا تھا کیوں کہ یہ کوئی عوامی مسئلہ نہیں ہے۔ نہ تو قوم کا کوئی نقصان ہونے والا ہے۔ نہ ہی ملت متاثر ہونے والی ہے۔ ہاں! ایک غلط مثال ضرور قائم ہوگئی کہ کس طرح برسوں کی دوستی اَنا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پدم شری مجتبیٰ حسین اور ڈاکٹر مصطفےٰ کمال کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج اِن دنوں سوشیل میڈیا کے ذریعہ ادبی حلقوں میں موضوع بحث نہیں‘ موضوع مذاق ہے۔

اس سے پہلے عابد معز کی شگوفہ سے دوری کا بھی چرچا رہا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ دوریاں اور اختلافات ایسے وقت پیدا ہوئے جب شگوفہ اپنی اشاعت کی گولڈن جوبلی سال میں داخل ہوچکا تھا۔ یقیناًاپنی نوعیت کے منفرد رسالہ کی اس کامیابی اور ڈاکٹر مصطفےٰ کمال کے استقلال کو خراج تحسین پیش کرنے کے موقع پر یہ بدبختانہ واقعات نے کم از کم مجتبیٰ حسین کے چاہنے والوں اور ڈاکٹر مصطفےٰ کمال کے قدر دانوں کو تکلیف ضرور پہنچائی۔ جناب رشید انصاری کے ایک مضمون کی اشاعت کے بعد میں نے قلم اٹھانے کی ہمت کی۔ جناب رشید انصاری بزرگ صحافی ہیں اور وہ اپنی عمر اور تجربہ کی اساس پر مجتبیٰ حسین‘ ڈاکٹر مصطفےٰ کمال اور عابد معز کو نصیحت بھی کرسکتے ہیں اور اپنی عمر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرزنش بھی۔
میرا معاملہ الگ ہے۔ انوارالعلوم کالج کے دورِ طالب علمی میں ڈاکٹر مصطفےٰ کمال وہاں کے لکچرر تھے اگرچہ کہ راست طور پر ان کی شاگردی کا موقع نہیں ملا اُس کے باوجود ہم نے شاگرد اور استاد کا رشتہ برقرار رکھا جو آخری سانس تک باقی رہے گا۔ مجتبیٰ حسین صاحب سے پہلی ملاقات 1979ء میں دہلی میں این سی ای آر ٹی کے دفتر میں ہوئی تھی جب ہم انٹرمیڈیٹ سال اول کے طالب علم تھے۔ یہ ان کی شہرت ہی تھی جس کی وجہ سے ہم نے اُن سے بطور خاص ملاقات کی۔ اُس وقت بھی انہوں نے حوصلہ افزائی کی تھی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ وہ گواہ کے قاری ہیں‘ اور یہ ان کی اعلیٰ ظرفی و بڑاپن ہے کہ اکثر و بیشتر فون کرکے اداریوں پر مبارکباد دیتے ہیں۔ سراہتے ہیں۔ اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی شہرہ آفاق شخصیت ہم جیسے طفل مکتب کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تو ہم خود کو زمین سے کچھ بلندی پر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ عابد معز سے ہماری ملاقات شگوفہ یا ڈاکٹر مصطفےٰ کمال کی بدولت ہوئی۔ وہ سعودی عرب سے جب کبھی حیدرآباد آتے اور بیچلرس کوارٹرس میں شگوفہ کے دفتر آتے یا وہاں سے واپس ہوتے تو گواہ کے دفتر ضرور تشریف لاتے۔ ریاض میں انہوں نے ہماری میزبانی بھی کی۔ ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شگوفہ کے لئے یا زندہ دلان حیدرآباد کے بعض پروگرامس کے لئے عابد معز نے ہم سے کچھ کام بھی لیا۔ اس طرح تینوں شخصیات سے شخصی روابط رہے ہیں اور تینوں کے سامنے میری حیثیت طفل مکتب ہی کی طرح ہے۔ اس لئے ان کی آپسی اختلافات کی خبریں سن کر اور پڑھ کر دلی تکلیف ہونے کے باوجود کچھ کہنے یا لکھنے سے گریز کرتا رہا۔ مگر اب یہ سوچ کر کہ اگر میری بات ناگوار گزرے گی بھی تو اپنا شاگرد یا چھوٹا بھائی سمجھ کر درگزر کردیا جائے گا۔ اور اگر پسند آجائے تو ان کی دل سے نکلنے والی دعائیں میری لئے توشہ آخرت بن جائیں گی۔
انگریزی قول کے مطابق دیرینہ دوست پرانی شراب اور قدیم کتابوں کا کوئی متبادل نہیں۔ شراب سے ہمیں کیا لینا دینا۔ دوست اور کتابوں کا جہاں تک تعلق ہے اس پر صدفیصد یقین ہے۔ 25، 50 برس کی دوستی چند غلط فہمیوں یا نااتفاقیوں کی بناء پر ختم ہوجائے تو یہ شیطان کی جیت ہے جو دو دوستوں میں بھائیوں اور خاندانوں میں دراڑ ڈال کر جشن مناتا ہے۔ اور مومن وہ ہے جو دو دوستوں میں صلح کرواتا ہے۔ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے (اگر اس حالت میں مرگیا) تو جہنم میں جائے گا۔ مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کی مدد فرمائے تو دوزخ سے بچ جائے گا۔ ایک اور حدیث شریف ہے کہ جس شخص نے ناراضگی کی وجہ سے اپنے مسلمان بھائی سے ایک سال تک ملنا جلنا چھوڑے رکھا اس نے گویا اس کا خون کیا۔ یعنی سال بھر قطع تعلقی کا گناہ اور ناحق قتل کرنے کا گناہ قریب قریب ہے۔ دوستوں میں اختلافات کی وجہ کوئی تیسرا فرد ہوتا ہے جو ابلیس کا نمائندہ ہوتا ہے جو فریقین کو ورغلاکر انہیں ایک دوسرے کے خلاف زہر اُلگنے یا غیبت کرنے کیلئے آمادہ کرتا ہے۔ حدیث شریف ہے: غیبت کرنا زنا سے زیادہ برا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ! غیبت کرنا‘ زناسے زیادہ برا کیسے ہے‘ آپ ا نے فرمایا اگر آدمی زنا کرلیتا ہے تو پھر توبہ کرلیتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے مگر غیبت کرنے والے کو جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی اس نے غیبت کی ہے اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے معاف نہیں کیا جاتا (بیہقی)۔
پہلے ڈاکٹر مصطفےٰ کمال اور ڈاکٹر عابد معز کے درمیان دوریاں ہوئیں‘ کیوں؟ چاہے کسی بھی وجہ سے ہوئی ہوں گی‘ اس کے لئے وہ لوگ ذمہ دار ہیں جنہیں ان دونوں کا ساتھ گوارا نہیں تھا۔ ڈاکٹر عابد معز نے اگر شگوفہ کے لئے کچھ کیا یا مصطفےٰ کمال نے عابد معز کے لئے کچھ کیا تو یہ ایک دوسرے سے روابط، دوستی کا حصہ تھا۔ اس میں کسی نے کسی پر احسان نہیں کیا۔ کیوں کہ دوستی میں احسان کیا بھی گیا تو وہ جتایا نہیں جاتا۔ اگر مصطفےٰ کمال صاحب کا یہ خیال ہے کہ انہوں نے عابد معز کو زمین سے آسمان تک پہنچایا اور عابد معز کا یہ احساس کہ انہوں نے مصطفےٰ کمال یا شگوفہ کی مدد کی تو یہ دونوں کی خوش فہمی ہے کیوں کہ کوئی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتا‘ جو بھی ہوتا ہے وہ منجانب اللہ ہوتا ہے یقیناً اس کے لئے اللہ رب العزت وسائل پیدا کرتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان دونوں کے اختلافات کو دنیائے ادب کی بے ادب ہستیوں نے دشمنی کی حدوں تک پہنچا دیا۔ عابد معز کی شگوفہ سے دوری سے مجھے بھی اس لئے تکلیف پہنچی کہ عابد صاحب نے شگوفہ کے لئے یا زندہ دلان حیدرآباد کے پروگرامس کے لئے جو کام کیا اس کا کسی حد تک میں‘ میرے بھائی ڈاکٹر عبدالرشید جنید گواہ ہیں اور ہمارے بھانجے جواد سے عابد صاحب نے غالباً شگوفہ کی ویب سائٹ بھی تیار کروائی تھی۔ دونوں کے اختلافات ختم کئے جاسکتے تھے مگر بہت سارے زندہ دل اندر سے دل جلے نکلے۔
جہاں تک مجتبیٰ حسین صاحب اور مصطفےٰ کمال صاحب کے درمیان دوریوں کا تعلق ہے‘ جہاں تک میری ادھوری معلومات کا تعلق ہے جناب حمایت اللہ صاحب کے انتقال کے بعد شگوفہ میں لکھا گیا اداریہ اس کا سبب بنا۔ جناب حمایت اللہ مرحوم‘ جو ہمارے بالخصوص گواہ کے ہمدرد رہے۔ ان کی اہلیہ صاحبہ کی جانب سے مختلف اخبارات و جرائد کے مدیران کے نام لکھا گیا مکتوب شاید اس کی ایک وجہ ہے جس میں مصطفےٰ کمال صاحب کی تحریر اور ان کے انداز بیان پر اعتراض کیا گیا۔ عام طور پر یہ سمجھا جارہا ہے کہ یہ مکتوب جناب مجتبیٰ حسین صاحب کی ا یماء پر گشت کروایا گیا ہے۔ اس مکتوب میں محترمہ رشید موسوی صاحبہ کے اعتراضات اپنی جگہ درست ہوسکتے ہیں‘ ایک وفاشعار بے پناہ چاہنے والی بیوی کو یہ محسوس ہوا کہ مصطفےٰ کمال صاحب کی تحریر میں حمایت اللہ صاحب مرحوم کے قد کو کم کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کی گئی ہے۔ اس کے باوجود ہمارایہ خیال ہے کہ یہ خط عام نہیں ہونا چاہئے تھا۔ کیوں کہ کسی کو اختیار نہیں کہ کسی کو عزت یا ذلت دے سکے۔ جس کا جو مقام ہے‘ وہ برقرار رہتا ہے اس کے علاوہ 40، 50سال سے جو دوست رہے ہیں‘ ان کے درمیان رسمی تکلفات کا رشتہ نہیں ہوتا۔ دوستوں کے درمیان کی ہر بات سے تو گھریلو خواتین کا واقف رہنا ضروری بھی نہیں۔جناب حمایت اللہ مرحوم‘ ڈاکٹر مصطفےٰ کمال اور جناب مجتبیٰ حسین اپنے اپنے میدان کے سورما رہے ہیں۔
( مصطفےٰ کمال کو برصغیر بلکہ اردو دنیا میں اپنی نوعیت کے منفرد رسالہ 50سال سے شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہے)۔ بلاشبہ طنز و مزاح نگاروں کے لئے یہ ایک پلیٹ فارم رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1977ء میں جب میں میٹرک کا طالب علم تھا‘ بزم کہکشاں لائبریری مشیرآباد میں خاص طور پر اس کا مطالعہ کرتا۔ اس رسالہ کی اپنی پہچان ہے۔ اور مجتبیٰ حسین صاحب کی اپنی پہچان ہے۔( ان پر اردو دنیا کو ناز ہے)۔ مجتبیٰ حسین، مصطفےٰ کمال کی دوستی پر دنیائے ادب کو رشک رہا۔ اسی طرح جناب حمایت اللہ کا قد اپنے فن کی بنیاد پر ہمیشہ نمایاں رہا۔ عابد معز کی انفرادیت یہ ہے کہ طنز و مزاح سے زیادہ انہوں نے میڈیکل سائنس پر اپنی نگارشات سے اردو اور انگریزی میں مقام پیدا کیا۔ زندہ دلان حیدرآباد واقعی زندہ دل افراد کا گہوارہ رہا۔ بیرون حیدرآباد اکثر اس کا ذکر ہوتا۔ اب زندہ دلان کی نئی پہچان بن رہی ہے جو اس کی شاندار ماضی کے بالکل برعکس ہے۔ جناب محمدعلی رفعت نئے صدر ہیں۔ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ کھری کھری کہتے ہیں کہ اچھے ایڈمنسٹریٹررہے ہیں۔ اسپیشل آفیسر وقف بورڈ اور چارمینار بینک کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ علیم خان فلکی بھی نئے عہدیداروں میں شامل ہیں۔ دیکھناہے کہ نئی ٹیم زندہ دلان حیدرآباد کے کھوئے ہوء وقار اورماضی کی عظمتوں کوبحال کرسکتی ہے یانہیں؟۔ مصطفیٰ کمال،مجتبی حسین اور عابدمعز کے آپسی اختلافات اپنی جگہ۔چاہے کسی بھی وجہ سے مجتبیٰ حسین نے زندہ دلانِ حیدرآباد کی صدارت سے استعفیٰ دیا ہو‘ اُسے قبول کربھی لیا گیا تو ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا تو یہ ایک اچھی مثال ہوتی۔ اب بھی کچھ نہیں گیا۔ اب بھی گلے شکوے دور ہوسکتے ہیں‘ اب بھی گلے مل سکتے ہیں۔ اب عمر کے جس پڑاؤ پر ہیں‘ وہاں سے آخری منزل دور ہی کتنی رہ گئی ہے۔برسوں دُکھ سکھ میں ساتھ رہے۔ اب بچے کچے ماہ و سال گھٹ گھٹ کر کیوں جئیں‘ آپ سب بزرگ ہیں‘ آپ پر فخر ہے۔ نئی نسل کیلئے ایسی مثال نہ چھوڑیں کہ ایک دوست دوسرے دوست پر اعتماد کرنا چھوڑ دے۔ بلکہ آپ ہمیں یہ بتادیں کہ یہ جدائی عارضی تھی‘ اختلافات وقتی تھے۔ زندگی میں جو وقت رہ گیا اسے بھی خوشی خوشی گزار لیں گے۔ کہتے ہیں کہ جدائی کے بعد ملاپ کا مزہ ہی کچھ اور ہے… گواہ اور میڈیا پلس بچھڑوں کے ملاپ کیلئے بے چین، بے تاب اور دعا گو ہے۔
بذریعہ ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد

Share
Share
Share