شیَرِنگ (Sharing) آٹو اور خواتین : – مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share


شیَرِنگ (Sharing) آٹو اور خواتین
اخلاقی قدریں رو بہ زوال

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
07207326738 Mob:

چند دنوں قبل شہر میں آٹو سے کہیں جارہا تھا، راستے میں ایک منظر پر نظر پڑی جس نے مجھے تھوڑی دیر سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اخلاقی قدریں کس قدر رو بہ زوال ہیں اور ہم کس قدر اپنی تہذیب سے دور ہوتے جا رہے ہیں، ایک آٹو پر چار خواتین سوار تھیں ،تین خواتین تو پیچھے کی سیٹ پر براجمان تھیں، جب کہ ایک خاتون جو کہ باقی تینوں خواتین کے مقابلے میں کم عمر معلوم ہورہی تھی ڈرائیور کے بازو میں تشریف فرماں تھی-

یہ منظر مجھے بہت ہی عجیب معلوم ہورہا تھا کہ ایک نقاب پوش خاتون آٹو ڈرائیور سے لگ کر بیٹھی ہوئی تھی- بہت ممکن ہے کہ وہ آٹو ڈرائیور کی کوئی محرم ہو اور خدا کرے میرا گمان صحیح ہو،لیکن یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے،بلکہ اس طرح کے واقعے آئے دن شہر میں دیکھنے کو مل رہے ہیں،آج کل تو شیَرِنگ (sharing) آٹومیں غیر محرم مرد و عورت مل مل کر بیٹھنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر بائک پر مرد و عورت اس طرح مل کر، بلکہ چپک کر بیٹھتے ہیں اوربعض مرتبہ پیچھے بیٹھی خاتون اس طرح سامنے مرد پر جھک جاتی ہیں کہ دیکھنے والوں کو شرم آنے لگتی ہے، بات تو اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے کہ خاتون بائک چلاتی ہے اور اس کے پیچھے مرد اس سے چمٹ کر بیٹھے بے حیائی کے مناظر دکھارہا ہوتا ہے ؛ یہ سب عمل اسلامی تہذیب و اقدار ، اسلامی روایات اور اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔ اسلام نے مرد و عورت کو حتی الامکان ا ختلاط سے بچنے کی تاکید کی ہے اسی لئے نماز میں مرد و عورت کی صفیں علحدہ لگانے کا حکم دیا گیا ہے ، آپ ﷺکے زمانے میں عورتیں مسجد آیا کرتی تھیں، نماز میں اور آپﷺ کے وعظ و نصیحت میں شریک ہوا کرتی تھیں ،لیکن آپ ﷺ مردوں کو روک کر پہلے عورتوں کو باہر نکلنے کا حکم دیتے تھے تاکہ راستے میں مرد و عورت کا ایک ساتھ اختلاط نہ ہو ، ایسی بھیڑ بھاڑ کی جگہوں پر جانے سے شریعت عورتوں کو منع کرتی ہے، جہاں مرد کا جسم، عورت کے جسم سے مس ہوجائے ، اگر صرف دو آدمی جماعت سے نماز پڑھ رہے ہوں تو علحدہ صف کی ضرورت نہیں، بلکہ دونوں ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں،لیکن اگر میاں بیوی گھر میں ایک ساتھ نماز پڑھ رہے ہوں تو حکم یہ ہے کہ بیوی علحدہ صف میں پیچھے کھڑی ہو۔غور فرمائیے کس درجہ دونوں میں فاصلہ رکھا گیا ہے اور جب نماز میں میاں بیوی ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے ہیں تو خاتون کا اجنبی مرد کے ساتھ بیٹھنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟۔
اسلام نے اگر کسی برائی سے منع کیا ہے تو اس برائی تک پہنچنے کے تمام راستے سے بھی منع کیا ہے، مثلا اسلام نے زنا سے روکا ہے تو زنا تک لے جانے والے تمام راستے سے بھی شریعت نے منع کیا ہے، اسی لئے عورتوں کو حکم ہے کہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں ، اس لئے کہ جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کے پیچھے ہو لیتا ہے اور ہوس پرستوں کو اس کی طرف گھور کر دیکھنے پر اکسا تا ہے اور بد نگاہی کے گناہ میں مبتلا کردیتا ہے ،ہاں ضرورت پڑنے پر شریعت نے عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، لیکن ضروری ہے کہ پردے کی مکمل رعایت کریں اپنی چہرے کو کپڑا اوردوپٹہ سے ڈھانک لیں اور چہرے کا چھپانا ستر ہونے کی بنا پر نہیں ہے بلکہ فتنہ سے بچنے کے لئے ہے اس لئے کہ وحشی درندے پہلے چہرے کو ہی دیکھتے ہیں اور پھر اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں،شریعت نے عورتوں کو تنہائی میں غیر محرم مرد سے ملنے اور اس سے بات کرنے سے بھی منع کیا ہے ۔حدیث میں ہے جب مرد و عورت تنہا ہوتے ہیں تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے جو ان دونوں کے دلوں میں برے خیالات ڈال کر دونوں کو برائی پر آمادہ کرتا ہے ۔اسی طرح مردوں کو حکم ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلیں اور عورتوں پر ان کی نگاہیں پڑیں تو اپنی نگاہیں نیچی کر لیا کریں تا کہ بد نگاہی سے بچ سکیں،اس لئے کہ یہ بد نگاہی زنا کے مقدمات میں سے ہے جب کوئی عورت اپنے حسن کی نمائش کرتی ہوئی باہر نکلتی ہے تو نوجوانوں کی طبیعت اس کی طرف مائل ہوجاتی ہے اور ابتداء میں وہ مرد اس سے صرف بات کرنے کی کوشش کرتا ہے، بات آگے بڑھتی ہے اور دونوں بات کرتے کرتے محبت کرنے لگتے ہیں پھر ایک دوسرے کے جسم کو چھوتے ہیں اور آخر کار زنا کے اس دروازے پر پہنچ جاتے ہیں ہیں جس سے شریعت نے منع کیا ہے، پھر وہ ہوس جسے انسان محبت اور دوستی کانام دیتا ہے ساری حدوں کو پار کر کے عور ت کی ردائے عصمت کو تار تار کردیتا ہے اور وہ حرکت کر بیٹھتا ہے جسے دیکھ کر آسمان کے فرشتے بھی اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں ۔
اسلام جامع دین ہے، اپنے ماننے والوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے اور مکمل تہذیب و جامع نظام حیات کا علم بردار ہے اسلام اس بات کا بالکل روادار نہیں ہے کہ اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر کسی دوسری تہذیب کی پیروی کی جائے، بلکہ احادیث میںیہود و نصاری کی تہذیب کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا:’’ من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا کل قیامت میں اس کا شمار انہی لوگوں میں ہوگا ۔مغربی تہذیب اور مغربی کلچر جسے آپ گندی تہذیب اور ناپاک کلچر کا نام دے سکتے ہیں بد قسمتی سے ہم پر حاوی ہوتی جارہی ہے اور ذرائع ابلاغ و میڈیا کی کرم فرمائی اور ٹی وی اور فلموں کی کارستانی سے ہم اس تہذیب سے نہ صرف مرعوب ہوتے جارہے ہیں؛ بلکہ اس کو اختیار کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں اوراس تہذیب کا حصہ بننا اپنے لئے ترقی کی معراج سمجھتے ہیں ؛یہ سب کچھ اسلام سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی بنا پر ہے ۔حضرات صحابہ نے آپ ﷺ کی سنت کو اختیار کرکے اور اسلامی تہذیب کو زندہ کر کے جس ترقی کو حاصل کیا تھا آج اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ایک صحابی رستم کے دربار میں کھانا کھا رہے تھے لقمہ گر گیا اٹھاکر کھانا چاہا تو ان کے ساتھیوں نے منع کیا کہ یہ رستم کا دربارہے ،یہاں گرے ہوئے لقمہ کو اٹھانا توہین ہے، اس پر انہوں نے جواب دیا:’’ أأترک سنۃ حبیبی لہولاء الحمقاء‘‘کہ کیا میں ان بیوقوفوں کی وجہ سے اپنے حبیب کی سنت کو چھوڑ دوں گا پھر گرے ہوئے لقمہ کو اٹھاکر کھا لیا۔ حضرات صحابہ نے آپ کی تعلیمات اور آپ کی سنت پر اس سختی سے عمل کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں آفتاب وماہتاب بن کر چمکے اور دنیا ان کے قدموں کی دھول بن گئی اور وہ ان دھولوں کو جھاڑتے ہوئے اخروی ترقی کے لئے آگے نکل گئے ۔
اسلامی تہذیب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین اور شریعت سے مکمل طور پر مربوط ہے، ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کے طرز عمل اور اپنے بنائے ہوئے اصولوں کو تہذیب کا نام دے دیا گیا ہے بلکہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں تہذیب و تمدن بھی مذہب کی لڑی میں پرویا ہوا ہے ۔مساوات ، احترام انسانیت ، نسل، خاندن اور وطن کے تنوع کے باوجود انسانی وحدت ،تمام انسانی سرگرمیو ں میں اخلاقی اصولوں کی پاسداری ، حق و عدل و انصاف پر مبنی قوانین ، اور مذہبی رواداری اسلامی تہذیب کے بنیادی اصول اور اسلامی تہذیب کی خصوصیات ہیں ، مساوات کا حال یہ تھا کہ جب قبیلہ بنی مخزو م کی ایک عورت نے چوری کی اور سزا کے طور پر اس کا ہاتھ کاٹا جانے لگا تو قریش نے اپنی بد نامی محسوس کرکے سزا میں تخفیف کی سفارش کے لئے اسامہ بن زید کو بھیجا تو آپ ﷺ نے فرمایا :اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا ۔اسلامی تہذیب ا یسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور دنیا کی کوئی قوم اور کوئی تاریخ اسلامی تہذیب کا نہ تو مقابلہ کرسکتی ہے اور نہ ہی ایسی مثالیں پیش کرسکتی ہیں، لیکن آج مغربی تہذیب کے پرستار اور مغربیت کے غلام اور ان کی اندھی تقلید کے دل دادہ، مغرب کی ہر مکروہ اور نا پسندیدہ چیزوں کو اکسیرِ حیات سمجھ کر استعمال کررہے ہیں اور گندگی اور غلاظت کے جس دلدل میں پھنس رہے ہیں اس کا ان کو بھی اندازہ نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یورپ کی مادی طاقت نے لوگوں کے دلوں کو اس درجہ مسخر کر لیا ہے کہ وہ مادیت کے گرداب سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام جس تہذیب کا داعی ہے اس کی مثال دنیا کی کوئی تہذیب نہیں دے سکتی ہے ۔آج ضرورت ہے کہ ہم اسلامی تہذیب و روایات پر مضبوطی سے عمل کریں اور پوری دنیا کو اسلامی تہذیب کی نافعیت و جامعیت سے روشناس کرائیں ۔
——

مفتی امانت علی قاسمی
Share
Share
Share