حصولِ علم کو عبادات پر فضیلت :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

حصولِ علم کو عبادات پر فضیلت

مفتی کلیم رحمانی
پوسد (مہاراشٹر)
09850331536

آنحضور ﷺ نے عبادات پر علم کی کئی گنا فضیلت بیان فرمائی ہے۔چانچہ ایک حدیث میں آنحضورؐ نے فرمایا: اِنَّ فَضلَ العالِمِ عَلیَ العابِدِ کَفَضْلَ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ عَلٰی ساَ ئرِ الکَواکِبِ وِاِنَّ الْعُلَماَ ءَ وَرَ ثَۃُ الاَنْبِیاَءََ وَ اِنَّ الْاَ نْبِیاَ ءَ لَمْ یُوَ رِّ ثوُا دِیْناَراً وّ لاَ دِرْھِما وَ اِنّماَ وَ رَّثوُا الْعِلْمَ فَمَنْ اَ خِذَ ہُ اَخزَ بِحَظِِ وَافِرِِ(ترمذی،ابوداؤد) ترجمہ:بیشک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے ،اور بیشک علماء انبیاء کے وراث ہیں اور بیشک انبیاء دینارو درھم کا وارث نہیں بناتے، وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں تو جس نے اس میں سے حصہ پایا تو اس نے صحیح حصہ پایا۔

ایک دوسری حدیث میں بھی آنحضورﷺ نے علم اور عبادت میں فضلیت کے فرق کو ایک مثال کے ذریعہ واضح فرمایا۔چنانچہ ترمذی اور مشکوٰۃ شریف کی رویت ہے ۔عَنْ اَبیِ اُمامَۃَ الْباھِلیِ ذُکِرَلَرَسوُلِ للہِ رَجُلاَنِ اَحَدُ ھُمَا عاَ بِد’‘ وَلْاَخَرُ عَا لِم ’‘ فِقَالَ رَسوُلُ اللہِ ﷺ فَضْلُ الْعَا لِمِ عَلیَ الْعَا بِدِ کَفَضْلِی عَلٰی ادْنَاکُمْ (ترمذی دارمی،مشکوۃ) ترجمہ:حضرت ابوامامہ باہلی سے روایت ہے کہ آنحضور ؐ کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم تو رسول ؐ نے فرمایا عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضلیت تم میں سے سب پر ادنیٰ پر ایک اور حدیث میں عبادت اور علم میں مقام و مرتبہ کے لحاظ سے جو فرق ہے اس کو اس طرح واضح کیا گیا عَنْ اَبْنِ عَباّسِ قّا لَ رَسوُلُ اللہ ﷺ فَقِیہُِ واَحَد’‘ اَشَدُّ عَلیَ الشیطانِ منْ اَلْفِ عَابِدِِ (ترمذی،ابن ماجہ ،مشکوۃ) ترجمہ:حضرت ابن عبّاس سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے ،واضح رہے کہ عربی میں فقیہ اس کو کہتے ہیں جسے قرآن و حدیث کا پختہ اور گہرا علم ہو اور جو قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل کا استنبا ط کرے ساتھ ہی اس میں یہ صلاحیت بھی ہو کہ قرآن و حدیث کے احکام و ہدایات کو موجودہ دور میں انسانوں کی زندگیوں پر منطبق کرے۔یہی وجہ ہے کہ فقہ کے چار اماموں یعنی امام بن ابو حنیفہ،امام شا فعی ،امام مالک ،امام احمد بن حنبل کو عام عام طور سے فقہاء کرام کہا جاتا ہے،کیونکہ انہوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسا ئل کا استنباط کیا،معلوم ہوا کہ دین کے فقیہ کا مرتبہ عالم دین سے بھی بڑا ہوا ہے۔ویسے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ علم کا اصل مقصد دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنا ہی ہے اور اسی کا نام فقہ ہے۔
مذکورہ تینوں ہی احادیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ حصولِ علم کو عبادت پر ہزاروں گناہ فضیلت حاصل ہے ،لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی فرض عبادات مثلاً نماز، روزہ ،زکوٰۃ ،حج کو چھوڑ کر صرف حصولِ علم میں لگا رہے،مذکورہ احادیث پر غور کرنے سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ جو عبادات بغیر علم و شعور کے ادا کی جاتی ہے اور جو علم و شعور کے ساتھ ادا کی جاتی ہے ان دونوں میں یہ تفاوت ہے ۔ساتھ ہی مذکورہ احادیث کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نفل عبادات پر حصول علم کو ہزاروں گناہ فضیلت حاصل ہے ،چاہے وہ نفل نمازیں ہوں یا نفل روزے ہوں، یا نفل صدقات ہوں، یا نفل حج ہو ،یا او کوئی نفل کام ہو ،ان تمام کاموں میں علم کے سیکھنے اور سیکھانے کو ہزاروں گناہ فضیلت حاصل ہے ۔لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ آج معاشرہ میں جو افراد دیندار شمار ہوتے ہیں ان کے پاس نوافل عبادات کی تو بڑی اہمیت ہے لیکن قرآن و حدیث کے علم کے سیکھنے سکھانے کی ذرا بھی اہمیت نہیں ہے۔یہاں تک کے معاشرے میں ایسے لاکھوں کروڑوں افراد مل جائیں گے جنہوں نے اپنی زندگی میں ہزاروں نفل رکعتیں پڑھ ڈالی ،سیکڑوں نفل روزے رکھ لئے اور لاکھوں روپئے نفل صدقات اور نفل حجوں میں خرچ کر ڈالے لیکن زندگی میں ایک مرتبہ بھی سورہ فاتحہ کے مکمل مطلب اور مفہوم کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش نہیں کی،اسی طرح قرآن و احادیث کا علم جو فرض ہے اس کے علم کے حصول میں جو ترجمہ اور تفسیر کی کتابیں ضروری ہے انہیں خریدنے کے لئے چند روپئے بھی خرچ نہیں کئے۔واضح رہے کہ صاحب حیثیت مسلمان پر بھی حج زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہی فرض ہے۔ایک مرتبہ سے جو زائد ہوگا، وہ نفل حج ہوگا ،اور نفل حج کرنے سے ہزاروں درجہ بہتر ہے کہ وہ اتنا روپیہ اور وقت قرآن و حدیث کے سیکھنے اور سیکھانے میں لگائے۔لیکن افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان اس افضل کام کو چھوڑ کر غیر افضل کام میں اپنا روپیہ اور وقت لگارہے ہیں۔ ایک اور حدیث میں آنحضور ؐ نے حضرت ابو ذرؓ کو علم حاصل کرنے کی جو نصیحت کی اس سے بھی نفل عبادت پر حصولِ علم کی اہمیت و فضیلت واضح ہوتی ہے۔ یہ حدیث ابن ماجہ شریف میں ہے ،اور ہندوستان کے ایک مشہور و معروف شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ نے بھی اس کو اپنی کتاب فضائلِ اعمال کے حصہ اوّل کے فضائل قرآن کے باب میں نقل کیا ہے۔چنانچہ حدیث اس طرح ہے۔’یاٰباَ ذَرِّ لَاَن تَغْدُ فَتَعَلَّمَ آیَۃً مِّنْ کِتَابَ اللہِ تَعاٰلیٰ خَیْر’‘ لَّکَ مِنْ اَنْ تَُصَلِّیَ مِاَ ءۃَ رَکَعَۃِِ وَلَاَنِْ تَغْدُ فَتَعَلَّمَ باَ باََمِنَ لْعِلْمِ عُمِلَ بِہِ اَوْلَمْ یُعْمَلْ بِہِ خَیْر’‘ لَّکَ مِنْ اَنْ تُصَلِّیَ الْفَ رَکَعَتہِِ(ابن ماجہ)ترجمہ: حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ اُن سے آنحضور ﷺ نے فرمایا ’ اے ابو ذر تیرا صبح کو قرآن کی ایک آیت کا علم حاصل کرنا تیرے لئے سو رکعت پڑھنے سے بہتر ہے اور تیر اصبح کو دین کے ایک موضوع کا علم حاصل کرنا تیرے لئے ہزار رکعت پڑھنے سے بہتر ہے ۔چاہے اُس موضوع پر عمل ہو یا عمل نہ ہو۔مذکورہ تمام احادیث سے جہاں اسلامی عبادات پر اسلامی علم کی اہمیت و فضیلت واضح ہوتی ہے وہیں علم کا اصل مقصد ’تَفَقَّہُ فِی الدِّین‘ یعنی دین میں سمجھ بوجھ اور فہم و بصیرت پیدا کرنا بھی معلوم ہوتا ہے۔

Share
Share
Share