جمہوریت کی تعمیر میں علماء کا کردار :- مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share
مفتی امانت علی قاسمی

جمہوریت کی تعمیر میں علماء کا کردار

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
Mob: 07207326738

جمہوریت کی خوبی پر اگر بحث کی جائے تو اظہار رائے کی آزادی جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی ہے ، ایک جمہوری معاشرے میں ہر شخص کو غور و فکر اور بحث و مباحثہ کی آزادی حاصل ہوتی ہے ہر شخص جس خیال کو صحیح سمجھتا ہے بلا خوف و اندیشہ اسے بیان کرسکتاہے، جمہوریت میں مخالف رائے کو بھی اہمیت دی جاتی ہے اور اس طرز عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح نقطۂ نظر کوغالب آنے کا موقع ملتا ہے-

جمہوریت کی خوبی پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے یوسف صدیق لکھتے ہیں :
جمہوریت عوام کے اخلاق کو بلند کرتی ہے، انہیں انسان دوستی ، شرافت ، باہمی ایثار او رمحبت کے اصول سکھاتی ہے اس لئے اس نظام حکومت کو اخلاقی افادیت کی بنا پر بھی پسند کیا جاتا ہے ،جمہوری حکومت میں ملک گیری کی ہوس کم ہو جاتی ہے ،، حکمرانوں میں جنگوں کا رجحان کم ہوجاتا ہے او ر وہ امن پسند ہوجاتے ہیں برٹرینڈسل نے درست لکھا تھا کہ جمہوریت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ دوسری حکومتوں کے مقابلے میں امن کو زیادہ پسند کرتی ہے (یوسف صدیق ، جدید جمہوریت کا تاریخی پس منظر ، )
جمہوریت کے خدو خال او راس کے ستونوں پر گفتگو کرتے ہوئے عارف عزیز لکھتے ہیں
ملک کے ہر شہری کے ساتھ مساویانہ انصاف ، ہرباشندے کے ساتھ ریاست کا برابری کا سلوک ، تحریر ،تقریر ،خیال اور اجتماعی سرگرمیوں کی آزادی ، تمام فرقوں ، مذہبوں او رتہذیبی اکائیوں کو اپنے اپنے دائرے میں پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا ہونا یہ مستحکم ستون جن پر ہندوستانی آئین کی شاندار عمارت کھڑی ہے ، دنیا کے تمام جمہوری اصولوں کا نچوڑ اور ہندوستانی قوم کی روشن خیالی اور بلند ہمتی کی علامت ہے لیکن اس کا چوتھا ستون اخبارات ہے جن کے ذریعہ رائے عامہ کو باشعور بنانے اور اس کی ذہنی تربیت کرنے کا کام انجام پاتا ہے (عارف عزیز ، جمہوریت کا چوتھا ستون ذرائع ابلاغ ہے ، فکر وخبر )
جمہوریت کی عناصر پر گفتگو کرتے ہوئے جاوید احمد غامدی صاحب لکھتے ہیں :
حاکمیت عوام ، مساوات اور انفرادی آزادی جمہوریت کے اجزائے ترکیبی ہیں ، انہی عناصرثلاثہ سے مل کرجمہوریت کا پیکر بنا ہے اگر ان میں ایک عنصر بھی غائب ہو جائے تو اس سے جمہوریت کا حسن مجروح ہو جائے گا اور اگر تینوں ہی عناصر موجود نہ ہوں تو پھر وہ جمہوریت نہیں آمریت اور ملوکیت ہے (جاوید احمد غامدی ، اسلام اور جمہوریت ، )
جمہوریت کے ستون کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئی عثمان احسن تحریر کرتے ہیں :
دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں جمہوریت کے چار بنیادی ستون مانے جاتے ہیں جن پر جمہوریت کی عمارت کھڑی ہے جمہوریت کے وہ چار بنیادی ستون یہ ہیں (۱)مقننہ (پارلیمینٹ )(۲)انتظامیہ(حکومت)(۳) عدلیہ (۴)میڈیا ۔مندرجہ چار ادارے اگر کسی ملک میں کام سر انجام دے رہے ہوں تو یقینی طور اس ملک او رمعاشرے کو جمہوری کہا جائے گا (عثمان احسن ، جمہوریت کے ستون اول ، ہماری ویب )
مذکورہ تحریروں کی روشنی میں دو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں ایک یہ کہ جمہوریت کے چار ستون ہیں پارلیمنٹ ،انظامیہ ، عدلیہ اور میڈیا ، دوسری چیز یہ کہ اظہار رئے کی آزادی ، مساوات ، انصاف ، مذہبی اور تہذیبی آزادی یہ سب درحقیقت انہی ستونوں کے اجزائے ترکیبی ہیں اسی لئے ان چیزوں کو جمہوریت کی خوبی او رخصوصیات سے تعبیر کیا جاتا ہے ،مثال کے طور پر اظہار رائے کی آزادی میڈیا کا حصہ ہے ، انصاف عدلیہ کی ذمہ داری ہے ، مساوات مقننہ اور پارلیمنٹ کے فرائض میں داخل ہے ۔اس کا مطلب یہ ہو اکہ اگر جمہوریت کے ان چاروں ستونوں کو مضبوط کیا گیا تو اظہار رائے کی آزادی ، فکر و خیال اور عقیدہ وضمیر کی آزادی حاصل ہوگی ، انصاف کا بول بالا ہوگا ،ہر شہری اور تمام مذہبی اکائیوں کو اپنے اپنے دائرہ میں پھلنے پھولنے کا موقع میسر ہوگا اس لئے میرے خیال سے جمہوریت کی تعمیر و تشکیل اور قوت و استحکام کے لئے جمہوریت کے ستونوں کو مضبوط کرنا ضروری ہے ۔
ماضی میں علماء کا کردار تعمیر جمہوریت کے حوالے سے
علماء کرام یہ قوم کا وہ دانشور طبقہ ہے جنہوں نے ہرزمانے میں اور سنگین سے سنگین حالات میں ملک کی بقاء و سالمیت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے ، غلام ہندوستان میں علماء کرام نے جو جد و حہد کی اسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے ، انہوں نے اپنے فتوی جہاد کے ذریعہ مسلمانوں میں جہاد آزادی کی روح پھونک دی اور نہ صرف فتوی کی تلوار چلا کر گوشہ نشیں ہوگئے بلکہ میدان کار زار کو گرمایا ، انگریزوں کو چیلنج کیا ،انہیں لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کیا ، شاملی اور پانی پت کے علاوہ مختلف جنگوں میں اپنی جانوں کا بیش قیمت تحفہ ملک کے لئے پیش کیا۔
ملک کی آزادی کے وقت تقسیم پاکستان کے نتیجے میں کچھ لوگ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن برادران وطن کی بڑی اکثریت اس بات کی قائل تھی کہ ملک کا نظام جمہوری ہونا چاہیے اس لئے کہ برطانیہ وغیرہ ممالک میں جمہوریت کا کامیاب تجربات ہو چکے تھے ، انگریزوں نے غلام ہندوستان میں بھی جمہوریت کو نافذ کردیا تھا اور اس نظام حکومت میں ہر شہری کو برابری اور انصاف کا مکمل حق ملتا ہے اس لئے مسلم لیڈران خا ص طور پر جمعیۃ علماء جس کے صدر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی تھے اور مولانا آزاد وغیر ہ نے کانگریس کویاد دلایا کہ آزادی کی جنگ ہندو اور مسلمانوں نے مل کرلڑی ہے اور ہمارا شروع سے مطالبہ رہا ہے کہ جب ملک آزاد ہوگا تو جمہوری اور سیکولر ملک ہوگا اس لئے ملک کا دستور جمہوری ہونا چاہئیہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والے بہت تھوڑے لوگ تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ملک کے لئے کوئی قربانی نہیں دی تھی او رملک کی غالب اکثریت جمہوریت کی قائل تھی اس لئے ملک کا ستور جمہوری قرار پایا ، اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ جمہوریت کی تعمیر میں حضرات علماء کرام کا کردار رہا ہے، گویا اگر کہا جائے کہ جمہوریت کی تعمیر میں علماء کرام کی حیثیت بنیادی پتھر کی ہے جنہیں کسی قیمت پر ملک کی جمہوری کردارسے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔
ملک کی آزادی کے بعد ڈاکٹر امبیڈکر کی نگرانی میں جو دستور ساز کونسل بنائی گئی تھی اس میں مسلم ارکان بھی شامل تھے جن میں ایک نام بہت مولانا اسمعیل کا ہے جو انڈین یونین لیگ کے بانی ہیں اور تین مرتبہ کیرالا لوک سبھا سیٹ سے ممبر پارلیمنٹ رہ چکے ہیں انہوں نے دستور سازی میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔
جمہوریت کا پہلا ستون (پارلیمنٹ )
جمہوریت کے چار ستونوں میں ایک ستون پارلیمنٹ اور مقننہ ہے جن کا کام ملک اور شہریوں کے مفاد کے لیے قانون بنانا ہے جو قانون کے مساوات اور برابری کے نقطۂ نظر سے بنائے جاتے ہیں اور اس قانون کا لزوم ہر شہری پر یکساں طور پر ہوتا ہے اس میں ملک کے کسی شہری کے ساتھ کوئی تفریق نہیں کی جاتی ہے ،ارکان پارلیمنٹ جس میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں کے ارکان شامل ہوتے ہیں ۔یہ وہ پہلاستون ہے جس کے ذریعہ جمہوریت کی تعمیر عمل میں آتی ہے ، ملک کے جن دانشور طبقہ نے اس میں کردار ادا کیا ہے اس میں علماء کرام بھی شامل ہیں اور لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں علماء کی نمائندگی ہوتی رہی ہے ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ،مولانا اسعد مدنی ،مولانا محمود مدنی، مولانا عبید اللہ خان اعظمی ، مولانا بدرالدین اجمل اور مولانا اسرار الحق اور اس طرح کے بہت سے علماء کرام ہیں جو لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ممبر رہے ہیں اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی میں بھی علماء کرام نمائندگی کرتے رہے ہیں اور قانون سازی اور جمہوریت کے پہلے ستون کی مضبوط تعمیر میں کردار ادا کیا ہے ۔
جمہوریت کا دوسرا ستون ( انتظامیہ)
جمہوریت کا دوسرا ستون انتظامیہ ہے ، ملک میں جس پارٹی کی اکثریت ہوتی ہے ملک کا نظم و نسق انہی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے ،وہی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں اوران کا فرض ہوتا ہے کہ مساوات او راخوت و بھائی چارگی کی روشنی میں ملک کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرے ، تمام شہریوں کو یکساں سہولیات فراہم کرے ،ملک اور ہر شہری کی خوش حالی ، ترقی ، سہولت اور امن عامہ قائم کرنے کے لئے وسائل استعمال کرے ۔اس جگہ علماء کرام کی خدمات آٹے میں نمک کے برابر ہے، لیکن یہ علماء کرام کی بے توجہی ، عدم دلچسپی یا عدم اہلیت کی بنا پر نہیں ہے ،جو لوگ ممبر آف پارلیمنٹ ہوتے ہیں اور ان کی پارٹی برسر اقتدار ہوتی ہے وہی انتظامیہ میں ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ حکومت جس کو چاہے وزارت کا عہدہ دے کر ملک کی انتظامیہ میں شامل کرسکتی ہے ، جمہوریت کے اس شعبے کو بد قسمتی سے بد نیتی اور تعصب کا گہن لگ گیا ہے اس لئے میں اس شعبہ مبں علماء کرام کا کردار نظر نہیں آتا ہے اگر چہ مولانا ابوالمحاسن سجاد صاحب کی انڈیپنڈٹ پارٹی کی بہار اسمبلی میں کچھ دنوں کے لئے حکومت بنی تھی اس طرح بہار اسمبلی کا نظم و نسق کچھ دنوں کے لئے ان کے ہاتھ میں تھا اوراس طرح کچھ دنوں کے لئے ہی سہی انہوں نے جمہوریت کی میزبانی کا شرف ادا کیا ہے ۔
جمہوریت کا تیسرا ستون(عدلیہ)
عدلیہ جمہوریت کا تیسرا بنیادی ستون ہے فاضل جج خواہ ہائی کورٹ کا ہو یا سپریم کورٹ کا پارلیمنٹ کے ذریعہ بنائے گئے قانون اور ڈاکٹر امبیڈکر کے بنائے گئے دستور کوملک میں نافذ کرنا ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کرنا اور ہر شہر ی پر ملک کا قانون نافذکرنا ، جرائم کی روک تھام اور کرپشن اور ملک کے بگڑتے ماحول میں امن و امان قائم کرنے کے لئے مؤثر فیصلے کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے اور یہی چیز جمہوریت کو مضبو ط او رمستحکم کرتی ہے ، جمہوریت کے اس ستون میں مجھے علماء کرام کا کردار نظر نہیں آتا ہے علماء کرام کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ جمہوریت کو اس جانب سے بھی ہم مضبوط کرسکیں اور ان کی خدمت کرسکیں ۔
جمہوریت کا چوتھا ستون (میڈیا )
میڈیا جمہوریت کاچوتھا ستون ہے جس میں اظہار راے کی آزادی ، رائے عامہ کو ہموار کرنا ، ، عام آدمی کی رائے سے حکومت اور عوام کو متعارف کرانا شامل ہے، میڈیا جس میں پہلے اخبار آتا تھا اور اب اس میں بہت وسعت ہوگئی ہے الکٹرانک میڈیا ، پرنٹ میڈیا ،سوشل میڈیا اور ان سب کی مختلف قسمیں وجود میں آگئی ہیں ، جمہوریت کے اس ستون کو دیکھاجائے تو علماء کرام نے اس کی بھر پور خدمت کی ہے اور اس کو مضبوط کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے ، ابتداء سے ہی علماء نے اس جانب توجہ دی ہے اخبارات و رسائل کی ایک بڑی تعداد ہے جو علماء کرام کے زیر ادارت نکلتا رہا ہے اور اس وقت بھی علماء کرام اس جد وجہد میں لگے ہوئے ہیں اس میدان میں ان کی خدمات کا جائزہ لیں توفیض احمد فیض کی زبان میں ان کا درد اس طرح نمایاں ہوگا:
ہم پر ورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
دل پہ جو گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
مستقبل میں تعمیر جمہوریت اور علماء کرام
بہر حال یہ تو ماضی میں علماء کرام اور تعمیر جمہوریت کا خاکہ تھا جس میں علماء کے کردار کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے آئیے اس پر غور کریں کہ علماء کرام مستقبل میں جمہوریت کی تعمیر کس طرح کرسکتے ہیں اور جمہوریت کی بقاء و تحفظ کے کس طرح اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ؟اس سلسلے میں ضروری ہے کہ علماء کرام سیاست میں حصہ لیں ، سیاست کو شریف لوگوں نے گندگی کی آماج گاہ ،بدمعاشوں کی بسر گاہ ، لچو ں لفنگوں کی دانش گاہ خیال کرکے اپنے آپ کو اس سے ا لگ کرلیا ہے یہ تصور جمہوریت کے لئے بہت خطرناک ہے ، اگر شریف ، ایمان دار ، انصاف پسند ، سچائی کے علمبردار ، انسانیت کے بہی خواہ ، ملک سے سچی محبت کرنے محب وطن سیاست سے اپنا دامن بچالیں گے ، اور اس کو اپنے لئے زہر ہلاہل جان کر اس سے دور ہوجائیں گے تو جان لیجئے کہ ملک کا جمہوری نظام خطرے میں پڑ جائے گا ، نام تو جمہورت او ردستور کا ہوگا لیکن نظام ڈکٹیٹر شپ سے بھی خطرناک ہوگا ، اس لئے اگر ہم جمہوریت کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں ملک او ردستور کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو سیاست میں بھر پور حصہ داری ضروری ہے ، ہم انتخابی نظام سیاست کو سمجھیں ، امیدوار بنیں اور پارلیمنٹ پہنچ کر انصاف اور ترقی پسند قانون بنانے میں اپنا کردار ادا کریں ، برسر اقتدار حکومت کا حصہ بن کر انتظامیہ میں شامل ہوں اور انسانیت کی خدمت کو اپنا شیوہ بنائیں ، سیاست میں حصہ لے کر ہم جمہوریت کے دو ستون مقننہ او رانتظامیہ کو مضبوط کر سکتے ہیں ، علماء کرام کا گروہ مختلف رفاہی اور علمی و تحقیقی میدانوں میں نمایاں کام انجام دے رہا ہے لیکن عدلیہ میں ان کی نمائندگی صفر درجہ کی ہے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اس وقت جب کے مسلم بچوں کی تعلیم پر بہت توجہ دی جارہی ہے اور اس کے لئے کافی جدو جہد ہورہی ہے ، فضلاء مدارس کے مزید تعلمی نظام کو جاری رکھنے اور وسیع تر تعلمی نظام سے انہیں منسلک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے فضلاء مدارس فراغت کے بعد جس طرح عصری تعلیمی اداروں میں جاکر میڈیکل ، انجنیرنگ ، ریسرچ اور مختلف میدانوں میں کام کرتے ہیں اور اپنا کردار اداکرتے ہیں ایسے فارغ التحصیل طلبہ وکالت کی تعلیم حاصل کریں اور عدلیہ میں اپنا کردار ادا کریں ، اس کے ذریعہ وہ ملک او رسماج کی بہتر خدمت کرسکتے ہیں مسلمانوں اور خاص کرمظلوموں کو انصاف دلاکر جمہوری نظام کی بہتر تعمیر کرسکتے ہیں ، ملک کے دانشوروں او رمسلم اداروں کو اس جانب خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ہم جمہوری کردار کو عدالت کے ذریعہ بحال کرسکتے ہیں ، بچا سکتے ہیں اور مضبوط و مستحکم کرسکتے ہیں ۔
چوتھا ستون میڈیا کا ہے یہ خوش آئند بات ہے کہ ماضی کی طرح اس وقت بھی علماء کرام میڈیا میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور میڈیا کی ہر جہت سے خدمت انجام دے رہے ہیں ، الکٹرانک میڈیا ، پرنٹ میڈیا ،صحافت ، اخبارات و رسائل ، سوشل میڈیا پر علماء کرام متحرک نظر آتے ہیں ، اور اسے مضبوط کرنے کی سعی میں ہیں ، ہاں ایک خاص جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ، علما ء کرام کی زیادہ تر توجہات اردو صحافت پر ہے ، علماء کرام کی زیادہ تر تحریریں اردو میں ہی آتی ہیں جب کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ اس زبان سے ناآشنا ہے خود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اردو نہیں جانتی ہے اس لئے ضرورت ہے کہ علماء کرام ہندی انگریزی زبان سے واقفیت حاصل کریں اور ان دو زبانوں میں عبور حاصل کرکے اپنی تخلیقات و نگارشات کو انہی زبانوں میں پیش کریں ، انگریزی اخباروں میں آرٹیکل شائع کریں ، ہندی اخبارات کی زینت بنیں ، ہندوستانی قوم سے ان کی زبان میں بات کریں اس سے دو قوموں کی درمیان فاصلے کم ہوں گے اسلام کے اصول دعوت کے پیش نظر بھی ضروری ہے کہ قوموں کی زبان کو سیکھا جائے اور ان کی زبان میں دعوت کا پیغام پہنچایا جائے ، اس طرح ہم جمہوریت کی بہتر تعمیر کرسکتے ہیں ، جمہوریت کو مضبوط کرسکتے ہیں اور ملک کی ترقی و خوش حالی میں اپنا بھی کردار پیش کرسکتے ہیں ۔
اخوت و بھائی چارگی اور امن و امان کے قیام میں علماء کا کردار
اخوت و بھائی چارگی ، امن و امان کا قیا م ، قومی یکجہتی پیار و محبت اور احترام انسانیت جمہوریت کی روح ہے، اس کے بغیر جمہوریت کا تصور محال ہے اور یہ وہ خوبی ہے کہ جمہوریت کی حقیقت اسی میں پنہاہے ،ملک کے بعض فرقہ پرست عناصر ملک کے باشندوں کے درمیان موجزن پیار و محبت اور قومی یکجہتی کو کچلنا چاہتی ہے، لیکن علماء کرام اس سلسلے میں مسلسل کوشش کرتے آ رہے ہیں اور اخوت و بھائی چارگی کو مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں، جماعت اسلامی اور جمعیۃ علماء ہند مسلسل پیام انسانیت کے پروگرام کرتی رہتی ہے، ملک کے نامور عالم دین اور قائد ملت مولانا ارشد مدنی صاحب مسلسل قومی یکجہتی کے پروگرام کرتے رہتے ہیں ان کا کہنا کہ اگر قومی یکجہتی کو فروغ دیا گیا تو ملک کا جمہوری نظام مستحکم ہوگا اگر اس کو نقصان پہنچایا گیا تو ملک تقسیم کے دہانے پر پہنچ جائے گا اس لئے قومی یکجہتی کو فروغ دینا اس وقت سب سے بڑی ضرورت ہے، علماء کرام کو اس جانب بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

Share
Share
Share