مقصدِ نمازِ جمعہ – پہلی قسط :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

پہلی قسط
مقصدِ نمازِ جمعہ

مفتی کلیم رحمانی
09850331536

نماز جمعہ اور حکومت الٰہیہ میں وہی تعلق ہے جو کسی جماعت اور اس کے امیر میں ہوتا ہے جس طرح امیر کے بغیر کسی جماعت کا کوئی وجود اور تصور نہیں ہے، اسی طرح حکومت الٰہیہ کے بغیر نماز جمعہ کا صحیح اور کامل تصور نہیں ہے، یہ بات پیش کرنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ مسلمان حکومت الٰہیہ کے قیام کے بغیر نماز جمعہ نہ پڑھیں اور نہ ہی یہ مقصد ہے کہ مسلمانوں کو نماز جمعہ کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کے متعلق شہر اور دیہات کے مسئلہ میں اُلجھائے، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ آ ج نماز جمعہ کے متعلق مسلمانوں نے اسلامی سیاست و حکومت کے تصور کو جو بالکل نظر انداز کردیا ہے یا بھُلا دیا ہے مسلمان اس تصور کو نمازجمعہ کے حوالہ سے سمجھنے کی کوشش کریں۔
نماز جمعہ کے متعلق حکومت الٰہیہ کے تصور اور قیام کا مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو سمجھنے کے لئے کسی قیاس یا تاویل کا سہارا لینا پڑے، بلکہ یہ مسئلہ فقہ حنفی کی بہت اہم کتابوں سے ثابت ہے ۔ چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور و معروف کتاب، ھدایہ اولین کے نماز جمعہ کے باب میں یہ عبارت درج ہے۔ لَا تَصِحُّ الْجُمْعۃُ اِلَّا مِصْرِ جَا مِعَ یعنی جمعہ صحیح نہیں ہے مگر بڑے شہر میں اور اسی باب کی اگلی سطر میں مصر جامع کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی۔ وَ الْمِصرُ الجَامِعُ کُلْ مَوْ ضُوعِِ لَہ اَمِیرُ وَ قاضِِ یُنَفّذُ الْاَ حْکَامَ وَ یُقِیمُ الْحُدُ وْدَ اوربڑا شہر ہر وہ مقام ہے جس کا کوئی امیر اور قاضی ہو جو احکام اور سزاؤں کو نافذ کرتا ہو۔ مطلب یہ کہ ایسا شہر جس کا انتظام کسی اسلامی امیر اور قاضی کی سرپرستی میں چلتا ہو اور جس کے پاس اتنی سیاسی طاقت ہو جو اللہ کے احکام اور حدود کو اس شہر میں نافذ کر سکے اور اللہ کے احکام کو توڑنے والوں کو سزا دے سکے۔ھدایہ اولین کے اسی باب کی اگلی سطروں میں یہ عبارت درج ہے ۔ وَلاَ یَجُورُ اِقَا مَتُھَا اِلَّا لِلسُّلْطَانِ اَوْلِمَنْ اَمَرَہُ السُّلْطَانُ یعنی نماز جمعہ کا قائم کرنا جائز نہیں ہے مگر بادشاہ کے لئے یا بادشاہ جس
کو حکم دے، مطلب یہ کہ نماز جمعہ مسلمانوں کا دینی خلیفہ ہی قائم کر سکتا ہے یا خلیفہ کا نائب قائم کر سکتا ہے ۔ مذکورہ عبارت میں سلطان سے مراد مسلمانوں کا ایسا دینی سربراہ ہے، جس کے پاس سیاسی طاقت وقوت موجود ہو۔ ھدایہ اولین کی مذکورہ عبارت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز جمعہ کا اسلامی سیاست و خلافت سے بہت گہرا تعلق ہے یہاں تک کہ اس کونماز جمعہ کے قیام کی شرائط میں داخل کیا گیا ہے ۔ لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ برسوں سے نماز جمعہ پڑھنے اور پڑھانے والے افراد کے ذہنوں میں آج اسلامی سیاست و خلافت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا اور نہ اس کے قیام کا کوئی جذبہ پایا جاتا ہے ، اور ستم ظریفی یہ کہ اسی جمعہ کے خطبہ اور تقریر میں بہت سے ائمہ حضرات اور مقررین اسلام میں اسلامی سیاست و خلافت کے تصور اور ضرورت کا انکار کرتے ہیں اور یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ اسلام کا سیاست و حکومت سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔یقیناًغیر اسلامی سیاست و حکومت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک اسلامی سیاست و حکومت کی بات ہے تو اس کے تصور کو تسلیم کئے بغیر کسی کا ایمان ہی مکمل اور معتبر نہیں ہوتا، اور مزید ستم ظریفی یہ کہ یہی ائمہ اور مقررین حضرات جمعہ کے خطبوں اور تقریروں میں باطل سیاست و حکومت کی تائد و حمایت کو عین دین و ایمان کا تقاضہ قرار دیتے ہیں اور اسلامی سیاست کی تائد و حمایت کرنے والوں کو بے دین اور گمراہ قرار دیتے ہیں، اس جہالت اور بے دینی کی اس کے علاوہ کیا توجہیہ کی جاسکتی ہے جو علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعار میں پیش کی ہے ۔
اسلامی تاریخی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو نماز جمعہ کا اسلامی سیاست و حکومت کے قیام سے بہت گہرا تعلق ہے وہ یہ کہ آنحضورﷺ ہجرت سے پہلے جب تک مکہ میں تھے تب تک نماز جمعہ فرض نہیں ہوئی تھی کیونکہ ابھی مکہ میں اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی ، لیکن جیسے ہی مدینہ میں اسلام کی دعوت پہونچی اور مدینہ والوں کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا تو انہوں نے آپﷺ کو اپنا سربراہ بھی تسلیم کر لیا تو مدینہ میں آپ کی سربراہی میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی، چنانچہ سب سے پہلے مدینہ میں نماز جمعہ قائم ہوئی۔ اس سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہیکہ جس جگہ مسلمان سیاسی لحاظ سے مغلوب اور مظلوم ہیں اُس جگہ نماز جمعہ کی حیثیت و افادیت حاصل نہیں ہوتی، البتہ ایسی جگہ پر نماز جمعہ کو مسلمانوں کو مغلوبیت و مظلومیت سے نکالنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔
نماز جمعہ اور خطبہ دینی لحاظ سے در اصل دنیاکے تمام مسلمانوں کے لئے ہفتہ واری تعلیمی ، تنظیمی اور سیاسی اجتماع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قرآن و حدیث اور اسلامی فقہ کی روشنی میں بنیادی طور سے نماز جمعہ کے تین مقاصد متعین ہوتے ہیں جو اس طرح ہیں۔ (۱)دنیا کے تمام مسلمانوں کو ہر ہفتہ قرآن و حدیث کی تعلیم سے آراستہ کرنا،(۲) تمام مسلمانوں کو ہر ہفتہ اسلامی اجتماعیت سے وابستہ کرنا، (۳)تمام مسلمانوں کو ہر ہفتہ اسلامی سیاست و خلافت کی فکروعمل سے وابستہ کرنا۔ ان تین مقاصد میں سے پہلا مقصد مسلمانوں کی ہر ہفتہ تعلیم وتربیت ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لئے ہر ہفتہ نماز جمعہ سے پہلے خطبہ رکھا گیا ہے جس میں خطیب قرآن کی آیات اور آنحضورﷺ کی احادیث سناتا ہے ساتھ ہی خطیب کو یہ بھی ہدایت ہے کہ وہ آیات قرآنی اور احادیث رسولﷺ کی روشنی میں موجودہ حالات میں مسلمانوں کو ان کی دینی ذمہ داریوں کا احساس دلائے،اور ان کے اندر دینی شعور پیدا کرے اورساتھ ہی ان میں حق و باطل کی تمیز پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرے ، اور حق کی حمایت اور باطل کی مخالفت کا جذبہ پیدا کرے۔
نماز جمعہ میں خطبۂ جمعہ اتنا اہم ہے کہ اس کو نماز جمعہ کی شرائط میں شامل کیا گیا ہے۔اور ترتیب میں بھی اس کو نماز جمعہ پر مقدم رکھا گیا ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو حکم دیا ۔ یَایُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُواْ اِذَا نُودِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّومِ الْجُمعَۃِ فَا سْعَوْا اِلیٰ ذِکْر اللہِ وَذَرُوا الْبَیعَ ذٰلِکُمْ خَیرُ لَّکمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (سورہ جمعہ آیت ۹) ترجمہ 🙁 اے ایمان والوں جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دیدی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو)۔ مطلب یہ کہ اذان کے فوراًبعد خطبہ سننے اور نماز کے لئے مسجد میں آجاؤ۔
مذکورہ آیت میں ذِکْر اللہ سے مرادزیاد تر فقہاء نے خطبہ لیا ہے ، اور کچھ فُقہاء نے خطبہ اور نما ز دونوں مراد لیا ہے ، اور لفظ ذکر کی حقیقت پر غور کیا جائے تو یقیناًوہ خطبہ اور نماز دونوں کو شامل ہے ، کیونکہ ذِکْر اللہ کے معنی اللہ کی یاد کے ہیں اور خطبہ و نماز دونوں ہی عمل میں اللہ کی یاد شامل ہے ، لیکن ذکر کے متعلق اس حقیقت کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اصل ذکر جس سے اللہ کی یاد اور نصیحت حاصل ہوتی ہے وہ اللہ کا کلام قرآن ہے یہی وجہ ہے کہ لفظ ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر خود قرآن کے لئے استعمال ہوا ہے بطور دلیل کے دو آیات پیش ہے جن میں ذکر کا لفظ قرآن کے لئے استعمال ہوا ہے ، اِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ ( الحجر آیت ۹)
(یعنی بیشک ہم نے ہی ذکر یعنی قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں)۔ ایک دوسرے مقام پر اللہ کا ارشاد ہے۔اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرُ الِلّعٰلَمِینْ (تکویر آیت ۲۷) ترجمہ : نہیں ہے وہ (قرآن) مگر تمام جہان والوں کے لئے ذکر یعنی نصیحت) ۔
مذکورہ دو آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لفظ ذکر، کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں قرآن کے صفاتی نام کے طور پر بیان فرمایا ہے ، ۔ جس طرح اللہ کا تذکرہ قرآن میں کئی مقامات پر صفاتی ناموں کے ساتھ آیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے بلکہ اس دنیا میں تمام انسانوں کے لئے اللہ کو یاد کرنے اور اللہ کو یاد رکھنے کا اصل ذریعہ قرآن مجید ہی ہے ، یہاں تک کہ جو کلمات اللہ کے ذکر میں مشہور و معروف شمار ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ قرآن میں آئے ہیں اس لئے ان کا شمار اللہ کے ذکر کے کلمات میں ہوتا ہے ، مثلاً، اَللہُ اَکبَر لَا اِلٰہ اِلّا اللہُ ، سُبَحانَ اللہِ ، اَلْحَمدُ لِلہِ خطبہ اور نماز میں بھی چونکہ خصوصیت کے ساتھ قرآن کی آیات ہی پڑھی جاتی ہیں ، اس لئے خطبہ اور نماز کا شمار اللہ کے ذکر میں ہوتا ہے بلکہ خطبہ اور نماز کی حقیقت پر مزید غور کیا جائے تو معلوم کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ خطبہ اور نماز اسی لئے شروع ہوئے کہ مسلمانوں کا قرآن سے علمی اور عملی تعلق پیدا ہو، اور یہ تعلق روزانہ تازہ اور مضبوط ہو، اورہفتہ میں ایک مرتبہ مزید اس میں تازگی اورتحریک پیدا ہو اس لئے ہر جمعہ کے دن خطبہ جمعہ اور نماز جمعہ رکھی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ آنحصورﷺ جمعہ کے خطبات میں زیادہ تر قرآن کی آیات اور سورتیں ہی پڑھ کر سناتے تھے اس لئے بہت سے صحابیات اور صحابہؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے قرآن کا بہت بڑا حصہ آنحضورﷺ سے جمعہ کے خطبات میں سن کر یاد کیا ۔
چونکہ آنحضورﷺ اور آپ کے صحابہؓ کی زبان عربی تھی اس لئے وہ قرآن پڑھ کر اور سن کر فوراً سمجھ بھی لیتے تھے، انہیں الگ سے قرآن کا ترجمہ پڑھنے اور سننے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی لیکن چونکہ اب بیشتر مسلمانوں کی زبان عربی نہیں ہے۔ اور اور نہ ہی انہیں ان حالات کا علم ہے جن حالات میں قرآن نازل ہوا، اس لئے قرآن سے ہدایت حاصل کرنے اور خطبہ کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں ان کی زبان میں قرآن کی آیات اور احادیث کا ترجمہ اور تشریح سنائے اور موجودہ حالات میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمانوں پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کی ادائیگی کا احساس دلائے، اور جمعہ کے خطبہ سے یہ مقصد بہتر طور پر اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب کہ جمعہ کے پہلے خطبہ میں عربی میں حمد و صلوٰۃ اور قرآن کی کچھ آیات پڑھنے کے بعد خطیب موثر انداز میں مقتدیوں کی زبان میں خطاب کرے، اور اگر مساجد کے ذمہ داران اور ائمہ حضرات مقتدیوں کی زبان میں دوران خطبہ عربی کے علاوہ دوسری زبان میں خطاب کو پسند نہ کرے تو پھر عربی خطبہ سے پہلے مقتدیوں کی زبان میں قرآن و حدیث کی روشنی میں خطاب کرے لیکن عربی خطبہ سے پہلے مقتدیوں کی زبان میں تقریر اسی وقت موثر اور مفید ہو سکتی ہے، جب کہ تقریر کرنے والا کسی ایک عنوان کے تحت آیات قرانی اور احادیث رسول کی روشنی میں تیاری کے ساتھ تقریر کرے، اور مقتدی حضرات بھی جمعہ کی اذان کے فوراً بعد مسجد میں جمع ہو جائے اور توجہ کے ساتھ مقرر کی باتوں کو غور سے سنیں، اور اگر کسی جگہ بہتر انداز میں تقریر کرنے والا نہ ہو تو جمعہ کے مجمع کو تعلیم و تربیت کا فائدہ پہنچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ عربی خطبہ سے پہلے کوئی صاحب یا امام صاحب کسی عنوان کے تحت قرآن و حدیث کی روشنی میں کسی مستند خطبات کی کتاب سے کوئی عنوان پڑھ کر سنادے۔ یقیناًاس وقت مسلمانوں میں دین اسلام کی تعلیم کی طرف سے بہت زیادہ غفلت اور کوتاہی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت دین کی بنیادی تعلیم سے بھی ناواقف ہے لیکن اگر نماز جمعہ کے اجتماع کو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے منصوبہ بند طریقہ سے استعمال کیا جائے تو پچانوے فیصد مسلمان اسلام کی بنیادی تعلیم سے واقف ہو سکتے ہیں صرف پانچ فیصد مسلمان ہی اسلام کی بنیادی تعلیم سے ناواقف رہ سکتے ہیں،کیونکہ ایک اندازہ کے مطابق صرف پانچ فیصد مسلمان ہی نماز جمعہ میں شریک ہونے سے غفلت برتتے ہیں اور پچانوے فیصد مسلمان نماز جمعہ میں شریک ہو تے ہیں۔ (جاری)
—–
مفتی کلیم رحمانی
مسجد اقصیٰ روڑ،وسنت نگر
پوسد ضلع ایوت محل (مہاراشٹر) الہند

Share
Share
Share