اسٹیفن ہاکنگ کا خط ۔ علامہ اعجاز فرخ کے نام

Share


اسٹیفن ہاکنگ کا خط ۔ علامہ اعجاز فرخ کے نام
داستان ایک عمر کی اور دو نفس کا اختصار

علامہ اعجاز فرخ

میرے عزیز دوست! علامہ اعجاز فرخ
آج دن تو خیریت سے گذرا لیکن شام کچھ اداس سی ہے۔ خاموشی مجھے گھیر رہی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میں سکوت کی جانب بڑھ رہا ہوں۔ اس سے پہلے کہ خاموشی اور سناٹا مجھ پر حاوی ہو جائے میں یہ خط لکھ رہا ہوں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ میری تحریر اور میری آواز دونوں ہی کمپیوٹر کے رہینِ منت ہیں۔ میں تو کاغذ کے لمس اور روشنائی کی لکیر سے کب کا محروم ہوچکا ہوں لیکن ابھی آپ اس نعمت سے بہرہ ور ہیں۔ میرا یہ خط مختصر سہی لیکن اس کے بین السطور میں جو کچھ ملفوظ ہے وہ شاید اہم ہو ۔ آپ کو اختیار ہے کہ اس بین السطور کو اپنے انداز میں قلمبند کریں اور اپنے دوستوں تک پہنچائیں۔

دنیا مجھے ملحد ، کافر، دہریہ اور نہ جانے کیا کچھ کہتی ہے، لیکن شاید آپ جیسا علم دوست اور با مروت شخص بھی مجھے خدا نا شناس ، خدا بیزار تصور کرے۔ خیال تویہی پایا جاتا ہے کہ ظاہر، باطن کا آئینہ دار ہے۔ اس بحث سے قطعِ نظر میں آپ کی توجہ ماضی کی طرف منعطف کرنا چاہتا ہوں۔ جب ہمارے اسلاف نے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر ہمیں سائنس جیسے علم سے روشناس کروایا ۔ ہم آج تک ان کے نظریات و تجربات سے نہ صرف استفادہ کر رہے ہیں بلکہ ان کے رہینِ منت ہیں۔ مجھے آپ کا یہ جملہ یاد ہے کہ’’ ہم اپنے ماضی سے کٹ نہیں سکتے ، انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ماضی کی روشنی میں حال کو دیکھے اور مستقبل کی تعمیر کرے ۔‘‘ میرے دوست ! ’’انسان لاکھ اپنے ماضی کو بھلانے کی کوشش کرے لیکن ماضی اس کی ذات کے نہاں خانے میں ایک جوہر یا نقطے کی صورت ہمیشہ موجود رہتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اپنی چھب دکھلا کر پھر مستور ہو جاتا ہے۔‘‘ میرا یہ جملہ اس خط کا ایک کلیدی جملہ ہے، جسے شاید مجھے آگے کہیں دہرانا پڑے۔
وقت اور روشنی کے سلسلے میں آپ کے اور میرے نظریات مختلف ہیں ، لیکن ہم بڑی حد تک اتفاق بھی کرتے ہیں اور مماثلت بھی رکھتے ہیں۔ مثلاً عصرِ حاضر میں زمینی گردش کے پیش نظر ہم وقت اور ساعات کی تقسیم پر متفق ہیں۔ روشنی کی رفتار اور اس کے لمحاتی سفر پر بھی آپ کا میرا اتفاق ہے لیکن وقت کا نقطۂ آغاز میری نظر میں BIG BANGہے جو ایک لمحاتی اساس ہے۔ آپ کی نظر میں ’’ازل ‘‘ ایک لفظ ہے ، وہ شاید اس سے قبل ہے۔ اس ابتدائی مکالماتی مرحلے میں شاید یہ بحث بے سود ہو کہ کون درست ہے اور کون نا درست۔ کائنات کی تخلیق پر آپ کا میرا اتفاق پایا جاتا ہے۔ چلیے ، آپ اور میں تھوڑا سا ماضی میں سفر کر لیں۔ ازل اور بگ بینگ ہماری لیے ماضی بعید ہے، لیکن ہم کوئی 2600سال پہلے کے ماضی قریب کی سیر کر آئیں۔ تقریباً 600 سال قبل مسیح میں یونان میں سائنس کا آغاز ہوا۔
یونان کی ایک دلکش و دلفریب صبحِ کاذب نے انسان کی فکر کے لیے راہیں کھول دیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب انسان نے کائنات ، نجوم اور فلکیات پر غور کرنا شروع کیا۔ یہ غور و فکر محض تصورات اور تخیلاتی تھا۔ یہ آغاز ایک نظریاتی سائنس کا آغاز تھا۔ نظریاتی سائنس کی اصطلاح میں صرف ان معنی میں استعمال کر رہا ہوں کہ جہاں صرف تخیل کی کارفرمائی سے نتائج اخذ کر لیے جائیں جب کہ وہاں تک رسائی نہ حاصل کی گئی ہو۔ ممکن ہے کہ آج کوئی اسے فرسودہ سمجھ کر نظر انداز کر دے لیکن ہر آغاز میں بے ترتیبی ایک جزوِ لازم ہے۔ جس کے بغیر ہم شاید قرینہ نہ تشکیل دے پا سکیں۔ یہ آغاز ان ٹیڑھی میڑھی لکیروں پر مشتمل تھا، جن کے خیال و گمان میں، وہم و یقین شامل تھے۔ گویا جنگل کو کاٹ کر ایک پگڈنڈی تو تشکیل دی گئی ہو لیکن اس سے راستے کے پیچ و خم ، نشیب و فراز، اور منزل کا یقین مشکل ہوگا۔ اس کے باوجود بھی اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر انتہاء کے لیے ایک آغاز ضروری ہے ۔ یونانی سائنسدانوں اور مفکرین کا یہ خیال تھا کہ روشنی کی شعائیں آنکھ سے خارج ہوتی ہیں، بہت بعد میں ابن ہیشم نے اس نظریہ کو بدل کر ایک نئی جہت سے روشناس کروایا۔ اہلِ یونان زمین کو مرکزِ کائنات تصور کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ سورج ، چاند اور ستارے اس کے گرد طواف کرتے ہیں۔ لیکن بعد کو یہ نظریہ بھی غلط ثابت ہو گیا۔ ترقی کی راہوں نے ہر نظریہ پر ایک نیا نظریہ رکھ کر سابق کو منسوخ کیا۔ ’’ناسخ و منسوخ‘‘ کا یہ طریقہ صحیح و غلط اصطلاح کا تحمل نہیں رکھتا بلکہ بتدریج فکرِ انسانی کی ارتقائی تعلیم اور تہذیب کا فطری طریقہ ہے۔ جس دور میں یونانی سائنس فروغ پا رہی تھی ان کے نظریات سے اختلاف کے باوجود اس امر کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ علم دوستی کا جو ماحول یونان میں پروان چڑھ رہا تھا، اسی سے بقراط ، جالینوس ، بطلیموس ،سقراط ، ارسطو ، افلاطون، ہیروڈوس اور ہومر جیسے عظیم فلسفی، حکیم اور سائنسدان روشناس ہوئے۔ اس کے علاوہ جیومیٹری جیسے لازوال علم کا آغاز بھی یونان ہی سے ہوا۔ چناں چہ اس ماضی سے فیثاغورث اور آرشمیدس جیسی ہستیاں ہم سے روشناس ہوتی ہیں جن کے نظریات و تجربات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ علم ریاضی یونان ہی کے بطن سے پھوٹتا ہوا چشمہ ہے۔ اس سے پہلے اس علم کا کوئی دارا نہیں تھا۔ یونان اس مقام پر پہنچ چکا تھا جہاں سے ساری دنیا کے تشنگانِ علم اپنی پیاس بجھانے کے لیے ان درس گاہوں کے دہلیز تک پہنچے۔ 300قبل مسیح تک یونان دانش کدے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ بعض ایجادات دنیا کے لیے انقلاب ثابت ہوئے۔کنواں سب سے پہلے یونان ہی میں ایجاد ہوا۔ چرخی کا استعمال یونان ہی کا رہینِ منت ہے۔ بیرم اور لیور سے کسی وزن کو بلند ی تک پہنچانے کا اہتمام یونان کی ذۃانت کا کارنامہ ہے بلکہ یوں کہوں کہ پہیہ اہلِ یونان ہی کا کارنامہ ہے جس نے پگڈنڈیوں کو راستوں، سڑکوں میں بدل دیا۔ میرے خط میں اتنی گنجائش نہیں کہ ہم تفصیل سے ان ایجادات پر غور کر سکیں۔
اعجاز فرخ صاحب! آپ کو اور مجھے بھول نہ پائیں گے وہ دن جب ہم بہت چھوٹے تھے اور رات کھلے آنگن میں چارپائیوں اور پلنگوں پر لیٹے ہوئے ستاروں بھرے آسمان کو تکتے تھے اور ہماری مائیں ہمیں ان ستاروں کو پریوں کا دیس بتلایا کرتی تھیں اور چاند کی بستی کی کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یہی کہانیاں سنتے سنتے ہم سو جایا کرتے تھے اور پھر خواب میں مان بستیوں میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ وہ سرسبز و شاداب چمن زارحوض میں چھوٹتے ہوئے فورارے، ہر سمت خوش رنگ روشنیوں کے آبشار۔ اور پھر وہ قطار اندر قطار پریوں کے جھرمٹ ۔ کوئی الھڑ جوان، کوئی نو جوان، کوئی بالکل ہی دھان پان۔ کوئی سروقد ، کوئی بوٹا سا قد، کوئی شاخ گل کی طرح لچکتی ہوئی، کوئی اپنے آپ میں سمٹتی ہوئی، کوئی ندی کی طرح بل کھاتی ہوئی، کوئی موجِ دریا کی طرح اٹھلاتی ہوئی ، کوئی زلف بردوش، کوئی زلف زیر کمر، کوئی سانولی، کوئی سلونی، کوئی چمپئی، کوئی ماہ رو، کوئی ماہ جبیں، کوئی ماہ رخ، کوئی شعلہ کی طرح لپکتی ہوئی، کوئی شبنم فشاں، کوئی شہنائی کے سُر اور شہد میں گندہی ہو، کوئی بانسری کی طرح کو کتی ہوئی، گلے میں پھولوں کی بدھیاں، کانوں میں چبنیلی کے کرن پھول ، گردن میں گلاب کا کنٹھاکلائیوں میں موتیا کے گجرے، انگلیوں میں نودمیدہ کلیوں کے انگشتریاں ، پیروں میں چاندنی کی پازیب۔ کوئی سیم تن، کوئی گلبدن، پھولوں کا سراپا ، کسی کی جھیل کی طرح گہری آنکھیں، کسی کی آنکھوں میں تاتاری وحشی ہر نیوں جیسی بجلی کی چمک کا کوندا، اب لپکا کہ تب لپکا۔ اور پھر آخر شب کا وہ لمحہ جب یہی پریاں پلکوں سے تلووں کو گدگدا تی تھیں اور صبح جاگوتو ان ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں پلکوں کے نیچے ریزہ ریزہ چھبتی ہوئی کہ تمام عمر ان کرچیوں کو چنتے چنتے انگلیوں کی پور پور لہولہان ہو جائے، اور پریوں کے دیس پہنچ جانے کی اآرزو میں گذر جائے۔ ایسے میں اگر یہ پتا چل جائے کہ ان پریوں کے دیس یعنی ستاروں اور چاند تک پہنچنے کا راستہ کسی کو معلوم ہو گیا ہے تو اس جستجو میں کوئی کیوں نہ ان آستانوں اور دہلیز تک پہنچے، کچھ یہی حال میرا بھی ہے اور آپ کا بھی۔ اہل دانش کا بھی ، اہلِ فرنگ کا بھی۔ رہروانِ عرب کا بھی ، مسافرانِ عجم کا بھی۔ گل گشتگانِ ہند کا بھی۔ خواب نہ ہو تو انسان ادھورا ہے ۔خواب انسانوں کے لیے اذنِ سفر ہے۔ نئی اڑانوں کا سفر، نئی منزلوں کا بلاوا۔ چاند پر نقشِ قدم ، ستاروں پر کمند ۔ بہر حال یونان کے کتب خانے اہلِ علم و دانش کے حاصلِ مطالعہ سے بھر گئے ۔
علامہ صاحب! جو آپ کو ناگوارِ خاطر نہ ہو تو عرض کروں ، جہل تو ظلمت ہے، اندھیرا ہے، برا ہے لیکن انسان کے لیے اس سے بڑا دشمن’’ علمی مغالطہ‘‘ ہے۔ انسان اپنے حواس سے علم حاصل کرتا ہے۔ ہر انسان کے حواس یکساں نہیں ہوتے اور پھر سارے حواس مکمل ہوں ‘ یہ بھی ضروری نہیں۔ ایسے میں بصری مغالطہ، سمعی مغالطہ ، ذائقہ کا مغالطہ، قوتِ شامہ کا مغالطہ، جب ترسیم مرتب کرتا ہے تو یہ علم نہیں بلکہ علمی مغالطہ ہے۔ علم حقیقت کوجاننے کانام ہے ۔علمی مغالطہ، انسان کے پیر زمین پر نہیں رہنے دیتاجس کے نتیجے میں وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑتا ہے۔ لیکن میں یہ عرض کروں کہ عالم کو تکبر زیب نہیں دیتا۔ علم تو انسان کو منکسر کر دیتا ہے ۔ اس کا انکسار اس کے علم کا پتا دیتا ہے ۔ اس کی خاموشی اور گفتار میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بلکہ بسا اوقات اس کی خاموشی اس کی گفتار سے بدرجہا بیش قیمت ہوتی ہے۔ گفتار کے ایک‘ یا زیادہ سے زیادہ دو یا تین پہلو ہوتے ہیں۔ لیکن خاموشی ہزار ہزار جہات کی معنی خیز ہوتی ہے۔ اس معنی آفرینی کے لیے ایک طویل عمر چاہیے۔ آپ شاید اس کی بہتر شرح کرسکیں کہ تکبرِ علم نے کس کس کو منزلِ بلند سے کس طرح ذلیل کیا اور کیسی کیسی رسوائی مقدر ہوئی۔
اہلِ یونان بھی اپنے تکبرِ علم اور تفاخرِ ذات سے مخمور ہو چلے تھے۔ ان کی نظر میں دنیا ہیچ ہو چکی تھی۔ اور وہ ہوسِ اقتدار میں مبتلا ہو چکے تھے۔ انہوں نے روم پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں انہیں نہ صرف بدترین شکست کا سامنا کر نا پڑا بلکہ یونان ، روم میں ضم ہو چکا تھا۔ اور یونانی اب اپنی شناخت سے بھی محروم ہو چکے تھے، رومی حکمران‘ علم و دانش سے بہت دور تھے۔ کسی بھی صلاحیت، ذہانت کو پپنپنے کیلئے حکمرانوں کی علم دوستی اور فروغِ علم کی خواہش لازمی ہے۔ حکومت کی سرپرستی کے بغیر علم و دانش پروان نہیں چڑھ سکتے ۔ یونان کے دانش کدے کھنڈر ہو گئے۔ جہاں شب و روز بدلتے موسموں اور رفتارِ سیارگان پر گفتگو ہوتی تھی، مہیب سناٹوں میں بدل گئے۔ کتب خانوں میں مکڑیوں نے جالے ڈال دیئے اور کتابیں رزقِ کرم ہو گئیں۔ یہ ایک ترقی یافتہ قوم کے زوال کی عبرت ناک داستان ہے۔
آئیے ، ذرا آپ کے ملک ہندوستان پر بھی ایک نگاہ ڈالتے چلیئے۔ جس زمانے میں یونان سائنسی ترقی حاصل کر چکا تھا، اس وقت ہندوستان بھی کچھ پیچھے نہیں تھا۔ وہاں بھی ہندوستانی سائنسدان تھاگا ہارا، راجہ منکا داہر، اندوکانا،جدّار، برہما گپتا نے نظریاتی سائنس کی بنیاد ڈالی۔ ہندوستانیوں نے زہر کی اقسام پر تحقیق کی ۔ انہوں نے نہ صرف کئی زہر اور ان کے اثرات دریافت کئے بلکہ ان کے تریاق بھی معلوم کئے۔ جانوروں پر ان کی تحقیق بہت بیش قیمت ہے۔ یوں تو ہندسوں میں ایک سے نو تک رسم الخط ہندوستان نے ایجاد کیا لیکن صفر کے سلسلے میں تھوڑا سا اختلافِ رائے ہے کہ صفر کس نے ایجاد کیا؟۔ ہندوستانیوں کا یہ استدلال ہے کہ یہ ایجاد برہماگپت کی ہے اور سنسکرت میں اسے ’’شونیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس اختلاف کے قطعِ نظر ہندوستان اور یونان کی ایجادات اور تحقیقات قابلِ قدر ہیں۔ افسو سناک بات یہ ہے کہ ہندوستان پربھی بیرونی حملوں کی وجہ سے یہ علمی ترقی رک گئی۔ ان کی سائنسی اور علمی کتب مندروں کے تہہ خانوں میں دیمک کی خوراک بن گئیں اور مندروں پر یوگیوں اور جوگیوں کا تسلط ہو گیا۔
علمی درس گاہیں تو بند ہوگئیں۔ اگر کتابیں بھی تمام کی تمام ضائع ہو جاتیں تو شاید آج انسانیت پتھر کے دور میں لوٹ جاتی۔ رومن بادشاہوں نے جب سکندریہ کی وسیع اکیڈمی کو یہ کہہ کرنیست ونابود دیا کہ عالم سلطنت میں کتابوں سے نحوست پھیلاتے ہیں۔ تب تو علماء کو سرعام سولی دی جانے لگی۔ یورپ کی قدامت پسندی اور اوہام پرستی کا اندھیرا چاروں طرف پھیل چکا تھا۔ ایک گرہ کپڑے کے عوض جنت اور دو گرہ کپڑے کے عوض پادری جنت کا اعلیٰ مقام عطا کرنے لگے۔ جہاں یہ خبر مل جاتی کہ کوئی علمی درس گاہ ہے وہاں سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ اہلِ علم کو ذلیل کیا جانے لگا۔ جب یہ سلسلہ چل پڑا تو بہت سارے راہب اور عالم ترکِ وطن کر کے ایران اور دمشق کی طرف کوچ کر گئے۔ حیرت کی بات یہ تھی ان کے پاس دو بوسیدہ لباس اور ڈھیر ساری یونانی سائنس کی کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ ایران و شام میں ساسانی حکمرانوں نے انہیں خوش آمدید کہا۔ یورپ اوہام پرستی کو فروغ دے رہا تھا اور علم در بدر تھا۔

گذشتہ پانچ سو سال پہلے تک بھی یورپ غرقِ جہل اور وہم رسیدہ تھا جیسے جیسے شام ڈھلتی لوگوں میں خوف کی لہر پھیل جاتی۔ہر چرچ اور ہر پادری کی اپنی ایک ریاست تھی، ان کا فرمان حرفِ آخر تھا، کسی کی ہمت نہیں تھی کہ ان کے نظریات کے خلاف کوئی نظریہ پیش کر سکے۔ میں چوں کہ مغرب کا فرزند ہوں ،اس لیے اسی کی حد تک اظہار کر رہا ہوں، مشرق آپ کی نظر میں ہے، اس کا تجزیہ آپ یقیناً مجھ سے بہتر کر سکتے ہیں۔ اس ماحول میں علمِ فلکیات، طبعیات، زمین و آسمان کے تعلق سے مذہبی رہنما’’ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ،،سے کم نہ تھے۔ اطالوی سائنسدان گیلیلیو جن کا انتقال میری پیدائش سے ٹھیک تین سو سال یعنی 8 فروری 1642 میں ہوا تھا۔ ان کی تحقیق ہمارے لیے نقطہ آغاز کہی جا سکتی ہے۔ اس وقت تک پاپائیت کا یہ خیال تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے اطراف گردش کرتا ہے۔ اس کی دوسری اہم تحقیق یہ تھی کہ دو مختلف حجم کے پتھر اگر ایک ہی مقام سے بیک وقت چھوڑے جائیں تو وہ ایک ہی وقت میں زمین تک پہنچیں گے۔ پاپائیت کا خیال تھا کہ بڑے حجم کا پتھر پہلے زمین بوس ہوگا۔ جب کہ چھوٹے حجم کے پتھر کو زیادہ وقت لگے گا۔گیلیلیو نے تجربہ کیا اور نتیجہ صحیح ثابت ہوا،،، بیشتر افراد نے اس تجربہ کے مقام کو پائیسا مینار قرار دیا ہے۔لیکن میں آپ کے خیال سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ تجربہ پائیسا ٹاور سے نہیں ہوا تھا۔یوں بھی بات تجربہ کی ہے، مقام کی نہیں۔ ان کا دوسرا نظریہ کہ زمین اپنے مدار پر سورج کے اطراف گردش کرتی ہے، پاپائیت کے لیے قلعہ شکن تھی۔ گلیلیو کو سزا سنائی گئی، حق گوئی، علم دوستی، ذہانت اور صداقت شعار افراد کے لیے جہل آشنا اقتدار کا ہمیشہ یہی رویہ رہا ہے۔
ویسے بھی گرفتارانِ قفس نہ سیرِ افلاک کا ذوق رکھتے ہیں نہ مور و مگس کو وسعتِ فکر و نظر میسر ہے۔ یہ بات کل بھی تھی اور شاید آج بھی ہے۔ وسیع میدان میں گیلیلیو کو سزا کے لیے لایا گیا، ہزاروں لوگ اس منظر کو دیکھنے کے لیے جمع ہو گئے تھے، لیکن سزا سے پہلے اسے یہ نوید بھی سنائی گئی کہ اگر وہ چرچ سے معذرت طلبی کرے اور زمینی حرکت کے نظریہ سے دستبردار ہو جائے تو اسے معاف کیا جا سکتا ہے۔ روایت بتلاتی ہے کہ گیلیلیو نے زمین ہی پر لکھ دیا کہ گیلیلیو کی معذرت سے زمین کی گردش نہیں رکتی۔
جو قوم عالم کا احترام نہیں کرتی وہ دراصل اپنے زوال، ذلت اور خواری کا خود اہتمام کرتی ہے،،، تنگ نظری نے ”عالم” کے معنی کو بہت محدود کر دیا ہے، ورنہ تو نہ علم محدود ہے اور نہ اس کے معانی و مفاہیم۔ انسان کے لیے عقل ایک بڑی نعمت ہے۔ اس کے مدارج کے تعین کا انحصار اس کی عقل پر ہے۔ لیکن عقل کا جوہر علم ہے۔ علم کی نا قدر شناسی توہینِ علم ہے، لیکن کسی کو جاہل کو عالم سمجھنا یا اسے مسندِ علم پر فائز کرنا اس سے بڑی توہین ہے۔ میں اسے نہ صرف ظلم سمجھتا ہوں بلکہ یہ توہینِ جہل بھی ہے۔جس جمہور کی دنیا قصیدہ خوان ہے، وہاں صرف سر گنے جاتے ہیں،، عقل نہیں دیکھی جاتی۔ نہ ان کو خبر ہے کہ ناقص کامل کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ ویسے آپ کا یہ جملہ کہ،، حسد صرف کمال سے ہوتا ہے،، حقیقت افروز ہے۔
میرے دوست! تخیل و تفکر پلک چھپتے میں ماضی میں پہنچا دیتے ہیں۔ آپ شاید اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ماضی ہماری ذات کے نہاں خانوں میں مستور ہے۔ ماضی کی سیر دراصل ہماری ذات کے نہاں خانوں کی سیر ہے۔بات صرف اس نہاں خانے کے گمشدہ حرفِ خفی یا پاس ورڈ تلاش کرنے کی ہے جو ہمارے اندر ہی کہیں گم ہو گیا ہے۔ یہ حرفِ خفی جب ان نہاں خانوں کے دروازوں کو کھول دیتا ہے تب ہم صدیوں کے فرزند ہو جاتے ہیں اور ماضی کو زندہ دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اور یہ ہمارے لئے گزشتہ کل پرسوں سیزیادہ دور نہیں۔ چلئے کوئی ڈہائی ہزارسال پہلے کے ایتھنز میں گھوم آئیں۔
یہ دیکھیے: یہ جو شخص نظر آرہا ہے بے ترتیب بال، سادہ لباس ، چہرے پر غور و فکر کی لکیریں ، یہ عظیم سقراط ہے۔ یہ جتنا خلیق ، مہربان شفیق ہے اس کی بیوی اتنی ہی تند خو ، بد مزاج، ستم پیشہ واقع ہوئی ہے۔ سقراط جب اپنے شاگردوں اور دوستوں کے ساتھ محوِ کلام رہتا ہے تو یہ خوب ہنگامہ برپا کرتی ہے لیکن وہ اس تمام ہنگامہ سے بے پرواہ مصروف رہتا ہے تو وہ بھرے ہوئے پانی کا مٹکا اس کے سرپر پھوڑ دیتی ہے۔ تب سقراط ہلکے سے تبسم کے ساتھ یہ کہہ اُٹھتاہے کہ،، اتنا ابر! اتنی گرج ، چمک ، گڑ گڑاہٹ اور بارش بس اتنی سی۔،، اس کے شاگرد افلاطون اور ارسطو اس تحمل کو تک رہے ہیں۔ اسی سقراط نے ہم کو فلسفہ ، منطق، طرزِ استدلال اور مناظرے کے فن سے آشنا کیا۔
یہ ایک اور منظر دیکھیے: یہ عدالت کا منظر۔ سقراط پر فردِ جرم عائد کی گئی ہے کہ یہ ایتھنز میں نصب کردہ خداوں کے بتوں کو تسلیم نہیں کرتا اور نوجوانوں کو بہکاتا ہے۔ اس پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے اپنے خیالات سے نئی نسل کو ورغلایا ہے۔ سقرا ط نے الزام قبول کر لیا، لیکن عدالت سے جاننا چاہا کہ کیا ہر شخص گھوڑوں کی تربیت کر سکتا ہے۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ ہر شخص یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔ اس فن کا ماہر ہی یہ کام انجام دے سکتا ہے۔ سقراط کے ہونٹو ں پر تبسم کی لکیر آپ دیکھ رہے ہیں، تبسم ہمیشہ سے فتح کی علامت رہی ہے۔ سقراط کا تبسم وقت کے دامن میں لکھ رہا ہے: ’’یہ ایک تبسم بھی کسے ملتاہے؟۔‘‘ اراکین جیوری کی متفقہ رائے کو پیش نظر رکھتے ہوئے عدالت اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ سقراط ان دو سزاؤں میں سے ایک سزا کو اپنے لیے خود انتخاب کر لے۔ یا تو وہ ایتھینز چھوڑ کر شہر بدر ہو جائے یا پھر اپنے ہاتھوں جامِ زہر نوش کر لے۔ سقراط نے کہا:’’ میں اس شہر سے بہت محبت کر تا ہوں۔ ۷۱برس پہلے میں نے اس شہر کی معطر ہوا میں پہلی سانس لی۔ میں چاہتا ہوں کہ آخری سانس میں بھی میں اس کی خوشبو سمیٹ لوں۔ مجھے دوسری سزا منظور ہے۔ ‘‘
یہ منظر بھی دیکھیے: داروغۂ زندان کو معقول رقم دے کر اس کے دوست اسے شہر سے دور لے جانے کے لیے جمع ہیں اور سقراط انکاری ہے۔ اس کے آگے HEMLOCKکا جام رکھ دیا گیا۔ سقراط نے مسکراتے ہوئے جام اٹھا لیا۔ اور مسکراتے ہوئے اپنے دوستوں اور شاگردوں کے درمیان کھڑا باتیں بھی کر رہا ہے۔۔ اس نے اپنے شاگرد افلاطون سے کہا’’ تم میرا ایک کام کر دوگے؟‘‘ افلاطون کہہ رہا ہے ’’ میری خوش نصیبی‘‘۔ سقراط اپنے پڑوسی کا نام لے کر کہہ رہا ہے کہ اس کے ایک مرغ کی رقم مجھ پر ادھار ہے ۔ وہ ادا کر کے مجھے اس بوجھ سے سبکدوش کر دینا۔ گھونٹ گھونٹ زہر پیتا ہوا سقراط وہ دیکھیے نیچے گر پڑا۔ یہ ہے اقتدار کی اجارہ داری اور یہ ہے سچ بولنے کا انجام ۔ حق آگہی ، حق پسندی اور حق گوئی کا انعام ۔
سقراط نے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ اس کے شاگرد افلاطون اور ارسطو نے سقراط کے ارشادات کو عوام تک پہنچایا۔ آج ہر علم دوست اور حق آگاہ سقراط کو جانتا ہے۔ اس کا معترف ہے۔ یونانیوں کو سقراط کے انجام کا بہت دکھ ہوا۔ ،،ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔،،
مطالعہ کے ساتھ اگر تخیل و تصور ہوتو انسان ماضی میں سفر کر سکتا ہے۔ ورنہ تو یہ صرف ایک دیوانے کا خواب ہے۔ اسی ذوقِ سفر نے مجھے کہکشاں میں سفر کی دعوت دی۔ لڑکپن سے آج تک آسمان کا شامیانہ ، ستاروں کی جگمگاتی قندیلیں، آوارگئ ہوا۔ مجھے سیر آمادہ کرتی رہی۔ میرے والدین نہ صرف ذہین تھے بلکہ روشن خیال تھے۔ ہمارے گھر میں کسی بھی سوال ، گفتگو یا مباحث کی پابندی نہیں تھی۔ ہم بے ٹوک اپنے والدین سے بلکہ اپنے اساتذہ سے بھی سوالات کر لیتے اور مطمئن ہونے تک کھوج میں لگے رہتے ۔ آپ کو خوب اندازہ ہے کہ آپکا ہمارا دور کیسا تھا۔ ہم بڑے افتخار سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اور آئین اسٹائین ایک دور میں رہے ہیں۔ ہم نے ان کے نظریات کو سمجھا ہے ۔ اس پر غور کیا ہے، اسے قبول کیا ہے۔ اسے برت رہے ہیں۔ اپنے ہائی اسکول سے کیمبرج میں گریجویشن تک میں سائیکل ہی پر جایا کرتا تھا۔ وہ دور نہ اتنا تن آسانی کا دور تھا نہ افراطِ زر کا ۔ دراصل طالب علمی کے دور میں تعیش روا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ ایک شام میں زینوں پر لڑکھڑا گیا، اور گول زینوں پر لڑکھڑاتا ہوا نیچے تک آگیا۔ غالباً میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ لیکن ہوش میں آنے کے بعد بھی مجھے یاد نہیں آ رہا تھا کہ میں کہاں ہوں؟۔ میرے ساتھ کیا ہوا؟۔ دو ہفتے میں اسپتا ل میں رہا ۔ اس دوران میرے کئی ٹسٹ ہوئے اور بالآخر ڈاکٹر وں نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ مجھےMOTOR NEORONEکا عارضہ لاحق ہوگیاہے۔ اورمیری کل زندگی زیادہ سے زیادہ دو سال ہوگی۔ رفتہ رفتہ میں نے حواس بحال کرنے کی کوشش کی اور چند مہینوں میں نے اپنے آپ کو سمیٹ لیا۔
وقت کی ستم ظریفی دیکھیے ، ادھر میں نے اپنے Ph.D کے لیے موضوع کا انتخاب کیا اورادھر وہ گل اندام ، گل پیرہن ، گل رخ، شاخِ گل کی طرح میرے سامنے آ گئی۔ آپ ہی کا جملہ ہے:’’ حسن مکمل سامنے ہو تو مقابل کو چپ لگ جاتی ہے اور یہی حسن کو عشق کا خراج ہے۔‘‘ میں بھی اس کے عشق بلا خیز میں گرفتا ر ہو گیا۔ بڑی ہنس مکھ تھی وہ۔ اس کی سادگی میں بھی ایک ادا تھی، ایک پُر کاری تھی۔ اسے پتا تھا کہ میری زندگی طویل نہیں ہے لیکن اس نے ساتھ نباہنے کی ٹھانی۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب صرف مشرق ہی میں ہوتا ہے۔ لیکن میں یہ عرض کروں کہ مشرق ہو یا مغرب، عورت فطرتاً عورت ہی ہوتی ہے۔ چاہے تو مرد کی زندگی سنوار دے ، چاہے اسے جیتے جی جہنم رسید کر دے۔ یہ خط لکھتے ہوئے میں اس اعتراف میں کوئی خجالت نہیں محسوس کرتا کہ میں نے سیاروں اور ستاروں کی کھوج میں ساری زندگی صرف کی، بلیک ہول اور QUANTAMتھیوری کی اضافتوں تک ہو آیا ہوں، مگرساری عمر عورت کو نہ سمجھ سکا۔ جین میری محبوب، میری محبت، میری ہم سفر، میری ہم نفس نے اس وقت میرا ہاتھ تھاما جب میں کچھ بھی نہیں تھا۔ ہاں ، موت میرے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ اور جس وقت ڈاکٹر میرے علاج سے عاجز آ چکے تھے اور انہوں نے جینی کو مشورہ دیا کہ آکسیجن بند کر کے میرے تارِ نفس کو منقطع کر دے۔ تو اس نے انکار کر دیا۔ میں موت سے نبرد آزما تھا۔ وہ میری پشت پر ایک طاقت بنی ہوئی تھی۔ موت آگے بڑھتی ، وہ اسے پیچھے ڈھکیل دیتی۔ موت حملہ آور ہو تی وہ اسے پسپا کردیتی۔موت دست درازی پر اتر آتی وہ اسکا منہ نوچ لیتی۔ موت ہار گئی۔ اور یوں ہار گئی کہ پھر چالیس برس ادھر کا رخ نہیں کیا۔اب جب میں موت کے سائے کو قریب پا رہا ہوں ، میرے ساتھ جینی نہیں ہے۔ 1990 میں 25برس کی رفاقت کے بعد ہم الگ ہو گئے۔ 1995میں پانچ برس کی علیحدگی کے بعد ہم میں طلاق ہو گئی۔ کیوں ہوا؟۔ کیسے ہوا؟۔ یہ میں کل لکھوں گا۔ میرے لیے لکھنا اتنا آسان نہیں ہے۔ مجھے صرف اپنے بائیں گال کی حرکت سے کمپیوٹر پر حروف چینی کرنی پڑتی ہے۔ پھر لفظ تشکیل دینے ہوتے ہیں۔ اور پھر جملے ترتیب دینے پڑتے ہیں۔ اپاہج ہوں، معذور ہوں، بے حوصلہ نہیں ہوں۔ آپ چاہیں تو یوں سمجھ لیں :
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے!

Share
Share
Share