افکارِ مہاتما :- محمد قمر سلیم

Share
محمد قمر سلیم

افکارِ مہاتما

محمد قمر سلیم
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی ، نوی ممبئی

دنیا کی تاریخ ایسی عظیم ہستیوں کی سوانح سے بھری ہوئی ہے جنھوں نے اپنے کارناموں سے شہرت حاصل کی اور آسمان کی بلندیوں پر پہنچ کر تاریخ کے صفحات پر اپنا نام چھوڑ گئے۔ مہاتما گاندھی بھی ان عظیم ہستیوں میں سے ایک تھے۔

انھوں نے ہندوستان کی آتما کو جگا کر اس کو حصولِ آزادی کے جذبے سے لبریز کرکے برطانوی حکومت کے خلاف ایک عظیم تحریک شروع کی ۔سچّائی اور عدم تشدد کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر ہندوستان کے عوام کو تشدد کے بنا لڑائی لڑنے کے لیے تیار کیا۔ مہاتما گاندھی کی تمام زندگی ایثار اور قربانی کی عظیم داستان ہے جس کی روشنی میں تاریخ کے صفحات آج بھی چمک کر ہمارے ماضی کو دہرا رہے ہیں تاکہ ہندوستان کی آنے والی نسلوں کو برطانوی حکومت کے خلاف ہوئی جدّو جہد سے روشناس کرایا جا سکے۔
مہاتما گاندھی نے سیاست کو جن نئے خیالات اور اصولوں سے مزین کیا ہے وہ سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔گاندھی جی مختلف روپوں میں ہمارے سامنے ابھر کر آتے ہیں ۔ کبھی تو وہ ایک سیاست داں کی حیثیت سے ہندوستان کے سیاسی مسئلوں کو سلجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں ، تو کبھی وہ ایک مفکر کی شکل میں عالمِ انسانیت کی فکروں میں گم ہو جاتے ہیں۔ کبھی وہ عدم تشددکے عظیم فوجی کی شکل میں سامنے آتے ہیں تو کبھی وہ تعمیری کاموں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ کبھی وہ ایک ماہرِ معیشت بن کر اپنا تعلق ملک کی اقتصادیت سے جوڑ لیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایک ماہرِ تعلیم بن کر تعلیم سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۱۹ ؁ سے ۱۹۴۷ ؁ تک کا دور ہندوستانی تاریخ میں ’مہاتما‘ کا دور کہلاتا ہے۔ تاریخِ ہند کے اٹھّائس سالوں کی یہ کہانی ہندوستان کی آزادی کی لڑائی کی کہانی ہے جس کا واحد مرکز مہاتما گاندھی تھے۔
مہاتما گاندھی نے جس وقت سیاست میں قدم رکھا اس وقت کانگریس چند پڑھے لکھے لوگوں تک محدود تھی۔ گاندھی جی نے مزدوروں، کسانوں ، دُکان داروں اور عام شہریوں کو کانگریس میں شامل کرکے اسے ایک عام تنظیم بنا دیا ۔ عدم تشدد اور ستیہ گرہ کو انھوں نے اس تنظیم کا ہتھیار بنایا لیکن عدم تشدد کے ہتھیار سے لیس ہو کر بھی انھوں نے ظلم اور ناانصافی کو خاموشی سے برداشت نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف آواز آٹھائی۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیں نہ تو ظلم برداشت کرنا چاہئے اور نہ ہی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا چاہیے۔ جمہوریت کے ایک سچّے علمبردار ہونے کہ ناطے انھوں نے خیالات کو وسعت دی اور طاقت عدم تشدد سے حاصل کی۔ وہ ڈرکر، چھپ کر اور رازدارانہ طریقے سے کام کرنے کے حق میں نہیں تھے۔انھوں نے مذہب کو انسانیت کا آئینہ بنا کر اور سیاست سے فریب اور مکّاری الگ کرکے لوگوں کو ایک دوسرے کے نذدیک لانے کی کوشش کی۔انھوں نے ہر برائی سے عدم تعاون کیا۔ ان میں فرقہ واریت، چھوا چھوت وغیرہ بھی شامل ہیں۔
مہاتما گاندھی نے جہاں سیاست کی بساط پر ہر مہرے کو مات دی وہیں وہ اپنے تعمیری کاموں کے لیے بھی دنیا کے سامنے مثال بن کر سامنے آئے۔ انھوں نے بہت سے تعمیری کام کیے جیسے فرقہ وارانہ یکجہتی، چھوا چھوت وغیرہ وغیرہ۔ فرقہ وارانہ یکجہتی گاندھی جی کے تعمیری کاموں کا ایک حصّہ ہے۔ فرقہ وارانہ یکجہتی کے لیے انھوں نے زندگی بھر کوشش کی۔ یہ لڑائی بھی انھوں نے عدم تشدد اور اخلاقی قدروں کے سہارے لڑی۔فرقہ واریت کے خلاف ان کی لڑائی کلکتہ سے شروع ہوئی جہاں انھوں نے ۷۲ گھنٹے کا ’ان شن‘ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فرقہ واریت کے زہر کو ختم نہیں کیا گیا تو جینا مشکل ہو جائے گا اور یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے تقریباً ۷۰ سال بعد بھی ہم فرقہ واریت کی بیماری سے لڑ رہے ہیں اور آج بھی فرقہ واریت سیاستدانوں کا سب اعلیٰ ہتھیار ہے۔گاندھی جی نے جہاں ہندو مسلم اتّحاد کوضروری سمجھا وہیں انھوں نے ہندوؤں سے اچھوتوں کو گلے لگانے کے لیے کہا۔چھوا چھوت کی وجہ سے نچلا طبقہ آہستہ آہستہ ہندو سماج سے الگ ہو گیا تھا۔اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے کبیر، نانک، راجہ رام موہن رائے ، سوامی دیا نند وغیرہ نے بھی تحریکیں چلائی تھیں۔ گاندھی جی نے چھوا چھوت کی تحریک کو اپنی سیاسی تحریکوں میں شامل کیا ۔ انھوں نے اس کے لیے صرف ہندوؤں کو ہی نہیں بلکہ پورے سماج کو ذمے دار ٹھہرایا۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا نیچی ذات کے لوگوں کے ساتھ بھی تھا۔انھوں نے انھیں ’ ہری جن‘ کہا۔ ان کی ہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۵۵ ؁ میں ہندوستان میں ” The Untouchability Offence Act ” لاگو کیا گیا۔
مہاتما گاندھی نے اپنے تعمیری کاموں کو پختگی دینے کے لیے ’کھادی پرچار‘ شروع کیا۔گاندھی جی چرخے کے ذریعے غریبی مٹانا چاہتے تھے حالانکہ ہاتھ سے کپڑا تیار کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ڈگمگائے نہیں ۔ کھادی کے استعمال سے انگریزوں کے کاروبار پر اثر تو پڑا ہی تھا ساتھ ہی ساتھ ہندوستانیوں کے روزگار کا مسئلہ بھی حل ہوا ۔ انگریزوں نے ہندوستانی صنعتوں کو ختم کرکے ملک میں مفلسی کا بازار گرم کر دیا تھا۔ کھادی پرچار اور کھادی سے بنے ہوئے کپڑوں اور چیزوں کے لیے کارخانوں کی ضرورت پڑی اسی لیے گاندھی جی نے گرام ادیوگ پر زور دیا ۔ انھوں نے کہا گرام ادیوگ کے قیام سے گاؤں خوشحال ہوں گے۔ معاشی برابری ان کا اہم مقصد تھا کیوں کہ معاشی آزادی کے بنا سیاسی آزادی بے معنی ہے۔ اسی لیے انھوں نے ٹرسٹی شپ کے اصول کو اپنایا۔ انھوں نے کہا زمین دار اور سرمایہ دار کسانوں اور مزدوروں کے ٹرسٹی کی شکل میں کام کریں اور حاصل ہونے والی دولت میں سے کچھ حصّہ وہ اپنے پاس رکھیں اور باقی دوسروں میں بانٹ دیں۔ اس سے سماج میں معاشی برابری پیدا ہوگی۔ انھوں نے فردِ واحد کے فائدے کی جگہ سماج کے فائدے کی بات کی۔ اسی لیے انھیں سماج وادی کہا گیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مہاتما گاندھی کی پزیرائی ان کے سیاسی کاموں کی وجہ سے ہوئی لیکن مہاتما کا لقب انھیں سیاست کی وجہ سے نہیں بلکہ فلاح و بہبود ، اصلاحی اور سماجی کاموں کی وجہ سے ملا۔انھیں عوام صرف سیاسی رہنما کے طور پر ہی نہیں دیکھتے تھے بلکہ سماجی کارکن کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ مہاتما گاندھی نے انفرادی آزادی پر بہت زور دیا ۔ انفرادی آزادی کا مطلب صرف مردوں کی آزادی سے نہیں تھا، وہ مردوں کی آزادی کے ساتھ ساتھ عورتوں کی آزادی کے بھی حامی تھے۔وہ دونوں کو سیاسی اور سماجی کاموں میں برابری کا حقدار مانتے تھے۔ گاندھی جی کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں عورت پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگنی چاہیے جو مردوں پر نہ ہو۔ ہمیں بیٹے اور بیٹی کے ساتھ مساوی سلوک کرنا چاہیے۔ عورت کو ’ابلا ‘ کہنا شرم کی بات ہے۔ عورت میں قربانی کا جذبہ ، برداشت کا مادہ ، ہمت و استقلال مردوں سے کہیں زیادہ ہے۔
مہاتما گاندھی ایک ما ہرِتعلیم بھی تھے وہ تعلیم کے ذریعے اپنے تعمیری کا موں کو عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے۔ ۱۹۳۷ ؁ میں ’ ہریجن ‘ میں گاندھی جی اس طرح رقمطراز ہیں ، ’ قوم کی شکل میں ہم تعلیم میں اتنے پچھڑے ہوئے ہیں کہ اگر تعلیمی نظام دولت پر مبنی ہوا تو قوم کے لیے تعلیمی ذمّے داریوں کو کم وقت میں اگلی نسل تک پہنچانے کی امید نہیں کر سکتے ۔ اسی لیے میں نے اپنے تعمیری کاموں کو خطرے میں ڈال کر تعلیم کو خود کفیل بنانے کی جراٗت کی ہے ۔ تعلیم سے میرا مطلب ہے ، بچّے اور انسان کی تمام جسمانی، دماغی اور روحانی طاقتوں کی بھر پور نشوو نما ۔۔۔ میں بچّے کی تعلیم اسے ایک مفید دستکاری سکھا کر، اور جس وقت سے وہ اپنی تعلیم شروع کرتا ہے، اسی وقت سے اے پیدا وار بڑھانے کے قابل بنا کر ، تعلیم شروع کرنا چاہتا ہوں۔ مہاتما گاندھی اپنے تعمیری کاموں کے ذریعے ہندوستان کی تقدیر بدلنا چاہتے تھے ۔
گاندھی جی نے سیاست میں غصّے کو ترک کر دیا تھا اور یہی سبق انھوں نے ہندوستان کے عوام کو دیا۔ خاص طور سے مصیبت کے وقت ہوش وحواس، عقل وشعور اور انصاف پسندی کے ساتھ فیصلے کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اگر غصّے اور طیش میں کوئی فیصلہ کیا گیا تو اس کے غلط نتائج سامنے آئیں گے۔ انھوں نے ظلم برداشت کیا لیکن اپنے مخالفین کو زخم نہیں دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں زخموں پر مرحم رکھنا چاہیے ۔ دل سے دل کو جدا کرنے کے بجائے ایک لڑی میں پرونے کا کام کرنا چاہیے۔ انھوں نے کرسی سے چپکے رہنے کو ترجیح نہیں دی یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک عام آدمی کی طرح زندگی بسر کی۔ چھوٹے سے چھوٹا کام کیا، چرخہ چلانے سے لیکر سڑکوں پر جھاڑو لگائی۔ انھوں نے عوام کو اس بات کا احساس دلایا کہ کسی بھی کام کو کرنے سے انسان کی عزت نہیں گھٹتی بلکہ کام چوری سے عزت ضرور جاتی ہے۔ گاندھی جی نے کہا تھا کہ ’ میں ایسے بھارت کے لیے کام کروں گا جس میں ، جو آج سب سے زیادہ غریب ہیں، وہ بھی یہ محسوس کریں کہ بھارت ان کا بھی دیس ہے جس کی تعمیر میں ان کا اہم حصّہ ہے، اس بھارت کے لیے جس میں تمام ذاتیں پیارو محبت کے ساتھ رہیں گی ، اس بھارت کے لیے جس میں عوام کے بیچ اونچ نیچ کی تفریق نہیں ہوگی، ایسے بھارت میں چھوا چھوت ، مشروب اور نشیلی چیزوں جیسی برائیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی اور خواتین مردوں کی طرح حقوق کا استعمال کریں گی۔ میرے خوابوں کا بھارت ایسا ہے۔
مہاتما گاندھی کے تعمیری کاموں اور تعلیمی منصوبوں نے ہندوستان کے عوام میں بیداری پیدا کر دی۔ ہندوستان کے ان پڑھ اور مظلوم عوام برسوں سے غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے۔ وہ نا امید اور پریشان ہو چکے تھے ۔ گاندھی جی نے آزادی کی مشعل جلائی اور ان میں روح پھونک دی ۔ سوئے ہوئے لوگ جاگ اٹھے اور غیر ملکی سرکار سے طاقت حاصل کرنے کے لیے جدّد جہد کرنے لگے۔گاندھی جی نے مثبت طریقے سے آزادی کی جنگ لڑی یعنی ان کے پلان میں تشدد کو کہیں جگہ نہیں ملی۔ انھوں نے عدم تشدد کو اپنا ہتھیار بنایا اور عدم تعاون سے اپنی لڑائی جیتی۔گاندھی جی کی تحریکِ آزادی کا مقصد صرف سیاسی آزادی تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے دائرہ میں ہندوستان کے عوام کی سماجی اور معاشی آزادی کو بھی شامل کر لیا اور ان کی گری ہوئی حالت کو سدھارنے کی کوشش کی۔
——
مضمون نگار کا تعارف:
محمد قمر سلیم ، پیدائش : ۱۹۶۱، تعلیم: ایم اے (سیاسیات) ، ایم ایڈ جامعہ ملّیہ اسلامیہ ، ایم اے(اردو) کانپور یونیورسٹی، ایم فل (اردو) دلّی یونیورسٹی، ملازمت: انجمنِاسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن، نوی ممبئی۔اولین تخلیق افسانہ ’چھلکتے آنسو‘ (۱۹۷۹)، تصنیف و تالیف:اے اسٹیپ فارورڈ (انگریزی، ۱۹۹۹)،اشاریہ دلگداز(۲۰۰۳)، مہاتما گاندھی(ہندی،۲۰۰۷)، فلاسفی اینڈ ایجوکیشن(انگریزی، ۲۰۰۷) ، نرچرنگ لرنر آٹو نومی(انگریزی، ۲۰۱۷)اوراین سی ای آر ٹی کی متعدد درسی اور غیر درسی کتب کی تیاری میں ممبر کی حیثیت سے شرکت۔ہماری زبان ، اردو دنیا، امنگ، نرالی دنیا، ایجو ٹریک، انٹرنیشنل جنرل آف سائیکولوجی اینڈ ایجوکیشنل اسٹڈیز ، مصراور انٹرنیشنل جنرل آف کرنٹ ملٹی ڈسپلنری اسٹڈیز، فلیپنساور دیگر جریدوں میں متعدد مضمون شائع ہو چکے ہیں۔ایوارڈس:انجمنِ اسلام ٹرسٹ سے ’بیسٹ ٹیچر ایوارڈ(۱۹۹۶)، بہار اردو اکادمی سے اشاریہ دلگداز (۲۰۰۷)، بکس ٹو ڈے کی طرف سے ’آتھر آف دی ایر‘ (۲۰۰۸)، مجموعی خدمات پر انجمنِ اسلام ٹرسٹ سے ’اچیومینٹ ٹرافی (۲۰۱۵)۔اونلی ون فاؤنڈیشن کے صدر اورشکھر این جی او میں ڈائیریکٹر کی حیثیت سے سماجی،فلاحی خدمات انجام دینا۔
پتہ: فلیٹ نمبر ۳، آتما شانتی کوآپریٹو سوسائٹی ، پلاٹ نمبر ۳۳، سیکٹر ۳، واشی ، نوی ممبئی۔۴۰۰۷۰۳
موبائل: 9322645061

Share
Share
Share