اسلام اورخلافتِ الٰہیہ میں تعلق :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

اسلام اورخلافتِ الٰہیہ میں تعلق

مفتی کلیم رحمانی
8329602318 Mob:

اسلام اورخلافتِ الٰہیہ میں وہی تعلق ہے جو جسم اور روح میں ہے، جس طرح جسم میں حرکت و قوت پیدا ہونے کے لئے روح ضروری ہے، اسی طرح اسلام میں حرکت و قوت پیدا ہونے کے لئے خلافت الٰہیہ ضروری ہے، اور جس طرح روح کے لئے جسم ضروری ہے، اسی طرح خلافتِ الٰہیہ کے لئے اسلام ضروری ہے۔

اسلام کے عمومی پیغام سے بھی خلافتِ الٰہیہ کی ضرورت بخوبی سمجھی جاسکتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام انسانی زندگی کی مکمل رہنمائی کرتا ہے، اور انسانی زندگی کا ایک اہم شعبہ حکومت سے تعلق رکھتا ہے ، اور غور کیا جائے تو انسانی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا شعبہ حکومت ہی کا شعبہ ہے، دوسرے تما م شعبے اس کے تابع ہوتے ہیں۔ تو اسلام اتنے اہم شعبہ کی رہنمائی سے انسانوں کو کیسے محروم رکھ سکتا ہے۔ جب کہ اسلام وہ دین ہے جس نے پیشاب و پاخانہ کے طریقہ میں بھی انسانوں کی رہنمائی کی ہے، یہاں تک کہ استنجا میں بھی استعمال ہونے والے ڈھیلوں میں تک رہنمائی کی ہے۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج بہت سے وہ مسلمان جو پیشاب و پاخانہ کے طریقہ میں اسلام کی تعلیم کو جاننے کے لئے بیتاب رہتے ہیں ، مگر ان کے اندر حکومت کے طریقے میں اسلام کی تعلیم کو جاننے کی ذرا بھی طلب نہیں پائی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ دینی مدارس جن کے قیام کا مقصد ہی اسلام کی نشر و اشاعت ہے ان میں سے بیشتر مدارس ایسے ہیں جن میں اسلامی سیاست و حکومت کی ذرا بھی تعلیم نہیں ہوتی، چنانچہ ان مدارس کے فارغین وضو و غسل ، نماز و روزہ، زکوٰۃ و حج کے احکام و مسائل پر گھنٹوں بحث کرسکتے ہیں، لیکن اسلامی سیاست و حکومت پر ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے، اور نہ اسلامی و غیر اسلامی سیاست و حکومت میں کوئی تمیز کرسکتے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ ان مدارس کے فارغین میں بہت سے ایسے ملیں گے جو اسلام کی دہائی دے کر غیر اسلامی سیاست و حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور اسلامی سیاست و حکومت کی مخالفت کرتے ہیں۔
ایک طرح سے بہت سے مسلمانوں نے اپنی زندگی کو دو خانوں میں بانٹ دیا ہے، ایک
خانہ اللہ کی بندگی کے لئے اور ایک خانہ غیر اللہ کی بندگی کے لئے، اور اسی غلط فکر کا نتیجہ ہے کہ مسلمان نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج کے مسائل جاننے کے لئے قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں ،لیکن سیاست و حکومت کے اُمور میں کافر اور نافرمان لیڈروں کی طرف رجوع کرتے ہیں، جب کہ ایک مسلمان پوری زندگی میں اللہ ہی کا تابع ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالی نے ایمان والوں کو اسی مکمل پیروی کا حکم دیا۔ چنانچہ ارشادربانی ۔ یاَ ےُّھَا اَّلذِینَ اٰمنوُاادْخُلُوْا فِی السَّلْمِ کاَفَّۃَ ( سورہ بقرہ : ۲۰۸)
’’ اے ایمان والو ! اسلام میں پورے طور پر داخل ہوجاؤ۔ ‘‘
ایک اور جگہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا۔
یاَ ےُّھَا اَّلذِینَ آمَنُوْا لاَ تُقَدَّمُوْا بَےْنَ ےَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ۔ ( الحجرات : ۱)
’’ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے آگے مت بڑھو۔ ‘‘
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ اگر کوئی مسلمان نماز، روزہ، زکوٰۃ و حج کی پابندی کرے لیکن سیاست و حکومت میں اسلام کی تعلیمات پر عمل نہ کرے تو گویا وہ اسلام میں پورے طور پر داخل ہی نہیں ہوا، ساتھ ہی وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے آگے بڑھنے کا بھی مرتکب ہوا۔ زندگی کی یہی دو رنگی یہود و نصاری میں پائی جاتی تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں سخت وعید سنائی۔ چنانچہ فرمان ربانی ہے۔
اَفَتُوْ مِنُونَ بِبِعْضِ الْکِتَابِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضِِ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلَکَ مِنْکُمْ
اِلَّا خِزُیَّ فِی الْحَےٰوۃ الدُّنْیاَ وَ ےَوْمَ الْقِیاَمۃِ ےُرَدُّوْنَ اِلیٰ اَشَدَّالْعَذَابِ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلِِ عَمَّا تَعْمَلُونَ ( البقرہ : ۸۵)
’’ کیا تم کتاب الٰہی کی بعض باتوں کو مانتے ہو، اور بعض کا انکار کرتے ہو، پس اس کی سزا
ہے اس کے سوا کچھ نہیں کہ دنیوی زندگی میں رسوائی ہے، اور قیامت کے دن سخت عذاب کی طرف اسے پھیر دیا جائے گا، اور اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔ ‘‘
مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اگر اُمّتِ مسلمہ میں قرآن سے متعلق یہی روش رہی تو وہ بھی اسی وعید کی مستحق ٹھہر ے گی۔ اور جیسا کہ آج اُمّتِ مسلمہ کی اکثریت کی روش سے یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ قرآن سے متعلق اسی دو رنگی میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے دنیاوی ذِلّت و رسوائی اس کا مقّدر بنی ہوئی ہے، اور اگر وہ اس روش سے جلد باز نہ آئے تو اخروی عذاب بھی اس کا منتظر ہے۔ مسلمان ہونے کے باوجود سیاست و حکومت میں اسلامی تعلیمات کو اختیار نہ کرنا گویا اللہ کی غیرت کو چیلنج کرنا ہے۔ ایک غیرت مند شوہر کی غیرت سے بھی اللہ کی غیرت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے، جب کہ بڑے سے بڑے غیرت مند کی غیرت اللہ کی غیرت کے سامنے کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی، لیکن اس کے باوجود ایک شوہر اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کی بیوی بعض معاملات میں اس کی اطاعت کرے اور بعض معاملات میں اس کے دشمنوں کی اطاعت کرے۔ تو اللہ اس بات کو کیسے پسند کرے گا کہ اس کے بندے بعض معاملات میں اس کی اطاعت کریں اور بعض معاملات میں اس کے دشمنوں کی اطاعت کریں۔
——-
Mufti Kaleem Rahmani
مسجد اقصیٰ روڈ، وسنت نگر،
پوسد، ضلع ایوت محل ، مہاراشٹرا۔ الہند

Share
Share
Share