سوریہ نمسکار : شریعت کی نگاہ میں :- مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share
مفتی امانت علی قاسمی

سوریہ نمسکار : شریعت کی نگاہ میں

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
Mob: 07207326738

سوریہ نمسکار در حقیقت یوگا کے دوران انجام دیا جانے والا عمل ہے، گویا سوریہ نمسکار یوگا کا اہم عنصر ہے، جس میں یوگا کرنے والا مشرق کی جانب آنکھیں بند کرکے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر سورج کو پرنام کرتا ہے، سورج کے آداب بجالاتا ہے، یہاں سوریہ نمسکار کا شرعی حکم جاننے سے قبل اہل علم کی آراء ذکر کی جاتی ہیں:

مسلم پرسنل لا کے رکن کمال فاروقی کی رائے ہے:
سورج کو سلام کرنا خلاف اسلام ہے اور یہ کہ مسلمان صرف اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں، اس لئے اسکولوں میں سوریہ نمسکار لازم قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔(92newshd-+v تحت عنوان سوریہ نمسکار مسلم مذہبی عقیدے کے منافی، ۸؍ جون ۲۰۱۵ء)
ڈاکٹر سلیم خان کی رائے ہے:
جس طرح نماز اشراق مسلمانوں کی عبادت ہے، اسی طرح سوریہ نمسکار بھی ایک مشرکانہ پرارتھنا ہے، اس لئے جس طرح غیر مسلم طلبہ کو نماز کا پابند کرنا غلط ہے اسی طرح غیر ہندو طلبہ پر سوریہ نمسکار کو لازم قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔( سلیم خاں،ڈاکٹر ،سورنمسکار، سیاست کی گہار اور عدالت کی پھٹکار، www.Mazameen.com،۱۱؍۹؍۲۰۱۶ء۱)
ڈاکٹر سلطان احمد اصلاحی لکھتے ہیں:
فرقہ پرست ہندؤں کا دوسرا مطالبہ ہے کہ ملک کے تمام سرکاری ونیم سرکاری اسکولوں میں سوریہ نمسکار کو لازمی ہونا چاہئے، ظاہر ہے کہ ان اسکولوں میں مسلمان بچے اور بچیاں بھی پڑھتے ہیں، اس کے لازم کئے جانے کا مطلب ہے کہ اسکول کے دنوں میں کلمہ گو مسلمان بچوں بچیوں کو بھی سوریہ دیوتا کے سامنے نمن کرنا ہوگا، یہ خالص شرک کا معاملہ ہے جسے ہر گز ہرگز برصغیر کے توحید پرست مسلمان قبول نہیں کرسکتے(اصلاحی،سلطان احمد ، مضمون سوریہ نمسکار، سہ ماہی علم وادب علی گڈھ اپریل تاجون ۲۰۱۵ء)
ڈاکٹر سید ظفر محمود کی رائے ہے :
نماز بھی بہترین ورزش ہے، اس سے بھی جسم کے لئے بہت فائدے ہیں اس کو بھی عوام بلا تفریق اپنا سکتے ہیں، ہائی کورٹ کو سمجھنا ہوگا کہ سوریہ نمسکار اور نماز میں یہی فرق ہے کہ سوریہ نمسکار میں سورج کو دنیا کا پالن ہار مانا جاتا ہے جب کہ نماز میں اللہ کو پالن ہار مانا جارہا ہے، اور یہ بھی کہ اللہ سورج کا بھی مالک ہے، اس معاملے میں مسلمان کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے ہیں،کیوں کہ اللہ کے سواء کسی اور کو دنیا کا پالن ہار ماننا شرک ہے اور شرک انسان کو اسلام سے خارج کردیتا ہے، آئین ہند کے آرٹیکل 15میں حکومت پر پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ کسی شہری کے خلاف مذہب کی بنیاد پر تعصب نہیں کرے گی، آرٹیکل 25 میں ہر شہری کو برابر کی آزادی دی گئی کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق اپنے مذہب پر قائم رہے اور عبادت کے متعلق طریق کار اپنائے،بمبئی میونسپل کارپوریشن اور بمبئی ہائی کورٹ دونوں کے احکام آئین کے ان دونوں آرٹیکل کے خلاف ہیں(سید ظفر محمود ،ڈاکٹر ،سوریہ نمسکار صرف ورزش نہیں پوجا بھی ہے، روزنامہ سہارا ،۲۲؍ ستمبر ۲۰۱۶ء)

سوریہ نمسکار کی حقیقت:
سوریہ نمسکار یہ سنسکرت زبان کالفظ ہے جس کے معنی ہے سورج کی بندگی اور اس کے سامنے آداب وتسلیم بجالا نا( فیروز اللغات)
ڈاکٹر سید ظفر محمود صاحب نے ’’سوریہ نمسکار صرف ورزش نہیں پوجا بھی ہے‘‘ کے عنوان سے اردو روزنامہ سہارا میں ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے سوریہ نمسکار کے لئے لکھا ہے یہ ایک طریقہ ہے سورج کا شکریہ ادا کرنے کا کیوں کہ و ہ زمین پر زندگی کو برقرار رکھتا ہے۔
Expressing gratitude of the sun for sustaining life on this planet
سوریہ نمسکارکی چھٹے آسن کی تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ انسان زمین پر الٹا لیٹ جاتا ہے، اس کے نیچے گھٹنے، سینہ، کندھا، ہاتھ اور تھڈی سب زمین سے لگ جاتے ہیں اور آنکھیں جھک جاتی ہیں اور اس آسن کو کہاجاتا ہے اشٹنک نمسکار یعنی بدن کے آٹھ اعضا کے ذریعہ سورج کو نمسکار Salute to sun with eight body ports سوریہ نمسکار کا روحانی مقصد یہی ہے کہ انسان دل سے مانے کہ سورج ہی ساری حیات کو چلا رہا ہے۔
ٹائمس میوزک نے سوریہ نمسکار پر ایک ایپ (App) تیار کیا ہے جس کے تعارف میں لکھا ہے کہ یہ ورزش صبح کے وقت پورب کی جانب منھ کر کے ہی کی جانی چاہئے، کیوں کہ اسی وقت اس سمت سے سورج نکلتا ہے، نوئیڈا میں مقیم تنظیم ہیلتھ انیڈ یوگاپر لکھا ہے کہ سوریہ نمسکار کے آسنوں میں سے پہلا ہے پرنام آسن یعنی سورج کو پرنام کیا جارہا ہے، امریکہ وکناڈا کی پرنامی تنظیم کی ویب سائٹ Pranamai.org پر لکھا ہے، پرنام کا مطلب ہے میں آپ کے اندر کے اعلیٰ ترین خدا کے سامنے سرجھکاتا ہوں، رگ وید میں لکھا ہے کہ تمام متحرک اور غیر متحرک اشیاء کی روح سورج ہی ہے اور اس لئے سوریہ نمسکار میں صبح سورج نکلتے وقت اس کو متعدد طرح کے سجدے کئے جاتے ہیں او ر سوریہ نمسکار کے ۱۲ آسنوں میں سے ہر ایک میں سورج کی خدائی کا جشن منانے کے لئے الگ الگ منتر پڑھے جاتے ہیں ، پرنا یوگا Pranayoga پر درج ہے، سوریہ نمسکار سورج کے طلوع وغروب کے وقت اس کی پوجا قدیم طریقہ ہے، پورے ہندوستان میں صبح کے وقت ہندوخواتین وحضرات کھڑے ہوکر سورج کی پوجا کرتے ہوئے دکھتے ہیں۔(ڈاکٹر سید ظفر محمود، مضمون سوریہ نمسکار صرف ورزش نہیں پوجا بھی، روزنامہ سہارا اردو ۲۲؍ستمبر ۲۰۱۶ء)
سوریہ نمسکار کی حقیقت کے سلسلے میں ابوالعزم نے بی کے ایس اینگر کے حوالے سے لکھا ہے پراناماسے جسم اور عقل کی تمام ناپاک چیزیں خارج ہوجاتی ہیں اور مقدس آگ کے شعلے انہیں توانائی دیتے ہیں اور رعنائی سے پاک کردیتے ہیں تب ایک شخص دھرانا Concent ration اور دھیانا Dhyana meditation کے قابل ہوتا ہے، اس مقام تک پہونچنے کے لئے طویل مدت درکار ہوتی ہے، (Light of yoga 461) ہندومذہب کے عقائد میں سوریہ پوجا کو بڑی اہمیت حاصل ہے، زندگی کے بیشتر کام طلوع شمس کے رخ کو ملحوظ رکھ کر کئے جاتے ہیں، ہر روز سورج کی پوجا کی جاتی ہے، تمام مندروں کے دروازے مشرق کی طرف کھلتے ہیں، سورج چاند ستارے اور زمین بحر، پہاڑوں ودریاؤں کو پوجا کی جاتی ہے( ابوالعزم،یوگا شریعت اسلامی کی روشنی میں، ص: ۵۹)
Benefits of sun soultation.com پر لکھا ہے سورج کے بغیر زمین پر کوئی زندگی نہیں ہے، سوریہ نمسکار سورج کے آداب بجالانے اور اس کو خوش کرنے کا قدیم طریقہ ہے، کیوں کہ سورج ہی اس دھرتی پر زندگی کی تمام شکلوں کا ذریعہ اور واسطہ ہے۔(B.O.S.S.Com)
شری روی شنکر کا قول ہے کہ بھارت کی قدیم رشیوں کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ جسم کے مختلف حصوں پر مختلف دیوتاؤں کی حکومت ہے، انسانی جسم کا مرکزی نقطہ ناف کے پیچھے ہے(سوریہ نمسکارمیں) اس نقطہ کو سورج کے ساتھ منسلک کیا جائے اس کی باقاعدہ پریکٹس آدمی کی تخلیقی اور بدیہی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے، ہمارے تمام جذبات شمسی توانائی میں محفوظ ہیں۔( ایضا)
اہل علم کی آراء اور سوریہ نمسکار کی حقیقت کے سامنے آجانے کے بعد اس کا شرعی حکم معلوم کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا بالکل آسان ہے، ظاہر ہے کہ سوریہ نمسکار ہندؤں کے عقیدے کے مطابق سورج کو خدا کا درجہ دیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ انسان دل سے مانے کہ سورج ہی حیات کو چلارہا ہے جب کہ یہ عقیدہ اسلام کے بنیادی عقیدے کے خلاف ہے، سوریہ نمسکار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سورج کو بھی پالن ہار تسلیم کرلیا جائے جب کہ یہ کھلا شرک ہے، قرآن کریم میں ایسی بہت سی آیتیں ہیں جس میں سورج کو مخلوق بتایا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نبوت سے پہلے جب الوہیت وربوبیت میں غور کررہے تھے تب انہوں نے سورج کو نکلتے دیکھا اور کہا ہذا ربی ہذا اکبر یہ میرا رب ہے اور یہ سب سے بڑا ہے، لیکن جب سورج غروب ہوگیا تو ابراہیم علیہ السلام نے سورج کے رب ہونے کا انکار کرتے ہوئے فرمایا: لا احب الآفلین.(الانعام:۷۶) میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہوں۔
جس نے بھی قرآن شریف کا سرسری ترجمہ پڑھا ہے وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا ہے کہ یہ کائنات فانی ہے اس کا ہرذرہ ختم ہونے والا ہے اس میں کسی چیز کو بھی بقا ودوام حاصل نہیں ہے اور قیامت سے پہلے انسان سمیت زمین وآسمان کی تمام چیزیں بشمول زمین وآسمان شجر وحجر پہاڑ دریا یہاں تک کہ چاند وسورج اور ستارے سب بے نور ہوجائیں گے، اس لئے روئے گیتی کے دیگر اجرام ارضی وسماوی کے ساتھ چاند وسورج کے سامنے سجدہ ریز اور سجدہ فگن ہونے کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم نے سورج اور چاند کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے سختی سے منع کیا ہے، سورہ فصلت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمِنْ آیَاتِہِ اللَّیْْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذِیْ خَلَقَہُنَّ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُون.(فصلت:۳۷) اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور سورج اور چاند ہیں(اے لوگو!) تم سورج اور چاند کی پوجا نہ کرو بلکہ اپنا سر صرف اس اللہ کے سامنے جھکاؤ جس نے ان کو پیدا کیا، اگر تم صحیح معنوں میں ایک اکیلے کی بندگی کے دعویدار ہو۔
قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر یہ بات بہت صاف اور صریح کہی گئی ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جتنی بھی جاندار اور بے جان مخلوق ہیں سب کی سب صبح وشام اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہیں، انہی میں سورج، چاند، تارے، پہاڑ ، درخت اور ہر طرح کے جاندار شامل ہیں( رعد: ۱۵، نحل:۴۹،حج:۱۸) اسی طرح دوسری جگہ میں کہا گیا کہ یہ سورج اور چاند اپنی مرضی کے مالک اور خود مختار نہیں؛ بلکہ ان کو انسانیت کی خدمت گزاری اور نفع رسانی کے لئے اللہ تعالیٰ نے لگارکھا ہے۔(لقمان:۲۹، یٰس:۳۸۔۳۹)
ترمذی شریف کی روایت ہے کہ حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سورج کے غروب کے وقت میں مسجد میں داخل ہوا تو آپﷺ نے پوچھا جانتے ہو کہ یہ سورج غروب ہوکر کہاں گیا تو میں نے کہا اللہ اور اللہ کے رسول کو زیادہ بہتر معلوم ہے تو آپﷺ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں سجدہ کی اجازت چاہنے گیا ہے، اس کو سجدہ کی اجازت ملے گی وہ سجدہ کرے گا پھر اسے قیامت کے قریب یہ حکم ہوگا کہ وہ جہاں سے آیا ہے وہاں سے طلوع ہو، چنانچہ اس دن سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔(سنن الترمذی، باب ما جاء فی طلوع الشمس من مغربہا۔مسلم شریف، باب بیان الزمن الذی لا یقبل فیہ الایمان، حدیث نمبر:۲۵۰)
قرآن وحدیث کی اس صاف رہنمائی سے ہر ایمان والا بخوبی واقف ہے اس لئے ایک مسلمان صرف ایک اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے سامنے جھکنے کو وہ اپنے لئے ننگ وعار اور اپنے ایمان کے لئے خطرہ محسوس کرتا ہے۔
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ نے سوریہ نمسکار کو اسکولوں میں لازم کرنے کی بات کہی ہے اور اس کی دلیل انہوں نے یہ دی ہے کہ سوریہ دیوتا وٹامن D کا بہت بڑا ذریعہ ہے سو ہر طرف مناسب ہے کہ ان کا اُدے ہوتے ہی اس خزانے کو اپنے سرایا میں منتقل کرلیا جائے، یہاں غور کرنا چاہئے کہ اسلام نے صحت بخش ہوا وغذا سے منع نہیں کیا ہے، بلکہ صحت بخش چیزوں کے استعمال کی اجازت دی ہے اور سورج کے ذریعہ اس وٹامن کو حاصل کرنے کا آج کی ترقی یافتہ سائنس میں بھی اس کا کوئی متبادل نہیں ہے، لیکن وٹامن D کے حصول کے پہلو سے یہ اوقات ناموزوں ہیں، اس لئے کہ اپنی پیدائش اور موت کے ان دونوں وقتوں میں سورج کمزوری کی حالت میں ہوتا ہے تو جب وہ خود موت وزیست کی کشمکش کی حالت میں ہو تو و ہ دوسروں کو طاقت اور زندگی پہنچانے کا اہل کس طرح ہوسکتا ہے ( اصلاحی،سلطان احمد، سہ ماہی علم وادب ۶۶،اپریل ۲۰۱۵ء)
اس کے ساتھ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ سورج خالق نہیں مخلوق ہے اور انسانوں کی خدمت ونفع رسانی اس کی تخلیق کا مقصد ہے، لہٰذا سورج سے خوب وٹامن حاصل کیا جاسکتا ہے اور ہر وقت حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لئے سورج کے سامنے ہاتھ جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے کوئی اپنے آقا کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہے اور آداب بجا لاتا ہے اپنے ماتحت کے سامنے ہاتھ جوڑنے اور آداب بجالانے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے، اس کو آپ مثال سے یوں سمجھئے کہ اگر آپ کا کوئی بہی خواہ آپ کو ڈاک سے تحفہ بھیجے تو آپ کس کے احسان مند ہوں گے؟ ڈاکیہ کا یا تحفہ روانہ کرنے والے کا، عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ جس نے تحفہ بھیجا ہے اس کا شکریہ ادا کیا جائے، مسلمانوں کے نزدیک سورج کی حیثیت کورئر بردار کی ہے، اس لئے وہ سورج کی نہیں سورج کے خالق خدائے واحد کے آگے سربسجود ہوتے ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ سوریہ نمسکار ہندؤں کے مذہبی عمل کا ایک حصہ ہے اور مسلمانوں کے عقیدہ توحید سے براہ راست متصادم ہے،اس میں سورج کو خدا کا درجہ دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق سورج خدا کی مخلوق ہے، سورج کو خدا تسلیم کرنا شرک ہے اور مسلمان عقیدہ توحید کے خلاف کوئی عمل ہرگز نہیں کرسکتا ہے، اس لئے سوریہ نمسکار کرنا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے اور اس پر اصرار کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔

Share
Share
Share