سفرنامہ ۔ سفر در سفر :- محمد سمیر

Share
محمد سمیر

سفرنامہ
سفر در سفر

ازقلم: محمد سمیر
ایم۔اے سال آخر ‘ شعبۂ اُردو
سنٹرل یونی ورسٹی آف حیدرآباد

’’یہ نا چیز کا مختصر سفر نامہ ہے، جس میں، میں نے حسبِ موقع جگہ جگہ مقامی زبان کیساتھ ساتھ انگریزی زبان کا بھی استعمال کیا ہے۔‘‘
زندگی کا مقدر سفر در سفر
آخری سانس تک بے قرار آدمی (ندؔ افاضلی)

یوں تو حیدرآباد آنا جانا بچپن ہی سے لگا ہے، چونکہ یہاں چچا، پھوپی، خالہ وغیرہ کا بسیرا ہے جس کی بنا پر سال میں دو چار بار کسی نہ کسی بہانے سے ایک آدھ سفر ہو ہی جاتا تھا۔ لیکن سفرِ حیدرآباد تعلیمی بنا پر بڑا کٹھن اور دشوار تھا۔ ہاں اس دشواری میں بھی ایک قسم کا لطف ضرور پنہاں تھا۔ چونکہ بی۔اے کے امتحانات ہوتے ہی استادِ محترم ڈاکٹر کلیم محی الدین صاحب کے مشورے سے (جوکہ ایچ۔سی۔یو کے طالب علم رہ چکے ہیں) ایچ۔سی۔یو کے انٹرینس اگزام کے لیے اپلائی کر چکا تھا، جس کی گھر والوں کو خبر نہ تھی۔ گھر والوں کے دماغ میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ پڑھائی سے ہر کوئی آگے نہیں بڑھتا اور نہ ہی ہم تمھیں اتنا پڑھا سکتے ہیں کہ تم سرکاری ملازم بن جاؤ۔ خصوصاً اردو کے متعلق محلّے و شہر والوں کے غلط مشوروں نے اور بھی بات بگاڑ رکھی تھی۔
اس وقت گھر والوں کے الفاظ یوں تھے:
’’کِتّا بی پڑلیا تو اتّے کچ ہے، پڑکے کونسا عود جلانا ہے خامش بھئیا کے ساتھ کام پہ جا‘‘
بہر حال‘جیسے تیسے ہمت کر کے انٹرینس اگزام کے لیے اپلائی تو کردیا، باقی اللہ مالک۔ اسی اثناء میں کسی کام سے ماموں کے لڑکے کیساتھ حیدرآباد کا سفر ہوا۔ اسی قیام کے دوران انٹرینس کی تیاری کے لیے ایک کتاب بھی خرید لی، لیکن پڑھائی کا نظام الاوقات بن نہیں پارہا تھا۔ مگر جب بندہ چاہ لے تو خدا بھی مہربان ہوتا ہے۔
اسی کے متعلق حفیظ بنارسی کا ایک شعر یاد آرہا ہے، جو بچپن میں سن کر رٹ لیا تھا
تدبیر کے دست رنگیں سے تقدیر درخشاں ہوتی ہے
قدرت بھی مدد فرماتی ہے جب کوششِ انساں ہوتی ہے۔
بہر حال کوشش جاری تھی اور دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے روزانہ سونے سے پہلے ایک گھنٹہ پڑھائی کا مختص کیا، یہ معمول شروع ہی ہوا تھا کہ حیدرآباد کے چند دن کے قیام کے بعد ہم دو بھائی جس کام سے آئے تھے اسی کے متعلق کرنول کے لیے روانہ ہوئے جو تقریباً حیدرآباد سے 200 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے، ایک تو موسم گرما اور اس میں سفر! بڑا دلخراش تجربہ تھا۔بہر حال کام تو ہوتا رہا لیکن پڑھائی کی کوئی ترتیب نہ بن سکی۔ اسی طرح جیسے تیسے وقت گزرتا گیا اور بس تھوڑی سی تیاری تھی نہ سابقہ امتحان کے پیپرس تھے نہ کوئی رہبر۔
’’بس ایک ہی دعا زبان پر تھی کہ خدایا مجھے پڑھنا ہے۔‘‘
کئی کئی دفعہ نیٹ پر انٹرینس کا ہال ٹکٹ چیک کرواتا، اب ماہِ رمضان بھی شروع ہوچکا تھا دھوپ کی تپش خدا کی پناہ، ٹمپریچر کبھی 49 تو کبھی52 تک چلا جاتا۔ کرنول سے تقریباً 60 کلو میٹر پہ ایک دیہات ہے وہیں پر قیام تھا۔ بس ایک ہی فکر دامن گیر تھی کہ اب ہال ٹکٹ آگیا تو ماہ رمضان میں کرنول سے حیدرآباد کیسے جایا جائے گا؟ نہ وسائل ہیں اور نہ ہی کوئی رہبر، لیکن اللہ کا کرم ہوا اور دو ساتھی مل گئے جو کرنول سے حیدرآباد پہنچنے میں معاون بنے، جن کا احسان زندگی بھر یاد رہے گا ان شاء اللہ۔
اب چونکہ ہال ٹکٹ بھی آچکا تھا اور دوسرے ہی دن حیدرآباد کے لیے روانہ ہونا تھا، روزے کی حالت میں وہ بھی موسم گرما۔۔۔۔ بہت بڑی دشواری آن پڑی تھی، لیکن اب کر بھی کیا سکتے تھے کچھ پانے کے لیے کچھ تکالیف تو برداشت کرنی ہی پڑتی ہیں۔ اب سفر شروع ہوا ٹرین اسٹیشن پہ آئی اور میں بیٹھ گیا سیٹ بھی مل گئی تقریباًچھ یا ساڑھے چھ گھنٹے کا سفر تھا اب بات آئی افطار کی، جس کا کوئی نظم تو تھا نہیں، لیکن کھجور ساتھ تھی جس سے افطار کیا اور عشاء کے بعد شمش آباد ایر پورٹ کے قریب کے اسٹیشن پہنچ گیا، وہاں سے پھر ٹولی چوکی آکر ایک دوست کے ہاں جو کہ بھائی کی عمر کے تھے ٹھہرا۔ ایک تو موسم گرما کا روزہ اور ڈھنگ سے افطار بھی نہ ہوا تھا، اب انتڑیاں ”قل ھو اللہ” پڑھ رہی تھیں امید تو تھی نہیں کھانے کی، مگر دوست نے پوچھ لیا کہ کھانا کھایا ہے؟ میں نے کہا نہیں –
اس کے بعد اس کے الفاظ تھے
’’کیا میاں بولنا نئی؟ غیروں کے جیسا کیکو کرّے؟‘‘ چلو کھاتے ہیں، بس اسی جملے سے آدھا پیٹ بھر گیاتھا، اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ آمین۔
پھر جیسے تیسے کتاب ہاتھ میں لی اور سوچا کچھ دیکھ لوں۔ لیکن اب ایک تو سفر کی تھکان، اُپّر سے دوسرے کی دکان (یعنی دوسرے کا گھر) بہر حال۔۔ رات جیسے تیسے کٹی سحر کے سارے دوست اٹھ گئے اب سحر کیا فجر بعد سونے کا کوئی چانس نہیں تھا کیوں امتحان ’’سر پہ رکّے کس کو نیند آتی؟‘‘پھر یہ بھی مرحلہ پار ہوا۔ اب اصل مرحلہ آیا جس کی وجہ سے اتنی جد و جہد اور اتنا لمبا سفر طے کیا تھا۔میں اب پوچھ پوچھ کر بس اسٹاپ پہ آیا اور بس کے انتظار میں تھا، اتنے میں بس آگئی ، ایسا لگ رہا تھاجیسے بس میں خواجہ کا لنگر ہے، یکدم بھری پڑی، جب میں بس میں چڑھا تو سہارے کے لیے بس کا ڈنڈا پکڑا ایسا لگ رہا تھا گویا کہ صبر کا ڈنڈا پکڑا ہوا ہوں۔ ’’کھڑینے کو تک جگا نئی، مئی بولا اللہ یہ کیا تو ظُلُمْ ہے اِتّے سے اگزام کو اِتّا ظُلُمْ کی؟‘‘ بہر حال ناشکری کے ڈر سے صبر کی کڑی پکڑے رہا۔ جیسے تیسے یہ سفر بھی پورا ہوا اور یونی ورسٹی آف حیدرآباد کے دیدار نے ساری تکلیفیں بھلادیں، لیکن اس وقت مجھ پر ایک قسم کا ڈر اورہیبت طاری تھی۔ سونچ رچ تھا کہ ”اب کیا ہوءِنگا،کیسا ہوءِنگا”۔ اندر آیا تو دیکھا بس کا نظم ہے اور ترتیب وار سب اپنے اپنے سینٹر میں اگزام دینے کے لیے جارہے ہیں۔ میں بھی بس میں سوار ہوگیا، سی۔آئی۔ایس سینٹر تھا وہاں جاکر اگزام ہال کا نمبر ڈھونڈ کر اگزام ہال میں جاہی رہا تھا، کہ فون کی پابندی یاد آگئی، اب تذبذب میں تھا کہ ایک بندہ مل گیا اس سے گاڑی میں فون رکھوادیا لیکن ایک ڈر تھا اور یہ خیال ذہن میں گردش کررہاتھا’’” اِنے رہتا کی جاتا کی،” چلو اللہ مالک بولکے رکھ دیا‘‘” اگزام لکھا کچھ آسان سا لگا اور اب ساری فکر ختم ہوچکی تھی، امتحان لکھ چکا تھا، اب بس واپس کرنول جانے کی فکر باقی تھی کیوں کہ وہاں کام بھی باقی تھا۔ اب ایک اللہ کا مخلص بندہ ملا جس نے ایچ۔سی۔یو کے اسمال گیٹ تک بائک پہ چھوڑدیا ورنہ تو۔۔۔۔ پہلے ہی دھوپ کی وجہ سے روزہ لگ رہاتھا اور مین گیٹ تک پیدل جانا پڑتا، تو میت نکل جاتی۔ بِچارہ بندہ فرشتہ بن کے آگیا۔اب پھر سے بس کا انتظار تھا سنسان روڑ اور نہ بس کا پتہ ہے نہ کوئی آٹو کا۔ ایک ڈر یہ بھی کہ 1:30بجے کی ٹرین کہیں چھوٹ نہ جائے، لیکن یہاں تو اتفاق کی بھی انتہاء ہوگئی، کہ ایک اور اللہ کا مخلص بندہ مل گیا جس نے ٹولی چوکی فلائی اوور تک چھوڑ دیا۔ ظہر پڑھتے ہی وہاں سے دوست نے کیب بک کروائی اور کاچی گوڑا اسٹیشن سے الحمد للہ ٹرین بھی مل گئی، ورنہ پھر مجھے دوسری ٹرین میں جانا پڑتا جوکہ 5:30 کو تھی۔ پھر وہی سفر روزے کی حالت افطار بھی وہی، اب معاملہ کرنول پہ بگڑ گیا وہاں سے جس دیہات میں مجھے جانا تھا اس کی ٹرین آہی نہیں رہی تھی 9بج گئے تب آئی۔ اسی اثناء میں اورایک ساتھی مل گیا اب پھر پاپی پیٹ کا بھی تو سوال تھا، ہوٹل میں کچھ بھی میسر نہ ہوا تو نوڈلس ہی پہ کام چلاکر پھر اپنی قیام گاہ کی طرف بڑھا۔۔۔ عید ہوئی اور اسی اثناء میں بی۔اے کا ریزلٹ آگیا، خوش خبری ملی کہ میں فرسٹ ڈویژن سے پاس ہوگیا۔۔۔اب بھائی کے ساتھ پھر دہلی کا سفر شروع کیا وہی دہلی جو میرؔ و غالبؔ کا دبستان کہلاتی ہے، جو صدیوں سے ہندوستان کا دارالحکومت ہے، جہاں کئی ہنگامے برپا ہوئے ہیں، جہاں تاریخ کے کئی نقوش ملتے ہیں، جو ایک زمانے میں علم و وادب کا گہوارہ ہوا کرتی تھی۔وہاں صرف دو دن کا قیام رہا پھر وہاں سے فرّخ آباد کا سفر کیا جہاں پہنچتے ہی دوست کے کال و میسیج آئے ہوئے تھے جو سفر میں فون کے بند ہونے کی بنا پر ریسیو نہ کر پایا تھا، جیسے ہی کال کیا تو خوش خبری ملی کے آپ کا نام لسٹ میں آگیا، بڑی خوشی و مسرت تو ہوئی لیکن پھر تصورِ سفر نے مایوس کردیا، ہمت سمیٹ کر خود کو تیار کیا اور دوسرے ہی دن واپس حیدرآباد جانے کا ارادہ کیا، فرّخ آباد سے دلّی پہنچتے ہی ہمارے علاقے کے چند ساتھی مل گئے تو تھوڑی راحت ملی، پھر ہم سب لوگ عادل آباد کے لیے روانہ ہوئے جوکہ میرا آبائی شہر ہے۔ عادل آباد آتے ہی سب کو معلوم ہوگیا کہ میں نے ایچ۔سی۔یو کا انٹرینس کوالی فائی کرلیا ہے تو بہتوں نے مبارکباد دی اور حاسدین کا تو کام ہی ہے جل جل کے مرنا۔ بہر حال گھر والوں کو جب لوگوں کے ذریعے معلوم ہوا تو وہ لوگ بھی تھوڑا سا خوش ہوئے تھے، لیکن یہ خوشی چند گھنٹوں کی تھی۔ بہر حال میں پھر سے حیدرآباد کے لیے روانہ ہوا اور جامعہ میں تسجیل کے لیے پہنچا، تب پتا چلا کہ میں او۔بی۔سی کی لسٹ میں ہوں اور ویٹنگ لسٹ میں میرا پہلا نام ہے، اگزام کوالی فائی کرنے کی خوشی میں یہ بھی دیکھ نہیں پایا کہ میرا نام کونسی لسٹ میں ہے۔ اپلائی کرتے وقت کم بخت غلطی سے او۔بی۔سی ڈال دیا گیا جس کا سرٹیفکیٹ میرے پاس نہیں ہے اور نا ہی ہمارے اسٹیٹ میں شیخ کے لیے بن پائے گا۔ کیونکہ تلنگانہ کے انتیسویں ریاست ہونے کے بعد سے کاسٹ کی اس لسٹ میں شیخ کو سینٹرل لیول پہ جنرل مانا جارہاہے۔ اب مایوسی کا عالم چھایا ہوا تھا مجھ پر، جس کو میں نے اس شعر سے تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے ؂
اُداس راہیں، شِکستہ آہیں، مرا مقدر، مرا اثاثہ
طویل کاوِش پسِ سفر ہے،بہت ہی مشکل میراخلاصہ
نامعلوم سی مایوسی میں پھر مادر وطن کے لیے روانہ ہوا، جاتے ہی کسی نے پوچھ لیا کہ کیا ہوا تسجیل (رجسٹریشن) ہوگئی؟ اس وقت میری خاموشی جواب دے رہی تھی جسے میں نے اپنے اس شعر میں بیان کیا۔
جسکی تھی جستجو ملا نہیں
میرے زخم کو نہ کریدنا یارو
جو گزرنا تھا سو گزر گیا لیکن
مرے حال پہ رحم کھانا یارو
پھر چار دن بعد یعنی 17-07-2017 کو ویٹنگ لسٹ کی امید پہ بڑی ہمت سے آیا جس میں پہلا نام میرا ہی تھا، ایک تذبذب کا سا ماحول مجھ میں برپا تھا۔ جس سے ڈر عیاں ہورہا تھا۔ پھر جیسے ہی میرا نام لیا گیا تب جان میں جان آئی، بس اب جیسے ہی نام سننا تھا سرٹیفکیٹس ویریفکیشن کرواتے ہی جگہ جگہ فون لگ گیا۔ اب کی بار ایسا لگ رہا تھا جیسے ساری تکلیفوں سے نجات مل گئی، اب میں خوش و خرم گھر کے لیے روانہ ہوا اب محسوس ہورہا تھا کہ جیسے میں سفر میں نہیں کسی مہم پہ ہوں، لیکن اس بار سفر کا لطف ملا اور عجائب سفر دیکھنے کو ملے۔کھیتوں، جنگلات، کھنڈرات کے مناظر کا نظارہ ہورہا تھا، تو کہیں قسم قسم کے پرندے درخت، پھل پھول اور جانور نظر ارہے تھے۔ اور ٹرین کا یہ ماحول تھا کہ کوئی دوستوں میں گپ شپ کر رہا تو کوئی خاندان اپنے ڈبے میں انتاکشری کا کھیل کھیل رہا ہے اتنے میں کوئی مونگ پھلّی بیچنے والا آتا ہے، تو کوئی کھانے کا پارسل لاتاہے، کوئی سموسہ لاتا ہے اور کہیں خیرات مانگی جارہی ہے تو کہیں لوگ سوئے پڑے ہیں انھیں کے درمیان ایک ایسی ٹولی بھی ہے جو چوری کے فراق میں ہی تھی جنھیں دیکھ کر نیند تو آنے سے رہی، بھوک کا بھی کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ غرض یہ کہ سارے عجائب سے محظوظ ہورہا تھا، پھر گھر گیا وہاں ہر کسی نے مبارکباد دی سوائے چند ایک کے، اللہ انہیں صحیح سمجھ عطاء کرے۔۔آمین۔پھر گھر سے ضرورت کا سامان لے کر واپس یونی ورسٹی روانہ ہوا، اور ڈپارٹمنٹ آف اردو میں اساتذہ کرام سے مستفید و مستفیض ہورہا ہوں کہ ہر ایک اپنے فن کے ماہر ہیں اور ادب کی خدمت کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ابھی تو یونی ورسٹی آف حیدرآباد کا قیام جاری ہے، دیکھیے پردہء غیب سے کیا کیا ظہور میں آتا ہے۔ دو شعر کے ساتھ اختتام کرتا ہوں ؂
سفر طویل ہے روداد پھر سناؤں گا
ابھی تو عزم مرا آہنی چٹان سا ہے
نظارہ کرنے تو دو اوج کا مرے یارو!
ابھی تو مرا ارادہ بھی آسمان کا ہے

Share

One thought on “سفرنامہ ۔ سفر در سفر :- محمد سمیر”

Comments are closed.

Share
Share