قلی قطب شاہ کی شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر :- ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان

Share
ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان

محمد قلی قطب شاہ کی
شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر

ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان
حال مقیم شکاگو ۔ امریکہ

حیدرآباد فرخندہ بنیاد صدیوں سے ہندو مسلم اتحاد کا مسکن رہا گزشتہ پانچ سوسال سے قبل گولکنڈہ حکمرانوں نے ہندو مسلم قومی یکجہتی کے نغموں سے اپنے محلات میں شاندار تاریخ رقم کی محمد قلی قطب شاہ ہندوستان کا واحد حکمران تھا جس نے تلنگانہ کے علاقہ پر ہندو مسلم اتحاد کی حکومت قائم کی-

قطب شاہی دور کا یہ پانچواں حکمران ابراھیم قطب شا ہ کے محل میں ۱۴/ رمضان المبارک ۹۷۳ھ م ۱۴/ اپریل ۱۵۶۵ء بروز جمعہ دوپہر قلعہ گولکنڈہ میں پیداہوا۔ ابھی وہ ۱۶ سال کا تھا والد ابراہیم قطب شاہ کا انتقال ۲۱/ ربیع الثانی ۹۸۸ھ میں ہوا۔ پندرہ سال سات ماہ کایہ ٹین ایج کا لڑکا تخت سلطانی کا وارث ہوگیا۔ تاریخ قطب شاہی کے حوالے سے ڈاکٹر زور‘‘ حیات قلی ‘‘میں رقم طراز ہیں۔ جب ابراہیم قطب شاہ بہ حیات تھے رائے راؤ برہمن سے اہم معاملات میں مشورہ لیا کرتے تھے ان کے مشورے پرمحمد قلی قطب شاہ کو قطب شاہی سلطنت کا وارث او رجانشین بنایا گیا اس امر سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ محمد قلی قطب شاہ کے والد ہندوصاحب رائے راو اور دانش مند کے مشورے پر عمل کیا کرتے تھے۔ اس بیان کی تصدیق ملا وجہی کی‘‘ قطب مشتری ‘‘سے بھی ہوتی ہے۔ وجہیؔ لکھتا ہے۔
دیا شاہی اپنی قطب شاہ کو
کہ بوڑھا ہوا میں کراب راج تو
قطب شاہ کو شاہی مقرر ہوئی
کہ باپ اور بیٹے میں نہیں کچھ دومی (دودمی)
موضوع گفتگو محمد قلی قطب شاہ کی قومی شاعری ہے۔ یوں تو انھیں رنگین مزاج عیش پرست شرابی شاہ کی حیثیت سے شہرت حاصل ہیں لیکن اسی رنگین مزاج سیکولر بادشاہ کی قومی شاعری پر بہت کم لکھا گیا اس کی قومی شاعری میں ہولی بسنت بہار‘ مرگ‘نوروز‘شب برات‘ چندر مکھاں‘ تھنڈ کالا‘ محلات کی تعریف اور بارہ پیاریاں ‘ وغیرہ ملتی ہیں۔
محمدقلی قطب شاہ کے قلمی دواوین جو کتب خانہ سالارجنگ اور او ایم ایل میں محفوظ ہے اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ وہ اپنی نظموں میں کوئی عنوان درج نہیں کیا۔ راقم نے اس قلمی نسخوں کابغور مطالعہ کیا ہے۔ڈاکٹر زورؔ کی مرتبہ کلیات محمدقلی قطب شاہ کی تدوین میں زورؔ صاحب نے نظم کے مطالعہ سے عنوانات قائم کئے ہیں۔ انھیں اپنے پیش روبناکرمحمد قلی اس نظم میں کہتا ہے آج مرگ کادن ہے بادشاہ ستارہ بن کر آیا ہے تمام درخت پھر سے ہرے بھرے ہوجائیں گے اوراپنے سروں پر لال تاج رکھنے لگے ہیں اس موقعہ پر لال رنگ زیب دینے لگا اور اس رنگ سے سورج بھی شرما کر ہررات منہ چھپالیتا ہے۔ وہ اس نظم میں اپنی تعریف اس طرح بیان کرتا ہے کہ تیری تلوار اس قدر تیز ہے۔
پروفیسر سیدہ جعفرہ نے بھی یہی عنوانات رقم کئے ہیں۔ تحقیق میں تحریف کی تعریف میں آتا ہے۔
گولکنڈہ تلنگانہ کا دارالخلافہ تھا یہاں کے موسم برسات شروع ہونے سے قبل مرِگ سے کارتی شروع ہوتی ہے۔ اس کو تیلگو میں مرگم بھی کہتے ہیں۔ یہ کارتی راست عوامی فائدے سے تعلق رکھتی ہے ۔اس کارتی کے ساتھ جنوبی ہند میں بارش کاآغاز ہوتا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ اس کا رتی کو موضوع بناکر کوئی پندرہ نظمیں لکھیں ہیں۔ ان میں نوائے اشعار تحریر کیا ہے۔ایک مکمل نظم ملا حظہ کیجئے۔

مرگ سلطانی ستارہ جگ میں آیا پھر کر آج
رکھ سکل سرسبز ہوکر سرتھے کھلئے لعل تاج
لال رنگ کھلیا ہے مکھ پر لال کے لعل بدخش
تو سرج اس رنگ تھی ہر رات جادے لاج لاج
میرے اُنم سردکوں رکھ تو سداُپر آپ سوں

بادِ رحماں آب کو ثر سیتی دے اس کوں رواج
تیرے مکھ پر خسروی فرمنور دیتا
توہی ترکستان کے شاباں دیوئے تج کوں خراج
تج کھڑگ تھے تیغ دسم پست ہیں شجاعت کا سراج
رستماں میں تج کوں گنتے ہیں شجاعت کا سراج

دکھڑک جھلکار بجلی ہوکے جھمکے کھن سنے
کٹر کڑا پر گڑگیا ہے سب ہی دشمن کا براج
بھنوں کماناں ناچڑاآب لوچناں کے گوشے سوں
کیونکہ تج شاہی کی دشئی تل دیسی دوجے دوراج
آسمان دور کا چوگاں لے چڑھتے شہ ترنگ
دورچوگاں جو ہلجے گیند ہلجے ہیں راج
اے معانیؔ توں دعا تھے ہورہیا تھا نا امید
تج دی بامدعا ہے کر محمد نمنے راج
محمدقلی اس نظم میں کہتا ہے آج مرگ کاون ہے بادشاہ ستارہ بن کرآیا ہے تمام درخت پھر سے ہرے بھرے ہوجائے گے اواپنے سروں پر لال تاج رکھنے لگے ہیں اس موقعہ پر لال رنگ زیب دینے لگا اور اس رنگ سے سورج بھی شرما کر ہر رات منہ چھپا لیتا ہے۔ وہ اس نظم میں اپنی تعریف اس طرح بیان کرتا ہے کہ تیری تلوار اس قدر تیز ہے۔
اس کے سامنے رستم زماں بھی کمزور پڑھ جاتا ہے تو تمام رستموں سے شجاعت وبہادری میں بہتر ہے۔ تیری تلوار کی چمک بجلی کی طرح آسمان پر چمکے گی۔
محمد قلی قطب شاہ سیکولر بادشاہ تھا اس کی ایک اور مثال بسنت بہارموسم عنوان سے ملتی ہے شمالی ہند میں اور خصوصاََ پنجاب میں بیسا کھی کا تہوار منایا جاتا ہے اس موسم میں عوام اپنے کھیتوں میں جاکر دھان کا ٹتے ہیں بسنت کے عنوان سے اس کے کلیات میں چھ نظمیں ملتی ہے ان میں پچاس اشعار ہیں چند اشعار ملا حظہ کیجئے۔
بسنت کھلیں عشق کا آپیار
تمیں ہیں چاند میں ہوں جوں ستارا
نچھل کندں کے تاراں رنگ جھونا
بندی ہوں چھند بندسوں کرسنگارا
بسنت کھلیں ہمن ہور ساجنا ہوں
کہ آسماں رنگِ شفق پایا سارا
شفق رنگ جھینے میں تارے تکٹ جنایوں
کہ اسمان رنگ شفق پایا ہے سارا
پیاپگ پڑملا کر لیائی پیاری
بسنت کھیلی ہودرنگ رنگ سنگارا
بسنت ونت چھند سوکندگال اوپر
پھولا یا آگ کیسر کی بہارا
نبی صدقے بسنت کھلیا قطب شہ
رنگیلا ہورہیا تر لوک سارا
محمد قلی قطب شاہ کے کلام میں ہندوستانی کلچر اور ماحول نمایاں ہے تلنگانہ کی ہندودیومالا اور ہندوستانی کلچر کا اثر اس کی شاعری میں نمایاں ہے اس کی جنسیات کی شاعری کااثر بھی ہندوستانی تانترک جوگیوں اور برہم کی بازیافت کے نظیریے کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ کلیات کے مطالعہ سے ایسامعلوم ہوتا ہے کہ محمد قلی قطب شاہ سنسکرت زبان سے بھی کچھ حدتک واقف تھا اس کے علاوہ ہندی کے سینکڑوں الفاظ ہمیں کلیا ت قلی قطب شاہ میں ملتے ہیں جیسے گوری‘ لالن‘ موہن‘ پدمنی‘ سجن‘ ساجنی مکھ‘ کجل نین کندن‘ پرم‘ دوتن‘ آنگن‘منڈپ‘جوہر‘جوبن‘ گرجت‘ سہاگن‘ انت ‘داسی وغیرہ۔
محمد قلی قطب شاہ کی بارہ پیاریوں کاذکر یہاں کئے بغیر میری گفتگو ادھوری ر ہے گی یوں تو قطب شاہی دور کے تمام بادشاہ عیش وعشرت کے دلدادہ تھے گواُن کی مادری زبان فارسی تھی پانچواں حکمران محمد قلی قطب شاہ فارسی کے ساتھ ساتھ ہندی تلگو اور دکنی زبان سے واقف تھا اس کا کلیات ان زبانوں کے الفاظ سے بھراپڑھا ہے محمد قلی کی عیش پرستی اور رنگ رلیوں کے قصہ تاریخ قطب شاہی میں بھرے پڑھے ہیں۔ اس نے ایک نظم اپنی محبوبہ ننھی کے لئے لکھی چنداشعار ملا حظہ کیجئے۔
ننھی سرتھے آپ کو سنواری عجائب
مشاط پری ہونگاری عجائب
مدن پھول کے رنگ ساڑی بندی ہے
ہُسے اس کی موتیاں کناری عجائب
شاعر اپنی محبوبہ کے سرکے بالوں کو سنورانے کی تعریف اس طرح کرتا ہے کہ میرے بال سنوارنے سے ایک عجیب خوبصورت نظر آرہی ہے ۔تیری ساڑی کارنگ مدن پھول کے رنگ ہونے سے اوراس کے کنارے موتیوں کی طرح نظر آرہے ہیں۔یوں تو محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں زیادہ تر شاعری عوامی موضوعات پرمبنی ہے۔ غزل تواس کی محبوب صنف سخن ہے لیکن اس کی موضوعاتی نظمیں کافی تعداد میں ملتی ہے۔محمد قلی قطب شاہ اپنی شاعری میں مقامی عیدوں تہواروں اورموسموں کی ہمہ گیری خصوصیات سے کافی دلچسپی آتی ہے گوکہ وہ ایرانی نسل کا بادشاہ تھا پانچویں پشت میں وہ خالص دکنی تہذیب اور تمدن سے اس قدر گھل مل جاتا ہے کہ وہ تلنگانہ کا باشندہ ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ وہ یہاں کی ہر عوامی تقریب چاہے خوشی کی ہوں یا غم کی اسمیں برابر کا شریک رہتا وہ یہاں کے معاشرتی سماجی‘ تہذیبی‘ مذہبی رنگ میں اس قدر کھوجاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے وہ یہاں کا بادشاہ نہیں بلکہ راجا ہے۔ اس کی نظموں کاعمیق مطالعہ کرنے پرمعلوم ہوگا وہ اپنی ایرانیت پر ہندوستانیت کو فوقیت دیتا ہے۔ اپنی شاعری کے ذریعہ اپنے دلی تصورات کی ترجمانی کرتا ہے۔
محمد قلی قطب شاہ کو ہندوستانی فنون لطیفہ سے بے پناہ دلچسپی تھی وہ تو درباری بادشاہ تھا ہی اس کے دربار میں رقص وسرور کی محفلیں آراستہ کرتا تھا ساتھ ساتھ ساز اور آواز سے بھی دلچسپی تھی وہ اپنے اشعار میں ہندوستانی موسیقی کے آلات کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ پروفیسر سیدہ جعفر کلیات محمد قلی میں رقم طراز ہیں۔
محمد قلی قطب شاہ کی موسیقی کے فن سے دلچسپی کا اظہار اس طرح بھی ہوا ہے کہ اس کی نظموں میں مختلف ہندوستانی باجوں یاساز وسامان کے نام ملتے ہیں۔
جیسے کماج یہ ایک قسم کا ساز ہوتا ہے مغلائی جب راگ کھچتی ہے تو کماج پر ساز ندہ زور لگاتا ہے اس سے ایک قسم کی آواز ہوتی ہے جوبہت سریلی ہوتی ہے ۔محمد قلی کا ایک مشہور شعر ملا حظہ کیجئے۔
مدن مست بدن مست کجن مست پری مست
ہوتی مست پون مست لگن مست پری مست

اس شعر میں الفاظ کی تکرار ہے لیکن شعر کس قدر خوب صورت محبوبہ کی تعریف سے سرشار ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں ہندوستانیت کو ٹ کوٹ کر بھری ہے۔ وہ ایک رنگین مزاج عوامی حکمران تھا۔ اس کے کلیات میں جہاں دیگر مذاہب کے تہواروں کا ذکر ملتا ہے وہیں دیگر مقامی کھیلوں پر بھی اس نے نظمیں لکھی ہے جیسے پھوگڑی پھو‘ چوگان‘ کھمڈی ‘ناٹک وغیرہ چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
ساتیں کھیلے نہدسوں چوگان خوش
پیوتھے کردیپے میدان خوش
بات چوگاں سیتی جو بن گیند کر
کھیلو اپ سکیاں تم سلطان خوش
حسن سوں نییہ کا ترنگ چڑکر پھراو
تج تھے پایا اوترنگ پدمان خوش
اس طرح ایک اور کھیل تلنگانہ کی نمائندہ لوک گیت ہے۔ ’’پھوگڑی پُھو‘‘ ایک عوامی کھیل ہے اس کھیل میں بادشاہ بھی شامل ہوجاتا ہے سا زندہ ساز بجاتے ہیں۔ اور عورتیں گیت گاتی ہیں چند اشعار ملا حظہ کیجئے۔
سکی تال دے منج ٹٹکتی کھڑی
کہ ڈھاں ڈھکنی کھیل کر ہٹکتی کھڑی
جو ڈھاں ڈلھکن کے کھیل کھلین آئی دھن
نہ سیک پھوکڑی پھوکھیل مسکتی کھڑی
سب ہی حقہ بھر بھرنہ بوجھیں سوعشق
جو بوجھیں اپس اپ لچکتی کھڑی
محمد شہ ہے اس زمانے کا شاعر
بنی صدقے اس نیہہ ٹھمکتی کھڑی

Share
Share
Share