کالم : بزمِ درویش – کھلونا :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
کھلونا

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:

اُ س کا اندرونی کرب اُس کی ویران آنکھوں میں ساون بھادوں کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا تھا ‘امید کی ایک کرن کے لیے وہ دربدر ٹھوکریں کھاتی پھر رہی تھی ہر گزرتا لمحہ ہزاروں ٹن وزن مزید اُس کے نازک وجود پر گرا دیتا ‘وہ چلتی پھرتی بے بسی ‘ بے کسی ‘ لاچارگی کی تصویر تھی ‘ کٹی پتنگ کی طرح معاشرے کی تندو تیز ہواؤں کے رحم و کرم پر تھی ‘

وہ نازک کلی جس نے چشم تر کے ساتھ جب اِس سنگ و خشت سے بنی ہوئی دھرتی پر قدم رکھا ہو گا تو اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اُسے بنا جرم کے ساری زندگی صلیب پر نازک جسم کے ساتھ لٹکنا ہو گا ‘ زندگی چندسانسوں کے عوض اُس سے اتنی بھاری قیمت وصول کر لے گی یہ تو اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا‘ اپنے ناتواں نازک کمزورجسم کی بقا ء کے لیے روٹی کے چند ٹکڑوں کے لیے چار دیواری میں رہنے کے لیے مو ہنجودوڑو جیسے مردہ معاشرے کے زندہ درندوں سے جان بچانے کے لیے اُس اتنی بھاری قیمت دینا ہو گا یہ تو اُس نے چشم تصور میں بھی کبھی نہ سو چا ہوگا ‘ زندگی اتنی سفاک بے رحم ہو گی اِس کا گما ن بھی نہ کیا ہو گا ۔ اگر یہی کچھ اُس کے ساتھ ہونا تھا اربوں کے اِس ہجوم میں اگر وہ نہ بھی آتی تو کو نسا گلشنِ زندگی کا رنگ پھیکا پڑ جا نا تھا کونسا گردش افلاس نے رک جانا تھا تا ریخ کے اوراق سے وہ تو ایک نقطہ سے بھی کم ویلیو رکھتی تھی اُس کی اوقات ایک کنکری سے بھی کم تھی کسی خشک پتے سے بھی کم ‘ اربوں کھربوں پتوں میں اگر ایک پتے کا اضافہ نہ ہو تا تو کونسی قیامت آجانی تھی ‘ دنیا کے ہر ملک میں لاکھوں کھلونوں کی پیداوار ہر لمحے کے ساتھ جاری تھی تو اِن کروڑوں کھلونوں کی موجودگی میں گوشت پوست کا بیکار کھلونا بنا نا خالق کائنات کی کونسی مجبوری تھی اگر اُسے کھلونا بنانا خدا کی مرضی ہی تھی تو حساس دماغ دل نہ دیتا تا کہ زمانے کے ظلم و ستم آسانی سے سہہ سکتی ‘ اگر خدا نے اُسے جلتے سلگتے آگ برساتے سورج کے نیچے ریگستان میں نو کیلی کر چیوں پر ننگے سر ننگے پاؤں دوڑانا ہی تھا تو مضبوط جسم سخت دل تو دیتا ‘ نر م نازک پتلیوں کی مانند لڑکی میرے سامنے حسرت ویاس کی تصویر بنی بیٹھی تھی اُس کی آنکھوں میں صحراؤں ‘قبرستانوں کا سناٹا ‘جسم کی رگوں میں خون کی جگہ خو ف و دہشت بے بسی دوڑ رہی تھی میرے پاس اُسے اُس کے گھر کام کر نے والی لا ئی تھی جو مجھے جانتی تھی وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئی اُس کی عمر پچیس سال کے لگ بھگ ہو گی نازم اندام کمزور جسم ایم بی اے پاس لڑکی پہلے تو وہ بو لنے کو تیا ر ہی نہیں تھی پھر اُس کے ساتھ آئی ہوئی کام کر نے والی نے مجھے بتا یا صاحب کی بھانجی آپ سے ٹھیک ہو ئی تھی اِس لیے میں اِس پر ہو تا ظلم برداشت نہ کر سکی اور اِسے لے کر آپ کے پاس آگئی ‘ساتھ آئی عورت اُسے بار بار ہمت حو صلہ دے رہی تھی کہ بھٹی صاحب سے بات کرو یہ تمہارے مسئلے کا کو ئی نہ کو ئی حل ضرور نکالیں گے لیکن وہ سراپا خوف و حزن بیٹھی تھی میں اُس کے انگ انگ سے ٹپکتا خو ف دیکھ رہا تھا اِس لیے میں نے حوصلہ کیا اِدھر اُدھر کی باتیں کیں بار بار کہا تم میری سگی بیٹیوں کی طرح ہو ‘ میری بیٹی بھی تمہار ی طرح ہے تو آہستہ آہستہ اُس نے بولنا شروع کیا پھر اُس نے ملتجی نظروں سے میری طرف دیکھتے ہو ئے کہا آپ میرا ساتھ دیں گے ناں تو میں نے وعدہ کیا بیٹی میں تمہارا ساتھ دوں گا تو اُس نے قطرہ قطرہ لہو ٹپکتی اپنی داستان غم شروع کی سر میرا تعلق گجرات کے قریب ایک گاؤں سے ہے میں ماں کے پیٹ میں تھی تو میرا والد میری ماں کو بے رحم بانجھ معاشرے کے رحم و کرم پر تنہا چھوڑ کر اگلے جہاں کو سدھار گیا ‘ میری ولادت کے وقت دوران زچگی میری پیدائش پر میری کمزور ی اور خون زیا دہ بہہ جانے کی وجہ سے زندگی اور سانس کا رشتہ برقرار نہ رکھ سکی وہ بھی خالق حقیقی سے جاملی ‘ اب میں یتیمی کی چادر میں لپٹی اِس سفاک معاشرے میں ایک اور یتیم کا اضافہ کر چکی تھی میری ایک خالہ اور ایک چچا تھے میری خالہ جوانی میں ہی بیوگی کا ما تمی لباس پہن چکی تھی پرائمری سکول میں ٹیچر تھی اب میں اُس کی بیوگی اور تنہائی کا سہارا بن چکی تھی اب خالہ تھی اور میں تھی قافلہ شب و روز اپنی سمت ہمیشہ کی طرح گامزن تھا میں بچپن سے جوانی میں داخل ہو گی خالہ کی رگوں میں خوف اور بیوگی دوڑتی تھی کیونکہ وہ خود خوفزدہ تھی اِس لیے وہ مجھے بھی ڈر اور خوف کے لیکچر دیتی رہتی کہ کسی سے لڑنا نہیں کسی سے بد تمیزی نہیں کر نی ہر کسی کی بات ماننی ہے ہما رے سر پر مرد کا سہارا نہیں ہے اِس لیے ہم ضد لڑائی جھگڑے کا حق نہیں رکھتیں اِس لیے اِسی خو ف کی امر بیل میں لپٹی میں بچپن کے آنگن سے جوانی کے صحن میں آگئی کھیل کود کا وقت نہیں تھا ‘ کتابیں ہی میری دوست تھیں ‘ دن رات کتابوں سے دوستی کی وجہ سے میں ہر کلاس میں اچھے نمبروں بلکہ وظیفے پر پاس ہو تی چلی گئی جب میں کالج پہنچی تو اچانک چچا جان اور چچی جان کی نوازشوں محبتوں کا دور شروع ہو گیا ‘ چچا جان نے اچانک مجھ پر محبت رحم کرم کے پھول نچھاور کر نے شروع کر دئیے اور خالہ بہت خو ش کہ شکر خدا کا کسی مرد کا سایہ ہمارے سروں پر بھی سائبان بن کر پڑا تو چچا اور چچی آئے دن آتے پیسے تحائف دے جاتے ہم اِس خو ش فہمی میں مبتلا کہ خدا کا خوف آیا ہے میں یو نیورسٹی آئی تو چچا جان نے میرا خرچ اٹھا نا شروع کر دیا اِسی دوران چچا نے اعلان کیا کہ تم میری بیٹی ہو میں تمہاری شادی کسی غیر کے ساتھ نہیں کر سکتا تم میرا خون ہو تم میرے ہی گھر میں رہو گی خا لہ نے سجدہ شکر ادا کیا میرا ایک کلاس فیلو مجھے پسند کر تا تھا لیکن میرا سارا دھیان تو صرف پڑھائی پر تھا میں نے اُسے بتا دیا کہ میری ماں خالہ کی خواہش اور چچا کی مر ضی میں میں بھی خوش ہو وہ بہت رنجیدہ ہوا لیکن میں نے اُسے اپنا فیصلہ سنا دیا ‘ میرے چچا کا بیٹا میٹرک پاس تھا دنیا سے الگ تھلگ وہ کاروبار اور گھر تک ہی محدود تھا وہ فیملی میں کم ہی آتا تھا رشتہ دار وں کے بغیر اُس نے اپنی ہی الگ دنیا بسائی ہو ئی تھی وہ کاروبار اور اپنی تنہائی میں گم تھا میری ایم بی اے کی ڈگری مکمل ہو ئی تو چچا جان نے دونوں طرف کا خر چ اٹھا یا اور میں بہو بن کر چچا کے گھر میں آگئی بعد میں پتا چلا کہ میں تو جہنم میں آگئی ہوں شادی کے ہنگاموں میں پتہ ہی نہ چلا ‘ دس دن گزر گئے میرا خاوند اپنی ہی دنیا میں مست ‘ میں بھی دنیا داری سے واقف نہ تھی جب شادی کے ہنگامے سرد پڑ گئے تو میرے میاں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا مجھے اب پتہ چلا کہ وہ شدید ڈپریشن کا شکاراور نفسیاتی مریض تھا اُسے دورہ بھی پڑجاتا تھا ایک رات وہ کمپیوٹر پر بیٹھا تھا کہ اچانک گر کر بے ہوش ہو گیا ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دئیے ‘ میں گھبرا گئی خود کو شش کی لیکن اُس کی حالت خراب ہو ئی پھرمیں دوڑ کر چچی چچا کو بلا لائی انہوں نے اُسے اٹھا کر بیڈ پر ڈالا پانی اور دوائی اُس کے منہ میں ڈالی کچھ دیر بعد میاں ہو ش میں آگیا تو چچا چچی مجھے لے کر بیٹھ گئے اب چچا نے بو لنا شروع کیا بیٹی اِس کو پرابلم ہے اِس کو کبھی کبھی دورہ پڑ جاتا ہے اِس کا علاج جا ری ہے تم گھبرانا نہیں جلد ہی یہ ٹھیک ہو جائے گا اورتم نے اِس بیما ری کا ذکر کبھی بھول کر بھی کسی سے نہیں کر نا ۔ یہ ہما رے گھر کا معاملہ ہے گھر کی بات گھر سے باہر نہیں جا نی چاہیے اِسی دوران میری چچی نے کہا دیکھو تمہار آگا پیچھا تو ہے نہیں نہ ہی تمہارا کوئی والی وارث ہے ہم نے تمہیں پناہ دی ہے تمہیں بہو بنا کر لائے ہیں یہ ہما را تم پر احسان ہے ورنہ تمہاری جیسی بے آسرا لڑکیوں کو کون اپنی بہو بناتا ہے میں خا موشی سے چچا چچی کے فرمان سنتی رہی ایک کے بعد میرے میاں کا درندی صفت روپ سامنے آیا وہ مجھے بے لباس کر کے میرے جسم کو سگریٹ سے داغتا ‘تنگ کرتا ‘ایسی جانوروں والی حرکت کرتا کہ میں بیان نہیں کر ستی ساری رات تنگ کرتا رہتا اِسی دوران یہ پتہ چلا کی جب چچا چچی کو پتہ چلا کہ اُن کا بیٹا نفسیاتی مریض اور معذور ہے تو انہوں نے پلان کے تحت مجھے بہو کے لیے چنا اِس منصوبے کی تکمیل کے لیے انہوں نے مجھے چنا میرے اوپر ہاتھ رکھا نوازشات کیں شادی کے خر چے اٹھا ئے ‘بقول بیٹے کے اُسے ایک کھلونا چاہیے تھا جو ماں باپ کے طاقت کے بل بو تے پر میری شکل میں اُسے مہیا کر دیا وہ ساری رات نازک پرندے کی طرح میرے پر نو چتا رہتا میں بے بس کمزور پر ندے کی طرح اُس کی گرفت میں پھڑ پھڑاتی اپنی وہ بار بار کہتا تم میرا کھلونا ہوں میں تمہارے ساتھ اسی طرح کھیلوں گا جنسی طور پر وہ نامرد تھا شادی کے قابل نہ تھا لیکن اپنی ناآسودہ خوا ہشوں کی تکمیل درندگی سے کرتا کہ میرا جسم روح تار تار ہو جاتے چھ ماہ تک میں یہ ظلم برداشت کر تی رہی ظلم اور گھٹن کی وجہ سے میرے چہرے پر زردی جسم کمزور ہو نا شروع ہو گیا تو خالہ بار بار پو چھتی کہ تمہیں کیا ہوا ہے تم زندہ لاش کیوں بنتی جا رہی ہو تو میں ٹال مٹول کر دیتی کہ خالہ بھی میرے درد میں شامل نہ ہو کر تڑپیں گی لیکن ایک دن میرے جسم پر خراشیں دیکھ کر خالہ تڑپ گئیں میرے سر پر قرآن رکھا اور پو چھا سچ سچ بتاؤ تو میں نے ساری بات کھول کر بتا دی خالہ نے چچا سے لڑائی کی ‘ ظلم روکنے کو کہا تو چچا نے بھی یہی کہا کہ ہم اپنے بیٹے کے لیے کھلونا لا ئے ہیں یتیم بیٹی سے کہو اُس کا کھلونابن کر زندگی گزار ے ‘ خالہ نے یہ سنا تو چند دنوں میں ہی اِس غم کے بوجھ کو برداشت نہ کر تے ہوئے موت کی وادی میں اُتر گئیں اور مجھے بے رحم معاشرے کے درندوں کے حوالے کر گئیں ۔

Share
Share
Share