کالم : بزمِ درویش – کشمیر کا مجذوب ( قسط دوئم ) :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
کشمیر کا مجذوب ( قسط دوئم )

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:

عشق و گداز کی مٹی میں گندھے ہو ئے نوجوان ناصر کشمیری کو عشقِ مجاز کی ٹھوکر لگ چکی تھی ‘ جسم کا رواں رواں عشقِ مجاز کی آنچ میں سلگنے لگا ‘ ویران بنجر زندگی میں قوس وقزح کے رنگوں کی دھنک ظاہری باطنی طور پر برسنے لگی جسم کے خمیر اور باطن میں دبی چنگاری عشق کی چنگاری سے سلگ اٹھی جو چند دن بعد دہکتے ہوئے آگ کے آلاؤ میں بدل گئی

اب ناصر کشمیری سراپا عشق مجاز تھا پیدائش سے لے کر جوانی تک بے بسی مجبوری محرومی غربت مظلومی کے جلتے سلگتے آگ برساتے ریگستان میں ننگے پاؤں ننگے سر چل چل کر اتر کر فطری پیدائشی عاشق مزاج ناصر عشقِ مجاز کے نخلستان میں آدھمکا تھا ‘ برسوں کی محرومی تشنگی بے بسی لاچاری کے سیاہ اندھیرے رنگوں اجالوں میں بدلنے لگے محبت کا نغمہ باطن کے نہاں خانوں میں آبشاروں کے ترنم کے سر بکھیرنے لگا ‘ عشق مجاز کے گلشن میں آکر ناصر کشمیری کو زندگی خوبصورت لگنے لگی ‘ غربت محرومی تشنگی ناکامی اور زندگی کے تلخ حقائق کے تھور نے جو جسم کی ہڈیوں تک کو چاٹ رہا تھا اب اُس کی جگہ زندگی بھر پور رنگوں کے ساتھ انگڑائیاں لینے لگی ‘ عشقِ مجاز کا رنگ جسم کے انگ انگ سے چھلکنے لگا ‘ آنکھوں کی روشنی تیز ہو گئی چہرے ہونٹوں پر مستقل تبسم رقص کرنے لگا زندگی اتنی زیادہ خوبصورت ہو گی اِس کے بارے میں نوجوان ناصر نے کبھی سوچا ہی نہ تھا عشق کے بھی انوکھے اصول و ضوابط ہیں اِس میدان میں اگر آپ کسی سے محبت کریں اور آپکا محبوب آپ کو مثبت جواب دے یعنی وہ بھی آپ کے عشق میں مبتلا ہو جائے تو دھرتی پر ہی بہشت آباد ہو جاتی ہے ‘ ناصر کشمیری نے جس کو چاہا اُ س کے اندر بھی عشقِ مجاز کی آنچ سلگنے لگی ‘ کسی کے چاہے جانے کا نشہ دنیا کا سب سے بڑا نشہ ہے جو لوگ اِس نشے کی کیفیت سے گزرے ہیں وہی اِس لافانی نشے کی لذت اور سرشاری کو سمجھ سکتے ہیں ‘ ناصر کشمیری بھی اب عشق مجاز کے جھو لے پر سوار دنیا ومافیا سے بے خبر محبوب کی زلف گیرہ گیر کا قیدی بن چکا تھا ‘ محبوب کی شکل میں ناصر کے لیے جنت دھرتی پر اُتر آئی تھی ‘ محبوب کے ناز وادا کے رنگ گھنٹوں محبوب سے باتیں ‘ محبوب کی ادائیں ابروئے چشم پر ہر وقت غلاموں کی طرح حاضری ‘ جوانی اور عشق مجاز کا رنگ سر چڑھ کر بو لنے لگا ابتدائی باتوں وعدوں ملاقاتوں کے بعد اب مستقبل کے سہانے خوابوں کے رنگ ناصر کی آنکھوں میں تیرنے لگے ‘ دن رات باتیں ‘پھر کارڈ اور عشقیہ خط اور شاعری کیسٹوں میں محبوب کو اپنے دلی جذبات پہچانے لے لیے سریلے گلو کاروں کے شوخ محبت بھرے نغموں کے تبادلے ‘ ناصر کو محبوب کی ایک ایک ادا میں ہزاروں جلوے نظر آتے ‘ وہ چھوٹی سے چھوٹی ادا پر مر مٹتا ‘ ناصر تہذیب و تمدن سے دور زندگی کے ہنگاموں ‘ رعنایوں سے دور جانورو ں کے دیس سے شہر آیا تھا اُس نے بچپن سے جوانی تک غربت بے بسی محتاجی سوکھے خشک پہاڑ مٹی گارے کا بنا گھر ٹیڑھے میڑھے ناہموار راستوں پر ننگے پاؤں سفر کیاتھا یہاں اُس کا واسطہ تہذیب و تمدن معاشرے کے ماڈرن طبقے میں پروان چڑھنے والی خوبرو دوشیزہ سے پڑا تھا ناصر کو یہ سب کچھ سہا نا خواب لگ رہا تھا اُس نے خواب میں بھی کبھی اسطرح کی رنگوں محبتوں محبوب کی اداؤں کی قوس قزح نہیں دیکھی تھی یہاں پر چاروں طرف بہاروں کے قافلے تھے خوشبوؤں کے بسیر ے تھے ‘ ظاہر باطن میں نشاط انگیز سر مستیاں تھیں جسم کے انگ انگ سے سر شاری مستی مسرت و انسباط کے چشمے پھوٹ رہے تھے زندگی محبوب عشق کے رنگ اور سرمستیاں اہنے جوبن پر تھیں ‘ ناصر کی پور پور عشقِ مجاز کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی ‘ تہذیب و تمدن ‘ شہری معاشرت سے دور پہاڑوں کے پیچھے غربت کی سیڑھی چڑھنے والا ناصر زندگی کے شوخ رنگوں میں رنگ چکا تھا ۔کوہ مری کا موسم بادلوں کا آسمان اور زمین پر رقص ‘ گرمیوں میں بارش کی بوندا باندی سردیوں میں برف باری کے حسین نظارے ‘ چاروں طرف پھیلے خو ش رنگ ہزاروں قسم کے جنگلی پھولوں اور سبزے ریشمی نرم و گداز قطعے رات کے سناٹوں میں آبشاروں کا ترنم ٹھنڈی خنک ہواؤں کی مستیاں رات کو صاف آسمان پر چاند کی روشنی ستاروں کے جھرمٹ مری کے گھنے جنگلات صدیوں پرانے دیو ہیکل درختوں کی لمبی قطاریں اِن گھنے جنگلوں میں دو پیار بھرے جوان دل جو آنے والے خدشات سے بے فکر آنے والے حسین دنوں کے جھولے جھول رہے تھے ‘ ناصر تہذیب اور شہری معاشرت سے کوسوں دور پلا بڑھا تھا ‘ شہر کی لڑکی نے اُسے زندگی کے مہذب اصول و ضوابط اخلاقیات کی آگاہی دی ‘ زندگی اِس قدر خوبصورت ہو گی یہ ناصر نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا کسی خوبرو دوشیزہ نے جب دل و جان سے ناصر کو چاہا تو اُس کی شخصیت کی بہت ساری محرومیاں کمزوریا ں بھی دور ہونے لگیں اب ایک مستقل مسکراہٹ اور شوخی اُس کے چہرے کا حصہ بن چکی تھی اُس کی آنکھوں کی جھیل میں سہانے خواب ہلکورے لیتے ‘ آنکھوں کی روشنی تصورِ جاناں سے ہر وقت چمکتی دمکتی رہتی تھی ۔ ناصر جو پہلے اپنے آبائی گاؤں کبھی کبھار چلا جاتا تھا اب وہا ں جانا تقریبا ختم کر دیا ‘ اُس کی کیفیت اب یہ تھی تیرے نام پہ شروع تیرے نام پہ ختم‘ محبوب کا تصور اُس کی ادائیں محبت بھری سرگوشیاں بات کرنا ملنے کے بہانے ڈھونڈنا اب ناصر کا اوڑھنا بچھونا بن چکا تھا جب بھی کسی کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے تو پہلے تو راز داری چلتی ہے لیکن پھر دونوں کی اداؤں باتوں بلکہ جسم کے انگ انگ سے محبت کی خوشبو پھوٹنے لگتی ہے یہی حال اب ان دونوں کا تھا ‘ شروع میں راز داری چلتی رہی دونوں دنیا جہاں سے بے خبر ایک دوسرے کے خیال میں مست تھے دنیا کیا کہتی ہے دنیا کے تقاضے کیا ہیں اِن اٹل حقیقتوں سے بے خبر پیار کے دو کبوتر عشق کے آسمان پر پرواز کر تے جا رہے تھے جس طرح خوشبو چھپائے نہیں چھپتی اسی طرح عشق کی بو کبھی بند کواڑوں سے بازاروں اور محلوں کا رخ کر تی ہے ابتدائی ملاقاتوں باتوں وعدوں کا رنگ خوب چڑھا اور پھر برسا بھی ‘ اب اِس رنگ میں ایک دوسرے کو پانے کا رنگ غالب آنے لگا جس طرح دنیا کے ہر عاشق جوڑے کوپھر یہ فکر دامن گیر ہو تی ہے کہ اب اِس رشتے کو مستقل شکل دی جائے ‘ ناصر اور اُس کی محبوبہ کو بھی یہ فکر اب ستانے لگی کہ اب ایک دوسرے کے ہونے کے لیے کو شش کی جائے اِس کو شش کے لیے اب دونوں کی آنکھوں پر چڑھی خوابوں اور عشق کی پٹی سرکنے لگی اور زمانے کے حقائق سامنے آنے لگے تو سب سے بڑی مشکل اور رکاوٹ سامنے آئی کہ ناصر اور اُس لڑکی کے خاندانوں میں زمین آسمان کا فرق تھا ‘ زمینی حقائق کے مطابق ناصر زمین تھا محبوبہ آسمان کا چمکتا ستارہ ‘ اب زمین آسمان کیسے مل سکتے ہیں اب دونوں دن رات اس سوچ میں مستغرق کہ کس طرح راستے کی رکاوٹوں کو دو ر کیا جاسکے ‘ بہت سوچ بچار کے بعد لڑکی نے کہا کہ وہ پہلے اپنی ماں سے بات کرے گی جب ماں مان جائے گی تو پھرماں باپ سے بات کر کے باپ کو جب منائے گی تو پھر ناصر رشتہ لے کر گھر آئے گااورپھر جب لڑکی نے گھرمیں بات کی تو گھر میں بھونچال آگیا ماں بولی تم پاگل ہو وہ تو ہمارے ملازموں جیسا ہے تو ہماری بڑی بیٹی ہے ‘ تمہارے لیے معاشرے کے بلند ترین رشتے قطاروں میں کھڑے ہیں اگر تم نے ناصر سے شادی کی ضد کی تو تمہارا باپ تمہیں اور مجھے ایک سیکنڈ سے پہلے قتل کر دے گا۔ عشق کے سمندرمیں غرق دونوں پریشان ہو گئے دونوں کے سہانے دن رخصت ہو نے والے تھے ۔ ناصر بیچارہ بچپن سے محرومی کی سولی پر لٹکتا آیا تھا ایک بار پھر اُس کی آنکھوں میں محبت کے رنگوں کی جگہ پریشانی غربت محرومی کے سائے لرزنے لگے اب اُس نے ہمیشہ کی طرح محبوبہ کے ما ں باپ کو منا نے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دئیے ‘ اب اُس نے اِس کام کے لیے ملنگوں اور بابوں کے پاس جانا شروع کر دیا ہر در سے ناکامی مل رہی تھی انہی دنوں مری میں ایک درویش کا جادو سر چڑھ کر بو ل رہا تھا جس کے پاس ہزاروں لوگ آتے ‘ یہیں سے اُس کی زندگی کا اصل باب شروع ہو نا تھا جس کے لیے خالق نے اُس کی تخلیق کی تھی آخر کار ناصر نے اُس درویش کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا ۔ (جاری ہے )

Share
Share
Share