انشائیہ – میرا چمن کیوں اجڑ گیا :- جمشید احمد میاں

Share
جمشید احمد میاں

انشائیہ
میرا چمن کیوں اجڑ گیا

جمشید احمد میاں
سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر۔

میں جس وادی کا مقیم ہوں سناتا ہوں اس کی داستان،غور و فکر کرنا کہ ہیں یہ درد کی ذبان۔
یہ وادی ایک حسین چمن تھا،اس کی فضا ہر مرض کی دوا تھی۔کچھ اپنوں سے لٹ گئی جو بچا تھا حسن اس کے گلوں میں باغبانوں نے چو س لیا ، گویا ایسا لگتا ہے کہ یہاں کی بہار ہم سے خفا ہے۔یہاں کے دلفریب موسم اجڑے نظر آتے ہیں۔پرندوں کی آواز میں جو گیت و نغمے چھپے تھے،یہاں کی میراث تھی اب ان کی نغمگی بھول گئی۔

ہر فرد رنج و الم کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔کبھی یہاں دل شاد ہوا کرتے تھے،آج ہر آنکھ پر نم ہے،یہ قوم مردہ دلوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر آنسوں بہاتے ہیں لیکن اپنی مراد نہیں پاتے،دلوں کا یہ حال ہیں کہ ویراں اجڑے پڑے ہیں،نہ بڑوں میں شفقت ہیں،نہ چھوٹوں میں ادب۔ہمارے آج کے طلبہ خود کو کسی ہیرو اور ہیروین سے کم نہیں سمجھتے۔روایت کی ہوا نے انہیں غرق کر دیا۔کچھ استاد مثالی ہیں،تو کچھ کی غرض کمانے سے۔ جب دل ہی دشت ہو چکے ہیں تو ہر محکم میں بد عنوانی عروج پر ہے،پیسوں کے بغیرکوئی کام نہیں ہوتا کیونکہ ہر محکم میں شیطان کے امام بھی ہیں۔یہاں کی شمعیں بجھتی چلی جا رہی ہیں یہ قوم کبھی رہنماوؤں اور دانشمندوں کا مرکز تھی۔حق پر چلنے والوں اور ناحق پر چلنے والوں میں بہت کم فرق رہ گئی،ہائے افسوس! میں حکومت کا رونا کیا روؤں،یہاں تو ہر بچہ،بوڑھا اس کو اجاڑنے میں ہاتھ بڑھا رہا ہے۔عظیم کتا بوں میں پڑھا تھا کہ جیسی قوم ہوتی ہیں ویسے ہی اس کے رہنما،ویسی ہی حکومت۔یہاں درد کی آواز یں ایسی ہی سنائی دیتی ہیں جیسے غزال کی آواز شیر کے منہ میں۔گویا جانوروں کی خصلت انسان میں۔یہاں ہر پہر میں کوئی مظلوم اندھوں کی صف میں لکھ دیا جاتا ہے۔ہر شمس اندھیری رات بن جاتا ہے،بد نصیبی تو لکھ دی گئی یہاں کی قوم کی نصیب میں لیکن جب گلوں پر آگ برستی ہیں تو یہاں کے ادیب سوائے مرثیہ کے اردو ادب کو کچھ نہیں دے پاتے۔یہاں فلک ظالم و مظلوم قوم کا تماشہ دیکھتی ہے ۔ایسے قوم کی جس کے اعمال عمدہ کم اور بد نما زیادہ ہوں،یہ وہ قوم ہے جو مٹتی ہے،کٹتی ہے لیکن نہ پگھلنے والے پتھروں کی طرح ابھرتی چلی جا رہی ہیں۔دنیا کے سخت ترین دل ہمارے ہوں،ریگستانوں میں پیاس کی وجہ سے مر جائیں گئے لیکن پگھلنا ہمیں گوارا نہیں۔اپنے بزرگوں سے میں نے بھی سنا ہے کبھی یہ وہ وادی تھی’’ جسے جنت کہتے تھے‘‘۔جو پیروں کی وادی ہوا کرتی تھی۔جنت بے نظیر افسوس!تھی لیکن اب غور کرتا ہوں یہاں کی تہذیب قلم کی سیاہی کی طرح مٹ رہی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہمیں اپنے خالق سے بے وفائی کا داغ لگ چکا ہے،اور جب تک ہم اپنی حالت خود نہ بدلے ہمارا مقدر کوئی بدل نہیں سکتا-

Share
Share
Share