کالم : بزمِ درویش – افطار ڈنر :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم: بزمِ درویش
افطار ڈنر

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

سیاہ عبائے میں خود کو ڈھانپ کر دو دھیا سفید چہرے کے ساتھ جوان غمزدہ خوبصورت پڑھی لکھی لڑکی اداس بھیگی نظروں کے ساتھ بیٹھی تھی‘اُس کا باطنی کرب اُس کے چہرے اور آنکھوں سے چھلک رہا تھا۔ نیکی شرافت پارسائی اُس کی حرکات و سکنات‘آواز اور خدوخال سے واضح طور پر چھلک رہی تھی اُس کا انداز اُس کی شرافت کا عکاس تھا‘

مادیت پرستی کا طلسم ہو شربا موجودہ دور کے جوانوں کو چاٹ چکا ہے اوپر سے رہی سہی کسر سوشل میڈیا اور کیبل چینلوں نے پو ری کر دی ہے جو مذہب شرافت اخلاقی رواداری کا پیکر تھا آجکل جدت پسندی میں غرق جنسی حیوان کا روپ دھار چکا۔ آجکل مذہب اخلاقیات شہروں سے دور آبادیوں میں ہی نظر آتا ہے یا پھر بڑھاپے اور موت کی دہلیز پر ماتھا ٹیکتے بوڑھے جن کے جسموں میں گرم جو شیلے خون کی جگہ اب سرد مست بے جان خون بڑھاپے کی وجہ سے جسمانی توازن نہ ہو نے کے برابر جگر معدہ کو لیسٹرول بلڈ پریشر شوگر کی وجہ سے تمام لذیز کھانوں نعمتوں سے پرہیز لوگ جو زندگی کے دن پو رے کر تے نظر آتے ہیں جن کے پاس بھر پور زندگی گزارنے کے نہ تو مواقع ہیں اور نہ ہی جسم و جان میں وہ توانائی اور نہ ہی جسمانی اعضاء میں وہ پھرتی کہ ہنگامہ زندگی کے شب و روز کا ساتھ دے سکیں‘ شراب اِس لیے چھوڑ دی کہ جگر معدہ پھٹ جائے گا گو شت میٹھا اِس لیے چھوڑاکہ کو لیسٹرول اور چربی کی زیادتی ہے جگر پر چربی چڑھ گئی ہے خون کی نالیاں چربی سے بند ہو گئی ہیں میٹھااِس لیے چھوڑا کہ شوگر کی زیادتی ہے‘ پٹھے گر دے بینائی کمزور آج کے دور کا انسا ن اگر پرہیز کر تا ہے تو ڈاکٹر یا بیماری کے خوف سے مسجد اِس لیے جاتا ہے کہ او ر کوئی کام نہیں اور نہ ہی جسم میں طاقت کہ موجودہ دور کی برق رفتار زندگی کا ساتھ دے سکے بلاشبہ میڈیا کی آزادی اور مغرب کی تقاضی یلغار پاکستان کے نوجوانوں کو عفریت کی طرح ہر گزرتے دن کے ساتھ ہڑپ کر تی جارہی ہے جس جوان کو بھی دیکھووہ یور پ امریکہ کا دیوانہ رسیانظر آتا ہے یو رپ میں مادر پدر آزادی نے یو ر پ کا ستیا ناس کر ہی دیا ہے آجکل اسلامی ممالک کی جوان نسل بھی اندھا دھند مغرب پر ستی میں دیوانہ وار دوڑ رہی ہے‘ شرم و حیا جو مسلما ن لڑکی کازیورتھا چہرے کی لالی تھی وہ بھی برسوں پہلے رخصت ہو چکی ہے ایسے مصنوعی دور میں جب بھی کو ئی جوان لڑکی اوپرسے خوبصورت بھی ہو تو اگر اسلامی مشرقی روایات میں ڈھلی نظر آئے تو خوشگوار ہوا کے جھونکے کا خوشبودار احساس رگوں میں اترتا چلا جاتا ہے مشام جان معطر اور عطر بیز ہو نے کا احساس بیدار ہو نے لگتا ہے۔ ایسی ہی نیک سیرت جوان خوبصورت لڑکی میرے سامنے بیٹھی تھی اُس کے سوال نے مجھے زچ اور عرق ندامت میں غر ق کر دیاتھا۔ میں ماہ رمضان میں ملا قاتیوں سے کم ملتا ہوں صبح آفس گیا تو سیاہ عبائے میں ملبوس جوان لڑکی میرے انتظار میں تھی مجھے قریب آتے دیکھ کر ادب سے سلام کیا اور معذرت کی سر مجھے پتہ ہے آپ رمضان میں لوگوں سے نہیں ملتے لیکن میں مصیبت اور پریشانی میں آپ کے پاس آئی ہوں مجھے اُس کا چہرہ آواز جانی پہچانی لگی وہ شاید اپنی ماں کے ساتھ میرے پاس ایک دو بار آچکی تھی۔ میں اُس کے سامنے بیٹھ گیا تو وہ مہذب دھیمے لہجے میں بولنا شروع ہوئی سر میں پھر شرمندہ اور معذرت خواہ ہوں کہ رمضان میں آپ کے آرام میں خلل ڈال رہی ہوں امید ہے آپ میری اِس جسارت اور بے ادبی کو درگزر کریں گے سر میرے والد صاحب بچپن میں ہی ہمیں چھوڑ کر اللہ کے پاس چلے گئے تھے میں اور میرا چھوٹا بھائی اور اماں ہیں جن کے زیر سایہ میں زندگی کے دن پو رے کر رہی ہوں بچپن کی دہلیز پار کی تو مجھے اچھی طرح احساس ہو گیا تھا کہ آسمان کے نیچے ہمارا اماں جان کے علاوہ کو ئی بھی نہیں ہے لہذا شعوری بیداری کے ساتھ ہی پڑھائی پر بہت تو جہ دی‘ خوب محنت کی ہر کلاس میں خوب دل لگا کر پڑھائی کی کہ اچھے نمبروں سے امتحان پاس کیا زیادہ تر میں سکالر شپ پر پڑھتی رہی والد صاحب سرکاری ملازم تھے اُن کی پنشن اور آدھے گھر کو کرائے پر دینے کا کرایہ ہی ہماری کل کمائی تھی ساتھ میں اماں اور میں محلے کے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھا لیتے تاکہ زندگی کی گاڑی کو دھکا دے سکیں‘ یتیمی اور بیوگی اِس دنیا کا بہت بڑا غم ہے جس میں غوطے کھاتے کھاتے میں جوانی میں داخل ہوئی تو اللہ نے اچھا رنگ روپ دیا مردوں نے مجھے بے آسرا دیکھ کر ڈورے ڈالنے شروع کر دئیے کہ یہ تو بکاؤ مال ہے اِس کو جو بھی پکڑ لے کو ئی ہا تھ پکڑنے یا روکنے والا نہیں ہے‘ جنسی درندوں کے ہجوم سے میں بچتی نکلتی آخر کار ما سٹر ڈگری کمپیوٹر کی تعلیم انگریزی میں ایم اے کر کے میں خوش تھی کہ خوب محنت کر کے اپنا ماں اور چھوٹے بھائی کا پیٹ پالوں گی چھوٹے بھائی کو اعلی تعلیم دلا سکوں گی کمپیوٹر اور انگریزی میں میری مہارت رنگ لائی چند مہینوں میں ہی میں باس کی نظروں میں بھی آگئی اب باس نے مجھے اپنی اسسٹنٹ رکھ لیا انہوں نے میری تنخواہ بھی بہت بڑھا دی تھی میں اور ماں خوش کہ خدا مہربان ہوگیا ہے جو باس اتنا مہربان ہو گیا ہے باس میرا اور میری ضرورتوں کا بہت خیال رکھتا لیکن پرابلم اُس وقت سٹارٹ ہو ئی جب انہوں نے نیا تقاضا شروع کیا کہ دوسرے شہروں میں میٹنگ کے لیے جانا ہو تا ہے لہذا تم میرے ساتھ جاؤتو میں نے صاف انکار کر دیا کہ ماں اور بھائی کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی چند دن تو باس خاموش رہے اب ان کی ڈیمانڈ نئے روپ میں سامنے آئی کہ کو ئی بات نہیں اب تم ڈنر پر میرے ساتھ چلو اِس دوران وہ دبے لفظوں میں پسندیدگی کااظہار بھی کر تے جو میں جان بوجھ کر نظر انداز کر جاتی اُن کی نظروں کی پسندیدگی نے مجھے خو فزدہ کر دیاتھا وہ بار بار مجھے ڈنر کا کہتے لیکن میں کوئی نہ کوئی بہا نہ بنا دیتی لیکن وہ مجھے قائل کر نے کی پوری کو شش کر تے کہ آجکل جاب کا حصہ ہے ڈنرپر جانا اگر آپ انکار کرو تو ترقی نہیں کر سکتے وہ اشاروں میں پر کشش اشارے بھی دیتے لیکن میں جان بوجھ کر انجان بنی رہتی میں کام خوب مہارت سے اچھا کرتی تھی اِس لیے وہ مجھے نوکری سے نکالتے بھی نہیں تھے اِسی دوران رمضان آگیا تو انہوں نے نیا تقاضہ شروع کردیا کہ آپ ڈنر پر تو نہیں گئیں اب تو اسلامی ماہ رمضان آگیا ہے چاروں طرف ایمان کے چشمے پھوٹ پڑے ہیں اب آپ کو افطاری کے لیے میرے ساتھ جانا ہو گا ڈنر پر تو آپ مانی نہیں اب افطار ڈنر پر مان جاؤ اب میں نے ماں سے بات کی تو انہوں نے بھی یہ کہہ کر اجازت دے دی کہ رمضان کا مہینہ ہے اِس میں تو شیطان بھی قید کر دیا جاتا ہے اِس ماہ تو کوئی حرام گناہ کا سوچھ بھی نہیں سکتا تم افطار ڈنر پر چلی جاؤ لہٰذا میں نے باس کو رضامندی کا سگنل دے دیا مقررہ دن میں آفس سے ہی باس کے ساتھ افطار ڈنر پر چلی گئی ہو ٹل جاکر ہم اترے تو ڈرائیور نے چپکے سے ایک رقعہ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ باس کو پتہ نہ چلے میں نے واش روم کے بہانے جا کر رقعہ پڑھا جس پر لکھا تھا بیٹی تم نے بچنے کی بہت کوشش کی آج تم خطرے میں ہو کھانے کے بعد باس تمہیں کوئی بھی چیز دے اُسے نہ کھانا ہوٹل کی چیزیں کھالینا اِس کو کوئی چیز نہ کھانا میں خوف میں لپٹی کھانے کی ٹیبل پر آگئی روزہ کھولا بھوک اڑ چکی تھی پھر بھی زہر مار کیا تو کھانے کے بعد باس نے چھوٹا سا ڈبا اپنے کوٹ کی جیب سے نکالا اور کہا یہ مٹھائی لبنان سے آئی ہے میں چند ٹکڑے تمہارے لیے لایا ہوں یہ ضرور کھاؤ میں نے منہ پر ہاتھ رکھ کر شو کیا کہ کھالی جبکہ کھائی نہیں اُس مٹھائی میں خواب آور دوائی تھی بعد میں ڈرائیور نے بتایا یہ باس کا طریقہ واردات ہے جو لڑکی سیدھے طریقے سے نہ مانے اُس کو مٹھائی کھلا کر بے ہوش کر کے جنسی ہوس پوری کرتا ہے کافی دیر بعد جب میں واپس آرہی تھی تو باس حیران تھا کہ میں بے ہوش کیوں نہیں ہوئی تو میں نے جان چھڑانے کے لیے کہا سر پھر کس دن افطاری کریں گے تو باس نے مجھے گھر اتار دیا سر خدا نے مجھے جنسی درندے سے بچالیا آپ کے پاس اِس لیے آئی ہوں شیطان کو قید کر دیا گیاتو زمینی شیطانوں کو کھلی چھٹی ہے لوگوں کی زندگیاں برباد کر نے کی پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی میری آنکھوں کے کنارے بھی چھلکنے لگے۔

Share
Share
Share