دکنی کی مخصوص شعری اصناف : (1) سہیلا – ہیئت و ماخذ :- ڈاکٹر حبیب نثار

Share
ڈاکٹر حبیب نثار

دکنی کی مخصوص شعری اصناف
(1) سہیلا – ہیئت و ماخذ
(سہیلا‘ جکری‘ حقیقت‘ عقدہ‘ مکاشفہ)

ڈاکٹر حبیب نثار

صدر شعبہ اردو‘ سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد

قدیم اردو میں ہمیں کئی ایسی نظمیں ملتیں ہیں جو بطور نغمہگائی جاتیں تھیں۔ یہ نظمیں موسیقی کی محفلوں میں روح پھونک دیا کرتی تھیں۔ ہندوستانی موسیقی نے انہی نظموں کے سہارے پاؤں پاؤں چلناسیکھا ہے۔ حضرت امیر خسرو نے جب ہندوستان کی قدیم موسیقی میں جو کہ زیادہ تر الاپ کی نوعیت لیے ہوئے تھی، نظم کے پیرہن کی زیبائش کی تو گویا ان نظموں کے پیکرکی تشکیل ہوئی۔

حضرت امیر خسرو نے آہنگ میں حرفوں کی صدا کو شامل کرتے ہوئے قول، قلبانہ، قوالی، خیال، سویلہ اختراع کیا……یہی وہ نظمیں تھیں جو صوفیا کے محفل سماع میں وجد و حال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سویلہ، حقیقت، عقدہ، اور جکری، زیادہ تر صوفی شعرا کے کلام ہی میں ملتیں ہیں، عام شاعر ان اصناف سخن سے جیسے لا علم معلوم ہوتا ہے۔ ان نظموں کا جائزہ لیتے ہوئے اس امر کو پیش نظر رکھنا بہت ضرور ی ہے کہ یہ نظمیں محفل سماع میں بطور نغمہ گانے کے لیے لکھی گئیں ہیں ان کی ہیئت ہی سب کچھ ہے۔ ان میں موسیقی کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ سویلہ کے تین تلفظ ملتے ہیں۔ سویلہ سہیلہ اور سہیلا۔
ڈاکٹر حسینی شاہد اپنی کتاب ”شاہ امین الدین علی اعلی…….“ میں سہیلا کی ہیئت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”سہیلے کی بحر اور ہیئت متعین نہیں ہے لیکن راقم الحروف کی نظر سے جو سہیلے گزرے ہیں ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جن کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہیں یہ مصرعے غالباً گیت کی لیے کا تعین کرتے ہیں۔ اس کے بعد سہیلے کا ہر بند عموماً تین مصرعوں او رکبھی کبھی چار مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر بند کے تمام مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں، بندوں کی تعداد مقرر نہیں لیکن عموماً پانچ بندوں سے زیادہ نہیں لکھے جاتے ہے۔“(۱)
ڈاکٹر حسینی شاہد نے سہیلا کی ہیئت کے بارے میں جو رائے دی ہے اس پر بعد ازاں اظہار خیال کیا جائے گا پہلے استادِ محترم پروفیسر گیان چند جین کی ایک تحریر سہیلا سے متعلق ملاحظہ کیجئے:
”سہیلوں کی زبان ہندی ہوتی ہے اور ان کا وزن لوک گیتو ں کی طرح ہوتا ہے اس کے نمونے خواجہ بندہ نواز، میراں جی شمس العشاق، شاہ برہان الدین جانم، ایک مہدوی بزرگ میاں مصطفےٰ گجراتی اور حضرت امین الدین علی اعلیٰ وغیرہ کے یہاں ملتے ہیں۔“(۲)
تاریخ ادب اردو کے بیشتر محققین بھی صرف دکنی بزرگوں کے کلام میں سہیلا کی نشاندہی کرتے ہیں جب کہ موسیقی کی تاریخ پر قلم اٹھانے والے محققین، حضرت امیر خسرو پر مضمون بھی لکھتے ہیں تو حضرت امیر خسرو کی اختراع کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ استاد محترم کی نظر سے حضرت امیر خسرو کے”سویلہ“ گیت بھی ضرور گزرے ہوں گے نہ جانے کیوں یہ تذکرہ یہاں چھوٹ گیا چنانچہ اسی طرح دوسرے ادبی مورخین و محققین نے بھی اپنی ناواقفیت اور بے توجہی کی بنا پر ”سویلہ“ یا ”سہیلا“ کو دکن کا مخصوص طرز نغمہ قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر حسینی شاہد نے سہیلا کے پہلے دو مصرعوں کے حوالے سے لکھا کہ یہ مصرعے غالباً گیت کی لے کا تعین کرتے ہیں ڈاکٹر حسینی شاہد نے بجا لکھا ہے اسی نکتہ کو اصطلاح موسیقی میں کہا جائے گا کہ سہیلا کے پہلے دو مصرعے بطور استھائی استعمال (گائے) کیے جاتے ہیں۔ پروفیسر گیان چند جین نے ”سہلوں“ کی“زبان اور وزن“ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”زبان“ ہندی ہوتی ہے اور ان کا وزن لوک گیتوں کی طرح ہوتا ہے۔ استاد محترم نے ہندی لکھ کر غالباً قدیم بے نام اردو مراد لی ہے لیکن مزید یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ”لوک گیتوں“ کا کوئی وزن مخصوص نہیں ہوتا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سہیلا سیدھے سیدھے موسیقی کی چیز ہے جس میں تصوف کے مضامین باندھے جاتے ہیں۔
سویلہ(دکنی سہیلا) کی جوہیئت امیر خسرو کے یہاں ملتی ہے وہ موجودہ صنف نغمہدھرپد کی سی ہے۔ سویلہ کو غزل بھی کہا جا سکتا ہے۔ استاد چاند خان، امیر خسرو کے کہے ہوئے سویلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں
”سویلہ حضرت امیر خسروؒ کے اختراعی گانوں میں گانے کی ایک قسم ہے۔ خیال میں اور سویلہ میں فرق یہ ہے کہ خیال بڑے بڑے تالوں راگوں میں گایا جاتا ہے دوسرے خیال میں صرف ایک آستائی ایک انترا ہوتا ہے اور سویلہ میں کئی انترے ہوتے ہیں اور شعر کی طرح قافیہ ردیف کے ساتھ ہوتے ہیں۔(۳)
غزل گائیکی کا طریق کار یہ ہے کہ مطلع کو استائی قرار دیا جاتا ہے اور بعد کے اشعار کو انترا کے طور پر گایا جاتا ہے۔ استاد چاندن خان نے سویلہ گانے کا جو طریق کار یہاں بیان کیا ہے وہ بیّن غزل گائیکی ہی کی طرح ہے۔ استاد چاند خان خود بھی ایک ماہرموسیقار تھے۔ انھیں یہ فن سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل ملا ہے۔”موسیقی حضرت امیر خسرو“ میں استاد چاند خان نے اپنے اجداد کا نسب نامہ بھی تحریر کیا ہے جس کی رو سے ان کے ننیہال کا سلسلہ شمس سامت تک پہنچتا ہے جو امیر خسرو کے ہم عصر اور پیر بھائی (۴)تھے الغرض استاد چاند خان کی تحریر کو سند استناد ان کے اسی خاندانی نسب کی وجہہ سے دیا جا سکتا ہے۔
ذیل میں امیر خسرو کے کہے ہوئے چند سویلہ درج کیے جاتے ہیں (۵) ان کی ہیئت بالکل غزل کی سی معلوم ہوتی ہے جس میں ردیف وقافیہ کا اہتمام بھی موجود ہے۔
سویلہ ضلع کافی:
استھائی: توری صورت کے بل ہاری نظام تو ری صورت کے بل ہار
انترا: سب سکہین میں چوندر موری میلی دیکھ ہنسیں نرناری
اب کے پھاگن چوندر موری رنگ دے رکھ لے لاج ہماری نظام
توری صورت کے بلہاری نظام
صدقہ بابا گنج شکر کا رکھ لے لاج ہماری نظام
توری صورت کے بلہاری نظام
کوؤ کو ساس نند کے جھگڑے میکو آس تمہاری نظام
توری صورت کے بلہاری نظام
میں تو تیری اور تہاری(کذا) رکھیو لاج ہماری نظام
توری صورت کے بلہاری نظام
قطب فرید مل آئے براتی خسرو راج دلاری نظام
توری صورت کے بلہاری نظام (۴)
امیر خسرو نے اس سویلہ میں، استھائی کا ایک مصرع اور انترا کے تین شعر کہے ہونگے استاد چاند خان نے اس صنف نغمہ کی گائیکی کو سمجھانے کے لیے استھائی کو ہر مصرع کے بعد درج کر دیا ہے۔ امیر خسرو نے اس سویلہ کو مندرجہ ذیل صورت میں کہا ہوگا۔
استھائی: توری صورت کے بل ہاری نظام
انترا: سب سکہین میں چوندر میلی دیکھ ہنسیں نرناری
اب کے پھاگن چوندر موری رنگ دے رکھ لے لاج ہماری نظام
صدقہ بابا گنج شکر کا‘
کوؤ کو ساس نند کے جھگڑے مئیکو آس تمہاری نظا م‘
میں تو تیری اور تہاری(کذا) رکھیو لاج ہماری نظام‘
قطب فرید مل آئے براتی خسرو راج دلاری نظام‘
سویلہ میں چونکہ پہلا مصرع بطور استھائی باندھا جاتا ہے اور بعد والے اشعار کے ہر مصرع کو ایک انترا متصور کر لیا جاتا ہے اس لیے ان میں تعداد اشعار کی کوئی قید نہیں۔ بعض سویلہ میں اشعار دس ہوتے ہیں تو بعض میں صرف ایک شعر یعنی دو مصرع اور بعض میں تین مصرع بھی ہوتے ہیں اسی ہیئت کا ایک سویلہ ملاحظہ ہو۔ سویلہ کھماج از امیر خسرو۔
استھائی: میں نظام سے نینا لگا آئی رے، گھر ناری اناڑی چاہے جو کہے
انترہ: سانوری صورت موہنی مورت پر دے بیچ سما لائی رے
سانس نند یا لگیں تو کہوں گی میں تو ان پرجو بن گنو اآئی رے
خسرو نظام کے بل بل جائیے میں تو انموں چیری بکا آئی رے“(۷)
ایک اور سویلہ امیر خسرو کار اگنی سگھری بہار ملاحظہ ہو
استھائی: بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی
کیسے میں بھر لاؤں مدھوا سے مٹکی
انترہ: پنیان بھرن کو میں جو گئی تھی
دوڑ جھپٹ موری مٹکی سیپٹکی
خسرو نظام کے بل بل جائے
لاج رکھو مورے گھونگھٹ پٹ کی(۸)
امیر خسرو کی اس اختراعی وغنائی نظم سویلہ کی پیروی زیادہ تر دکن میں کی گئی چنانچہ کہا جاتا ہے کہ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز اور میرا ں جیشمس العشاق کے یہاں بھی سویلہ(سہیلا) ملتے ہیں۔ میراں جی شمس العشاق کے بعد میاں مصطفی گجراتی کے یہاں یہ روایت ملتی ہے لیکن میاں مصطفی کیپاسسویلہ کیہیئتمیں تبدیلی آگئی ہے۔ ان کی نظم میں پہلا شعر اردو میں ہے اس کے بعد دو شعر فارسی اور اردو میں مانند ریختہ ہیں۔ اس کے بعد کا شعر وہی پہلا شعر ہے جسے بطور بیت لایا گیا ہے۔ نظم ملاحظہ ہو
جم جم شادیاں روزی سہیلا ساز واری گاو
نت نت خوبیاں اد کیاں خوشی کے تھال بھراؤ
آیکہ آں حاسد خوتلیں تل منجہ سوں لڑتا
ز سرکیں بہر کو سو بولوں بولوں اڑتا
ایں دم ازہرزہ ہر سو سو خجل ہو رپا بارے
سویم آں دلبر خوش رو جو آیا ہنس ہنس پڑتا
جم جم شادیاں روزی سہیلا ساز واری گاو
نت نت خوبیاں ادکیاں خوشی کے تھال بھراؤ
ارے آں مہوش برنا سوکدھیں بھی نہ بسرنا
جان ز ہجر رخ زیباش نس دن ڈسکی بھرنا
بگذشت آں ہمہ تشویش بھلا ہور امانی؟
نو برشنگ کی رعنا آئے پڑا لٹکے کرتا
جم جم شادیاں روزی سہیلا ساز واری گاو
نت نت خوبیاں ادکیاں خوشی کے تھال بھراؤ(۹)
ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس نظم کو”ریختہ“ کہا ہے(۱۰) اور اس بات کا قیاس کرتے ہیں کہ”معلوم ہوتا ہے کہ یہ گانے کے لیے لکھا گیا تھا(۱۱) زبان کے لحاظ سے یقینا یہ ریختہ ہے اور ہیئتکی مناسبت سے یہ سہیلا ہے جس کومیاں مصطفی نے نظم کے پہلے ہی مصرع میں واضح کیا ہے تعجب ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس اہم لفظ کی جانب کوئی توجہ نہ دی اور اس نظم پر اس طرح اظہار خیال کیا ہے کہ جیسے وہ سہیلا سے واقف ہی نہیں۔ ان کی ساری توجہ نظم کی لسانی تشکیل ہی پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہے۔
سویلہ کی روایت امیر خسرو سے میاں مصطفی گجراتی تک آتے آتے نہ صرف بہ نسبت ہیئت تبدیل ہو گئی ہے بلکہ نام بھی سویلہ سے سہیلا ہو گیا۔ امیر خسرو کے یہاں سہیلا میں استھائی کے علاوہ کم سے کم دو مصرع اور زیادہ سے زیادہ چار شعر یعنی آٹھ مصرع ملتے ہیں جبکہ میاں مصطفی گجراتی کے یہاں ایک بند میں استھائی کے علاوہ دو شعر یعنی چار مصرع ہوتے ہیں اور پوری نظم کبھی دو بند کی اور کبھی چار بند کی ہوتی ہے۔ اس کے بر خلاف برہان الدین جانم کے یہاں نظم کے بندوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور پہلے بند کے چوتھے مصرع کو ہر بند میں دہرایا جاتا ہے۔ جانم نے اپنی نظم کا عنوان”سکھ سہیلا‘‘لکھا ہے۔ اکبر الدین صدیقی اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
”یہ جانم کی ایک عارفانہ نظم ہے اس میں (۸۲) بندہیں ہر بند چار مصرعوں کا ہے جن میں چوتھے مصرع یعنی“ لوگا یہ مت کچھ الادھی جن بوجھ بختوں لادھی“ کی تکرار ہوتی ہے جانم کے کلام میں اپنی نوعیت کی یہ واحد نظم ہے“(۱۲)
شاہ برہان الدین جانم کی نظم سہیلا کے تین بند یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں
سکہ کا سرور شاہ میراں جی انت کرن یہ مانی
سہسیر جیوا ہوئے مکہ میرے نہ پوری کرت بکھانی
آکھیں جانم سوکھ سہیلا چاکھیا ہوئے سو جانی
لوگاں یہ مت کچھ الادھی جن بوجھ بختوں لادھی

لو چٹ موندت جٹا دھاری کیں نکھاں جوں ریچہ
کانو مندرا گھال پھریں گے، لیویں جھبوا کھینچہ
انترا ندری نہ من کی ماریں۔ بیٹھیں انکھیاں مینچہ
لوگاں یہ مت کچھ الادھی جن بوجھ بختوں لادھی

ذاکر ہو کر دم جلا ویں تسبیح لے کر ہات
دل کے منکے ناہیں پھیرے تب لک خالی ہات
نند راکیری آساماریں سیس جاگیں رات
لوگاں یہ مت کچہ الادھی جن بوجھ بختوں لادھی(۱۳)
برہان الدین جانم نے اس ”سہیلا “ میں ہند وجوگی سنیاسی اور مسلم فقرا کے نت نئے طریقوں پر اعتراض کیا ہے۔ یہ سہیلا بہ اعتبار موضوع و مضمون شہر آشوب معلوم ہوتا ہے اور حضرت برہان الدین جانم اس ”شہر“ کے باسی ہیں جو اپنے اطراف کے آشوب زمانہ پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ سہیلا، کے سلسلے میں استاد محترم پروفیسر گیان چند لکھتے ہیں ”سہیلا شادی اور خوشی کا گیت ہے(۱۴) اور حقیقت کے بارے میں لکھتے ”سہیلے کے بر خلاف ان کا شادی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا“(۱۵)
استاد محترم پروفیسر گیان چند جین نے سہیلا کے سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے وہ حضرت امیر خسرو کے سویلہ(سہیلا) پر بھی بالکل صحیح اُترتا ہے۔ حضر ت امیر خسرو نے شادی کے تلازمہ ہی میں اپنے پیر کی مدح کی ہے حالاں کہ استاد محترم نے اپنے مضمون میں حضرت امیر خسرو کے سہیلا کا مطلق ذکر نہیں کیا ہے۔ جب کہ برہان الدین جانم کا مندرجہ بالا سہیلا استاد محترم پروفیسر گیان چند جین کے استدلال کی نفی کرتا ہے۔
(جاری)
—–
ٌٌٌحوالے
۱) ڈاکٹر حسینی شاہد”شاہ امین الدین علی….حیات اور کارنامے“ ص ۳۱۳ طبع اول۔
۲) پروفیسر گیان چند“ اردو نظم اور اس کی اصناف ص ۰۲ مضمون مشمولہ رسالہ شب خون بابت جولائی، اگست ۵۸۹۱ء
۳) استاد چاند خاں ”موسیقی حضرت امیر خسرو“ ص۶۶۳۔ طبع اول دہلی
۴) ایضاً
۵) ان نظموں کی جو زبان ہے وہ یقینا زمانے کے ہاتھوں صاف ہوتی چلی آئی ہے۔ اسی لیے ان نظموں کی زبان کو ہم حضرت امیر خسرو کے عہد کی زبان نہیں کہہ سکتے، مخفی مباد یہاں بحث زبان کے ارتقاء سے نہیں ہے بلکہ سہیلا کی ہئیت کا تعین مقصود ہے۔
۶) بحوالہ”موسیقی حضرت امیر خسرو“ ص ۶۶۳
۷) بحوالہ ”موسیقی حضرت امیر خسرو“ ص۵۷۳، اس سوہلہ کو بھی چاند خاں نے گائیکی انگ میں درج کیا ہے راقم الحروف نے اسے
نظم کی ہئیت میں درج کرنامناسب سمجھا۔
۸) بحوالہ ”موسیقی حضرت امیر خسرو“ ص۶۸۳
۹) بحوالہ”تاریخ ادب اردو“ جلد اول از ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۶۳۱ سنہ اشاعت جنوری ۴۸۹۱ء طبع دوم لاہور۔
۱۰،۱۱) ایضاً
۱۲) حضرت برہان الدین جانم ”ارشاد نامہ“ ص ۶۴ و ۷۴ مرتبہ ڈاکٹر اکبر الدین صدیقی مشمولہ قدیم اردو، دور دوم جلد اول ۱۷۹۱۔
۱۳) ایضاً
۱۴) پروفیسر گیان چند مضمون ”اردو نظم اور اس کی اصناف“ ص۰۲
۱۵) ایضاً

Share
Share
Share