متن کا تدریسیاتی تجزیہ :- محمد قمر سلیم

Share
محمد قمر سلیم

متن کا تدریسیاتی تجزیہ

محمد قمر سلیم
موبائل۔09322645061

تدریسیات ”Pedagogy“کا لفظ یونانی لفط ” pedagoge“سے نکلا ہے جو دو الفاظ”pais, paid” اور "agogos” سے تشکیل پایا ہے۔ لفظ”pais, paid” کے معنی "Boy, Childیعنی ’بچہ، لڑکا‘ ہیں اور” agogos” کے معنی” guide” یعنی ’رہنما‘ ہیں۔ اس طرح ” pedagoge” کے معنی ’بچے یا لڑکے کا رہنما‘ ہیں۔ جبکہ لاطینی میں یہ لفظ”pedagogue” ہے جس کے معنی ’بچے کے لیے ہدایت” "Child’s Instructionہے۔

فرانسیسی میں یہ لفظ ”pedagoge“ ہے جس کے معنی ’مدرسے کا استاد‘”School Master/Teacher” ہے۔بعد میں ” pais” اورagogos” "سے ”To lead the child“ یعنی ”بچے کی رہنمائی کرنا“کے معنی نکالے گئے۔ورلڈ بک ڈکشنری انگریزی اردو میں پیڈاگوجی کے معنی ”Pedant“کے بھی دیے گئے ہیں جس کے معنی ایک ایسا شخص جو اپنے علم کابے وجہ دکھا واکرتا ہے اور تنگ نظر ہو۔(ص۔۵۳۵۱) اور ورلڈ بک انسائکلوپیڈیا میں بھی پیڈا گوجی کے معنی child” "leader of the”بچوں کا رہنما“ بتائے ہیں۔ (ص۔۸۲۲) ۱؎
قدیم یونان اور روم میں امیر لوگ اپنے لڑکوں کے لیے ایک غلام رکھتے تھے جس کا کام اس لڑکے کی نگرانی کرنا، اسے اسکول لے کر جانا اور اسکول سے گھر لانا، اس کا سازوسامان اٹھاناا وغیرہ تھا۔اس زمانے میں امیر گھرانوں کے لڑکے موسیقی، شاعری وغیرہ سیکھتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کواچھا شہری بنانے اور ایک ایسا مقرر بنانے کی تربیت دی جاتی تھی تاکہ وہ عوام کے درمیان جاکر تقریر کرسکے اوراپنی بات ان تک پہنچا سکے۔ اس بات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لڑکوں کو سیاسی اور سماجی کاموں کے لیے تیار کر تے تھے۔بیسویں صدی کے وسط میں پیڈاگوجی کی جماعت میں آموزش سے متعلق تمام فیصلوں کے لیے استاد ذمے دار ہوتا تھا۔ لیکن آج پیڈاگوجی کے معنی بدل گئے ہیں۔ پہلے پیڈا گوجی کو سست رفتار طریقہ سمجھا جاتا ہے لیکن آج یہ ایک تیز رفتار تکنیک کہلاتی ہے۔پیڈاگوجی میں بچے متن کویاد نہیں کرتے ہیں بلکہ متن کے مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یوں تو اردو میں پیڈاگوجی کے مختلف ترجمے کیے گئے ہیں۔ پروفیسر کلیم الدین احمد کے ذریعے مرتب کی گئی قومی کاؤ نسل برائے فروغ زبانِ اردو کی جامع الگلش اردو ڈکشنری میں علم ِ تعلیم، تعلیمات، تدریسیات، فنِ تعلیم جیسے معنی دیے گئے ہیں۔ این سی آر ٹی ای نے اپنی کتابوں میں پیڈا گوجی کے لیے تدریسیات کا ترجمہ استعمال کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیڈا گوجی کے لیے سب سے بہتر لفظ فنِ تدریس ہے کیوں کہ تدریس صرف پڑھانے کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سی مہارتوں، خوبیوں، صلاحیتوں کو دخل ہے۔ویسے اسی لغت میں پیڈا گوجی کے ایک اور معنی ”ابتدائی تربیت کا نظام“ بھی ہیں اس سے بھی پیڈاگوجی کا موضوع بہت قریب ہے۔ اس میں استاد نہ صرف طلبا کو مضامین کی تعلیم دیتا ہے بلکہ زندگی گزارنے کی تعلیم بھی دیتا ہے۔استاد طلبا کو آنے والی زندگی کے لیے تیار کرتا ہے جیسا کہ ماہرِ تعلیم جاں ڈیوی نے کہا تھا کہ، ”تعلیم زندگی کی تیاری ہی نہیں ہے بلکہ تعلیم، زندگی ہے۔“استاد طلبا کو سماج میں رہنے کی مہارتوں کے بارے میں بتاتا ہے، تہذیب و تمدن سکھاتا ہے۔یہی نہیں بلکہ ان کے ذ ہنی اور سماجی نشوونما میں بھی رہنمائی کرتا ہے۔جان ڈیوی، بینجامن بلوم، جاں پیاژے، ماریا مونٹیسری نے مختلف پیڈا گوجیز پر زور دیا ہے۔
این سی ای آرٹی کی کتاب ’اردو تدریسیات حصّہ اول ‘ میں تدریسیا ت کو اس طرح بیان کیا گیاہے، ”جماعت میں معلم کے سبق پڑھانے کے عمل کو تدریس کہتے ہیں اور اس تدریسی عمل کے علمی مطالعے اور اساتذہ کی رہنمائی کو تدریسیات کہا جاتا ہے۔اصطلاحی اور تکنیکی طور پر تدریسیات کا لفظ تدریس کے طریقوں (Methods)، اندازِنظر (Approaches)، نصاب کی تیاری (Curriculum Development)، درسی کتاب کی تیاری(Textbook Development)، امتحانی جائزوں، تحقیقی رپورٹوں وغیرہ پر مبنی امور کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اساتذہ کی تربیت کے لیے درکار ہوتے ہیں۔“ (ص ۰۱۔۱۱)
پیڈاگوجی کو کچھ مفکرین نے اس طرح بیان کیا ہے:
سراج وغیرہ کے مطابق، ”ہدایتی تکنیکوں اور حکمتِ عملیوں سے آموزش کا عمل مکمل ہوتا ہے۔یہ متن (پیڈا گوجی) علم اور استادمیں تفاعلی عمل کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ آموزشی ماحول کے کچھ طریقوں کی تدبیروں کا اطلاق کرتی ہے جس میں ٹھوس آموزشی ماحول اور کمیونٹی اور خاندان کی کوافعال بھی شامل ہیں۔“ ۵؎
"…the instructional techniques and strategies that allow learning to take place. It refers to the interactive process between teacher/practitioner and learner and it is also applied to include the provision of some aspects of the
learning environment including the concrete learning environment, and the actions of the family and community.” (Siraj-Blatchford, Sylva, Muttock, Gilden & Bell, 2002, p.10)
فرقوہر نے، ”معیاری تدریس کو تدریسیاتی مشق کے طور پر بیان کیا ہے کہ تدریسیات مختلف بچوں کو ان کی مہارتوں کو بہتر بنانے میں علم، سرگرمیوں اور مواقعوں تک رسائی کرا تی ہے جو ان کی گذشتہ معلومات پر مبنی ہوتی ہے اور جو اس بات میں ان کی مددکرتی ہے کہ کیسے سیکھنا ہے اور تدریسیات مزید آموزش کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے لیے ابتدائی بچپن کے درسیات کے مطمح نظر سے رشتہ قائم کرتی ہے۔“ ۶؎
"Quality teaching is defined as pedagogical practices that facilitate for diverse children their access to knowledge, activities and opportunities to advance their skills in ways that build on previous learning, assist in learning how to learn and provide a strong foundation for further learning in relation to the goals of the early childhood curriculum…”(Te whariki
and cultural, community and family values. Farquhar, 2003, 5)
تدریسیات ایک ایسا موضوع ہے جس میں تدریس کے نظریوں، طریقوں، اندازہئ قدر، درسیات، طالب علم کی شخصیت اور اس کی عملی شکل سے بحث کی جاتی ہے۔تدریسیات ہمیں تدریسی حکمتِ عملی، استاد کی کارکردگی، انفرادی طور پر ہر طا لب علم کی دلچسپیوں،اس کے خاندانی احوال، طالب علم کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے اور آموزش کے مختلف نظریوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے استاد کے فیصلوں اور مشوروں کے بارے میں بتاتی ہے۔تدریسیات میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ استاد کس طرح طلبا کے ساتھ مراسم رکھتا ہے اور کس طرح وہ سماجی اور ذہنی ماحول کو قائم کرنے کی کوشش کرتاہے۔فنِ تدریس آرٹ اور سائنس دونوں ہے۔ایک اچھا استاد تدریس کے وقت مختلف حکمتِ عملیوں سے کام لیتا ہے۔ ہر وقت ایک جیسی ترکیب اور حکمتِ عملی کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔اسی لیے استاد کو حالات اور طلبا کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی حکمتِ عملی، اندازہئ نظر، طریقہ ئ کار کو تبدیل کرنا چاہئے۔ایک اچھا استاد صحیح حکمتِ عملی کے استعمال سے زیادہ سے زیادہ آموزش کے مواقع فراہم کر سکتا ہے ساتھ ہی ساتھ آموزش کے عمل کو تیز کر سکتا ہے۔اس کی حکمتِ عملی ہی زیادہ سے زیادہ حصولِ علم کی ضمانت دے سکتی ہے۔ایک اچھا استاد جب آموزش کے عمل کو بہتر بنانا چاہتا ہے تو مختلف حالات اور اوقات میں متعدد اندازہئ نظر، طریقہئ کار، حکمتِ عملی کا استعمال کرتا ہے۔ یہ حکمتِ عملی، طریقہئ کار، اندازہئ نظر طلبا کی صلاحیتوں پر بھی مبنی ہوتے ہیں۔ ایک اچھا استاد موثر حکمتِ عملی سے جماعت کے ماحول کو بہتر بنا سکتا ہے، طلبا کی صلاحیتوں میں اضا فہ کر سکتا ہے،طلبا، ملک اور سماج کی بہبودی کو یقینی بنا سکتا ہے۔انفرادی اختلافات اور طلبا کی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرکے آموزش کے عمل میں پختگی لا سکتا ہے اور طلبا کے علم کو بہتر اور موثر بنا سکتا ہے۔ پیڈاگوجی کی کامیابی کا انحصارمتن پر ہوتا ہے۔ ایک استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ جماعت کے ہر طالب کی دلچسپی، نفسیات ، ضرورتیں، طبعی اور سماجی ماحول، ذہن، جذبات کو متن کے ساتھ جوڑے تبھی وہ متن کے تدریسیاتی تجزیہ کرنے میں کامیاب ہو سکے گا۔ اس میں ہمیں دیکھنا ہوتا ہے کہ:۔
۱۔ متن کا احا طہ:-
یہاں ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ متن طلبا کی دلچسپی اور ان کی سطح کے مطابق ہے یا نہیں۔اس لیے ہمیشہ ایسے متن کا انتخاب کرنا چاہیے جس سے طلبا میں جوش و خروش پیدا ہو اور ان کی آموزش میں اضافہ ہو۔یہاں دلچسپی اور جوش وخروش سے مراد یہ ہے کہ وقت اور حالات کے مطابق متن کا انتخاب کرے اور بچوں کی دلچپی کے مطابق اسباق پڑھائے ساتھ ہی ان کی دلچسپی کو مدِ نظررکھتے ہوئے طریقوں کا استعمال کرے اور زیادہ سے زیادہ طلبا کو تدریسی عمل میں شامل کرے۔استاد پرانتظامیہ، پرنسپل وغیرہ کی طرف سے ایسی کوئی بھی پابندی نہیں ہونا چاہیے جس سے وہ ایک خاص وقت میں ایک خاص موضوع پڑھا نے پر مجبور ہو۔ متن کو کس وقت، کیسے اور کہاں پڑھاناہے پوری طرح سے استاد پر چھوڑ دینا چاہیے۔
۲۔ متن کی منطقی درجہ بندی:-
منطقی درجہ بندی سے مراد یہ ہے کہ متن میں کون سی بات تسلسل کے ساتھ کہی جارہی ہے اور اس متن کی اپنی انفرادیت کیا ہے یعنی منطقی نقطہئ نظر سے کسی بھی ایک نظریے کو مکمل طور پر پیش کیا جائے۔ جس طرح سے ڈرامے کا سین ’ایک‘ اپنے آپ میں ایک مکمل اکائی ہوتا ہے اسی طرح متن کی بھی ہر اکائی ہو۔متن کی منطقی درجہ بندی اس لیے بھی ضروری ہوتی ہے کہ کوئی بھی متن ایک نشست میں مکمل نہیں ہو سکتا ہے۔ اس لیے استاد کو ایک پیریڈ یا نشست کے لیے اس طرح مواد کا انتخاب کرنا چاہیے کہ اس میں تسلسل برقرار رہے اور جب وہ متن کو مزید آگے بڑھائے تو اس میں خلا پیدا نہ ہو۔
۳۔ متن کو پڑھانے کے بہترین اور موثرطریقوں کا انتخاب:-
متن کا انتخاب اور اس کا تجزیہ کرنے کے بعد استاد کو طے کرنا ہوتا ہے کہ اس متن کو پڑھانے کے لیے کون سا طریقہ زیادہ موثر ثابت ہوگا۔اس کا تعین اس بات پر بھی منحصر ہوگا کہ طلبا کی سطح کیا ہے اور انھیں کون کون سی سہولتیں مہیا ہیں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ استاد جماعت میں کسی نئے طریقے کا استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن اسے مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔اسے پڑھانے کے لیے جن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے وہ لوازمات نہیں مل پاتے اور نہ ہی وہ ماحول مل پاتا ہے جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے اگر ایک گاؤں میں استاد چاہتا ہے کہ بلینڈیڈ تدریس کرے تو اسے کمپیوٹر، نیٹ وغیرہ مہیا نہیں ہو پاتے ہیں یا بجلی ہی نہیں رہتی ہے۔ اسی طرح کسی شہری علاقے میں استاد چاہتا ہے کہ جماعت درخت کے نیچے بیٹھ کر قدرتی ماحول میں لے لیکن اسے عام طور سے درخت تو کیا بیٹھنے کی جگہ بھی نصیب نہیں ہو پاتی ہے۔
۴۔بچے کی آموزش کی سطح۔یہ بہت اہم پہلو ہے:-
بچہ تعلیم کا محور ہے اسی لیے استاد کو یہ دیکھنا چاہیے کہ متن سے کس حد تک بچے کی آموزش ہورہی ہے۔پڑھائے جانے والے متن سے بچے کی معلومات میں کہاں تک اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں استاد کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ پڑھائے جانے والے متن سے طالب علم از خود سیکھے نہ کہ اسے استاد پر تکیہ کرنا پڑے۔
متن کا تجزیہ تین سطحوں پر کیا جاتا ہے:۔
۱۔سرگرمی سے پہلے:جب استاد کسی بھی متن کی تدریس کا منصوبہ تیار کرے تو اسے مندرجہ ذیل باتوں کو مدِّ نظر رکھنا چاہیے۔
الف۔داخلی صلاحیتوں کو دریافت کرنا۔استاد اور طالب علم کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ وہی استاد کامیاب استاد کہلاتا ہے جو بچے کی تمام صلاحیتوں کو سمجھتا ہو۔یہاں استاد کو درسیات سے زیادہ بچے کی شخصیت پر زور دینا چاہیے۔ عظیم مفکر روسو کہتا تھا کہ بچے کو درسیات پڑھانے سے زیادہ اہم بچے کو پڑھنا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ استاد اپنے طلبا کی داخلی صلاحیتاں کو تلاش کرنے کی کوشش کرے اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتاہے تو اس کے لیے درس و تدریس کا عمل بہت آسان ہو جائے گا۔
ب۔ آموزشی نتیجوں کو لکھنا:۔ پڑھاتے وقت استاد کو تو بچوں کے ہر عمل پر نظر رکھنا چاہیے۔ اسے جماعت کے ہر بچے کے آموزشی نتائج کو نوٹ کرتے رہنا چاہیے یعنی کسی بھی نظریے کو پڑھانے کے بعد طالب علم نے کتنا اور کیا سیکھا ہے، معلوم کرنا چاہیے۔
ج۔متن اور اس کے ما تحت موضوعا ت کا تجزیہ کرنا۔استاد جو بھی متن بچوں کو پڑھاتا ہے اس متن کے پسِ پردہ بہت کچھ چھپا ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ استاد ان چھپی ہوئی باتوں یا متن کے ما تحت موضوعات کا اچھی طرح سے تجزیہ کرے تاکہ متن کے مفہوم کو واضح کیا جا سکے۔
د۔آموزش کی قسموں کو معلوم کرنا۔یہاں استاد کا کام ہے کہ وہ مختلف قسم کے متعلموں کے بارے میں معلومات حاصل کرے کہ وہ کس قسم کے متعلم ہیں جیسے بصری متعلم،سمعی متعلم،زبانی متعلم،جسمانی متعلم،منطقی متعلم، سماجی متعلم اور گوشہ نشین متعلم۔
۱۔بصری متعلم وہ طالب علم ہے جو کسی چیز کو دیکھ کر اس کے بارے میں جلدی معلومات حاصل کر لیتا ہے۔ایسے طالب علم کا مشاہدہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ وہ ایک بار جو چیز بھی اپنی نظروں سے دیکھ لیتا ہے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یاد رکھتا ہے۔ایسا طالب علم تصاویر اور اپنے تخیلات کی بنا پر بہت سے نظریات کو بیان کرنے میں مہارت رکھتاہے۔اس میں سائنس داں، فنکار وغیرہ شامل ہیں
۲۔سمعی متعلم وہ طالب علم ہوتا ہے جو صرف سن کر یا آوازوں کی بنا پر اپنی آموزش میں اضافہ کرتا ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے طا لب علم کی سننے کی حس بہت تیز ہوتی ہے۔ ایسا طالب علم آوازیں سن کر اس چیز یا شخص کی شناخت کر لیتا ہے۔ عام طور سے ایسے لوگ گلوکار، موسیقی کے دلدادہ، صحافی، مصنف، مقرر اور خود معلم بھی ہوتے ہیں۔
۳۔جسمانی متعلم وہ طالب علم ہوتا ہے جو بولنے سے زیادو اپنی جسمانی حرکتوں سے مفہوم کو واضح کر تا ہے۔ ایسا طالب علم اپنے ہاتھوں اور دوسرے اعضا کا زیادہ استعمال کرتا ہے۔ ایسے طالب علم کو لکھنے اور کھیلنے میں یا کوئی بھی ہاتھ کے کام یا ہنر مندی کے کام میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے ایسے لوگ عام طور سے قلم اور کاغذ کے ذریعے، اپنی صلاحیتوں اور کسی بھی کھیل کے ذریعے اپنے ہنر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
۴۔منطقی متعلم وہ طالب علم ہوتا ہے جو ہر بات کے پیچھے منطق تلاش کرتا ہے یعنی کسی بھی بات یا کسی بھی نظریے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ایسا طالب علم کسی بھی نظریے کو جاننے کی کوشش کرتا ہے یا کسی بھی چیز کی چھان بین کرتا ہے، منطق کی بنیاد پر ان سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ ایسے لوگ انجینیرس، سائنس داں، ریاضی داں وغیرہ ہوتے ہیں۔
۵۔سماجی متعلم وہ طالب علم ہوتا ہے جوہر معاون تدریسی سرگرمیوں میں شامل ہوتا ہے چاہے وہ کھیل ہوں، اسکول بینڈ ہوں، سماجی سرگرمیاں ہوں، بحث و مباحثہ ہو۔ ایسے لوگوں کے تعلقات سماج کے مختلف افراد بشمول معلم کے ساتھ بہتر ہوتے ہیں۔
۶۔گوشہ نشین متعلم وہ طالب علم ہوتا ہے جو عام طور سے جماعت میں خاموش رہتا ہے۔عام طور سے اس طرح کے طالب علم کو یا تو شرمیلا سمجھا جاتا ہے یا بہت مغرورکیوں کہ ایسا طالب علم اپنے آپ میں ہی مگن رہتا ہے اور وہ اپنے آپ ہی کسی بھی مسئلے کو حل کرنے میں اہل ہوتا ہے۔ایسے طالب علم کو سنبھالنا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
۲۔تفاعلی:یہ وہ مرحلہ ہے جب استاد طلبا کے رو برو ہوتا ہے اور اپنے منصوبے کو ان کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اس مرحلے پر بھی اسے چند باتوں کو ذہن نشین کر لیناچاہیے۔
الف۔پیش کی جانے والی تحریک کے طریقے اور تکنیکوں کو طے کرنا۔ استاد کو پیڈاگوجی کے مختلف طریقوں کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ طلبا کو تحریک ملے۔ ان طریقوں میں حقیقی دنیا سے تال میل،مسائل پر مبنی آموزش، بولتی تعلیم، خاموش تدریس،سوشل نیٹ ورکنگ، ای لرننگ، کھیلوں کے ذریعے تعلیم، لچیلی آموزش، نفسیاتی اصولوں پر مبنی تعلیم، انفرادی آموزش، اجتماعی آموزش، معاون آموزش، بلینڈیڈ آموزش، گلوبل آموزش،فلپ آموزش وغیرہ شامل ہیں۔
ب۔طالب علم کے متوقع جوابات۔پیڈا گوجی کے مختلف طریقوں کو اپنانے کے بعد استاد کو طلبا کے متوقع جوابات کو نوٹ کرنا چاہئے تاکہ اس کے آموزشی عمل سے روشناس ہوسکے اور اس کی بنیاد پر اپنے اگلے متن کا تجزیہ اور منصوبہ بنا سکے۔
د۔آموزش کے بارے میں معلومات پہنچانا۔یہاں استاد کا کام ہے کہ طلبا نے جو بھی آموزشی عمل کیا ہے اور اس عمل سے ان کی کس حد تک آموزش ہوئی ہے اس کے بارے میں طلبا کوبتانا۔
۳۔قدر پیمائی۔تمام آموزشی سرگرمیوں سے گزرنے کے بعد،آموزش کی حصولیابی کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ استاد قدر پیمائی کے مرحلے سے گزرے۔ قدر پیمائی کے ذریعے ہی معلوم ہوگا کہ طالب علم نے مختلف پیڈاگوجییز کے استعمال کے بعد کس حد تک علم حاصل کیا ہے اور کس حد تک وہ پیڈاگوجی مفیدثابت ہوئی ہے۔ قدر پیمائی کرتے وقت بھی اسے مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
الف۔آموزشی نتیجوں کو دریافت کرنا۔قدر پیمائی کے بعد حاصل ہونے والے جوابات کی روشنی میں استاد کا کام یہ دریافت کرنا ہے کہ کیا اسے آموزش کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔آموزشی نتائج دریافت کرنے سے یہاں مراد یہ ہے کہ جو بھی پیڈاگوجیز طلبا پر آزمائی گئی ہیں ان کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں یا نہیں اگر ایک طریقہئ کار کے استعمال سے خاطر خواہ نتائج اخذ نہیں ہو رہے ہیں تو استاد کو اپنی حکمتِ عملی بدلنا پڑے گی۔
ب۔تدریس کے نئے مقاصد طے کرنا۔ آموزشی نتائج کی روشنی میں استاد کو تدریس کے نئے مقاصد کا تعین کرنا پڑسکتا ہے۔یعنی اسے اپنے پورے منصوبے کو بدلنا پڑ سکتا ہے اور اسے متن کا تجزیہ نئی فکر اور نئے اصولوں کے تحت کرنا ہو گا۔
اگر استاد متن کا تجزیہ موثر انداز میں کرنے میں کامیاب ہو جاتاہے تو یقینی طور پر آموزش کے بہترین نتائج سامنے آیئں گے او ر وہ ایک کامیاب استاد کی سند رکھے گا۔عام طور سے دیکھا گیا ہے کہ ہمارے اساتذہ محنت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ وہی فرسودہ طریقوں کا استعمال کرتے ہیں اس پر طرّہ یہ کہ طلبا پڑھنا نہیں چاہتے ہیں یا ان کا علم بہت کم ہے۔تدریس ایک بہت مشکل، سنجیدہ، جاں فشانی کا کام ہے جس میں استاد کو ہر وہ طریقہ اپنانا پڑتا ہے جس سے وہ آموزش کی زمانت دے سکے۔آج کے ڈیجیٹل دور میں تدریس کا کام اوربھی مشکل ہو گیا ہے کیوں کہ بچے کا ذہن بہت تیزی سے کام کرتا ہے اور وہ جدید تکنیکی اورڈیجیٹل اعلات کا استعمال بہتر جانتا ہے اس لیے استاد کوبہت مستعدی دکھاناپڑتی ہے۔ ایک کامیاب استاد اپنے علم کو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر سے بہتر بناتا ہے اور جماعت میں طلبا کی دلچسپی اور رجحان کو دیکھتے ہوئے انھیں علم کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔
——
حواشی:
۱۔این سی ای آرٹی کی کتاب اردو تدریسیات حصّہ ۱، ۵۱۰۲
2. Pedagogy/Origin and Etymology,Online Etymology Dictionary, https://www.etymonline.com retreived on 2.4.2018.
3. World Book Dictionary, Vol two L-Z 1987
4. The World Book Encyclopedia, (P) Volume 15, 1987.
. 5. Siraj-Blatchford, Sylva, Muttock, Gilden & Bell, D. (2002) Brief No. 365, Researching Effective Pedagogy in the Early Years: Retrieved on 30.03.2018 from www.ioe.ac.uk/REPEY_research_brief.pdf
6. Furquhar, S. E. (2003) Quality Teaching Early Foundations: Best Evidence Synthesis. New Zealand Ministry of Education. 7.http://education.qld.gov.au/curriculum/learning/teaching/technology/pedagex.html)ogy/ind
8.https://www.educationdegree.com/articles/different-types-of-learning-styles
——
محمد قمر سلیم
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی، نوی ممبئی
موبائل۔09322645061

Share
Share
Share