اردو شاعری میں ہندوستانی مشترکہ تہذیب کے عناصر :- غلامِ مصطفی

Share
غلامِ مصطفی

اردو شاعری میں ہندوستانی مشترکہ تہذیب کے عناصر

غلامِ مصطفی
ریسرچ اسکالر جامعہ ملّیہ اسلامیہ نئی دہلی 
رابطہ نمبر: 9149977425
ای میل:

اردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی،خسرو،نانک،قطب اور میر کی بولی بنی۔اردو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی امین ہے۔ جس طرح ہندوستان کی مشترکہ تہذیب مختلف قوموں کے باہم اختلاط سے بنی ہے بالکل اسی طرح مختلف قوموں کی زبانوں کے باہم اختلاط سے اردو پیدا ہوئی اور پروان چڑھی ہے اس عمل کو آسٹرک،دراویدی،ہند ایرانی (فارسی) ،سامی(عربی)،ترکی اور انگریزی کے علاوہ ہند آریائی (سنسکرت) اور اس کی جدید شکلوں بالخلوص پنجابی، سندھی،بنگالی،گجراتی اور مراٹھی زبانوں کے اختلاط کو اردو کی صوتی،معنوی اور لفظی ساختوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

بقول جانثار اختر:
”یہ زبان پوری طرح سے ہندوستانی ہے،کھڑی بولی میں عربی،ترکی اور فارسی کے لفظوں کی ملاوٹ کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اور جو خسرو کے زمانے میں ریختہ کہلایا اک نئی ہندوستانی زبان اور تہذیب کو جنم دینے میں کامیاب ہوا۔جسے شروع میں ہندی یا ہندوی کہا گیا اور جو بعد میں اردو کہلائی۔“
اردو زبان کی تشکیل و ارتقا میں ہندوستانی مشترکہ کلچر ہے،جس میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو،سکھ،عیسائی اور دوسرے مذہب کے لوگ بھی فعال رہے ہیں۔”کدم راؤ پدم راؤ“ سے لے کر آج تک کتنی ہی ممتاز کتابیں،ہندؤں سکھوں یہاں تک کہ انگریزوں کے قلم سے نکلی ہیں اور شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہر ادب اپنے عہد و ماحول کا آئینہ ہوتا ہے۔اردو محض عوامی رابطے اور بول چال کی زبان ہی نہیں ہے بلکہ اس کا وسیع ودقیق ادبی سرمایہ بھی ہے۔اردو زبان و ادب کے عہد بہ عہد ارتقا کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو زبان و ادب نے ابتدا ہی سے ہندوستانی عناصر نیز ہندوستانی تہذیب کی ترجمانی کا حق بخوبی ادا کیا ہے۔امیر خسرو کا ہندی کلام،کہ مکرنیاں، دوہے اور لوک گیت،افضل جھنجھانوی کے بارہ ماسے،جعفر ذٹلی کی ذٹلیات،قلی قطب شاہ،وجہی، نشاطی، غواصی، ولی سراج اورنگ آبادی،حاتم،فائز،مرزا مظہر جان جاناں،آبرہ آرزو،میر،سودا،نظیر اکبر آبادی، مصحفی،انشاء اللہ خاں انشاء،آتش،ناسخ،امانت لکھنوی،میر حسن،رجب علی بیگ سرور،للو لال جی،رتن ناتھ سرشار،عبد الحلیم شرر، چکبست، اقبال،پریم چند،جوش اور فراق وغیرہ کی تخلیقات سے کر عصر حاضر کے اردو شعراء نے ہندوستانی تہذیب نیز مقامی موضوعات و ومسائل،تہوار،میلے ٹھیلے،موسم اور کھیل تماشے کی عکاسی کے ساتھ ساتھ ۷۵۸۱ء اور ۷۴۹۱ کی جنگ آزادی کے حالات کی ترجمانی میں بھی تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔
اردو زبان کی مختلف اصناف سخن میں شاعری ایک اہم وسیلہ قرار پائی جس نے مشترکہ تہذیب کی علامت کو اجاگر کرنے میں اہم اور قابل اعتنا کردار نبھایا ہے۔یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ شاعری میں بھی نظم نے سب سے زیادہ اتحاد،بھائی چارگی،اختلاط،اخوت،مساویانہ حقوق،میل جول اور اپنے پن کے احساس کو نمایاں کرنے میں معاون کردار ادا کیا ہے۔جہاں تک اردو شاعری کا تعلق ہے تو چونکہ اردو ادب میں پہلے شاعری کا وجود آیا اور اردو شاعری نے ہمیشہ وطن کے لیے اپنی محبت اور اپنائیت کا ثبوت پیش کیا۔اردو شاعری نے جہاں عربی،فارسی اور انگریزی اصناف ادب سے اثرات قبول کیے وہیں مقامی زبانوں خصوصاََ بارہ ماسا،دوہا اور گیت جیسی اصناف نہ صرف اخذ کیں بلکہ ان میں خوشگوار اضافے بھی کیے جس سے اردو شاعری میں ہندوستانیت کا اضافہ ہوتا چلا گیا،اس کی شیرینی میں،اس کی محبت اور مٹھاس میں اضافہ ہوا۔اور ہر مرحلے پر ببانگ دھل آواز دیتی رہی:
ساز ِدل چھیڑ کے توڑ کے بھی دیکھ لیا
اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا
اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن ”غزل“ ہے اردو غزل اگر چہ فارسی زبان سے مستعار ہے،لیکن کئی معاملات میں وہ اپنی اصل یعنی فارسی غزل سے بہت آگے نکل آئی ہے۔اردو کی کلاسیکی غزل میں ایرانی تہذیب،موضوعات و تراکیب کی کثرت پائی جاتی تھی،لیکن وقت کے ساتھ اردو غزل نے کئی کروٹیں بدلی ہیں۔مقامی موضوعات اور مسائل کی عکاسی اور مقامی لفظیات و تراکیب کے استعمال نے اردو غزل کو نئی توانائی اور نیا رنگ و آہنگ عطا کر دیا ہے۔اس حوالے سے خلیل الرحمن اعظمی کی یہ رائے حرف بہ حرف درست ہے:
”جدید تر شاعر نے پرانی علامتوں کو اپنی ذہنی کیفیات کے اظہار کے لیے نا کافی سمجھ کر خود اپنے ماحول اور زندگی سے علامتیں وضع کیں ہیں اور اس نے اس سلسلے میں خود اپنے حواس خمسہ کو رہنما بنایا ہے۔اسی عمل میں اردو غزل اپنی دھرتی سے بہت قریب آگئی ہے۔اس کی عجمیت،جس کی وجہ سے یہ ہمیشہ فارسی
غزل کا چربہ سمجھی جاتی تھی اب قریب قریب ختم ہو گئی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اردو غزل کی تاریخ میں یہ ایک اگلا قدم ہے“۔(مضامین نو)
ہندوستانی جانوروں،پرندوں،ندیوں،جھرنوں،پہاڑوں،موسموں،تہواروں،جنگلوں،کھیتوں،درختوں،پھلوں اور پھولوں کے دلکش مناظر اردو شعر و ادب کا اٹوٹ حصہ ہیں۔امیر خسرو وہ اولین سخن گو ہیں جن کے کلام میں ہندوستانیت کی گونا گوں تصاویر اپنے رنگوں کی نقاشی کے ساتھ جلوہ نما ہیں۔خسرو نے اگر چہ اپنی شاعری کا بیشتر حصہ فارسی میں قلم بند کیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی ہندوی شاعری ایک انفرادی درجہ رکھتی ہے کہ اس میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور معاشرے کے مختلف پہلؤں کو نہایت فن کاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔حضرت امیر خسرو نے اپنے کلام کو فارسی،اردو، برج اور کھڑی بولی کے امتزاج سے ایک منفرد تزئین اور نقاشی سے سنوارا ہے امیر خسرو نے تقریباََ ننانوے تصانیف تخلیق کیں،ان کا بیشتر کلام زبانِ شیراز ہی میں موزوں ہوا۔بقول علی جواد زیدی:خسرو اپنی فارسی سخن گوئی میں بھی مادر وطن کے ایک حساس فرزند کی حیثیت سے نغمہ سرا ہیں۔عظمت ہند،اس کی عوام،بدلتے ہوئے جغرافیائی مناظر،مہکتے ہوئے گل وگلزار اور رواں دواں ندیاں اور دریا ان کے محبوب موضو عات میں شامل ہیں۔ان کو اپنے ہندوستانی ہونے پر ناز تھا۔فارسی اور ہندوی زبان کے امتزاج سے یہ غزل انہیں کاخاصہ ہے:
ز حالِ مسکیں مکن تغافل دو رائے نینا بنائے بتیاں
کہ تاب ِ حجراں نہ دارم اے جاں نہ لہیو کاہے لگائے چھتیاں
شبانِ حجراں دراز چوں ذلف و روز وصلت چو عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
چو شمع سو زاں چو ذرّہ حیراں ہمیشہ گریاں بہ عشق آں مہ
نہ نیند نیناں،نہ انگ چیناں،نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں
خسرو نے اپنے ہندی یا ہندوی کلام کا بار بار ذکر کیا ہے اور اس میں انہوں نے نزاکت اور معنی آفرینی کے جو گل و گلزار کھلائے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں مثلاََ:
رفتم بہ تمشائے کنارے جوئے
دیدم بر لب آں زنِ ہندوئے
گفتم صنما بہائے ذلف چہ بود
فریاد بر آورد کہ در در موئے
امیر خسرو نہ صرف عہد ساز شاعر تھے بلکہ ہندوستانی کلاسیکی کے بھی موجد تھے۔گوپی چند نارنگ کے الفاظ میں امیر خسرو ہندوستان کے عاشق صادق اور سچے وطن پرست تھے،”ہوائے خرم است و ہر طرف باراں ہمیں بارد“ کے ذریعے ہندوستانی موسم برسات کی ترجمانی کی ہے،اسی طرح ساون کے موسم کے موقے پر ”اماں جی میرے باوا کو بھجو جی کہ ساون آیا“ جیسی نظمیں ہندستانی تہذیب و ثقافت اور ہندوستانی رسوم کی بہترین مثال ہیں۔امیر خسرو کی شاعری اور فن کے حوالے سے علامہ اقبال بجا طور پر فرماتے ہیں:
رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی
ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمۂ خسرو
اردو کے قدیم شاعروں میں نظیر اکبر آبادی کو جو مقام حاصل ہے وہ شاید ہی ان کے دور کے کسی دوسرے شاعر کو ملا ہو۔نظیر اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اپنے عہد کی تمام شاعرانہ روش سے ہٹ کر اپنا جداگانہ راستہ منتخب کیا۔انہوں نے اپنی شاعری میں عوامی رنگ اور ملک و قوم کے سماجی،اخلاقی،اصلاحی اور تہیذیبی مظامین و موضوعات کا احاطہ کیا۔ان کی شاعری میں ہندی و ہندوستانی عناصر کی جھلکیاں حد درجہ نمایاں ہیں۔اگر چہ اردو کے اولین ناقدین نے نظیر کی شاعری کو اہمیت نہ دی مگر آج کے ناقدین انہیں نظم نگاری کا امام تصور کرتے ہیں۔نظیر کی شاعری میں ہندوستانی موسم،تہوار، ہندوستانی معاشرے اور رسم و رواج کی گہری چھاپ رچی بسی ہے،یہاں کے تہواروں میں دیوالی،ہولی،عید،شب برات،بسنت،راکھی،عرس و تقریبات کا بیان پر لطف اور دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔برسات کا تذکرہ اور دوسرے موسموں کا ذکر بھی نظیر نے دل کو موہ لینے والے پیرائے میں کیا ہے۔ایک جگہ موسم برسات کے حوالے سے کہتے ہیں:
ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں
سبزوں کی لہلہا ہٹ باغات کی بہاریں
بوندوں کی جھمجھماہٹ قطرات کی بہاریں
ہر بات کے تماشے ہر گھاٹ کی بہاریں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
شب برات کے حوالے سے:
چہرہ کسی کا جل گیا آنکھیں بھلس گئیں
چھاتی کسی کی جل گئی باہیں بھلس گئیں
ٹانگیں بچی کسی کی تو رانیں بھلس گئیں
موچھیں کسی کی پھک گئیں پلکیں بھلس گئی
رکھے کسی کی ڈاڑھی پہ چنگاری شب برات
نظیر کی نظم ”بنجارہ نامہ“ میں دنیا کی بے ثباتی اور نا پائداری کو نہایت سادگی اور سلاست و روانی سے بیان کیا ہے:
ٹک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس بھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ
کیا بدھیا بینسا بیل شتر، کیا گوئیں پلّا سر بھارا
کیا گیہوں چاول مونٹھ مٹر، کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
نظیر کی کئی نظموں میں ظرافت اور طنز و نشتریت کے کاٹ دار وار بھی ملتے ہیں۔حقائق و معارف،مسائل تصوف،وحدت الوجود،اخلاقیات و پند و نصائح جیسے موضوعات بھی ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔اسی کے ساتھ نظیر کی نظموں میں انسان دوستی کا جزبہ نمایاں ہے۔ان کی مشہور نظم آدمی نامہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے یہاں انسانیت کا درد ہے، روٹی نامہ میں انسان کی بھوک کی بات کرتے ہیں۔ان کی نظم ”مفلسی“ اور ”آٹے دال“میں انسان کی بے بسی کو ظاہر کیا ہے۔
اردو شاعری میں ہندوستانی تہذیب و تمدن کے آب وگل کی خشبو ابتدا ہی سے ادبی فضا کو معطر کیے ہوئے ہے۔نظیر اکبر آبادی کے علاوہ میر تقی میر،مومن،غالب،حالی آزاد اور سر سید کی نیچرل نظم و نثر کو پرکھیے جن میں ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کی نادر و نایاب جھلکیاں نظر آئیں گیں۔اردو شاعری اور ہندوستانی تہذیب کی جب بھی گفتگو ہوتی ہے تو غالب کا ذکر آتا ہے اور آنا بھی چاہیے،غالب ایک تاریخی شعور کے حامل فنکار ہیں،اسی لیے وہ روایت پرستی کے دور میں بھی اپنے لیے ایک الگ مقام بنانے میں کا میاب ہوئے۔بڑی شاعری کی پہچان یہ ہے کہ اس میں فلسفہ کی جھلک ہو اور حقائق کی تلاش و جستجو ہو جو تخیل کی بدولت شعر میں ڈھل جائے تو استقراء و استدلال کا قائم مقام بن جاتی ہے۔غالب جن حالات کا سامنا کر رہے تھے وہ تہذیبی سطح پر غیر معمولی تھے، خود کو عرفی اور خاقانی بتانے والا محض شاعرانہ تعلّی کا مرتکب نہ ہو رہا تھا۔انہیں یہ احساس تھا کہ تہذیب کی کشتی بھنور میں ہے اور اسکے نا خدا چپو غیروں کے حوالے کر کے خواب خرگوش میں ہیں ایسے میں وہ کہتے ہیں کہ:
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو، ہم زباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا ایک گھر بنایا چاہیے
کیوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسبان کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور گر مر جائیے تو نوحہ خاں کوئی نہ ہو
ہندوستان میں وطنیت اور قومیت کا جب سیاسی تصور پیدا ہواتو شعرائے کرام کے لب و لہجے میں خود بہ خود تبدیلی پیدا ہوئی۔اکبر الہ آبادی،چکبست،ظفر علی خان،علامہ اقبال،تلوک چند محروم،جوش ملیح آبادی،احسان دانش،ساغر نظامی ،اور دوسرے شعرائے کرام کے نام بھی اس سلسلے میں لیے جا سکتے ہیں۔علامہ اقبال کے ”نظریہ وطنیت نے جس کی اساس وطن عزیز کی وابستگی پر تھی اپنا ”ترانہ ہند“ پیش کیا۔ علامہ اقبال اپنے وطن عزیع سے بے حد لگاو کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
چشتی نے جس زمیں پر پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑاے
میرا وطن وہی ہے،میرا وطن وہی ہے
علامہ اقبال اس بات سے واقف نظر آتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی تہذیب میں زبان کا اہم کردار رہتا ہے اور ہندوستان چونکہ کثیر لسانی ملک ہے اس لیے ان سب زبانوں کے ساتھ یکساں برتاو لازمی ہے۔ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے حوالے سے وہ فکر مند رہتے تھے۔انہوں نے مذہب کی حد بندیوں سے اوپر اٹھ کر ہندوستانی سماج اور تہذیب کی فلاح و تحفظ کے لیے کہتے ہیں:
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساس
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر
اقبال ہمیشہ گنگا جمنی تہذیب کے پاسدار رہے ہیں۔ان کی نظم ”ترانہ ہندی“ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کا بہترین نمونہ بھی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
اسی طرز میں ایک جگہ کہتے ہیں:
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
۰۶۹۱؁ء کے بعد نظم نگار شاعروں کی ایک لمبی فہرست پیش کی جا سکتی ہے جنہوں نے اس نوعیت کے موضوعات کو شاعری میں برت کر اپنی شہرت کا ضامن بنایا۔ کمار پاشی،نازش پرتاب گھڑی،نیاز حدر،مظہر امام،مخمور سعیدی،زبیر رضوی،بلراج کومل،عنبر بہرائچھی،گوپا متل،علی جواد ذیدی،سلام مچھلی شہری،معین احسن جذبی،جگن ناتھ آزاد،انور جلال پوری،ریاضت علی شائق،مظفر حنفی اور سید احمد سحر وغیرہ وہ شعراء ہیں جنھوں نے ہندوستان کی قومی یکجہتی،حب الوطنی،مذہبی رواداری اور قومی میراث جیسے موضوعات پر نظمیں لکھ کر اردو شعر و ادب کی دنیا میں اپنی شناخت اور پہچان مظبوط کی ہے۔
ہندوں اور مسلمانوں میں مشترکہ تہذیب اور میل جول نہ صرف اصناف ادب میں بلکہ اس زمانے کی معاشرتی زندگی کے دوسرے شعبہ ہائے حیات میں بھی نظر آتے ہیں۔ہولی،دیوالی،دسہرہ،شوراتری وغیرہ ہندوں کے تہوار ہیں اور اسی طرح شب برات،شب قدر،عیدین،محرم وغیرہ مسلمانوں کے تہوار ہیں،جنھیں شاعروں نے شاعری کے مختلف سانچوں میں ڈال کر زندہ جاوید بنا دیا ہے۔مندروں،مسجدوں،خانقاؤں،گرجوں،تیرتھ استھانوں اور قدرتی مناظر والی جگہوں کو بھی نئے شعراء نے اپنی شاعری کا موضوع خاص بنایا ہے۔غرض مشترکہ تہذیبی عناصر کی یہ روایت جس کی ابتدا شعرائے متقدمین نے ڈالی تھی اس روایت کی ارتقاء اور اس کو پرقرا رکھنے میں نئے شعراء حضرات نے اہم اور قابل فخر ثبوت پیش کیا ہے،جو اس روایت کے مستقبل کی تابناکی کی دلیل ہے۔

Share
Share
Share