قیام جامعہ نظامیہ اور مولانا انوار اللہ فاروقی :- ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان

Share
ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان

قیام جامعہ نظامیہ اور مولانا انوار اللہ فاروقی

ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان
حال مقیم شکاگو

حیدرآباد کی اس عظیم دینی درس گاہ جامعہ نظامیہ جنوبی ہند کی ایک عظیم المرتبت مذہبی یونیورسٹی ہے اس جامعہ سے ہزاروں علما فضلا فارغ التحصیل ہوکر سارے عالم میں سنت اور حنفی مسلک کا درس دینے پھیلے ہوئے ہیں۔ان کی ایک بہت طویل فہرست مرتب ہوسکتی ہے۔ اس عظیم الشان جامعہ کی بنیاد کس طرح رکھی گئی وہ قابل غور ہے

آج سے ایک سوچالیس سال قبل مولانا انوار اللہ فاروقی صاحب جنہیں فضیلت جنگ کے خطاب سے نظام سرکار نے نوازہ تھا اس جامعہ کی بنیاد رکھنے کی تجویز رکھنے میں مولانا غلام قادر مہاجر مدنی وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے ایک خالص مذہبی درس گاہ کے قیام کی ضرورت کو محسوس کیا آپ کیساتھ مولوی محمدمظفر الدین صاحب ناظم ٹپہ اس جامعہ نظامیہ کے قیام کی طرف خاص توجہہ کی ان کے ساتھ دیگر احباب سے صلاح مشورہ کیا گیا اور ایک مجلس منعقد ہوئی اور اس جامعہ نظامیہ کے قیام کابا ضابطہ اعلان کا سرکولر۱۹ ذی الحجہ ۱۲۲۹ ہجری مطابق ۱۸۵۷ عیسوی بروز شنبہ کو مولوی مظفر الدین صاحب معلیٰ کے قیام گاہ واقع افضل گنج میں ایک مجلس منعقد ہوئی جس میں طے پایا کہ حیدرآباد دکن میں ایک ایسی مذہبی درسگاہ کی اشدضرورت ہے جو دینیات کی اعلیٰ تعلیم کاانتظام کرسکے بہ اتفاق آرایہ تحریک منظور ہوگئی اور تمام علماء کی رائے سے بااتفاق مولانا انوار اللہ فاروقی صاحب کو اس عظیم الشان جامعہ نظامیہ کا صدر منتخب کیا گیا گویا یہیں سے جامعہ نظامیہ کی بنیاد رکھی گی ابتدا میں یہ جامعہ ایک مدرسہ کی شکل میں افضل گنج کے مقام پر دوتین مکانوں میں درس وتدریس کا کام انجام دیا جاتا تھا۔اس مدرسے میں طلبا کے قیام کی ضرورت محسوس ہوئی تو ۲۰۳۱ میں مولوی امیر الدین حسین صاحب اپنا مکان دارالاقامہ کے لئے وقف کردیا مولوی صاحب اسی مدرسہ کے لئے ناصرف مکان دیابلکہ اپنی ذاتی محنت اور سرمایہ بھی اسی جامعہ نظامیہ کے لئے وقف کردیا اسی مدرسہ کی ترقی وسعی میں بہت بڑھ چڑھکر حصہ لیا کرتے تھے۔ بعض وجوہات کی بنا پر یہ مدرسہ جامعہ نظامیہ نواب فیروز جنگ کی دیوڑی میں منتقل ہوگیا۔ یہ جگہ بھی ناکافی ہورہی تھی جس کی وجہہ سے سرکار اعلیٰ آصف جاہ سادس کے حکم سے ۹۱ ۳۱ ھ میں محلہ شاہ گنج میں ایک وسیع او رپکا مکان جامعہ نظامیہ کے لئے عطا کیاگیا۔ دن بہ دن طلبا کی تعداد میں اضافہ ہوتاگیایہ مکان بھی ناکامی ہونے لگا اور آصف جاہ سادس کی طرف سے ایک اور مکان محلہ شبلی گنج میں دیا گیا آج اسی مقام پرجامعہ نظامیہ کا م انجام دے رہا ہے۔مولانا انوار اللہ فاروقی جنہیں ہم تمام اہل دکن بانی جامعہ نظامیہ کی حیثیت سے یادکرتے ہیں آپ کی ولادت بہ سعادت ۴/ ربیع الثانی ۱۲۶۴ ہجری میں ان کے والد قاضی ابو محمد شجاع الدین کے گھر قندرھار ضلع نانڈیر میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مذہبی نویت کی تھی بعد میں سات سال کی عمر میں حافظ امجد علی صاحب نابیناکیا درس گاہ میں حفظ قران کا سلسلہ شروع ہوا گیارہ سال کی عمر میں قران مجید حفظ کرلیا۔ بعد میں مولوی فیاض الدین صاحب سے فقہ حنفیہ کی تعلیم حاصل کی اور مولونا عبدالحی صاحب فرنگی محل سے فقہ اور معقول کا درس مکمل کیا تفسیر میں مہارت مولانا شیخ عبداللہ یمینی سے حاصل کی۔ وہ اپنے والد سے سلوک کی ابتدائی تعلیم حاصل کی تعلیم سے فارغ ہونے کہ بعد آپ کاعقد اٹھارہ سال کی عمر میں مولوی امیر الدین صاحب کی صاحب زادی سے ہوا۔ ابتداء میں ۱۲۸۵ ہجری میں محکمہ مال گزاری میں مولانا کا تقرر خلاصہ نویسی کی خدمت پر ہوا یہ سلسلہ دیڑھ سال تک جاری رہا اور مستعفیٰ ہوگئے۔ ملازمت سے ہٹ جانے کے بعد مولانا متوکل زندگی گذارنے لگے۔ اس زمانے میں اللہ کی راہ میں سفر بیت اللہ ۱۲۹۷ ہجری میں حج ادا کیا۔ واپسی کے بعد مولانا کا انتخاب بحیثیت عربی استاد شہزادے نواب میر محبوب علی خان ہوا چارسو روپئے ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ اس کہ ساتھ مولانا نے درس وتدریس اور مصنف وتالیف کا سلسلہ شروع کیا۔ ۱۰۳۱ ہجری میں مولانا کو حکومت حیدرآباد کی طر ف سے افضل الد ولہ بادشاہ وقت نے انھیں خان بہادر فضیلت جنگ کے خطاب سے سرفراز کیا اور منصب ایک ہزاری جاری ہوگئی مولانا ناصرف بادشاہ وقت کے دو نسلوں کو دین کی تعلیم سے نوازہ اور میر عثمان علیخان آصف جاہ سابع بھی آپ سے عربی کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۱۱ء عیسوی میں جب آصف جاہ سابع تخت نشین ہوئے مولانا انواراللہ خان بہادر فضیلت جنگ کو امور مذہبی کا ناظم مقرر کیا گیا۔اور جب نواب مظفر جنگ بہادر معین المہام امو رمذہبی کاانتقال ہوگیا تو آصف جاہ سابع نے مولانا کی صلاحیت سے متاثر ہوکر انھیں وزارت امو رمذہبی پرآپ کا تقرر کردیا یہ سلسلہ مولانا کی وفات تک جاری رہا مولانا کی وفات جمادی الثانی کی چاند رات ۱۳۳۶ ہجری میں ہوئی۔ انا اللہ وانا الیلہ راجعون
آپ کی جسد خاک جامعہ نظامیہ کے صحن میں مدفن کی گئی مولانا کی تصانیف بہت زیادہ ہیں ان میں چند کا ذکر کیا جاتا ہے افادۃ الافہام یہ کتاب غلام احمد قادیانی کے جواب میں لکھی جس میں مولانا نے حنفی فقہ پر جو اعتراضات قادیانی نے کیا تھا اس کے مدلل جوابات دئے ہیں۔ مولانا کی دوسری اہم کتاب حقیقت الفقہ ہے یہ تصنیف فرقہ اہل حدیث کے عقائد کے جواب میں لکھی گئی ہے ان کی تیسری تصنیف خدا کی قدرت ہے یہ ایک منظوم رسالہ ہے جس میں انبیائے اکرام اور اولیائے عظام سے استراد کی جاسکتی ہے آپ نے اس کتاب میں یہی ثابت کیا ہے۔ چوتھی کتاب رسالہ خلق افعال ہے اس میں حق تعالیٰ کا خالق الفعال ہونا ثابت کیا ہے اس کے علاوہ ایک رسالہ مقاصد الاسلام جاری کیا اس رسالہ میں زیادہ تر مذہبی مضامین شائع ہوتے تھے۔ مولانا نے ایک اور رسالہ بھی جاری کیا اسی رسالہ میں مولانا زیادہ تر وحدت الوجود کے مسائل پر مضامین لکھا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مولانا نے بیسوں مضامین شائع کئے یہ تمام مضامین مذہبی نویت کے تھے۔ اس کہ علاوہ مولانا جب زمانہ قیام مدینہ منورہ میں تھے وہاں سے کچھ نایاب تصانیف اپنے ذاتی اخراجات سے نقل کروائی تھی جب ۱۳۰۸ھ میں وہاں سے حیدرآباد واپس ہوئے تو مولانا کو خیال آیا اس علوم قدیمہ کا بیش بہا خزانہ کسی طرح زیور طبع سے آراستہ ہوجائے اس فکر میں مولانا نے مُلامحمد عبدالقیوم کی مدد اور مشورے سے پہلی کتاب کنزالعمال شائع کی جو حدیث نبوی کا بہترین مجموعہ ہے۔
جامعہ نظامیہ جنوبی ہند کی عظیم الشان دینی درس گاہ ہے اس کی شہرت سے متاثر ہوکر محترمہ پروین افسانہ فاروقی صاحبہ نے انگریزی ادب میں A study of Jamia Nizamia کے عنوان پرایک تحقیقی مقالہ لکھا اور 1927ء میں زیور طباعت سے آراستہ بھی کیا یہ ایک مکمل تاریخی کتاب ہے۔ مولانا فارسی اور اردو میں اپنی کہنہ مشق شاعرانہ طبیعت میں اپنا کلام یادگار چھوڑا ہے۔ ان اشعار کا انتخاب شمیم الانوار کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اردو کے چندا شعار عارفانہ خیالات کی ترجمانی کرتی ہے ملا حظہ کیجئے۔
شرک ہر چند برملا تو نہیں
دیکھو دل میں وہ چھپ گیا تو نہیں
دل ٹھکانے نہیں ہے کیا باعث
وہ کسی زلف میں پھنسا تو نہیں
دل کو وہ توڑتے ہیں یہ کہکر
بت کدہ خانہ خدا تو نہیں
پھر سوے کعبہ لے چلاہے دل
دیکھے اس میں کچھ دغا تو نہیں
آخر میں یہ عرض کرتا ہوں کہ میرے دادا رحمت اللہ خان رحمت حیدرآبادی جامعہ نظامیہ کے طالب علم تھے اور شاعری میں جلیل مانک پوری کے آگے زانوے ادب طئے کیا۔پیری مریدی میں حضرت پیر جماعت علی شاہ قبلہ ملتان پاکستان کے مرید خاص تھے وہ جب حیدرآباد آکر قیام فرماتے دادا ابا میلاد کی محفلوں میں نعتیہ کلام پیش کرتے اس جلسوں میں بادشاہ وقت نواب میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع بھی موجود ہوتے تھے۔ میرے والد بھی انھی کے مرید تھے ۔حضرت کے انتقال کے بعد پیر سید شاہ سیف الدین شرفی کے ہاتھ پر بیعت کیااور اپنے والدین کے عقیدے کا ہر طرح لحاظ رکھا ہے اور اہل سنت طریقہ سے میری اولاد بھی عمل کررہی ہے حضرت انواراللہ خان فاروقی قبلہ سے راقم کو بے حد عقیدت اور نیاز حاصل ہے۔
٭٭٭

Share
Share
Share