اذان کا دوسرا کلمہ، اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (2) :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

اذان کا دوسرا کلمہ،
اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (2)

مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536

اذان کا دوسرا کلمہ ۔ پہلی قسط کے لیے کلک کریں

لَآ اِلٰہَ اِلّاَ اللہُ کا پہلا جز ہی تمام معبودان باطل اور تمام باطل حکمرانوں کا انکار لیے ہوئے ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جتنے نبیوں اور رسولوں کا تذکرہ ہے، اس میں خصوصیت کے ساتھ یہ بات مذکور ہے کہ ہر نبی کی دعوت کی مخالفت کا آغاز قوم کے سرداروں کی طرف سے ہوا ہے۔

اسی انبیائی دعوت اور اس کی مخالفت کی روشنی میں قرآنی جائزہ پیش کیا جائے تو یہ بات سامنے آئیگی کہ جس اسلامی دعوت اور تحریک کی مخالفت وقت کے باطل حکمرانوں کی طرف سے ہوتو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس دعوت اور تحریک کا انبیائی دعوت اور تحریک سے قریبی تعلق ہے، اور اسی قرآنی اصول کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو یہ بات بھی سامنے آئیگی کہ جس اسلامی دعوت اور تحریک کی حمایت وقت کے باطل حکمرانوں کی طرف سے ہو رہی ہے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اس دعوت اور تحریک کا انبیائی دعوت اور تحریک سے تعلق کٹا ہوا ہے، پھر وہ دعوت و تحریک نبیوں اور رسولوں کی دعوت و تحریک سے جتنی زیادہ قریب ہوگی، وہ باطل حکمرانوں کے نزدیک اتنی ہی مبغوض ہوگی، اور وہ دعوت و تحریک نبیوں اور رسولوں کی دعوت و تحریک سے جتنی زیادہ دور ہوگی وہ باطل حکمرانوں کے نزدیک اتنی ہی محبوب ہوگی۔
چنانچہ دنیا کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جو بھی جماعت انبیائی دعوت کو لیکر اٹھی ہے تو وقت کے باطل اقتدار نے ان کا جینا دوبھر کر دیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، اور دور حال میں بھی جو جماعتیں انبیائی دعوت کو لیکر اٹھی ہوئی ہیں تو موجودہ دور کے باطل حکمرانوں اور حکومتوں نے ان کا جینا دو بھر کر دیا ہیں، اور ان پر طر ح طرح کے الزامات لگاکر انہیں جیلوں میں ڈالا جارہا ہے، اور بہتوں کو قتل کیا جا رہا ہے، لیکن اس سلسلہ میں ان جماعتوں اور
ان کے افراد کو ڈرنے اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے خوش ہونے اور اطمینان کرنے کا موقع ہے کہ ان کے ساتھ آج کی باطل حکومتیں وہی کچھ کر رہی ہیں جو آج سے ہزاروں سال پہلے انبیاء اور ان پر ایمان لانے والوں کے ساتھ اس وقت کی باطل حکومتیں کرتی تھیں، لیکن اس سلسلہ میں سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج بہت سی دینی جماعتیں اور افراد، ان جماعتوں اور افراد کو انبیائی دعوت سے ہٹے ہوئے سمجھتی ہیں جن کی باطل حکومتیں مخالفت کر رہی ہیں، جب کہ ان کا یہ طرز عمل اُلٹا چورکوتوال کو ڈانٹے کے زمرے میں آتا ہے، گویا کہ ان جماعتوں اور ان کے افراد نے باطل حکمرانوں کی حمایت اور مخالفت کو کسی جماعت کے حق اور نا حق ہونے کا معیار سمجھ لیا ہیں، کہ جس جماعت کی باطل حکومتیں حمایت کر رہی ہیں وہ حق پر ہے اور باطل حکومتیں جس جماعت کی مخالفت کر رہی ہیں وہ نا حق پر ہے، جب کہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے وہ یہ کہ باطل حکومتیں جس دینی جماعت کی حمایت کر رہی ہے یقینا اس میں کچھ نہ کچھ باطل کی آمیز ش ہوگی، اور باطل حکومتیں جس دینی جماعت کی مخالفت کر رہی ہے یقینا اس کا قرآن اور اسلام سے قریبی تعلق ہوگا، اور وہ حق کی ترجمان ہوگی۔
انسانی اور اسلامی تاریخ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ جب تک دنیا میں اہل حق مغلوب رہتے ہیں تو اہل باطل ان پر طرح طرح کے الزامات لگا کر ان پر ظلم و ستم کرتے ہیں، اور جب اہل حق دنیا میں غالب آتے ہیں تو اہل باطل اپنا طریقہ تبدیل کرکے اندر اندر ہی اہل حق کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں، چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ؑ کو بنی اسرائیل پر غلبہ عطا کر دیا تو، سامری نام کے شخص نے ایک سازش کرکے بنی اسرائیل کی ایک بڑی تعداد کو بچھڑے کی پرستش میں مبتلا کردیا، اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ اور آپ پر ایمان لانے والوں کو مدینہ میں غلبہ عطا کیا تو، اہل باطل نے عبد اللہ بن ابی کی قیادت میں آنحضورﷺ اور اہل ایمان کے خلاف نت نئی سازشوں کادروازہ کھول دیا، یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کے رسولﷺ کو دھوکہ سے قتل کرنے کی بھی سازش کی، کبھی زہر دے کر مارنے کی سازش کی، اُم المومنین حضرت عائشہؓ پر نعوذ باللہ زنا کی تہمت لگانے کی سازش کی، مختلف موقعوں پر اہل ایمان کو آپس میں لڑانے کی سازش کی، یہاں تک کہ جب پورے عرب میں اسلام سیاسی لحاظ سے غالب آگیا، اور اسلامی فوج قیصر روم کی فوج سے لڑنے کی تیاری کر رہی تھی تو اسلامی حکومت کے دارا لخلافہ، مدینہ شہر میں اس سازشی گروہ نے ایک مسجد بنائی، اوراسلامی حکومت کے سب سے بڑے سربراہ حضرت محمدﷺ سے افتتاح کی درخواست کی، آپؐ نے فرمایا، چونکہ میں جنگ تبوک کی تیاری کر چکا ہوں، اور ابھی لشکر کی روانگی کا وقت ہے، اس لیے جنگ تبوک سے واپسی پر مسجد کا افتتاح کردیں گے، لیکن واپسی سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کی وحی نازل فرمادی،جس میں اس مسجد کی حقیقت اور اس کی غرض و غایت بتادی، چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے جنگ تبوک سے واپسی پر اس مسجد کو گرانے کا حکم دیا، اور چند صحابہؓنے اسے گرادیا، قرآن کی اصطلاح میں اسے مسجد ضرار کہتے ہیں، یعنی نقصان پہچانے والی مسجد، اس سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ اہل حق کے خلاف اہل باطل کی کس طرح کی سازشیں ہوتی ہیں، اور کہاں کہاں ہوتی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ جب تک قرآن نازل ہو رہا تھا، وحی کے ذریعہ اہل باطل کی سازشوں کا پتہ چل جاتا تھا، جس سے اہل حق واقف بھی ہو جاتے تھے، اور محفوظ بھی ہو جاتے تھے، لیکن قرآن مجید کے نزول کے بعد اب یہ اہل حق کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کی روشنی میں اپنے دور کے سازشی گروہ کا پتہ لگائے، اور ان کی سازشوں سے خود بھی بچیں، اور دوسروں کو بھی بچائیں، لیکن بد قسمتی سے اس سلسلہ میں اہل حق کی طرف سے اپنے دور کے سازشی گروہ کو سمجھنے کی جو سنجیدہ اور تحقیقی کوشش ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوسکی، بلکہ الٹا یہ ہوا کہ اہل حق کی جن شخصیات نے قرآن کی روشنی میں دور حاضر کے سازشی گروہ کا پتہ لگایا اور ان کی سازشوں سے واقف کرایا، ان ہی شخصیات کو مسلمانوں میں ایسے بد نام کردیا کہ مسلمانوں کی اکثریت ان کا نام سن کر ہی ان پر لعن طعن کرتی ہیں، دور حاضر میں جن اسلامی شخصیات نے موجودہ دور کے باطل کے سازشی گروہ کا پتہ لگایاہیں، اور ان کی سازشوں سے مسلمانوں کو واقف کرایا، ان میں عرب دنیا میں سید قطب شہیدؒ اور حسن البنّا شہیدؒ نمایاں طور پر ہیں،اور بر صغیر ہندو پاک میں نمایاں طور پر علامہ اقبالؒ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں، لیکن یہ چار شخصیات مسلمانوں میں اتنی بد نام ہیں کہ بہت سے مسلمان ان کا نام سننا تک گوارہ نہیں کرتے، جب کہ ان چاروں شخصیات نے خصوصیت کے ساتھ میدان سیاست میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف باطل کے سازشی گروہ نے جو سازشیں کی تھیں انہیں کھول کھول کر بتایا، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت نے مذکورہ شخصیات کی رہنمائی کو مسترد کردیا، اور باطل کے سازشی گروہ کی رہنمائی کو اختیار کر لیا، چنانچہ نہ ہی عربوں کی اکثریت نے سید قطبؒ اور حسن البنّا کے اسلامی نظریات کو قبول کیا، اور نہ ہی بر صغیر کے مسلمانوں کی اکثریت نے علامہ اقبالؒ اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے اسلامی نظریات کو قبول کیا، جس کی بناء پر عرب کے مسلمان بھی دینی وسیاسی لحاظ سے کمزور ہو گئے،ہیں اور بر صغیر ہندوستان و پاکستان و بنگلہ دیش کے مسلمان بھی دینی و سیاسی لحاظ سے کمزور ہو گئے ہیں، کیونکہ ان مذکورہ شخصیات کے نظریات ان کے ذاتی نظریات نہیں تھے، بلکہ ان کے نظریات براہ راست قرآن و حدیث سے اخذ کئے ہوئے نظریات تھے، اس لیے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر مسلمان ان مذکورہ شخصیات کے نظریات کو قبول کرلیتے تو نہ ہی عربوں کی موجودہ سیاسی درگت ہوتی اور نہ ہی ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی موجودہ سیاسی دُرگت ہوتی، اب بھی اگر عرب اور بر صغیر کے مسلمان میدان سیاست میں اسلامی نظریہ سیاست کو قبول کرلیں تو ان کی موجودہ سیاسی پستی ختم ہو سکتی ہے، لیکن افسوس ہے کہ میدان سیاست میں برسوں کی ٹھوکر کھانے کے باوجود ابھی بھی مسلمانوں کو میدان سیاست میں اسلام کا نظریہ سیاست نظر نہیں آرہا ہے۔
اب ذرا مسلم قوم پرست سیاسی لیڈران اور ہندو، مسلم مخلوط سیاست کے حاملین بتائیں کہ تمہارے کہنے پر مسلمانوں نے اسلامی سیاست کے نظریہ کو مسترد کردیا تھا اور تمہارے نظریہ کو قبول کیا تھا، تو پھر عرب، پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں مسلمانوں کو کیوں سیاسی امن نہیں ملا، اور کیوں مسلمان تاریخ کی بدترین سیاسی پستی اور بے بسی میں داخل ہو گئے ہیں؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مسلم لیگ اور کانگریس کے مسلم لیڈران نے مسلم قوم کے ساتھ تاریخ کی بدترین سیاسی دشمنی کی ہیں۔ اس لیے قرآن کی روشنی میں یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ گذشتہ ستر سالوں میں عرب اور بر صغیر میں مسلمانوں پر جو بھی سیاسی ظلم و ستم ہوا ہے اس کے اصل ذمہ دار مسلم قوم پرست لیڈران ہیں یا پھر سیکولر جمہوری سیاست کے حاملین، اور اللہ تعالیٰ ضرور ان سے اس سلسلہ میں پوچھے گا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا۔ وَ نَکْتُبُ مَاقَدَّمُوا وَ اٰثَارَھُمْ وَ کُلَّ شیْءِ اَحْصَیْنٰہُ فِیٓ اِمَامِ مُّبِینْ (یٰسین) ترجمہ (اورہم لکھتے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا اور جو انہوں نے پیچھے چھوڑا، اور ہر چیز ہم شمار کر رہے ہیں ایک واضح کتاب میں) مطلب یہ کہ جن کی غلط رہنمائی سے ان کی موت کے بعد جن لوگوں کو بھی نقصان پہنچا اس کا گناہ بھی ان کے نامہ اعمال میں درج کیا جائے گا، لیکن غلط رہنمائی کے پیچھے چلنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہیں کی جا ئے گی، کیونکہ ان پر اللہ کے انعام یافتہ بندوں کے راستہ کی اتباع ضروری قرار دی گئی تھی، نہ کہ اللہ کے غضب یا فتہ اور سیدھے راستہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کے راستہ کی اتباع، اور اللہ کے انعام یافتہ بندے قرآن مجید کے مطابق، انبیاء صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں، اور ہر وہ شخص اور پارٹی سیدھے راستہ سے بھٹکی ہوئی ہے، جس کی پالیسی اور طریقہ کا ر قرآن و حدیث کے مطابق نہ ہو، اس لحاظ سے مسلم لیگ بھی اور کانگریس بھی سیاسی لحاظ سے ضالین یعنی صراط مستقیم سے ہٹی ہوئی پارٹیاں ہیں، کیونکہ دونوں بھی پارٹیوں کی پالیسی قرآن و حدیث کے مطابق نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود بر صغیر کے مسلمانوں نے میدان سیاست میں یا تو کانگریس پارٹی کا ساتھ دیا یا مسلم لیگ کا ساتھ دیا، اور اسی جرم کی پاداش میں اب تک لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کا قتل عام ہو چکا ہے، جبکہ ان میں سے صرف ایک فیصد کابھی قتل بر صغیر میں اسلامی سیاست کے غلبہ کے لیے ہوتا تو پورے بر صغیر میں اسلام سیاسی لحاظ سے غالب آجاتا، اور جو مسلمان اس غلبہ کی جدوجہد میں قتل ہوتے، وہ اللہ کے نزدیک شہید قرار پاتے، اور اللہ کے نزدیک شہداء کا مقام بہت اونچاہے۔ بہرحال دیر آید درست آید کے تحت مسلمانوں کے پاس اللہ کی طرف پلٹنے کا اب بھی موقع ہے، اللہ کے نزدیک توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے، بلکہ اللہ تو ہر بندہ کے استقبال کے لیے ہر وقت تیار ہے اور اس بندہ سے اسے بہت خوشی ہوتی ہے جو اس کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے اللہ کی خوشی کو ایک مسافر کی مثال سے سمجھایا۔ (وہ یہ کہ ایک اونٹ سوار،کا بیابان میں اونٹ گم ہو گیا، اور اسی اونٹ پر اس کا کھانا اور پانی تھا، سوار نے اونٹ کو تلاش کیا لیکن نہیں ملا، تو سوار اونٹ کے ملنے سے مایوس ہو کر ایک درخت کے نیچے آکر لیٹ گیا، اور اسے نیند آگئی، لیکن جب نیند سے بیدار ہوا تو اس کا اونٹ پانی اور کھانا سمیت اس کے سامنے کھڑا ہوانظر آیا تو اس سوار کو اس موقع پر جو خوشی ہوگی اس سے زیادہ خوشی اللہ تعالیٰ کو اس بندہ سے ہوتی ہے جو بے دینی کی زندگی کو چھوڑ کر اس کی طرف پلٹ آتا ہے) موجودہ دور کے ایک شاعر، دل خیر بادی کا ایک شعر اس سلسلہ میں بڑی رہنمائی کرتا ہے۔
سبھی دروازے ہوں گے بند تو یہ فیصلہ ہوگا
چلو توبہ کریں، توبہ کا دروازہ کھلا ہوگا
یقینا اس وقت مسلمانوں پر عالمی، ملکی، مقامی، محلہ اور مکان کی سیاست کا دروازہ بند ہے، میں نے مکان کا لفظ جان بو جھ کر استعمال کیا ہے۔ اس لیے کہ اب مسلمانوں کو اپنے مکانات میں بھی سیاسی آزادی حاصل نہیں ہے، اس لیے کہ وہ کب نکاح کرے کب نہ کرے، کتنے بچے پیدا ہونے دے،کتنے نہ ہونے دے، اپنے مکان میں کس جانور کا گوشت کھائے اور کس جانور کا گوشت نہ کھائے، طلاق کس طرح دے کس طرح نہ دے، اس کا فیصلہ صاحب مکان نہیں کر سکتا، بلکہ اس کا فیصلہ وقت کے اسلام دشمن حکمران کریں گے۔ لیکن افسوس ہے کہ بہت سے مسلمانوں کو اپنی اس سیاسی بے بسی کا اب بھی احساس تک نہیں ہے، اور کچھ مسلمانوں کواس کا احساس ہے بھی تو اس سیاسی پستی سے نکلنے کا ان کے پاس وہی کانگریسی اور مسلم لیگی،سیاست کا نسخہ ہے،جب کہ اسی سیاست کے سبب مسلمان سیاسی پستی میں گرے ہیں، گویا کہ مسلمانوں کا یہ طرز عمل اس شعر کے مصداق ٹھہرتا ہے۔
میر کیا سادہ ہے بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
یا مسلمانوں کا یہ طرز عمل جس سوراخ سے بار بار ڈنسے جارہے ہیں پھر بار بار اسی سوراخ میں انگلی ڈالنے کے زمرے میں آتا ہے جبکہ حدیث میں مومن کی یہ پہچان بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈنساجاتا، چنانچہ فرمان رسولﷺ ہے۔ لاَ یُلْدَغُ الْمُومِنُ جُحْرِ وَاحِدِ مَرَّتَیْنِ۔(یعنی مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈنسا جاتا)۔مطلب یہ کہ مومن ایک غلطی بار بار نہیں کرتا، یا اُسے بار بار دھوکہ نہیں دیا جا سکتا، ایک مرتبہ کی غلطی اور دھوکہ سے وہ نصیحت حاصل کر لیتا ہے۔ بار بار کی مصیبت و پریشانی سے نصیحت حاصل نہیں کرنایہ منافقین کا شیوہ ہے، چنانچہ قرآن میں سورۂ توبہ میں فرمایا گیا ہے۔
(اَوَلاَ یَرَوْنَ اَنَّھُمْ یُفْتَنُونَ فِیْ کُلّ عَامِ مَّرَّۃً اَوْ مّرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُبُوْنَ وَلاَ ھُمْ یَذَکّرُوْنَ۔ (سورۂ توبہ آیت ۶۲۱) ترجمہ(کیا یہ منافقین دیکھتے نہیں کہ انہیں ہر سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ کوئی نہ کوئی مصیبت میں ڈالا جاتا ہے پھر بھی توبہ نہیں کرتے اور نہ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں)
اس حوالہ سے مسلمان اگر اپنا جائزہ لیں تو افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے وہ یہ کہ آزادی ہند کے بعد برصغیر کے مسلمانوں پر شاید ہی کوئی ایسا سال آیا ہو، جس میں ان پر ایک سال میں دس بارہ مرتبہ مصیبت و پریشانی نہ آئی ہو، مطلب یہ کہ کوئی ایک مہینہ بھی ایسا نہیں گزرا، جس میں کوئی نہ کوئی مصیبت و پریشانی نہ آئی ہو، لیکن پھر بھی انہوں نے غیر اسلامی سیاست سے توبہ نہیں کی اور نہ ہی نصیحت حاصل کی، جب کہ دو ر نبویﷺ کے منافقین پر اس پر بھی اللہ کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی کہ وہ ہر سال میں ایک مرتبہ، دو مرتبہ کی پریشانی سے توبہ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی نصیحت حاصل کرتے تھے۔ واضح رہے اللہ کی نافرمانی کی زندگی کو چھوڑ کر اللہ کی اطاعت کی زندگی اختیار کرنے کو تو بہ کہتے ہیں، معلوم ہوا کہ صرف زبان سے توبہ توبہ کہنے کو توبہ نہیں کہتے اور نہ ہی صرف چہرہ پر دونوں ہاتھ مارنے کو توبہ کہتے ہیں، جیسا کہ عام لوگ توبہ کا یہ مطلب سمجھتے ہیں۔
کانگریسی اور مسلم لیگی طرز کی سیاست کرنے والے مسلم لیڈران کو اگر مسلمانوں کی موجودہ سیاسی پستی کا ذرا بھی احساس ہوتا اور ان کے اندر ذرا بھی مسلمانوں کی پریشانی کا غم ہوتا، اور ذرا بھی ان کے اندر خوف خدا ہوتا تو وہ مجمع میں اپنی سیاسی غلطی کا اعتراف کرتے، اور اللہ سے بھی معافی مانگتے، اور لوگوں سے بھی معافی مانگتے،کیونکہ غلط سیاسی رہنمائی کا گناہ اللہ کی نا فرمانی کے ساتھ بندوں کی حق تلفی سے بھی جڑا ہوا ہے، اور جب تک بندے معاف نہ کریں تب تک بندوں کی حق تلفی کا گناہ معاف نہیں ہوتا۔مگر افسوس ہے کہ اب بھی یہ کانگریسی اور مسلم لیگی طرز کی سیاست کرنے والے، مسلم لیڈران بڑے بڑے مجموعوں میں بڑی ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ منہ پھاڑ پھاڑ کر،اور چیخ چیخ کر، وہی سیکولر زم اور مسلم قوم پرستی کی سیاست کی خوبیاں بیان کر رہے ہیں، اور اسلامی سیاست کی خرابیاں بیان کر رہے ہیں،اور مسلمانوں کو غیر اسلامی سیاست کی حمایت اور اسلامی سیاست کی مخالفت پر آمادہ کر رہے ہیں۔ ان نام نہاد مسلم لیڈران کے سامنے صرف قرآن مجید کے سترہویں (۷۱) پارہ کی پہلی آیت ہی پیش کی جا سکتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے۔ (اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَ ھُمْ فِیْ غَفْلَۃِ مُعْرِضُوْنَ) (سورہ انبیاء آیت نمبر۱)(لوگوں کے لیے حساب کا وقت قریب آگیا ہے اور وہ غفلت ہی میں پڑے ہوئے ہیں، حق سے منہ موڑ کر)
ہو سکتا ہے کسی قاری کے ذہن میں یہ بات آئے کہ یہ تو، اذان کے دوسرے کلمہ اَشْھَدُ اَنْ لَآ اِلٰہَ اِلّاَ اللہُ کی تشریح چل رہی ہے لیکن بیچ میں اسلامی سیاست کی حمایت اور غیر اسلامی سیاست کی مخالفت کی بات کیسے آگئی ہے، تو اس کی اطلاع کے لیے یہ بات عرض ہے کہ اس کلمہ کی ذات ہی میں اسلامی سیاست کی دعوت و حمایت اور غیر اسلامی سیاست کا انکار اور مخالفت شامل ہے، اور یہ کسی مجتھد کا اجتہاد نہیں ہے، بلکہ قرآن و حدیث سے واضح طور سے ثابت ہے، چنانچہ اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ نے دور مکی ہی میں اس کلمہ کو اسلامی حکومت کے ایک کلمہ کے طور پر پیش کیاہے۔ چنانچہ مسند احمد اور نسائی کی روایت ہے اور سیرت ابن ہشام نے بھی اس کوبیان کیا ہے۔ (عَنْ اِبْنِ عَبَّاسِؓ وَ تَکَلَّمَ رَسُولُ اللہﷺ فَقَالَ یَاعَمَّ اِنّیِ اُرِیْدُھُمْ عَلیٰ کَلِمَۃِ وَاحِدۃِ تُدِیْنُ لَھُمْ بِھَا الْعَرَبُ وَ تُوءَ دِّ اِلَیْھِمْ بِھَا الْعَجَمُ الْجِزیَۃَ فَفَزِعُوا لِکَلِمَۃِ وَ لِقَوْلِہِ فَقَالَ الْقَوْمُ کَلِمَۃً وَاحِدۃً نَعَمْ وَ اَیْبکَ عَشْراً فَقَالُوا مَا ھِیَ وَ قَالَ اَبوْطَالِبِ وَاَیُّ کَلِمَۃِ ھِیَ یَااِبنْ اَخِیْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِﷺ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ) (مسند احمد،نسائی،سیرت ابن ھشام جلد۱ صفحہ ۶۶۴) ترجمہ:(حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے کہا،اے چچا میں ان (قریش مکہ) سے ایک کلمہ کا مطالبہ کرتا ہوں، اگر وہ اس کو قبول کرلیں تو، اس کے ذریعہ عرب ان کے تابع ہو جائیں گے، اور غیر عرب ان کو ٹیکس ادا کریں گے، پس وہ اس کلمہ کے لیے بے چین ہوگئے، اور کہنے لگے، ایک کلمہ کیا ہے؟ آپ کے باپ کی قسم دس پیش کیجئے، بتاؤ وہ کلمہ کیا ہے، اور ابو طالب نے بھی کہا ائے بھتیجہ وہ کونسا کلمہ ہے؟ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہے۔)
مذکورہ واقعہ دور مکی سے تعلق رکھتا ہے اگرچہ دور مکی میں ابھی کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی بنیاد پر حکومت قائم نہیں ہوئی تھی، لیکن اس کلمہ کی بنیاد پر حکومت کے قیام کی بشارت اللہ کے رسولﷺ نے مکہ ہی میں دیدی تھی، اور اس لیے دی تھی کہ اس کلمہ ہی میں اسلامی حکومت کا نظریہ اور دعوت شامل ہے۔ اس لیے کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کو حکومت الٰہیہ کے نظریہ اور دعوت سے خالی سمجھنا، یہ کلمہ کی حق تلفی اور توہین ہے، یہ بات اور ہے کہ اس کلمہ کی بنیاد پر حکومت اللہ کے رسولﷺ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد قائم ہوئی۔ اور پھر سن آٹھ ہجری کے بعد مکہ میں بھی اس کلمہ کی بنیاد پر حکومت قائم ہوگئی، اور اس کے بعد پورے عرب میں بھی حکومت قائم ہوگئی، اور پھر چند سالوں کے بعد اسی کلمہ کی بنیاد پر قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کا خاتمہ کرکے اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ (جاری)

Share
Share
Share