فقہ اسلامی کی بنیاد اور ماخذ :- مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share
مفتی امانت علی قاسمی

فقہ اسلامی کی بنیاد اور ماخذ

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذو مفتی دار العلوم وقف دیوبند
E-mail:
Mob: 07207326738

فقہ اسلامی اسلامی شریعت کے وہ احکام و مسائل ہیں جو قرآن و حدیث سے ماخوذ و مستفاد ہیں، فقہ کی تعریف ہی کی جاتی ہے وہ عملی مسائل جو تفصیلی دلائل سے معلوم ہوئے ہوں، فقہ اسلامی قرآن و حدیث کی روشنی میں انسانی زندگی کے عملی مسائل کی نشان دہی کرتی ہے، یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ فقہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، اور نہ ہی اسلامی شریعت سے الگ کسی چیز کا نام ہے بلکہ فقہ اسلامی وہ پھول ہیں جو قرآن و حدیث کے باغ میں کھلتے ہیں، وہ پھل ہیں جو قرآن و حدیث کے درخت سے نکلتے ہیں،

یہ وہ مجموعہ قوانین اسلامی کا نام ہے جس کا متن قرآن و حدیث ہے، جس کی تشریح فقہا نے کی ہے، حضرات فقہاء مجتہدین نے اپنے آپ کو اس بات کا پابند بنا رکھا تھا کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں لوگوں کے عملی مسائل کو دفع وار مرتب کریں تاکہ انسانی زندگی میں عمل کرنے میں سہولت ہو اور ہروہ شخص جو خود قرآن و حدیث کی مراد تک نہیں پہونچ سکتاہے اور اس کی تشریح نہیں کرسکتاہے وہ فقہاء کے مرتب کردہ ان مسائل پر عمل کرسکے۔
حدیث قرآن کی شرح ہے، حدیث کے ذریعہ قرآن کے مجملات کا علم ہوتا ہے، اگر نبی کریم ﷺ مجملات قرآنی کا بیان نہ فرماتے تھے تو قرآن پر کما حقہ عمل کرنا نا ممکن تھا،مثلا اقیمو الصلاۃ مجمل ہے، حدیث کے ذریعہ نماز کی ہیئت، رکعات کی تعداد، رکوع، سجدہ کی کیفیت کا علم ہوتا ہے اس لئے جس طرح شرح کے بغیر متن کا سمجھنا مشکل ہے اسی طرح حدیث کے بغیر قرآن کا سمجھنا اس سے زیادہ مشکل ہے، اورجس طرح حدیث قرآن کی شرح ہے اسی طرح فقہ حدیث کی شرح ہے اگر حضرات فقہاء حدیث کی شرح نہ کرتے تو حدیث کے اشارۃ النص، دلالۃ النص، عبارۃ النص، اقتضاء النص وغیرہ کا سمجھنا نا ممکن تھا، گویا کہ فقہ کی سند حدیث سے ملتی ہے اگر درمیان سے حدیث کو ہٹا دیا جائے تو فقہ کا تعلق قرآن سے اس طرح ختم ہوجائیگا جیسے درخت سے تنا کو جدا کرنے کے بعد پھل، پھول اور پتوں کا تعلق جڑ سے ختم ہوجاتا ہے، جس طرح شاخ، پتیاں،تنااورجڑ ایک دوسرے سے مربوط ہیں اسی طرح حدیث، قرآن اور فقہ ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے ایک کا انکار دوسرے کے انکار کو مستلزم ہے۔
امت میں ایک فرقہ منکرین حدیث کا پیدا ہوا جن کا نعرہ تھا حسبنا کتاب اللہ ہمارے لئے صرف قرآن
کافی ہے، ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں، انکار حدیث کی بنیاد ڈالنے والے تو اصل میں معتزلہ ہیں گرچہ معتزلہ جنس حدیث کا انکار نہیں کرتے تھے،بلکہ جوحدیثیں بظاہر ان کی سمجھ سے بالا تر تھیں یا تو ان حدیثوں میں تاویل کر کے اپنے عقل کے مطابق کردیا اور اگر تاویل میں کامیا ب نہیں ہوسکے تو سرے سے ایسی حدیثوں کا انہوں نے انکار کردیا بعد میں آنے والے لوگوں نے سرے سے جنس حدیث کا انکار کردیا۔
حاصل یہ کہ فقہ قرآن و حدیث سے مستنبط قانون اسلامی کا نام ہے ڈاکٹر محمود احمد غازی نے لکھا ہے کہ:”فقہ اسلامی پر گفتگو کرنے سے پہلے ایک غلط فہمی اپنے ذہن سے ہمیشہ کے لیے نکال دیجئے۔یہ غلط فہمی بعض اوقات کم فہمی سے، بعض اوقات کسی منفی تاثر کے نتیجے میں،بعض اوقات کم علم لوگوں سے گفتگو کے نتیجے میں پیدا ہوجاتی ہے او روہ یہ کہ فقہ اسلامی قرآن و مجید اور حدیث رسول سے الگ کوئی چیز ہے۔ قرآن مجید اور فقہ اسلامی،قرآن مجید اور حدیث و سنت یہ ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں اور ایک ہی چیز کو سمجھنے کے مختلف انداز ہیں۔(محاضرات فقہ، ص:۲۱)
ڈاکٹر محمود غازی کے اس بات کو غور سے پڑھیے انہوں نے صاف اعتراف کیا ہے کہ فقہ اسلامی، قرآن و حدیث کی دو سری تعبیر کا نام ہے۔امام ابوحنیفہ جن کو فقہ اسلامی میں سبقت حاصل ہے اور سب سے پہلے فقہ اسلامی کی تدوین کا سہرا آپ ہی کے سر جاتا ہے، آپ کے بہت سے مجتہدین نے آپ کے بنائے ہوئے پلیٹ فارم پر چلتے ہوئے فقہ کی تدوین و ترتیب میں کارہائے نمایاں انجام دیا ہے، امام ابوحنیفہ ؒ نے فقہ کو جس ترتیب پر مدون کیا ہے اس کی انہوں نے خود وضاحت کی ہے موفق احمد مکی نے اس نہج کو ذکر کیا ہے چنانچہ امام صاحب کا قول ذکر کرتے ہیں:
إنی آخذ بکتاب اللہ إذا وجدتہ فما لم أجد فیہ أخذت بسنۃ رسول اللہ والآثار الصحاح عند التي فشت في أیدي الثقات عن الثقات فإذا لم أجد في کتاب اللہ ولا سنۃ رسول اللہ أ خذت بقول أصحابہ من شئت وادع من شئت ثم لا أخرج عن قولہم إلیٰ غیرہم وإذا انتہی الأمر إلیٰ ابراہیم والشعبي والحسن والعطا وابن سیرین وسعید بن المسیب وعد رجالا فقوم اجتہدوافلی ان اجتہد کما اجتہدوا۔(مناقب أ بي حنیفۃللإمام الموفق:۱/۰۸)
میں (شرعی احکام میں) اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرتا ہوں جب وہ احکام مجھے کتاب اللہ میں مل جائیں اور جو احکام مجھے قرآن میں نہیں ملتے تو پھر سنت رسول اللہ اوران صحیح آثار پر عمل کرتا ہوں جو ثقہ راویوں سے منقول ہوکر ثقہ راویوں میں پھیل چکے ہیں اور اگر کوئی مسئلہ کتاب الہی اور حدیث نبوی میں نہیں پاتا ہوں تو صحابہ کے اقوال میں سے جن کا قول کتاب وسنت کے قریب پاتا ہوں اس پرعمل کرتاہوں (البتہ حضرات صحابہ کے اقوال سے باہر نہیں جاتا کہ) سارے صحابہ کے قول کو چھوڑ کر دوسرے قول کو اختیارکروں اور جب نوبت ابراہیم نخعی، عامر شعبی، محمد بن سیرین، حسن بصری، عطا، سعیب بن مسیب (متعدد حضرات تابعین کے نام شمار کئے) تک پہونچتی ہے تو ان حضرات نے اجتہاد کیا ہے، لہذا مجھے بھی حق ہے کہ ان حضرات کی طرح اجتہاد کروں، یعنی ان حضرات کے اقوال پر عمل کرنے کی پابندی نہیں کرتا بلکہ ان ائمہ مجتہدین کی طرح خدائے ذو المنن کی بخشی ہوئی اجتہادی صلاحیتوں کو کام میں لاتا ہوں اوراپنے فکر و اجتہاد سے پیش آمدہ مسائل حل کرنے کی سعی پیہم کرتا ہوں۔
امام صاحب نے فقہ کی ترتیب میں قرآن و حدیث کو اصل معیار قرار دیا ہے اور قیاس کو ناگزیر حالت میں استعمال کیا ہے جب کہ کوئی نص نہ ملے اس کے باوجود یہ بھی کہا کہ اذا صح الحدیث فہو مذہبی جن مسائل میں حدیث نہ ملنے کی وجہ سے میں نے اجتہاد کیا ہے اگر اس میں کوئی صحیح روایت مل جائے تو وہی میرا مذہب ہوگا چنانچہ ابتداء سے ہی امام صاحب پر یہ الزام عائد ہوتا آرہا ہے آپ نے حدیث کے مقابلہ میں قیاس کو ترجیح دی ہے حالاں کہ جس درجہ حدیث کو مقام امام ابوحنیفہ نے دیا ہے کسی نے بھی نہیں دیا ہے چنانچہ حدیث موقوف اور حدیث ضعیف کو بھی قیاس پر ترجیح دیا ہے اسی لیے اپنے اوپر لگے ہوئے الزام کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں
عجبا للناس یقولون انی افتی بالرای ما افتی إلا بالأثر معناہ إذا وجدت أثرا افتی بہ۔(مناقب لأبي حنیفۃ للإمام الموفق:۲/۲۶۱)
تعجب ہے ان لوگوں پر جو یہ کہتے ہیں کہ میں رائے سے فتوی دیتا ہوں جب میں کوئی اثر پاتاہوں تو اثر سے ہی فتوی دیتا ہوں، امام موقف بن احمد مکی نے مناقب کے اندر کسی منصف کا قول نقل کیا ہے:
زعم بعض الطاعنین أ ن أبا حنیفۃ قال بالقیاس وترک الأثر وہذا بہت منہ وافتراء علیہ فإن کتبہ وکتب أصحابہ مملوۃ من المسائل التي ترکوا العمل فیہا بالقیاس وأخذوا بالأثر الواد وفیہ کانتقاض الطہارۃبالضحک فيالصلاۃ وبقاء الصوم مع الأکل ناسیا۔(:۱/۳۸)
بعض طعنہ پرور کا گمان ہے کہ امام ابو حنیفہ اثر کو چھوڑ کر قیاس پر عمل کرتے ہیں حالانکہ یہ ان پر بہتان اورافتراء ہے؛ اس لیے ان کی اور ان کے شاگردوں کی کتابیں ان مسائل سے بھری پڑی ہیں جس میں انہوں نے قیاس کو چھوڑ کر اثر پر عمل کیا ہے جیسے نماز میں، قہقہہ لگانے سے وضو کا ٹوٹنا،روزے میں بھول کر کھا لینے سے روزہ کا باقی رہنا وغیرہ، ان تمام شہادتوں سے یہ بات بالکل نمایا ں ہوجاتی ہے کہ امام صاحب نے انتہائی مجبوری میں قیاس کی طرف توجہ کی ہے؛ چنانچہ الفقہ الحنفی و ادلتہ میں لکھا ہے:کان لا یقیس إلا عند الضرورۃ الشدیدۃ۔(۱/۴۲) امام صاحب شدید ضرورت پر ہی قیاس کواستعمال کرتے تھے۔
بہر حال فقہ اسلامی کی صورت حال شاید کسی حدتک سامنے آگئی ہوگی۔یہ وہ باتیں ہیں جسے قدیم زمانے سے لکھا جارہا ہے لیکن آج کل جدید ذرائع و وسائل نے حالات کو یکسر بد ل کر رکھ دیا ہے،آج تعقل پسندی کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے حالاں کہ مولانا گیلانی نے فتوحات مکیہ کے حوالے سے لکھا ہے لیس فی قوۃ العقل من حیث ذاتہ ادراک شئی (تدوین فقہ ص:۲۶۱)کہ عقل کے اندر اپنی ذات کے اعتبار سے کسی چیز کو پانے کی صلاحیت نہیں ہے۔لیکن تعقل پسندوں کا ایک طبقہ ہے جسے اپنی عقلی طاقت پر ناز ہے ان کے سامنے ان کے عقل کے خلاف کوئی بھی چیز آجائے تو وہ اپنے عقل کی طاقت کو پست نہیں کرتے بلکہ طاقت کے زد میں جوکوئی بھی آجائے اس کو پست اور زیر کرنے میں لگ جاتے ہیں حد ہے کہ اگر قرآن کا کوئی حکم ان کی عقل کی رسائی سے باہر ہو تو وہ قرآن کی آیت کو ماننے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔
ایسے لوگ جو قرآن و حدیث کا علم رکھتے ہیں اور شریعت کے مزاج کو سمجھنے کا دعوی کرتے ہیں وہ حضرات جب فقہ اسلامی کے بعض مسائل کو اپنی عقل پر کھرا اترتا ہوا نہیں دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ مسائل غلبہ کی نفسیات کا نتیجہ ہیں یعنی کہ انصاف کے ترازو میں کھرے نہیں ہیں بلکہ زور طاقت اور زور بازو کی نفسیات پر مبنی ہیں حد ہے ایک صاحب فقہ اسلامی کے بعض مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ہماری فقہ میں جو زمین وغیر ہ کی تقسیم کا مسئلہ ہے، دار الحرب اور دار الاسلام کی تقسیم ہے، اور دونوں جگہ کے لوگوں کے ساتھ الگ الگ معاملات ہیں، یہ سب قرآن کے وسیع امن و انصاف کے خلاف ہے، اس فقہ کی تدوین کے وقت قرآن نگاہ سے غائب ہوگیا تھا اس لیے ہمیں ان مسائل میں قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے“حیرت ہے اگر یہ جملہ کسی اہل قرآن کی طرف سے کہا جاتا تو شاید تعجب نہ ہوتا لیکن حدیث کے پڑھنے پڑھانے والے لوگوں کی طرف سے اس طرح کی باتیں بہت مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں،کیا فقہ کا ماخذ صرف قرآن ہے یا قرآن اور حدیث دونوں ہے، حدیث میں ہے آپ نے فرمایا ایک وقت ایسا آئے گا کہ کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے جو قرآن میں پاؤ اس پر عمل کرو جو قرآن میں پاؤ اسے رد کردو سنومیں تمہیں اس حال میں نہ پاؤں جس طرح قرآن نے کچھ چیزوں کو حلال او رحرام کیا ہے اسی طرح میں نے بھی کچھ چیز وں کو حرام و حلال کیا ہے اور میر ا حرام کیا ہوا بھی اسی طرح ہے جس طرح قرآن کا حرام کیا ہوا ہے۔حدیث میں صراحت ہے کہ قرآن اور حدیث دونوں بیک وقت قابل عمل اور حجت ہیں،
موجودہ دور میں مستشرقین نے جو ہماری فقہ پر اعتراضات کئے ہیں آج کے تعقل پسندوں کو وہ اعتراضات حقیقت معلوم ہوتے ہیں او روہ بجائے کوئی مناسب جواب تلاش کرنے کے فقہ اسلامی کی ہی کمی تلاشنے لگ جاتے ہیں، سوچتا ہوں کہ وہ لوگ کتنے ایمان دار ہیں کہ اپنے مشن کو کامیاب کرنے کے لیے سب کچھ کر جاتے ہیں او رہم ہیں کہ قرآن و حدیث کا علم رکھ کر سوائے اپنی کمی کے اعتراف کے ہماری جھولی میں کچھ نہیں ہے، سوچنا چاہئے کہ ہر ایک کی بینائی ایک طرح نہیں ہوتی ہے ایک شخص کو ایک کیلو میٹر تک دکھائی دیتاہے اور ایک شخص کو ایک میٹر تک بھی نہیں دکھائی دیتاہے، یہ ہماری بینائی کا قصور ہے، اسی طرح ایک شخص کی عقل ایک چیز کو سمجھ لیتی ہے اور ایک عقل نہیں سمجھ پاتی ہے یہ عقل کا قصور ہے،ہمیں بعض مرتبہ اپنی کم عقلی کا بھی اعتراف ہونا چاہئے، ذرا سوچئے کہنے کو کہاں تک کہہ دیا جاتاہے کہ امام ابوحنیفہ جس وقت فقہ کو مرتب کررہے تھے ان کی نگاہ سے قرآن غائب تھا، اور ہمارے سامنے قرآن ہے اس لیے ہمیں ابو حنیفہ کی بات کے بجائے قرآن کی بات ماننی چاہیے، واہ صاحب!
بعض لوگوں کو سنا کہ جزیہ کا حکم فقہ اسلامی میں غلبہ کی نفسیات کا نتیجہ ہیں، ایک صاحب کو کہتے ہوئے سنا شریعت معصوم ہے اجتہاد معصوم نہیں یہ خوشنما تعبیریں کیا کہنا چاہتی ہیں، فقہ اسلامی فقہاء کی اجتہاد کا نتیجہ ہیں یعنی قرآن کے خلاف ہیں اس لیے انہیں ریجیکٹ کردینا چاہیے ایک صاحب نے کہا کہ حدیث میں ہے کہ یہود کو کہیں راستے میں پاؤ تو ان کو تنگ راستہ کی طرف چلنے کے لیے مجبور کردو، بتائے کہ اسلام کی یہ بات انسانی مساوات کے کس درجہ خلاف ہے، حیرت ہوتی ہے علماء عقل پر، اگر ایک چیز آپ کی عقل میں نہ آئے تو چیز غلط ہے چاہے وہ قرآن میں ہو یا حدیث میں ہو۔کہنے کو تو الفاظ فقہ اسلامی کا ہے ورنہ یہ حملہ قرآن و حدیث پر ہے اس لیے کہ فقہ اسلامی کی زیادہ تر چیز یں قرآن و حدیث ہی ہے، اگر فقہ کا کوئی جزئی مسئلہ ہواور قرآن و حدیث سے اس پر کوئی شہادت نہ ہو اور ضرورت و مصلحت اس میں تبدیلی کا متقاضی ہو تو اس پر انفرادی طور پر گفتگو ہو سکتی ہے لیکن عمومی او رمجموعی طورپر فقہ اسلامی پر اس طرح حملہ آور ہونا کہ فقہ اسلامی کی تدوین کا کام صحیح نہج پر نہیں ہوا ہے اور یہ فقہ قرآن و حدیث سے الگ فقہاء کے اجتہادات کا نتیجہ ہیں اس لیے جو عقل میں آئے اسے قبول کرلیا جائے او رجو عقل میں نہ آئے اسے رد کردیا جائے میں سمجھتاہوں کہ یہ ہماری مغلوب ذہنیت اور مرعوب فکر کی پیداوار ہے، فقہ اسلامی تو قرآن و حدیث کی اساس پر منتج ہیں غلبہ کی نفسیات پر نہیں لیکن ہماری مرعوب فکر کی بناء پر ہمیں ایسا محسوس ہوتاہے۔

Share
Share
Share