میں بہت باکمال و بے مثال ہوں :- ڈاکٹر ظہور احمد دانش

Share
ڈاکٹر ظہور احمد دانش

میں بہت باکمال و بے مثال ہوں

ڈاکٹر ظہور احمد دانش

انسانی فطرت ہے کہ وہ ہربات پر واہ واہ کروانا چاہتاہے ۔اسکی یہ خواہش ہوتی ہے لوگ میری تعریف کرتے ہیں ۔میں جو کام کروں اس پر دوسرے اش اش کراُٹھیں ۔تعریف کروانے اور سننے کا اس قدر دھنی ہوتاہے کہ بس ۔اسی خبط میں وہ گُم ہوتاہے ۔آیٔے اس موضوع پر کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔حب مدح ہے کیا؟

’’کسی کام پر لوگوں کی طرف سے کی جانے والی تعریف کو پسند کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں کام پر لوگ میری تعریف کریں ، مجھے عزت دیں حُبِّ مَدَح کہلاتا ہے۔‘‘
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَفْرَحُوۡنَ بِمَاۤ اَتَوۡا وَّیُحِبُّوۡنَ اَنۡ یُّحْمَدُوۡا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوۡا فَلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۚ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۸۸﴾﴾ (پ۴، آل عمران: ۱۸۸) ترجمۂ کنزالایمان: ’’ہر گز نہ سمجھنا انہیں جو خوش ہوتے ہیں اپنے کئے پر اور چاہتے ہیں کہ بے کئے اُن کی تعریف ہو ، ایسوں کو ہر گز عذاب سے دُور نہ جاننا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔‘‘
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں :’’یہ آیت یہود کے حق میں نازل ہوئی جو لوگوں کو دھوکا دینے اور گمراہ کرنے پر خوش ہوتے اور باوجود نادان ہونے کے یہ پسند کرتے کہ انہیں عالم کہا جائے۔ مسئلہ: اس آیت میں وعید ہے خود پسندی کرنے والے کے لئے اور اس کے لئے جو لوگوں سے اپنی جھوٹی تعریف چاہے جو لوگ بغیر علم اپنے آپ کو عالم کہلواتے ہیں یااسی طرح اورکوئی غلط وصف اپنے لئے پسند کرتے ہیں انہیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے ۔‘‘
تعجب تو اس بات پر آتاہے کہ عاقل وسمجھدار اور پڑھے لکھے ہوشیار لوگ اس موقع پر عقل کھو بیٹھتے ہیں اور اپنی عقل وعلم پر ناز کرنے لگتے ہیں۔
اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کہیں سے کوئی ہماری تعریف کرے ۔ہماری واہ واہ ہو۔۔ہم نے جو کام کیااس پر تعریفیں ہی تعریفیں ہوں ۔ایسوں کو اپنی تعریف سن کر دلی سکون ملتاہے ۔انھیں اچھا لگتاہے ۔۔حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ایسی تعریف ،دوسروں سے داد وصول کرنے اور اپنے قصیدے پڑھانے کا شوق کسی طور پر بھی اس شخص کے لیے نفع بخش نہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی تعریف سن کا کچھ بعید نہیں کہ اس کام یا عمل میں یہ مطمئن ہوکر آئندہ سستی و کاہلی کا شکار ہوجائے ۔۔یہ بھی ممکن ہے کہ جب اس کی تعریف نہ کی گئی تو اس کے دل و دماغ پر گراں گزرے ۔چنانچہ تعریف کروانے کی یہ عادت اسے مایوسیوں کے اندھیروں میں دھکیل سکتی ہے ۔جو کسی طور پر بھی حب مدح کے شیدائی کے لیے نفع بخش نہیں ۔۔
قارءین آئیے !!فرامین مصطفی ﷺ کی روشنی میں حب مدح کے متعلق جاننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔
حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ اللہ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کو لوگوں کی زبانوں سے اپنی تعریف پسند کرنے کے ساتھ ملانے سے بچو ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں۔‘‘(…فردوس الاخبار،باب الالف،ج۱،ص۲۲۳، حدیث: ۱۵۶۷۔)
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ :حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’حُبِّ مَدَح آدمی کو اندھا اور بہرا کردیتی ہے۔ ‘‘
(فردوس الاخبار،باب الحاء،ج۱،ص۳۴۷، حدیث: ۲۵۴۸۔(
ہم نے یہ تو سمجھ لیا اپنی تعریف چاہناکس طور پر قابل مذمت ہے ۔آئیے مذید اس حوالے سے اس کے نقصانات پر غور کرلیتے ہیں ۔تاکہ ہم سب بھی اس برے فعل سے بچ سکیں !!
اپنی تعریف کو پسند کرنا اور اپنی تنقید پر ناراض ہو جانا یہ بڑی بڑی گمراہیوں اور گناہوں کا سر چشمہ ہے، قابلِ مذمت خوشی یہ ہے کہ آدمی لوگوں کے نزدیک اپنے مقام ومرتبے پر خوش ہو اور یہ خواہش کرے کہ وہ اس کی تعریف وتعظیم کریں ، اس کی حاجتیں پوری کریں ، آمدورفت میں اسے اپنے آگے کریں۔
اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : ’’اگر (کوئی آدمی) اپنی جھوٹی تعریف کو دوست رکھے (یعنی پسند کرے) کہ لوگ اُن فضائل سے اُس کی ثَنا (یعنی تعریف) کریں جو (فضیلت وخوبی) اس میں نہیں ،جب تو صریح حرامِ قطعی ہے۔‘‘ قَالَ اللہُ (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: ): لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَفْرَحُوۡنَ بِمَاۤ اَتَوۡا وَّیُحِبُّوۡنَ اَنۡ یُّحْمَدُوۡا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوۡا فَلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۚ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۸۸﴾﴾ (پ۳، آل عمران: ۱۸۸)
ترجمۂ کنزالایمان: ’’ہرگز نہ سمجھنا انہیں جو خوش ہوتے ہیں اپنے کئے پر اور چاہتے ہیں کہ بے کئے اُن کی تعریف ہو ایسوں کو ہرگز عذاب سے دور نہ جاننا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘ ہاں اگر تعریف واقعی ہو تو اگر چہ تاویل معروف ومشہور کے ساتھ، جیسے شَمْسُ الْاَئِمَّہ (اماموں کے آفتاب) وفَخْرُالْعُلَمَاء (اہل علم کے لیے فخر) و تَاجُ الْعَارِفِیْن (عارفوں کے تاج) وَاَمْثَالُ ذٰلِکَ (یعنی اسی قسم اور نوع کے دوسرے توصیف کلمات جو مدح کی تعریف وتوصیف ظاہر کریں )کہ مقصود اپنے عصر (زمانے) یا مصر ( شہر) کے لوگ ہوتے ہیں اور اس پر اس لئے خوش نہ ہو کہ میری تعریف ہورہی ہے بلکہ اس لئے کہ ان لوگوں کی ان کو نفع دینی پہنچائے گی سمع قبول سے سنیں گے جو ان کو نصیحت کی جائے گی تویہ حقیقۃً حب مدح نہیں بلکہ حب نصح مسلمین ہے اور وہ محض ایمان ہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ ، ج۲۱، ص۵۹۷ ۔)
آج بنتا ہوں مُعزَّز جو کُھلے حَشر میں عیب ہائے رُسوائی کی آفت میں پھنسوں گا یا رب
حُب مدح سے بچاؤ کا انوکھا واقعہ سنیے اور سبق حاصل کیجئے !!
حضرتِ سیِّدُنا ابو الحسن محمد بن اسلم طوسی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی حب مدح سے بچنے کے لیے اپنی نیکیاں چھپانے کا بے حد خیال فرماتے یہاں تک کہ ایک بار فرمانے لگے: ’’اگرمیرا بس چلے تو میں کراماً کاتبین (اعمال لکھنے والے دونوں فرِشتوں ) سے بھی چھپ کر عبادت کروں۔‘‘ حضرت سیِّدُنا ابو عبد اللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں بیس برس سے زیادہ عرصہ سیِّدُنا ابو الحسن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی صحبت میں رہا مگر جمعۃ المبارک (ودیگر فرائض وواجبات) کے علاوہ کبھی آپ َحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو دو رَکعَت نَفل بھی پڑھتے نہیں دیکھ سکا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پانی کا کوزہ لیکر اپنے کمرۂ خاص میں تشریف لے جاتے اور اندر سے دروازہ بند کر لیتے تھے۔ میں کبھی بھی نہ جان سکا کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کمرے میں کیا کرتے ہیں ، یہاں تک کہ ایک دن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاچھوٹابچہ زور زور سے رونے لگا۔ اس کی والدہ اسے چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا: ’’یہ چھوٹابچہ آخِر اس قَدَر کیو ں رو رہا ہے ؟‘‘ بی بی صاحِبہ نے فرمایا: ’’اس کے ابّو یعنی حضرتِ سیِّدُنا ابو الحسن طوسی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس کمرے میں داخِل ہو کر تلاوتِ قراٰن کرتے اور روتے ہیں تو یہ بھی ان کی آواز سن کر رونے لگتا ہے۔‘‘شیخ ابو عبداللہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’حضرتِ سیِّدُنا ابو الحسن طوسی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (ریاکاری اور حب مدح کی تباہ کاریوں سے بچنے کی خاطر) نیکیاں چھپانے کی اِس قَدَر سعی فرماتے تھے کہ اپنے اُس کمرۂ خاص سے عبادت کرنے کے بعد باہَرنکلنے سے پہلے اپنا منہ دھوکر آنکھوں میں سُرمہ لگالیتے تاکہ چہرہ اور آنکھیں دیکھ کر کسی کو اندازہ نہ ہونے پائے کہ یہ روئے تھے۔‘‘(حلية الاولیاء، محمد بن اسلم، ج۹،ص۲۵۴۔)
ہمارے اسلاف کی سیرت کے کیا کہنے ۔وہ ہر کام اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر سرانجام دیا کرتے تھے ۔اور ایک ہماری حالات ہے کہ بات بات پرامید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی ہماری مدح سرائی کرے کہ دل کو چین ملے ۔یہ انداز کسی طور پر بھی درست نہیں ۔۔بلکہ سراسر پریشان کن اور نقصان دہ ہے ۔
آئیے ذراحب مدح کے اسباب اور پھر اس کے حل پر غورکرتے ہیں !!!!
حُبِّ مَدَح کا پہلا سبب دوسروں کے تعریفی کلمات کی وجہ سے خود کو باکمال سمجھنا ہے۔ اس کا علاج یہ ہےبندہ اس بات پر غور کرے کہ یہ تعریفی کلمات کسی دنیوی عہدے مال ودولت یا ذہانت کے سبب سے ہیں یا کسی دینی خوبی (مثلاً تقویٰ وغیرہ) کی وجہ سے۔ اگر دنیوی خوبیوں کی وجہ سے ہیں تو وہ فانی ہیں اور فانی خوبیوں پر اترانا کیسا؟ اور اگر دینی خوبیوں کے سبب سے ہوں تو اپنے آپ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے ڈرائے اور اپنے برے خاتمے کے خوف کو ہمیشہ اپنے اوپر طاری رکھے، اور رب عَزَّوَجَلَّ ایمان پر خاتمے کی دعا مانگے۔
حُبِّ مَدَح کا دوسر ا سبب تعریف کے ذریعےدوسروں کو اپنا عقیدت مند بنانا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غو ر کرے کہ ’’لوگوں کے دلوں میں مقام بنانے کی خواہش کہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں مقام گھٹانے کا سبب نہ بن جائے۔‘‘جو بذاتِ خود یقیناً دنیا وآخری کی بربادی کا سبب ہے۔
حُبِّ مَدَح کا تیسرا سبب تعریف کے ذریعے لوگوں پر اپنی برتری اور رعب و دبدبہ قائم کرنا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ باربار اس بات پر غور کرے کہ ’’ایسی عارضی برتری اور رُعب و دبدبہ جس میں ذرہ برابر پائیداری نہیں کس طرح میری تعریف کا سبب بن سکتی ہے؟(…احیاء العلوم ،ج۳،ص۸۵۸ماخوذا۔)
دوستو!!تعریف کے لائق وہ ذات ہے جو خالق کل مالک ارض و سموات ہے ۔جو خالق شش جہات ہے ۔ہم غور کریں کہ اگر اپنی تعریف کی خواہش اور عادت ہماری اندر موجود ہے تو ہم اسے ختم کرنے کی کوشش کریں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حب مدح کسی طور پر بھی دنیاوی و اخروی اعتبار سے ہمارے لیے نفع بخش نہیں ۔بلکہ سراسر اس میں خسارہ ہی خسارہ ہے ۔تو پھر جس کام میں خسارہ ہوبھلاناسمجھ ہی ہوگاجو اپنا نقصان گوارہ کرے گا۔۔۔اللہ عزوجل ہمیں حق بات سمجھنے کی توفیق عطافرما ۓ۔آمین
نوٹ:پنک سالٹ یا ہمالین سالٹ جو کہ اللہ عزوجل کا عطاکردہ بہت بڑاتحفہ ہے ۔ہر خاص وعام تک اس کے فوا یٔد پہنچانے کے لیے مناسب قیمتی میں بہترین اور عمدہ پروڈکٹ ہمارے پاس موجود ہیں ۔جس میں دیدہ زیب اور نہایت ہی خوبصورت سالٹ لیمپ بھی ہیں ۔جو طبی فوایٔد کے ساتھ ساتھ گھر،دفتر،دوکان کی خوبصورتی کا باعث بھی ہیں ۔اآپ پاکستان یا پاکستان سے باہر ہیں ۔۔ہمیں وٹس ایپ ،کال یا ای میل کرکے اپنی پروڈکٹ کرواسکتے ہیں ۔اس میں ایک اور اچھی بات اس آمدنی کا ایک حصہ ہم فلاحی کاموں کے لیے بھی صرف کررہے ہیں ۔جس میں یتیم بچے کو کفالت اور دیگر فلاحی کام شامل ہیں ۔

Share

One thought on “میں بہت باکمال و بے مثال ہوں :- ڈاکٹر ظہور احمد دانش”

Comments are closed.

Share
Share