ابراہیم جلیس:شخصیت اور فن – رحمت یوسف زئی- مبصر :- ڈاکٹرمحمد اسلم فاروق

Share

نام کتاب : ابراہیم جلیس:شخصیت اور فن
مصنف : رحمت یوسف زئی

مبصر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

حیدرآباد دکن میں اردو کی خدمت کے حوالے سے تین بھائی ابراہیم جلیس‘محبوب حسین جگر اور مجتبیٰ حسین مشہور ہوئے ہیں۔ محبوب حسین جگر نے روزنامہ سیاست کی نصف صدی تک خدمات انجام دیں اور بہ حیثیت صحافی وہ مشہور ہوئے۔ مجتبیٰ حسین اردو طنز و مزاح کے قطب مینار کے طور پر جانے جاتے ہیں جن کی مزاح نگاری اور کالم نگاری کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

ان دوبھائیوں کے تیسرے بھائی ابراہیم جلیس تھے جن کی تصانیف چالیس کروڑ بھکاری (افسانوں کامجموعہ) دو ملک ایک کہانی (رپورتاژ) اور جیل کے دن جیل کی راتیں (رپورتاژ) کے سبب وہ برصغیر کے ادبی حلقوں میں کافی مقبول رہے۔ محبوب حسین جگر اور مجتبیٰ حسین ہندوستان میں ہی رہے لیکن ابراہیم جلیس تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے تھے لیکن رائچور‘گلبرگہ‘حیدرآباد‘بمبئی اور پاکستان میں ان کے قیام نے انہیں اردو کی بین الاقوامی شخصیت بنادیا۔ ابراہیم جلیس پر چیدہ چیدہ مضامین اور کتابیں لکھی گئیں لیکن ان کی حیات اور ادبی کارناموں پر کوئی مبسوط کام نہیں ہوا تھا۔ اردو کے تین بھائیوں سے اہم اس تیسرے بھائی کی حیات اور ادبی کارناموں پر ایک مفصل کتاب ”ابراہیم جلیس:شخصیت اور فن“ کے عنوان سے ان دنوں منظر عام پر آئی ہے جس کے مصنف شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کے سابق پروفیسر و صدر شعبہ اردو رحمت یوسف زئی صاحب ہیں۔جنہیں اردو کے نامور اساتذہ پروفیسر گیان چند جین اور پروفیسر مجاور حسین رضوی سے اکتساب کا موقع ملا تھا۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی صاحب نے پروفیسر گیان چند جین کے دور صدارت میں اردو کے نامور ناول نگار ابن سعید یعنی پروفیسر مجاور حسین رضوی کے زیر نگرانی ابراہیم جلیس کے فن اور شخصیت پر ایم فل کا مقالہ1983ء میں لکھا جو تقریباً 36سال بعد زیور طباعت سے آراستہ ہوکر شائع ہوا ہے۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی کا علمی سفر بھی قابل داد رہا۔ انہوں نے سول انجینرنگ میں ڈپلوما اور کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرس کرنے اور ایک کمپنی میں تکنیکی ملازمت کرنے کے باوجود اردو ادب سے اپنے ذوق کی بناء اورینٹل کالج سے ڈپ او ایل‘بے اے اور ایم او ایل عثمانیہ سے کرنے کے بعد یونیورسٹی آف حیدرآباد سے ایم اے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1987ء میں انہوں نے”اردو شاعری میں صنائع و بدائع“ موضوع پر پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ اسی یونیورسٹی میں اردو لیکچرر مقرر ہوئے اور1985ء تا2003ء تک خدمات انجام دیں اور پروفیسر اور صدر شعبہ اردو رہے۔ان کی تحقیق و تنقید اور شاعری میں کئی کتابیں شائع ہوئیں۔ اردو اکیڈیمی کے تحت پہلے کمپیوٹر کورس کے ڈائرکٹر رہے شعبہ اردو میں اردو کمپیوٹر لیب قائم کیا۔کمپیوٹر کی بورڈ کی تشکیل اور مشینی ترجمے پر ان کا گراں قدر کام رہا ہے وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے ابراہیم جلیس پر اپنی تحقیقی کتاب کو کافی عرصے بعد شایع کیا لیکن موضوع کی اہمیت کی بناء ان کی یہ کتاب ادبی حلقوں میں مقبول ہونے لگی۔کتاب کا دیباچہ ابراہیم جلیس کے بھائی مجتبیٰ حسین نے لکھا جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ”رحمت یوسف زئی نے اس کام کو انجام دے کر ہمارے خاندان پر جو احسان کیا ہے اسے میں کبھی فراموش نہیں کرسکوں گا۔کیوں کہ ابراہیم جلیس کے بارے میں بھاری بھرکم موادہمارے پاس موجود نہیں ہے۔اس کی وجہہ یہ ہے کہ خود ابراہیم جلیس نے بڑی رواداری اور آپا دھاپی میں زندگی گزاری۔۔جب میں ۷۸ سال کا ہوچکا ہوں مجھ سے بطور پیش لفظ کچھ سطریں لکھوا کر اپنا مقالہ شائع کر رہے ہیں اس کے لیے میں ان کا تہہ دل سے ممنون ہوں“۔ حرف اول کے عنوان سے صاحب کتاب پروفیسر رحمت یوسف زئی نے اس کتاب کی وجہہ اشاعت بیان کی اور ابتداء میں کہا کہ ”ابراہیم جلیس کو موضوع بنانے کی سب سے بڑی وجہہ یہ ہے کہ میں نے بچپن میں ان کی کتاب’دوملک ایک کہانی‘ پڑھی تھی۔۔پروفیسر رحمت یوسف زئی نے لکھا کہ اس کتاب میں جلیس کی زندگی کے ان اہم گوشوں کا احاطہ کر لیا جائے جنہوں نے جلیس کے فن پر اپنا اثر ڈالا۔اس طرح جلیس شخصیت اور فن کی ہم آہنگی کی نادر مثال نظر آتے ہیں۔جلیس کی زندگی ایسے متنوع حالات سے گزری ہے کہ ان کا احاطہ کرنے کے لیے ایک عمر چاہئے۔تحقیق و جسجتو میں ناتمامی کا احساس ہی ایک سرمایہ ہے۔ اس جستجو کے دوران جلیس کی شخصیت اور ان کے فن کے مختلف گوشے سامنے آتے گئے۔“تحقیقی کتاب ”ابراہیم جلیس: شخصیت اور فن“ کے بیک کور پرشاہد حسین زبیری ٹرسٹی ایچ ای ایچ دی نظامس ٹرسٹ کا پروفیسر رحمت یوسف زئی کے بارے میں مبسوط تعارف ہے جس میں انہوں نے صاحب کتاب کے بارے میں لکھا کہ وہ ایک عمدہ شخصیت کے مالک ہیں ساتھ ہی شرارت ان کی شخصیت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ انہوں نے لکھا کہ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے شعر و ادب کی خدمات کے علاوہ تلگو اور اردو تراجم میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
تحقیقی کتاب’ابراہیم جلیس:شخصیت اور فن“ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ابراہیم جلیس کی حیات اور شخصیت پر مبنی ہے جس کے چار ابواب ہیں۔ اسی طرح ابراہیم جلیس کے فن کو چار ابواب میں دور کے حالات‘تصانیف کا جائزہ‘سیاسی و سماجی شعور اور اسلوب کے تحت جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ابراہیم جلیس کے حالات زندگی اور ان کے دور کے احوال تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس دور کے برصغیر کی سیاسی‘سماجی و تہذیبی تاریخ بھی جھلکتی ہے کیوں کہ ابراہیم جلیس کی زندگی کے ادوار میں حیدرآباد میں پولیس ایکشن ہوا تھا ایک جمی جمائی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ ریاست حیدرآباد کا ہند یونین میں انضمام اور اس کے بعد کے حالات کے درمیان ادبی سرگرمیوں کا احاطہ اس کتاب میں بخوبی ملتا ہے۔ کتاب کے آغاز میں شخصیت سازی کے عناصر بیان کرتے ہوئے پروفیسر رحمت یوسف زئی نے لکھا کہ”وراثت‘گھریلو ماحول‘تعلیم و تربیت‘عصری رجحانات‘مادی اور روحانی اقدار‘ سماجی‘ معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی اثرات‘جسمانی حالت‘صدمات یا مسرت کے لمحات‘محبت کے معاملات‘جنسی میلانات‘جذباتیت وغیرہ یہ چند عوامل ہیں جن کے زیر سایہ کسی شخصیت کی نشونما عمل میں آتی ہے“۔ ابراہیم جلیس کی زندگی کے ابتدائی دور کے احوال بیان کرتے ہوئے پروفیسر رحمت یوسف زئی نے حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ کے قیام‘جدید تعلیم کے اثرات اور پھر تقسیم کے وقت حیدرآباد کے بدلتے حالات کا جائزہ لیا جس میں ابراہیم جلیس بڑھ کر جوان ہوئے تھے۔ابراہیم جلیس کے حالات زندگی پروفیسر رحمت یوسف زئی نے بڑی تحقیق کے ساتھ مفصل بیان کئے۔ اور لکھا کہ ان کا تعلق عثمان آباد سے تھاجو ریاست حیدرآباد کا حصہ تھا اور بعد میں مہاراشٹرا میں شامل رہا۔ابراہیم جلیس کے دادا محمد حسین والد احمد حسین کے احوال بیان کئے جن کی دو بیویاں تھیں اور اولاد میں محبوب حسین‘عابد حسین صندلی بیگم‘ابراہییم حسین‘یوسف حسین‘مجتبی حسین‘ابراہیم جلیس اور سرتاج حسین تھے۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے ابراہیم جلیس کے سنہ ولادت اور تاریخ پر کافی تحقیق کی اور مالک رام کے بیان پر کہ وہ بنگلور میں پیدا ہوئے تحقیق سے ثابت کیا کہ ابراہیم جلیس22ستمبر1923ء کو رائچور میں پیدا ہوئے۔ اس کے لیے انہوں نے محبوب حسین جگراور دیگر سے انٹرویو لے کر حقائق کی کھوج کی۔جلیس کے بچپن کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ وہ پہلے خاموش طبع تھے شیروانی پہن کر اسکول جایا کرتے تھے۔ گلبرگہ میں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گلبرگہ میں فرحت اللہ بیگ سیشن جج تھے۔ جلیس کو ادبی ذوق ان کی صحبت سے ملا۔انٹر کے بعد والد کی فرمائش پر جلیس علی گڑھ چلے گئے تھے۔ جہاں انہوں نے بی اے کامیاب کیا اور ترقی پسند نظریات سے واقفیت حاصل کی۔ بی اے کے بعدہ وہ حیدرآباد واپس آئے۔وہ وکالت کرنے کی غرض سے ایل ایل بی میں داخل ہوئے لیکن صحافت اور ملازمت کی وجہہ سے وہ قانون کی تعلیم جاری نہیں رکھ سکے۔حیدرآباد میں اورینٹ ہوٹل اور نظامیہ ہوٹل میں ہونے والی ادبی نشستوں کے درمیان جلیس کے ادبی سفر کو پروفیسر رحمت یوسف زئی نے تفصیل سے بیان کیا جب کہ اس دور میں مخدوم‘ سلیمان اریب‘یوسف ناظم‘شاہد صدیقی‘ عالم خوندمیری کے چرچے تھے۔پروفیسر رحمت یوسف زئی نے لکھا کہ جلیس کو حیدرآباد میں سیول سپلائز کارپوریشن میں ملازمت ملی۔1946ء میں ان کی شادی گلبرگہ کے ایک رئیس گھرانے میں کنیز فاطمہ سے ہوئی۔بعد میں جلیس نے ملازمت سے استعفیٰ دیا۔جلیس کی دکن ریڈیو میں ملازمت‘پولیس ایکشن کے وقت ان کے رضاکاروں میں شمار اور چھپتے چھپاتے براہ بمبئی ان کی پاکستان روانگی اور پولیس ایکشن کی خونیں یادوں کو پروفیسر رحمت یوسف زئی نے واقعاتی انداز میں بیان کیا۔ جلیس کی پاکستان میں شہرت اور وہاں سرکاری اداروں میں ان کی ملازمت اور مختلف اخبارات میں ان کے کام کی تفصیلات اس کتاب میں ملتی ہیں۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے لکھا کہ جلیس 1960ء میں حیدر آباد آئے تھے تو ان کا بھرپور خیرمقدم کیا گیا تھا۔ پاکستان میں ان کی اولاد کی ترقی اور دیگر یادیں اس کتاب کا حصہ ہیں۔جلیس کی مختصر بیماری اور 27اکتوبر1977ء کو ان کے انتقال کی تفصیلات کتاب میں شامل ہیں۔جلیس کے حالات کے ساتھ اس کتاب میں برصغیر کی نصف صدی کی سیاسی و ادبی تاریخ شامل ہے کیوں کہ جلیس کا بچپن اور جوانی کے ایام دکن میں گزر ے تھے اور عملی زندگی کے ایام پاکستان میں گزرے تھے اور دونوں ملک تبدیلی کے دور سے گزر رہے تھے۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے جلیس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو دوست احباب کی ملاقاتوں کے حوالے سے بیان کیا۔ اور ادب اور سیاست میں ان کی وابستگی کو اجاگر کیا۔
کتاب کے دوسرے حصے فن کے تحت پروفیسر رحمت یوسف زئی نے ابراہیم جلیس کے تخلیقی سفر میں افسانہ‘ ناول‘ ڈرامہ‘ مضامین‘ خاکے‘پیروڈی‘رپورتاشترتیب و تدوین اور صحافت و کالم نگاری عنوانات کے تحت ابراہیم جلیس کے فن کا کہیں مفصل اور کہیں اختصار سے جائزہ لیا۔ اس جائزے میں اصناف کے تعارف اور ان کی فنی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔پروفیسر رحمت یوسف زئی نے مرزا ظفر الحسن کے حوالے سے لکھا کہ ابراہیم جلیس کا پہلا افسانہ ”جوتا چور“ ہے۔ 1945ء میں ان کے افسانوں کا مجوعہ”زرد چہرے“ شائع ہوا۔ابراہیم جلیس کے افسانوں کے تعارف کے ساتھ ان کے افسانوں کا انفرادی جائزہ پیش کیا گیا ہے لیکن جلیس کی افسانہ نگاری کے فن پر اجمالی جائزہ پیش نہیں کیا گیا۔ لیکن انفرادی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ جلیس کے افسانوں میں اپنے عہد کی آواز جھلکتی ہے۔ ناول کے جائزے کے تحت پروفیسررحمت یوسف زئی نے ابراہیم جلیس کے واحد ناول چور بازار کا ذکر کیا جو 1946ء میں لکھا گیا۔اس ناول میں جلیس نے تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوان کی زندگی کو پیش کیا ہے۔ ڈرامے کے تحت جلیس کے ڈرامے”اجالے سے پہلے” 1955 ء‘مضامین کے تحت مضامین کے مجوعہ”ایک پیسے کی خاطر“کا جائزہ لیا گیا ہے۔خاکے کے تحت جلیس کے لکھے خاکوں کا تفصیلی جائزہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ گاندھی جی کے قتل پر ان کا نثری مرثیہ ”ہندوستان مر گیا“ کا جائزہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔رپورتاژ کے تحت جلیس کے اہم رپورتاژ ”دو ملک ایک کہانی“ میں حیدرآباد کے پولیس ایکشن کی یادیں بیان کی گئی ہیں۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی لکھتے ہیں کہ اس رپورتاژ میں انہوں نے حیدرآباد کی سیاسی جد وجہد کا تجزیہ کیا ہے۔اور ان سارے نظریات کو بھی پیش کردیا جنہوں نے حیدرآباد کو ایک نئے موڑ پر لاکھڑا کردیا تھا۔۔جب تک ایمان داری کی قدر باقی رہے گی ”دو ملک ایک کہانی“ زندہ رہے گی اور اس کے ساتھ ساتھ جلیس کا نام بھی زندہ رہے گا۔ترتیب و تدوین کے عنوان سے جلیس کی مرتب کردہ کتاب“بھوکا ہے بنگال“اور صحافت و کالم نگاری کے تحت جلیس کی صحافتی خدمات کا احاطہ اس کتاب میں شامل ہے۔ آخر میں جلیس کے اسلوب اور ان کے سیاسی و سماجی شعور کا جائزہ لیا گیا ہے۔مجموعی طور پر یہ کتاب ابراہیم جلیس فن اور شخصیت نہ صرف جلیس کی حیات اور کارناموں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ اس کتاب سے بیسویں صدی کے ہندوستان و پاکستان کے حالات اورتقسیم ہند کی تفصیلات سے واقفیت ہے۔ اس دوران مختلف ادبی وثقافتی سرگرمیوں کا پتہ چلتا ہے اس طرح یہ کتاب برصغیر کی بیسویں صدی کی ایک تاریخی دستاویز ہے۔کتاب کا اسلوب دلچسپ ہے اور قاری کو بھرپور مطالعے کی ترغیب دیتا ہے۔ کتاب چونکہ لکھے جانے کے کافی عرصے بعد شائع ہوئی اور بہ قول مصنف اسے ان حالات میں ہی مطالعہ کیا جائے لیکن بعض شخصیات کے گزر جانے کے بعد بھی انہیں زندہ بیان کیا گیا۔ جیسے محبوب حسین جگر وغیرہ۔ اس کے علاوہ جلیس کے فن کا اجمالی جائزہ کتاب میں کھٹکتا ہے۔افسانوں‘ناول اور دیگر فن پر انفرادی جائزہ ہے لیکن اجمالی جائزہ کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ افسانوں کے علاوہ دیگر فنی امور پر جائزہ مختصر ہے۔ سرورق پر جلیس کی تصویر ان کی یاد دلاتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب دلچسپی کی حامل ہے۔ کتاب کی قیمت400روپئے ہے اور آئی ایس بی این نمبر کے ساتھ یہ مجلد کتاب ایجوکیشنل بک ہاؤز نئی دہلی سے شائع ہوئی اور اسے مصنف سے ان کے فون نمبر 9848093057 سے رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔
——

پروفیسر رحمت یوسف زئی
ڈاکٹر اسلم فاروقی
Share
Share
Share