مسلم بچوں کے تعلیمی مسائل :- مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share
مفتی امانت علی قاسمی

مسلم بچوں کے تعلیمی مسائل
اور مدارس کی موجودہ صورت حال

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذو مفتی دار العلوم وقف دیوبند

Mob: 07207326738

تعلیم انسانی معاشرے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے،تعلیم انسانی زیور ہے جس سے انسان کے نہ صرف حسن میں نکھار پیدا ہوتاہے؛ بلکہ اس سے اس کے باطن اور روح میں بھی تازگی آتی ہے،یہ وہ کنجی ہے جس سے،علم و معرفت اور عقل و فکر کے دریچے کھلتے ہیں –

انسان،حیوان سے ممتاز ہوتاہے، صحیح او رغلط کی تمیز،فکر و شعور کی بلندی،نظر و فکرکی پختگی کی بنیاد تعلیم ہے،تعلیم وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعہ انسان باطل کو کچل دیتاہے،یہ وہ خوشبوہے جس سے پورا معاشرہ معطر ہو جاتاہے،یہ وہ روشنی ہے جس سے ہر گھر،آنگن منور ہو جاتے ہیں تعلیم اس سورج کے مانند ہے جس سے لوگ توانائی حاصل کرتے ہیں تعلیم ایک سمت کا نام ہے جس پر چل کر انسان منزل کو پاتاہے،تعلیم اس خواب کا نام ہے جس کی حقیقی تعبیر انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتاہے؛تعلیم وہ کسوٹی ہے جس پر معاشرے کی بلندی کے معیار کو پرکھاجاتاہے؛اسی لیے قرآن کریم تعلیم والے اور غیر تعلیم والے کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے بیان کرتا ہے ہل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون۔
اس وقت تعلیم پر کافی توجہ دی جارہی ہے او رتعلیم کا شعور لوگوں میں بیدار ہوا ہے، لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ تعلیم کے بغیر چارہ کار نہیں ہے، کسان ہوں یا مزدور،رکشتہ چلانے والا ہو یا اپاہج،پڑھالکھا ہو یا انپڑھ،طاقت ور باپ ہو یا بے سہارا ماں، ہر کوئی تعلیم کی عظمت اور قوت سے واقف ہے، اس کی اہمیت و افادیت سے روشناس ہے، آج ہرکوئی اپنے بچوں کو تعلیم دلانا چاہتاہے۔تعلیمی ادارے بڑی تیزی سے کھل رہے ہیں،سرکار بھی تعلیم پر توجہ دے رہی؛ لیکن اس وقت مسلم بچوں کی تعلیم کے بہت سے پیچیدہ مسائل سامنے آرہے ہیں، اور دیندار مسلمانوں میں اپنے بچوں کی تعلیم کی بڑی فکر پائی جاتی ہے،اس لیے کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں میں دو نظریہئ تعلیم اور دونظام تعلیم نے مسلمانوں کو دو حصوں میں بانٹ دیاہے،مدارس کی تعلیم،جہاں صرف مذہبی تعلیم اور قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے اور عصر ی درسگاہوں کی تعلیم،اسکول و کالج کی تعلیم،جہاں صرف عصری مضامین پڑھائے جاتے ہیں اگر چہ دونوں جگہ جزوی تبدیلی سے انکار نہیں ہے لیکن عمومی صورت حال یہی ہے۔
ایک دیندار مسلمان اپنے بچوں کو اسکول میں نہیں بھیجنا چاہتا ہے کہ اس سے وہ دہر یہ بن جائے گا،مذہب بیزار ہوجائے گا، دین و اسلام سے دورہو جائے گا، مذہب اور قرآن و حدیث سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہ جائے گا،اسلام کے تعلق سے اس کے اندر شکوک و شبہات جنم لینے لگیں گے، اسلامی تہذیب اور اسلامی اقدار اس سے مفقود ہو جائیں گے،آج کل اسکولوں میں زیادہ تر ایسے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اور اس طرح کے کلچرل پروگرام کرائے جاتے ہیں اور اس انداز پر ذہن سازی کی جاتی ہے کہ دین دار انسان کے لیے قابل تشویش ہے۔دوسری طرف وہ دیندار انسان اپنے بچوں کو مدارس میں بھی داخل نہیں کرنا چاہتاہے اس لیے کہ اس مدارس کے فضلاء کی حیثیت عرفی متاثر ہے، ان کے پاس کے ذرائع آمدنی اور اپنی خدمات کے لیے وسیع میدان میں مسجد اور مدرسہ آتے ہیں جہاں تنخواہ کی قلت ہے اور معاشرے میں امام کی ناقدری جگ ظاہر ہے؛ اس لیے وہ انسان جو اپنی آنکھوں سے امام اور فضلاء مدارس کے ساتھ اس طرح کا ذلت آمیز سلوک دیکھتا ہے وہ قطعا اپنے بچوں کو مدارس میں بھیجنے کا روادار نہیں ہوتا ہے، پھر فضلاء مدارس کی جو کھیپ اس وقت تیار ہو رہی ہے ان کے لیے مدارس او رمساجد کی دنیا میں بھی مواقع نہیں ہیں نتیجہ یہ ہوتاہے کہ فراغت کے وقت ان کے سامنے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں اور زندگی کا ایک بڑا حصہ گزار کر اور تعلیم کے میدان میں دس سالہ وقفہ کے بعد اب انہیں فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے، اس وقت بعض طلبہ عصری درسگاہوں کا رخ کرتے ہیں جب کہ بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ان کے لیے وہاں بھی کامیابی کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔
ہندوستان جہاں ہم رہتے ہیں، جو ہمارا ملک ہے، اور جہاں ہم صدیوں سے آباد ہیں، ہم اس ملک میں اس وقت تک موثر نہیں ہو سکتے ہیں جب تک ہم انتظامیہ میں مؤثر نہ ہو ں،او رانتظامیہ میں مؤثر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس تعلیم کا حصہ بنیں جس کے ذریعہ ہم وہاں پر مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں،بعض مسلمان یقینا یہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس مقام تک پہنچتے ہیں لیکن اسلام کے مطلوبہ معیار میں کمی اور دینی تعلیم سے دوری کی وجہ سے،ایسے لوگ اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہت مفید ثابت نہیں ہوتے اس لیے کہ جو خود اسلام کے حقیقی روح سے ناواقف ہواوراسلام کی صحیح تصویر اس کے سامنے نہ ہو تو ظاہر ہے کہ ان سے اس طرح کی توقع بھی نہیں ہونی چاہیے، اس کے بالمقابل بعض غیر مسلم تنظیموں میں نے اپنے مخصوص ادارے قائم کئے جہاں انہوں نے اپنے مذہب کی تعلیم دی اور اس کی آڑ میں انہوں نے اپنی قوم کے تئیں ایک خاص جذبہ لوگوں میں بیدار کیا اس کے لیے ان کو جس طرح کی ضرورت تھی انہوں نے کیا؛لیکن ساتھ میں انہوں نے عصری تعلیم سے بھی آراستہ کیا نتیجہ یہ ہواکہ ان کا ایک آدمی چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھ کر بھی اپنی قوم اور اپنے فلسفہ کی فکر کرتا ہے جب کہ ہم اس میدان میں دور تک نہیں ہیں،ہمارے جو مسائل ہیں ان کے حل لیے نہ کوئی ادارہ ہے اور نہ ہی کوئی ایسی شخصیت جو اس سلسلے میں مؤثر رہنمائی کرسکے۔اس موضوع پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
بعض ناگزیر حالات کی بنا پر ہمارے اکابر نے اسلام اور قرآن کی حفاظت کے لیے یہ فیصلہ لیا تھا کہ ایسے مدارس قائم کئے جائیں جہاں مسلم بچوں کے ایمان کی حفاظت ہو اور اسلام کی،اسلامی تہذیب کی حفاظت ہو اور اس وقت کے حالات ایسے نہیں تھے کہ مسلمان انتظامیہ کا حصہ بنیں اس لیے کہ انگریز کی ملازمت ہی حرام تھی تو ان کے ساتھ حکومت میں کام کرنے کا کوئی جواز بھی نہیں تھا لیکن ملک آزاد ہوا اورآزادی کے بعد بھی مسلمانوں کے وہ عارضی نظام تعلیم جس میں صرف قرآن و حدیث کو اور اسلامی تعلیمات کو ہی جگہ دی گئی تھی لازمی قرار دے دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان دو گروہ میں تقسیم ہوگئے ایک طبقہ مدارس میں اپنے بچوں کو پڑھانے کے اپنے لیے فخر تصور کرنے لگا؛ جب کہ دوسرے طبقہ نے عصری درسگاہوں میں تعلیم دلانے کو ضروری تصور کیا۔ اس طرح ایک طرف سچے پکے دیندار تیار ہوئے لیکن وہ اپنے ایمان اور قوم کے ایمان کی فکر تو کرسکتے ہیں لیکن وہ قوم، سماج اورملک کی خدمت کرنے سے قاصر تھے اس لیے کہ ان کے پاس وہ تعلیم نہیں ہے دوسری طرف ایک وہ طبقہ ہے جنہوں نے عصری تعلیم حاصل کرکے اونچی ڈگری حاصل کرلی،ملازمت میں آگئے،لیکن وہ مطلوبہ دینی حمیت اور جذبہ سے خالی ہیں جس سے وہ اپنی قوم کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں یہ بات عموم کے طور پر کہی جارہی ہے اس سے استثنی ضرور ہے اور اس سے انکار نہیں ہے۔لیکن اس صورت حال نے مسلمانوں کو بے چین کردیا ہے اب ایک دیندار مسلمان اپنے بچوں کا بہتر مستقبل بھی چاہتا ہے اور اس کے دین و ایمان کی حفاظت کی ضمانت بھی ایسے دوراہے پر اسے کوئی ایسا ادارہ نظر نہیں آتا جہاں اس کے دین کی بھی فکر ہو اور ان کے دینا کی بھی،ایک ایسی تعلیم جس کے ذریعہ ایک دھڑکنے والا دل تیار ہو جس میں خدا کا تصور بھی ہو اور ملک وملت کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ بھی،ایک ایسا نظام تعلیم جو فکر آخرت پر مبنی ہو لیکن مطلوبہ دنیاوی ضرورت کی اس میں رعایت بھی ہو، یہ اس وقت ایک بنیادی ضرورت بن چکی ہے جس سے کوئی مفر نہیں ہے۔
اس وقت مدارس میں جو تعلیم دی جاتی ہے اس کے ہزار خوبی کے اعتراف کے ساتھ ہمیں یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اچھائی کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی ہے، اس وقت ہم جو تعلیم دیتے ہیں، اس کا ایک دشوار گزار پہلو یہ ہے کہ اس تعلیم کے بعد اگر چہ ہمارے فضلاء کے اندر بہت سی صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہیں، لیکن ہمارے فضلاء قومی دھارے میں شامل نہیں ہو پاتے ہیں، انہیں جو پاسپورٹ بنانا پڑتا ہے اور ان پڑھ اور ناخواندہ کا پاسپورٹ بنانا پڑتا ہے، اس وقت ہمارے فضلاء بھی سیاست میں حصہ لیتے ہیں جو ایک اچھا اور مستحسن قدم ہے اس کے ذریعہ ہم اپنے آپ کو مضبوط کرسکتے ہیں، قوم کے سیاسی حقوق کی بازیابی کے لیے جد جہد کے کرسکتے ہیں،جمہوری ملک جس کی بنیاد چار ستونوں پر ہوتی ہے، انتظامیہ، عدلیہ، میڈیا اور مقننہ، جب تک ان چاروں میں اپنی صحیح نمائندگی درج نہیں کراتے ہیں اس وقت تک ہم جمہوریت کو مضبوط قائم و باقی نہیں رکھ سکتے ہیں، ابھی چند دن قبل کیرلا سے یہ خبر آئی کہ تین فضلاء مدارس نے وکالت کا امتحان پاس کرکے بحیثیت وکیل اپنا نام درج کرایا، اس کی پذیرائی کی گئی لیکن ظاہر ہے کہ اس طرح کے انفرادی واقعات انفرادی صلاحیت کی بناء پر ہوتے ہیں لیکن اگر ہم اپنے نظام تعلیم کو اس انداز پر مرتب کریں جس میں مدارس کی روح اور اس کی بنیاد کی پوری رعایت کی گئی ہو اور ساتھ میں عصری علوم کو بھی شامل کیا گیا ہو تو ہمارے یہ فضلاء قومی دھارے میں شامل ہوکر پہلے سے کہیں زیادہ خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کل بھی مدارس نے مسلمانوں کی قیادت کی ہے،اور آج بھی مدارس میں قیادت کی اہلیت ہے اور دنیا کی نگاہیں اس پر ٹکی ہوئی ہیں اس لیے ضرورت ہے کہ مدارس کے نظام تعلیم کا از سر نو جائزہ لیا جائے،مدارس میں آنے والے طلبہ میں نہ ٹیلنٹ کی کمی ہے اور نہ ہی محنت کی بس وسائل اور رہنمائی کی کمی ہے،اگر مدارس میں عصر ی علوم کی شمولیت کی جائے تو بہت ممکن ہے کہ یہ طلبہ اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے ساتھ ملک و ملت کے لیے بہتر فریضہ انجام دیں،آج یہ حقیقت ہے کہ مدارس میں طلبہ کا رجحان بہت کم ہو چکا ہے،آئے دن مدراس میں بچے کم ہو رہے ہیں، بعض مدراس میں جہاں سو دو سو طلبہ پڑھتے تھے آج وہاں حفظ کی جماعت کا باقی رکھنا مشکل ہوگیا،ہر سال شوال میں کتنے ہی مدارس ہیں جو استاذہ کو یہ کہہ کر نکال دیتے ہیں کہ اس سال اس جماعت میں طلبہ نہیں ہے اس لیے آپ کی ضرورت نہیں ہے، یہ صورت حال ہر بصیرت رکھنے والا شخص محسوس کرسکتاہے،اس کی کیا وجہ ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارے مدارس کا اصل سرمایہ، ملت کے دین و ایمان کی حفاظت کی ذمہ داری ہے،اس کے ساتھ وسائل کی اس وسیع دنیا میں اگر مقاصد میں اضافہ کردیا جائے اور اس کے مقاصد میں دین و ایمان کی حفاظت کے ساتھ اسلام کی اشاعت اور اسلام کو درپیش چیلینج کے جواب دہی کی صلاحیت پیدا کرنا،بھی شامل کردیا جائے اور اس کے مطلوبہ نظام و نصاب اور طریقہ تعلیم میں مزید نکھار پیدا کی جائے تو امید ہے کہ اس سمت میں بھی ہمیں کامیابی ملے گی، اس وقت کی قومی زبان ہندی ہے اور بین الاقوامی زبان انگریزی ہے ہم ان دونون زبانوں سے ناواقف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہم برادران وطن میں اپنی بات مؤثر انداز پر نہیں کرپاتے ہیں،اسی طرح لبرل ازم کے اس دور میں جہاں اسلام پر طرح طرح کے اعتراضات کئے جاتے ہیں اور مذہب بیزاری کو جس پروپیگنڈہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اس نے ہمیں اپنے نظام تعلیم پر سوچنے کے لیے مجبور کردیا ہے ضرورت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں ان باتوں کو بھی ملحوظ رکھیں۔اس تحریر کا مقصد مدارس کے نظام کو غیر مؤثر بتانا بالکل نہیں ہے، بلکہ مدارس نے ماضی میں بھی حیرت انگریز کارنامہ انجام دیا ہے اور اس وقت بھی وہ اپنے مقاصد میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ اس تحریر کا حاصل صرف یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مزیدبہتر بنانے کے لیے اور اپنے فضلاء کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق کیا تبدیلی کر سکتے ہیں اس کا جائز ہ لینے کی ضرورت ہے۔
دارالعلوم وقف دیوبندامت مسلمہ کا قیمتی سرمایہ ہے اور ایشاء میں تعلیمی مقام میں بلند حیثیثت کا حامل ہے، جس کی موجودہ قیادت نوجوان،وسیع الظرف اور دور رس ہے،جس کی تعلیمی پالیسی میں فکر نانوتوی روح گنگوہی شامل ہے۔دارالعلوم وقف نے ادھر چند سالوں میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں وہ جگ ظاہر ہے۔دارالعلوم وقف نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے نظام تعلیم میں جزوی تبدیلی کی ہے اور عربی کی پہلی کلاس میں عربی کے تمام مطلوبہ معیار کو سامنے رکھتے ہوئے عصری علوم کو شامل کیا ہے اس طرح ہر سال میں عصری علوم کے ضروری مضامین کو شامل کرکے طلبہ کو عصری معیار کے مطابق اسنادات سے ہم کنار کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ یہ ایسا مستحسن قدم ہے جس کے انشاء اللہ بہتر نتائج سامنے آئیں گے مدارس کی طرف سے طلبہ کی بے توجہی اور عدم رجحان پر بھی قدغن لگ سکتا ہے بلکہ طلبہ کا رجحان بڑھے گا۔اور میں یہ سمجھتاہوں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے جسے دوسرے مدارس کو اختیار کرنا چاہیے۔
——-

Share
Share
Share