نذیر احمد یوسفی : بچوں کے ایک منفرد کہانی نویس :- ڈاکٹر سیّد اسرارالحق سبیلی

Share
ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی

نذیر احمد یوسفی
بچوں کے ایک منفرد کہانی نویس

ڈاکٹر سیّد اسرارالحق سبیلی
موبائل: 9346651710 – 8143344751

ریاستِ مغربی بنگال کا مشہور شہر آسنسول اپنے سینہ میں بے شمار,,سیاہ ہیرے،،کا ذخیرہ کئے ہوئے ہے،جو ایک صدی سے زائد عرصہ سے روشنی اورایندھن کی ضرورت پوری کررہاہے۔اس کے جنوب میں دریائے دامودر آبِ حیات اور آب پاشی کی تقسیم پر مامور ہے،

جس کی بنا پر یہ ایک گنجان شہر بن گیا ہے،اور ترقّی کرتے ہوئے میو نسپل کارپوریشن سے میگاسٹی بننے کی طرف گامزن ہے۔اس زر خیز مٹّی اور پانی سے بے شمار انسانی ہیرے جواہرات برآمد ہوئے ہیں،اور اپنی ضیاء پاشیوں سے ایک عالم کو منوّر کر چکے ہیں۔
مشہور بنگالی شاعر قاضی نذرالاسلام کا یہ شہراپنی ہمہ جہت ترقّیوں کے ساتھ علم وادب کے میدان میں بھی اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔بڑوں کے علاوہ بچوں کے ادب میں بھی اس شہر کو امتیاز حاصل ہے،عابد ضمیراور شین کریمی سے لے کر ڈاکٹر مشتاق اعظمی،ڈاکٹر انور ادیب،عبدالودودانصاری،سردار رب نواز صارم اور ڈاکٹر عشرت بیتاب وغیرہ بچوں کے ادیبوں کا تعلق اسی شہر سے ہے،اگراس فہرست میں مجھ حقیرفقیر،خانہ بدوش کو بھی شامل فرمالیں تو مہربانی ہوگی،کیوں کہ میراوطنی تعلق بھی اسی شہر سے ہے؛میرے والد ماجد جناب سیّدآلِ علی اخترصاحب علیہ الرحمہ (۱۹۶۹۔۱۹۹۹ء)نے اسی شہر میں ۱۹۴۶تا۱۹۹۴ء تدریسی خدمت انجام دی ہے،اور ربّانیہ پرائمری اسکول ہاٹن روڈ، آسنسول سے فروری۱۹۹۴ء میں حسنِ خدمت پر سبک دوش ہوئے تھے۔
لگتاہے کہ شہر آسن سول کی سرزمین بچوں کے نثرنگاروں کے لئے بڑی زرخیز ہے،اور ملک کے معتبر افسانہ نگاروں کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے والوں نے بچوں کی کہانیوں کی طرف بھی بھر پور توجہ دی ہے،اور اپنی کہانیوں کے ذریعہ بچوں کے ادب کی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے؛ان سے میری مرادعابد ضمیر مرحوم،ڈاکٹر مشتاق اعظمی اور نذیر احمد یوسفی ہیں۔سرِ دست آج میں نذیر احمد یوسفی کی بچوں کے لئے لکھی گئی کہانیوں، ادبِ اطفال سے ان کی وابستگی اوران کی کہانیوں کے فنّی وفکری معیاراورخوبیوں پر بحث کرنا چاہتا ہوں۔
ادبِ اطفال سے نذیر صاحب کارشتہ بڑاقدیم اور دیرینہ ہے،جو چھ دہایؤں سے زائد عرصہ پر محیط ہے،ان کی کہانیوں کاپہلا مجموعہ:,,خزانے کی واپسی،،۱۹۵۶ء میں زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آچکا تھا،گویا اس سے پہلے سے وہ بچوں کے لئے کہانیاں تحریر کرنے میں مصروف رہے ہیں،اور بچوں کے قدیم رسائل جو اب بند ہو چکے ہیں،جیسے:ماہ نامہ,,کھلونا،، ,,پھلواری،،,,باغ وبہار،،,,بچوں کی نرالی دنیا،،اور موجودہ دور میں جاری ماہ نامہ, ,امنگ، ،دہلی،,,نیاکھلونا،،کولکاتہ اور,,بچوں کی دنیا،،وغیرہ میں ان کی کہانیاں شائع ہوتی رہی ہیں۔
نذیر احمد کی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ:,,ادبی کہانیاں،، کے نام سے۱۹۸۵ء میں شائع ہوا،تیسرا مجموعہ بچوں کی کہانیوں کا انتخاب بعنوان:,,قصّے کہانیاں،،۲۰۰۴ء میں منظرِ عام پر آیا،اور ۲۰۱۷ء میں مغربی بنگال اردو اکاڈمی کولکاتہ نے ان کی کہانیوں کاچوتھا مجموعہ:,,بچوں کی کہانیوں کاگلستاں،،نہایت اہتمام سے آئی ایس بی نمبر کے ساتھ شائع کیاہے،اس طرح ان کی کہانیوں کی ضخامت کم و بیش تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔مؤخرالذکر دو مجموعے ہی مجھے حاصل ہو سکے،اور ان ہی کی روشنی میں میں کچھ بات عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔
بچوں کے لئے افادی،اخلاقی،تہذیبی اور تربیتی ادب تحریر کرنے کے لئے قلم کی پختگی ضروری ہے۔(۱ )محترمہ مشیر فاطمہ نے اپنی مشہور کتاب:,,بچوں کے ادب کی خصوصیات،،میں لکھاہے:
,,بچوں کے لئے اخلاقی کہانیاں لکھنا بہت مشکل ہے،اس کے لئے ادیب اخلاقی قدروں کو اہمیت دیتا ہو،ادیب میں تخلیقی اور تخیّلی صلاحیت ہونی چاہئے،زبان میں اثر ہوناچاہئے،معمولی لکھنے والے اخلاقی کہانیوں کو پیچیدہ اور خشک بنا دیتے ہیں۔،،(۲ )
نذیر احمد یوسفی بچوں کے ایک کہنہ مشق ادیب اور کہانی نویس ہیں،عابد ضمیر کے بقول:نذیر احمد یوسفی نے جانوروں اور مافوق الفطرت عناصر کے وسیلے سے بچوں کی ذہنی تربیت کی کوشش کی ہے۔ان کی کہانیاں دل چسپ اورسبق آموز ہوا کرتی ہیں۔(۳ )
نذیر صاحب نے خود اپنی کہانیوں کے افادی پہلوؤں پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:
,,میں نے کوشش کی ہے کہ بچے ان کہانیوں سے نہ صرف لطف و لذّت لیں،بلکہ سبق بھی کہ ان کہانیوں کی سطروں میں پوشیدہ اردو زبان وادب سے محبّت اور ادبی تہذیب وترتیب کی خوشبو بھی ہے۔،، (۴ )
نذیر احمد یوسفی کی کہانیوں کے بارے میں میرا عمومی تاثّر یہ ہے کہ انہوں نے قدیم و جدیدکے صالح عناصر کواپنی کہانیوں میں جگہ دینے کی شعوری کوشش کی ہے،ایک طرف انہوں نے شہزادی گلناراور امانت کی واپسی جیسی اساطیری اورلالچ کا انجام اور دروازے پر تھیلی جیسی روایتی کہانیاں لکھی ہیں،تو دوسری طرف منی آڈر والی چھتری،آگ سے مت کھیلو اورپچھتاوا جیسی حقیقت پسند کہانیاں بھی تحریر کی ہیں،یوسفی صاحب نے خود اس بات کا اظہارکیا ہے کہ موجودہ دور میں ایسی کہانیوں کا رواج بڑھ گیا ہے جو ہمارے ارد گردشہری ودیہاتی ماحول سے مطابقت کرے اور اسکول،دوست،حادثہ،شرارت،امّیدیں،خواب اور سیروتفریح کی فضا سے ہم آہنگ ہوں،دکھ سکھ،مسلم معاشرے کی مجبوریاں،پابندیاں،الجھنیں،غریبی،لاچاری کا کرب وغیرہ بھی آج کی کہانیوں کا عنوان بن رہے ہیں،میں نے اس مختصر سی کتاب(قصّے کہانیاں) میں ایسی ہی کہانیاں شامل کی ہیں جو موجودہ نسل کے ذوق وشوق پر پوری اتریں۔( ۵ )
نذیر احمد صاحب نے قدیم و جدید کے صالح عناصر،بچوں کی فطری دل چسپی،شوق و ذوق،ان کی نفسیاتی کمزوری اور نفسیاتی طریقِ اصلاح کو اپنے منفرد افسانوی اسلوب میں ڈھال کر روایتی انداز کے بجائے جدید انداز میں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ موضوعات کا انتخاب کیا ہے،انہوں نے تخیّل پسندی سے از حد گریز کرتے ہوئے حقیقت پسندی کو اپنایا ہے،انہوں نے ایسی کہانیاں لکھی ہیں،جو اپنے سماجی اورتہذیبی ماحول سے ہم آہنگ ہیں۔ان کی کہانیاں فطری انداز الئے ہوئے دل چسپ اور سبق آموز ہیں،اور غیر محسوس طریقہ پر بچوں کو نیکی اور خیر خواہی کی طرف راغب اوران کی اخلاقی تربیت کرتی ہیں۔( ۶ )
موضوعاتی اعتبار سے نذیر احمدکی کہانیوں کو درج ذیل موضوعات میں تقسیم کیا جاسکتاہے: اسکولی بچوں کی شرارت اور اس پر تنبیہ،عقل مندی ومعاملہ فہمی،وضع داری،ایثاروغم خواری کی ترغیب،حرص وہوس سے پرہیز،موقع پرستی کا انجام،کاروباری چال بازی اوردھوکہ دہی کا انجامِ بدوغیرہ۔انہوں نے بچوں کے مایہ ناز ادیب امتیاز علی تاج کے مشہورِ زمانہ کردار,,چچاچھکّن،،اور ڈپٹی نذیر احمددہلوی کے,,مرزا ظاہرداربیگ،،کی طرح,,مرزا جاہ علی،،کا دل چسپ کردار وضع کیا ہے،جسے بد قسمتی سے لوگوں نے بگاڑ کر,,ملّاجاہلی،،کردیا،مرزا جاہ علی نے لوگوں کو لاکھ سمجھایاکہ بھائی میں ملّاجاہلی نہیں ہوں،مجھے مرزاجاہ علی کہہ کر پکارو،مگر کون سنتا فغانِ درویش،مجبوراََ تھک ہار کر صبر کرلیا کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔(بچوں کی کہانیوں کا گلدستہ:۹)
کہانی نویس نے مرزا جاہ علی کے دل چسپ کردارپر مشتمل چھ کہانیاں تحریر کی ہیں:دوسرا علی بابا،موتی والی مچھلی،منی آڈروالی چھتری،ایسا ہوا،نہیں بننا ہے بڑاآدمی اور سانڈ نے سبق دیا،جن میں مرزا جاہ علی کا جیتا جاگتاکردار،ان کی سادگی،بھولاپن،سادہ لوحی، دھوکہ کھانے کے بعد سنبھلنااورحریف کو مات دینا شامل ہے،مرزا جاہ علی,,شیخ چلّی،، کی طرح اپنے نقصانات کی تلافی کا گر اچھی طرح جانتے ہیں،اور سادگی و بھولے پن کے باوجود دھوکہ کا جواب ایسے طریقہ سے دیتے ہیں کہ فریقِ مخالف کو انگلی پکڑنے کا موقع نہیں ملتا ہے،مرزا جاہ علی کا جیتا جاگتا کردارنذیر احمد یوسفی نے اپنے منفردمزاحیہ اور رومانوی اسلوب میں بڑے دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے،ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
,,زندگی میں اب تک تین چھتریوں کے کھو جانے کا غم اکثرمرزا جاہ علی کی آنکھوں کی نیندیں اڑا دیتا تھا،کتنے صبر آزما وہ لمحات ہوتے تھے جب نئی اور جوان چھتری ہاتھوں سے پھسل کر کسی اور کے پہلو میں جا سمٹتی تھی،اور ان کے دل و دماغ مین ہجروفراق کی آہوں اور آنسوؤں کا سیلاب چھوڑ جاتی تھی۔بیگم کے ٹھونے الگ دل کو چھلنی کرتے رہتے تھے،کئی کئی برساتی موسم تو انہوں نے بغیر چھتری کے ہی رومال اور تولیہ کی مدد سے گزار دیئے،مگر یہ غیر اخلاقی فعل اپنے اردگرد اور پاس پڑوس تک ہی مناسب تھا،دور دراز تک تولیہ ڈال کرچلتے دیکھ کر گلی کے کھلنڈر لڑکے دوپٹہ ولا, او، سمجھ کر منھ بچکا بچکا کر تالیاں بجانے لگتے تھے اور انہیں سوائے غصّّہ چبانے اور ان آوارہ لڑکوں کے اس, ٹھٹھا،کا کوئی نامناسب اور غیر اخلاقی الفاظ سے من ہی من میں نوازنے کے کوئی راستہ نہ بچتا تھا۔،، (منی آڈر والی چھتری، نئی چھتری)
چوں کہ یہ کہانیاں نو عمر بچوں کے لئے لکھی گئی ہیں،اس لئے کئی کہانیاں اسکولی بچوں کی شرارت،تکلیف دہ مذاق،اسکول سے بھاگنے کا انجام،چٹورپن اور ماں باپ کی بات نہ ماننے کے نقصانات کو واضح کرتی ہیں،ایسی کہانیوں کے عنوانات مندرجہ ذیل ہیں:بڑی بھول،سانڈ نے سبق سکھایا،پکوڑے کی طرح،اب پھر نہیں،آگ سے مت کھیلو،پچھتاوا،گھر کو آگ لگ گئی۔
مقدّم الذکر دو کہانیاں سن کر بچے اسکول سے بھاگنے اور اسکول چھوڑ کراِدھرادھر مٹر گشت کرنا بھول جائیں گے،اور سنّاٹے کے وقت اکیلے تالاب میں نہانے سے ڈریں گے،تیسری کہانی پڑھ کر بچے بے زبان جانوروں کو ستانے سے توبہ کر لیں گے،ورنہ فرشتے انہیں,پکوڑے کی طرح،کڑاہی میں ڈال کر تل دیں گے،جیسے ان کی امّی رمضان میں پکوڑے تلتی ہیں۔,,آگ سے مت کھیلو،، اور,,گھر کو آگ لگ گئی،،میں آگ سے کھیلنے کا خطرناک انجام بتایاگیا ہے کہ آگ کا کھیل کبھی جسم اور کپڑوں کے ساتھ مستقبل کو بھی جلا دیتا ہے۔
کہانی:,,پچھتاوا،،میں بالواسطہ نصیحت کا نفسیا تی طریقہ استعمال کیا گیا ہے،وسیم میاں روز کی شرارت سے اسکول اور پاس پڑوس کے بچے بچیوں کو پریشان کئے رہتے تھے،اس کی والدہ روزروز کی شکایتیں سن سن کر عاجز آگئی تھیں،لیکن اس کے والد بیٹے کی شکایتیں سن کر سوائے افسوس کرنے اور سرد آہ بھرنے کے کچھ نہیں کہتے تھے،ایک دن جب وسیم میاں کی شرارتوں سے اس کی والدہ بہت عاجز آگئیں اور اپنے شوہر کے سامنے وسیم میاں کی شرارتوں کا پٹارا کھولا،تو شفیق میاں نے افسوس بھرے لہجہ میں بیگم کو مخاطب کیا:اے اللہ کی بندی!اسے مت کچھ کہو،اس کا قصوروار میں ہوں، بچپن میں مجھے بھی اسی طرح شرارتوں کا شوق تھا،میرے والدین بھی اسی طرح میری شرارتوں اور شکایتوں سے عاجز رہتے تھے،میں اپنے اسکول کے ساتھیوں کو طرح طرح سے تنگ کرتا،اور سرفراز کو تواسکول اور محلّے میں جہاں بھی موقع ملتاستانے سے باز نہیں آتا،میں دسویں سے زیادہ نہیں پڑھ سکااور مجھے بینک میں چپراسی کی نوکری ملی،آج اپنے بینک میں جب وہی سرفراز بینک منیجر بن کرآیا،تب مجھے شرمندگی کا احساس ہواکہ شرارت اور کھیل نے میرے مستقبل کو چوپٹ کردیا،ورنہ میں بھی آج کسی بینک میں آفیسر ہوتا،کمرے کی دوسری دیوار سے کان لگائے وسیم ابّا کی ساری باتیں سن رہا تھا،اسے دکھ ہواکہ ابا کی طرح وہ بھی خواہ مخواہ ان پڑھ لڑکوں کے ساتھ کھیل کود میں اب تک وقت ضائع کرتا رہا تھا،آج سے وہ بھی دل لگا کر پڑھے گااور آفیسر بن کراپنے خاندان کا نام روشن کرے گا،ان شاء اللہ۔(قصّے کہانیاں:۴۵۔۵۰)
کہانی:,,اب پھر نہیں،،میں چٹورے پن، ماں کی بات نہ ماننے اوروعدہ خلافی کی سزا بیان کی گئی ہے،بچپن میں ہم بھی ابا کے ربّانیہ اسکول آسنسول سے مائی تھن ڈیم گھومنے گئے تھے،اسی طرح ذیشان اپنے اسکول کے ساتھیوں کے ساتھ مائی تھن ڈیم کی سیاحت کو جانے والا تھا،اس کی امّی نے اسے اسکول لا کر چھوڑتے وقت سخت تاکید کی تھی کہ باہر کی کوئی چیز خرید کر نہ کھانا،کھانے پینے کی اچھی اچھی مزیدار چیزیں اسکول کی طرف سے ڈیم پہنچ کرتمام بچوں کے ساتھ تمہیں بھی ملیں گی،ا س لئے فالتو میں روپے خرچ کرکے پیٹ خراب نہ کرنا،ابھی ہفتہ دنوں پہلے ہی تم باہر کی چیزیں کھاکر بیماری سے اٹھے ہو،ذیشان نے بڑے خلوص سے سر ہلاکرباہر کی چیزیں نہ کھانے کا وعدہ کیا،لیکن ابھی لگژری بس کھلنے میں دیر تھی،سامنے آلو دم اور گول گپّے کی دکان دیکھ کر اس سے صبر نہ ہو سکا، بھرے پیٹ میں آلو دم اور گول گپے کے ایک ایک پلیٹ جلدی جلدی پیٹ میں ٹھونسنے سے یکا یک ابکائی آئی،اور پیٹ کاسارا اگلا پچھلا مال باہر آگیا،اس کا سر چکرانے لگا،وہ ڈیم جانے کے لائق نہیں رہا،اس کی امی اسے واپس گھر لے گئیں۔
بچے گھومنے پھرنے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں،اور اپنے اساتذہ سے بارہا پکنک پر جانے کی خواہش کرتے ہیں،ایک بچے کے لئے اس کی اپنی نادانی اور نافرمانی کی وجہ سے پکنک میں جانے محروم رہ جانابڑانفسیاتی علاج ہے۔نذیر صاحب بچوں کے معلم نہ ہونے کے باوجود بچوں کا نفسیاتی علاج کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
کہانی:,,دردِدل کے واسطے،،اعلیٰ ظرفی،چشم پوشی،حاجت روائی اور وضع داری کی عمدہ مثال ہے،اسی طرح,,کام آئے انسان کا انساں،،مصیبت زدہ لوگوں کی مدداور یثار وقربانی پر آمادہ کرنے والی بڑی عمدہ کہانی ہے۔
,,شہزادی گلنار کا حوصلہ،،اساطیری کہانی ہونے باوجودفکری و فنّی اعتبار سے سب سے اچھی کہانی ہے،اور بچوں کوذہنی تفریح کے ساتھ ساتھ اخلاقی و روحانی غذا بھی فراہم کرتی ہے،بچوں میں عقیدہئ توحیدکا تصوّر جاگزیں کراتی ہے،اور اللہ کی عظمت و قدرت اور اس کے فضل واحسان کو یاد رکھنے کا سبق دیتی ہے،پروردگارِ عالم پر کامل بھروسہ،نماز کی پابندی،ہم دردی،حسنِ سلوک،بڑوں کا ادب،چھوٹوں سے پیار،مطالعہ کی عادت اور غریبوں میں تعلیم کو عام کرنے کے جذبہ کو بیدار کرتی ہے،کہانی کا یہ پیراگراف نقل کئے جانے کے لائق ہے:
‘‘ان تینوں بہنوں میں گلنار بے حد خوب صورت تھی،چندے آفتاب چندے ماہتاب،دل کی بھی نرم تھی،اپنے سے چھوٹوں کو پیار کرتی تھی،اور اپنے سے بڑوں کا بے حد احترام کر تی تھی،اپنی بڑی بہنوں سے اس کے الگ ہی اس کے شوق تھے،کتابوں کا مطالعہ اور غریب کسانوں اور درباریوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا اسکول چلانا ہی اس کا روزانہ کا
مشغلہ تھا،اس کی دونوں بہنیں اس کی گھٹیا عادت سے خار کھاتی تھیں اور اس کی شکایت اپنے بادشاہ ابو سے کر تی رہتی تھیں۔،،(بچوں کی کہانیوں کا گلستاں:۸۷)
نذیر احمد یوسفی بذاتِ خود نمازی،پرہیزگاراور مخلص مسلمان ہیں،ان کی شخصیت کا اثر ان کی تحریروں میں نمایاں ہے،انہوں نے نئی نسل کے ادبی ذوق کی تسکین،ان کی روحانی و اخلاقی تربیت و تہذیب،ان کی اصلاح ورہ نمائی،صالح اقدار کی ترسیل اور تہذیبی روایات کی پاسداری کی شعوری کوشش کی ہے،اور انہیں مفید شہری،صالح انسان،دین دار مسلمان اور فلاح و بہبود کا خوگر بنانے کا مقدّس فریضہ انجام دیا ہے۔نذیر احمد یوسفی اپنی کہانیوں کے شگفتہ،دل نشیں ورومانوی اسلوب اورافادی و اصلاحی کوششوں کی بنا پربچوں کے ادب کی عصری اور جدیدتاریخ میں ایک اہم ستون کی حیثیت سے مدّتوں یاد رکھے جائیں گے۔!!!
—–
حواشی:
(۱)ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی،بچوں کا ادب اور اخلاق ایک تجزیہ(ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی،۲۰۱۵ء)ص:۳۶
(۲)مشیر فاطمہ،بچوں کے ادب کی خصوصیات(انجمن ترقی اردو علی گڑھ،۱۹۶۲ء)ص:۲۷
(۳)عابد ضمیر،قصے کہانیاں،از:نذیر احمد یوسفی(آسن سول،۲۰۰۴ء)پشتِ ورق
(۴)نذیر احمد یوسفی،بچوں کی کہانیوں کا گلستاں (مغربی بنگال اردو اکادمی،کولکاتہ،۲۰۱۷ء)ص:۸
(۵)نذیر احمد یوسفی،قصے کہانیاں (آسنسول،۲۰۰۴ء)ص:۴
(۶)ڈاکٹر سیداسرارالحق سبیلی،بچوں کے ادب کی تاریخ(ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی،۲۰۱۶ء)ص:۲۵۸
———
Dr. Syed Asrarul Haque Sabeeli
Asst.Professor& Head,Dept.of Urdu,
Govt.Degree College (A) Siddipet..502103,T.S

Share
Share
Share