کتاب : بین الاقوامی سیاست – مصنف : ڈاکٹر عبدالقیوم :- مبصر : ڈاکٹر سیدہ گوہر

Share

کتاب : بین الاقوامی سیاست
مصنف : ڈاکٹر عبدالقیوم
9441277497

تبصرہ نگار : ڈاکٹر سیدہ گوہر

میں اپنے لئے یہ بات باعث فخر سمجھتی ہوں کہ آج مجھے ڈاکٹر عبدالقیوم کی کتاب ”بین الاقوامی سیاست“ پر تبصرہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم کی یہ کتاب اگرچہ کہ بیسویں کتاب ہے تاہم یہ کتاب اُن کے اب تک کی کتابوں سے یکسر مختلف ہے۔

چونکہ تمام 19 کتابوں کا تعلق نصابی ضرورتوں کی تکمیل سے تھا۔ جس میں کوئی مصنف آزادانہ خامہ فرسائی نہیں کرسکتا۔ چونکہ وہاں پر مصنف کو مضمون کی دوسری کتابوں کی مدد لے کر لکھنا پڑتا ہے۔ تاہم یہ اس کتاب کے مضامین میں ڈاکٹر عبدالقیوم کی ذاتی ذہانت، ان کی قابلیت، مضمون کو سمجھنے کی اُن کی صلاحیت، زبان پر ان کی دسترس اور واقعات کا تسلسل اور تجزیہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی بات میں لکھتے ہیں کہ ”یہ تحریریں اپنی نوعیت میں زبان و بیان سلاست، روانی اور واقعات کا تسلسل اور تجزیہ کے اعتبار سے بالکل جداگانہ ہیں۔ اس کتاب کے موضوعات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ تقریباً 50 سے زیادہ موضوعات کا تعلق بین الاقوامی سیاست سے ہے۔ جبکہ صرف 10 موضوعات کا تعلق دیگر عصری موضوعات جیسے بہار اسمبلی کے نتائج اور مسلمان، حیدرآبادی عالمگیر، شہر لیکن سہولتیں۔۔۔۔۔؟ آسٹریلیا کا سیلاب ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ، ہندوستانی جمہوریت، رشوت کے گرداب میں، لندن کیوں جل اٹھا، اور بات کرکٹ کی ساتھ کرکٹ کا، جیسے غیر سیاسی موضوعات سے ہے۔
یہاں میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ ڈاکٹر عبدالقیوم کو جو دسترس بین الاقوامی تعلقات پر حاصل ہے وہ انہیں یگانہ روزگار بناتی ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی تعلقات کے تمام موضوعات پر ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب کی نظر ماہرانہ ہے جو اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کتاب کا ایک مضمون آج کی دنیا امریکہ کی نظر میں، امریکی ماہر سیاست سے ایک ملاقات، ڈاکٹر عبدالقیوم کی بین الاقوامی سیاست پر گہری پکڑ اور مہارت کو بتاتا ہے۔ یہ مضمون ایک امریکی پروفیسر سیاسیاست سے لیا گیا انٹرویو پر مبنی ہے۔ جسے انہوں نے انٹرویو کی تمام تیکنیک کا احاطہ کرتے ہوئے بعد میں اس مضمون کو قلمبند کیا۔ اب میں ان کے بعض مضامین کا تجزیہ آپ کے سامنے پیش کرتی ہوں۔ ان کا پہلا مضمون جو کہ /5 اگست 1990 ء کو سیاست کے سنڈے ایڈیشن کے پہلے صفحہ پر نمایاں طور پر شائع ہوا تھا جبکہ کویت پر عراق کے حملہ کو صرف تین دن گزرے تھے۔اس پہلے مضمون میں مصنف نے پورے نفسِ مسئلہ کا جائزہ لیتے ہوئے عراق کے عزائم کو واضح طور پر پیش کیا جو کہ ایک عام مصنف کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا۔
اس کتاب کا دوسرا موضوع دہشت گردی سے لڑنے کے لئے کیا جنگ ضروری ہے۔ اس مضمون گو کہ ممبئی میں ہوئے 26/11 کے تناظر میں لکھا گیا تھا لیکن آج پڑھتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون مابعد پلوامہ حملے کے بعد کی پیدا کی گئی صورتحال کی لفظ بہ لفظ عکاسی کرتا ہے۔ چنانچہ مضمون نگار لکھتے ہیں ”ایک طرف میڈیا نے اپنی خبروں، پروگراموں اور خصوصی رپورٹوں کے ذریعہ قوم میں جنگی ہسٹریا پیدا کردیا ہے تو دوسری طرف حکومت اور ہر سیاسی جماعت عام انتخابات تک کے لئے ممبئی واقعہ کے زخموں کو ہرا رکھنا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عبدالقیوم نے ہندوستان کی حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے لکھا کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ کٹر رخ اور دو ٹوک زبان میں گفتگو کو ہم چاہیں کتنا ہی واجبی رویہ کیوں نہ سمجھیں،لیکن ہمیں پاکستان سے تعلقات توڑلینے اور جاری تمام سرگرمیوں کو ختم کرنے کا ذہن نہیں بنانا چاہیئے۔ جب تک تعلقات کی ڈور ایک دوسرے سے جڑی ہوگی بات چیت اور سمجھنے، سمجھانے کے دروازے ایک دوسرے کے لئے کھلے ہوں گے۔ اس مضمون میں انہوں نے ہندوستان کی حکومت کو دہشت گردی سے لڑنے کے مطابق جو مشورہ دیا وہ آج ایک دہے کہ بعد بھی انتہائی صحیح ہے جو کہ اُس وقت تھا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔ ”ہندوستان کو دہشت گردی کے خلاف دو علحدہ محاذوں پر علحدہ حکمت عملی کے ساتھ لڑنا ہوگا۔ داخلی محاذ پر ہم قانون، امن، و سلامتی کی مشنری و ایجنسیوں کو مستحکم اور طاقتور بنائیں اور دہشت گردی سے نمٹنے کی اپنی صلاحیتوں کو فروغ دیں تو دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے خلاف سفارتی مہم کو ناصرف تیز کردیں بلکہ اس کے ذمہ دار ممالک کو بین الاقوامی برادری میں الگ تھلگ کردینے کی سفارتی تدبیر اختیار کریں۔
بہار اسمبلی کے نتائج پر15 ڈسمبر 2010 ء کے اپنے مضمون میں ڈاکٹر عبدالقیوم بہار میں بی جے پی کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انتخابی جیت کے اعتبار سے بی جے پی کی کامیابی ملک میں آچکے اس کے موقف کے اعتبار سے کافی عظیم ہے۔ گویا بہار کے ان انتخابات نے بی جے پی کی ڈوبتی کشتی کو نہ صرف ڈوبنے سے بچالیا ہے بلکہ اسے آگے بڑھ کر کنارہ تک پہنچنے کے لئے ضروری حوصلہ اور سہارا بھی فراہم کیا ہے جو کہ 2014 ء میں سچ ثابت ہوا۔ مضمون میں وہ مزید آگے لکھتے ہیں کہ انتخابات چاہے کہیں بھی ہوں مسلم ووٹ کے بکھراؤ اور تقسم کو روکنے کی تدابیر کے بغیر سیاست میں مسلم نمائندگی میں اضافہ ممکن نہیں ہے۔ اس ضرورت کو آج ہر کوئی ضروری سمجھ رہا ہے۔ 2010 ء کے انتخاب کے بعد بہار اسمبلی میں اگرچہ کہ مسلم نمائندگی 15 اراکین سے بڑھ کر 19 ہوئی تھی تاہم اس کے باوجود بہار کے مسلمان مزید 45 فیصد نمائندگی سے محروم تھے۔ اپنے مضمون ”حیدرآباد عالمی شہر، لیکن سہولتیں …………“؟ میں ڈاکٹر عبدالقیوم نے حیدرآباد کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ بہت ہی حقیقت پر مبنی ہے چاہے وہ صاف صفائی کا معاملہ ہو، یا سڑکوں کی سہولت ہو یا کچرے کی نکاسی کا انتظام، اور بجلی کی بنیادی سہولت کے مسائل ”آسٹریلیا کا سیلاب ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ“ کے مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ 1893 ء کے سیلاب کے بعد جنوری 2011 ء میں آیا سیلاب اتنا شدید ہے کہ اس کو ماہرین نے ”داخلی سونامی“ کا نام دیا ہے اور اس سیلاب کی وجہ La Nina کے اثر کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ماحولیاتی تباہی کے مضر اثرات سے اب کوئی بھی ملک نہیں بچ سکتا، چاہے وہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو اور وہ اپنے بچاؤ و تحفظ کے اقدامات میں کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو۔ قدرت کی مار سب پر یکساں پڑتی ہے سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے بنجارہ ………………
اپنے مضمون انقلاب یاسمیں، میں اس انقلاب کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے آخر میں ڈاکٹر عبدالقیوم لکھتے ہیں کہ تیونس کے عوام جابر و کرپٹ اور بدعنوان حکمرانوں کو مزے چکھانے کا سبق دنیا کو دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بتادیا ہے کہ جمہوریت صرف برائے نام عوام کی، عوام سے عوام کے لئے نہیں اور ضرورت ہے تو کرپشن کے خلاف ایک انقلاب یاسمین کی …………
اسی طرح ”ہندوستانی جمہوریت، رشوت کے گرداب میں“ ………… ڈاکٹر عبدالقیوم لکھتے ہیں کہ اکثر یہ دیکھا جارہا ہے کہ دستور کے مقابلے میں حکومتوں کے سامنے سیاسی مصلحتیں اہمیت اختیار کرتی جارہی ہیں۔ نتیجتاً روزمرہ سیاست کو فوقت ملتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں حکمرانی کے عمل میں بدعنوانیوں اور بد انتظامیوں کا مظاہرہ ہونے لگا۔ چنانچہ پارلیمنٹ کے اجلاس بھی ان سیاسی مصلحتوں اور سیاسی داؤ پیچ کا شکار ہوکر عوامی حکمرانی کے صاف ستھرے تصور کو باعمل بنارہے ہیں۔ اسی مضمون میں آگے وہ لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں رشوت کی دو سطحوں، سیاسی اور انتظامی میں فرق کرنا ضروری ہے اور ہر سطح دوسری سے زیادہ انتہائی نقصان دہ ہے بدقسمتی سے جہاں انتظامی سطح پر رشوت خوری کو روکنے کے لئے کئی قوانین اور ایجنسیاں ہیں۔ وہیں سیاستدانوں کی رشوت پر نظر رکھنے کا کوئی قانونی نظام ہمارے پاس نہیں ہے۔
عرب ممالک میں آئے انقلابات کی لہر پر، خامہ فرسائی کرتے ہوئے اپنے مضمون نیل کے ساحل سے لیکر …… میں عرب ممالک کی سماجی، سیاسی اور معاشی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ تیونس اور مصر کے انقلابات نے یہ بتادیا ہے کہ جمہوریت صرف زبانی وعدوں کا نام نہیں بلکہ عملی اور بہتر کارکردگی جس میں انسان کے لئے عزت ہو۔ انسانی حقوق اور آزادیوں پر کوئی پابندی نہ ہو اور انسانی ترقی حکومتوں کا نصب العین ہونا ہو۔ بدقسمتی سے عالمیانہ کے تصور نے فلاحی مملکت کے تصور کو تبدیل کرکے کارپوریٹ مملکت کے تصور کو پیدا کیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں آج کی مملکت خدمات کی انجام دہی کے مقابلے میں خدمات کو خانگیانے ہوئے سرمایہ بٹورنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔ تیونس اور مصر کے انقلابات اس رجحان کو ختم کریں گے اور پھر سے ایک بار فلاحی مملکت کا تصور حکمرانی میں اولیت کو حاصل کرے گا۔ تیونس اور مصر کے عوام کا تعلق انتہاپسند ممالک سے نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے محض حکمرانوں کی تبدیلی کے لئے تحریک نہیں چلائی بلکہ وہ نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کئے ہیں۔ بدعنوان نظام کی جگہ صاف و شفاف نظام، چور حکمرانوں اور سیاستدانوں کی جگہ ایماندار حکمرانوں کی ضرورت اور اہمیت کو ہر ملک میں اب سمجھا جائے گا۔ اس طرح انقلاب تیونس و مصر نیل کے ساحل سے پرے عالمی تبدیلیوں کا نقیب ثابت ہوگا۔
لیبیا عالمی دباؤ میں مضمون میں لکھتے ہیں کہ لیبیا پر بیرونی جارحیت کا ایک افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ تنظیم اسلامی کانفرنس اور مسلم ممالک کی رائے عامہ اس جارحیت پر خاموش ہے۔بلکہ ایک دوسرے کی بغلیں جھانک رہے ہیں اس امریکی جارجیت پر کہیں کوئی احتجاج نہیں ہوا اور کہیں کوئی عوامی غصہ کا اظہار نہیں۔ یہی عالم اسلام کی کمزوری اور امریکہ ویوروپ کی ماتحتی ہے۔ پان سلام ازم اب ایک قدیم تصور بن چکا ہے۔ مسلم ممالک اپنے سرحدی حدود سے اوپر اٹھ کر اور اپنے ذاتی مفادات سے آگے بڑھ کر عالمگیریت اور اسلامی اخوت کے لئے کام کرنے تیار نہیں۔
مضمون ”سب سے بڑا دہشت گرد“ میں ڈاکٹر عبدالقیوم اس طرح رقم طراز ہیں۔ امریکہ اپنے سوپر پاور کے نشہ میں دنیا میں ہنگامہ آرائی کرسکتا ہے اور کوئی اس کے خلاف آواز اٹھائے تو اس پر دہشت گرد کا لیبل چپکا کر اپنی ساری توانائی اس کے خلاف جھونک سکتا ہے۔ لیکن اپنی بدمستی اور ہنگامہ آرائی پر خود کوئی توجہ نہیں دے گا۔ اس بات کو امریکہ نے اسامہ کو ختم کرنے کے لئے ایبٹ آباد پر کارروائی کے ذریعہ بھی ثابت کردیا ہے۔ ’مضمون لندن کیوں جل اٹھا‘ میں /4 اگست سے /10 اگست 2011 ء تک لندن میں ہوئے بھیانک فساد کا تجزیہ کرتے ہوئے آخر میں ڈاکٹر عبدالقیوم نے یہ تجزیہ کیا ہے کہ کوئی بھی فساد قابل مذمت ہے۔ لیکن اگر مایوسی میں عوام فسادی بن جاتے ہیں تو یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام میں مایوسی کا عضو پیدا نہ ہونے دیں اور مستحکم سماجی و معاشی پالیسی کے ذریعہ طبقاتی مفادات اور دوریوں کو کم کرنے کی کوششیں کریں۔ بدقسمتی سے گزشتہ تین دہوں کے دوران عالمگیریت کے عفریت نے عوام کے درمیان سماجی و معاشی تفاوت میں کئی گنا اضافہ کیا ہے جس کے نتیجہ میں سماجی بے چینی کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے اور دنیا کے کسی بھی حصہ میں بھی لندن جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔
مضمون ”بھاگ مبارک بھاگ“ میں مضمون نگار کا 2010 ء کا یہ تجزیہ آج کی مجموعی صورتحال کو پیش کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مغربی ایشیاء میں جہاں کہیں جمہوریت ہے وہ شاہی اور آمریت سے بدتر ہے ہر جگہ مسلم سماج میں مساجد، دینی اداروں و تنظیموں سے لے کر ایوان اقتدار کی سیاسی سطحوں تک آمریت کا رواج عام ہے جو کہ یوروپ میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ انتخابات کے بعد حکومتیں بدلتی ہیں۔ انتخابات ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ عوام اپنی پسند کے حکمرانوں کو چن سکیں۔ لیکن مغربی ایشیاء نے جمہوری آمریت کے ایک نئے طرز حکمرانی کو پیدا کیا ہے،جس میں صدام حسین کو 23 سال کے بعد بیرونی طاقت کے ذریعہ اقتدار سے معزول ہونا پڑا۔ جب کہ تیونس میں پانچ مرتبہ کے منتخبہ صدر کو عوامی غیض و غضب کے بعد سعودی عرب میں پناہ لینی پڑی اور حسنی مبارک کو 23 سالہ اقتدار کو چھوڑنا پڑا۔
اس کتاب میں ایسے کئی دلچسپ موضوعات ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں جیسے، صومالیہ کے دکھ کی دوا، کرے کوئی، 9/11 کا سچ کیا ہے، شام کے عوام کو صبح کا انتظار ہے۔ کیا پاکستان ایک ناکام مملکت ہے۔ سویڈن کی پیٹھ میں خنجر ایسے موضوعات ہیں جو پڑھنے میں انتہائی دلچسپ اور معلوماتی ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے 60 مضامین کا ہر سطر معلومات سے پر ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد تعمیر ملت کے نائب صدر جناب سلمان سکندر صاحب مرحوم کی یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جو انہوں نے ڈاکٹر عبدالقیوم کا ایک لکچر سننے کے بعد اپنے تبصرہ میں کہا تھا کہ ”پتہ نہیں ڈاکٹر عبدالقیوم کتابوں کے درمیان رہتے ہیں یا کتابیں ان کے اطراف رہتی ہیں“ سچ ثابت ہوتی ہے۔
250 صفحات کی اس کتاب کو نصاب پبلیشرز نے شائع کیا ہے۔دیدہ زیب پر مغز سرورق اور عمدہ کتابت اس کی اہم خصوصیت ہے۔ جسے ھدیٰ بک ڈپو پرانی حویلی حیدرآباد، نصاب پبلیشرز روبرو مدرسہ اشرف العلوم خواجہ باغ سعیدآباد، 24071215، ڈاکٹر عبدالقیوم سے 9441277497 سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

Share
Share
Share