پانچ افسانچے :- ڈاکٹر اشفاق احمد

Share
ڈاکٹر اشفاق احمد

پانچ افسانچے

ڈاکٹر اشفاق احمد
ناگپور – مہاراشٹرا

Mobile : 9422810574

1) اپنا دکھ
صبح ہوتے ہی بیٹے نے ملازمہ کے ہاتھوں ایک چٹھی دیکر اپنی والدہ کے پاس بھیجا۔۔۔ چٹھی میں لکھا تھا۔ ”امی جان!

کل آپ ہمارے گھر آئیں اور ہمارے بیٹے عاصم کو لیکر چلی گئیں۔ اگر ہم موجود ہوتے تو شاید اُسے آپ کے ہمراہ جانے نہ دیتے کیوں کہ وہ ہمیں جان سے زیادہ عزیز ہے، اس کے بغیر ایک دن گزار نا ہمارے لئے محال ہے۔ وہ نہیں تھاتو کل شام کا کھانا بھی کھایا نہ جاسکا۔ رات میں اس کی امی اور میں سو نہ سکے۔ ملازمہ کو بھیج رہا ہوں ہمارا بیٹا لوٹا دو۔“
ماں نے اپنے پوتے کو لوٹا دیا۔ مگر ساتھ میں ایک چٹھی بھی دی۔ جس میں لکھا تھا۔
”تمھیں اپنے بیٹے سے دوری کا کس قدراحساس ہوا۔ اب تمہیں معلوم ہوا ہوگا کہ بیٹے کی جدائی کا غم کیا ہوتا ہے۔ اپنی شادی ہوجانے کے بعد تم نے ہمار ا چہرہ بھی دیکھنا گوارا نہ کیا۔ تمہارا ایک دن میں یہ حال ہوا ہے۔ ذرا سوچو! تم مجھ سے دس سال سے جدا ہو، میرا کیا حال ہو رہا ہوگا؟“۔……!!
٭٭٭
2) خواب کبھی سچ نھیں ہوتے

لوگوں کی بھیڑ اُس جگہ جمع تھی جہاں ایک مزدور دومنزلہ عمارت سے گر کر مر چکا تھا زمین پر دو پوسٹ کارڈ بھی اسکی جیب سے گر پڑے تھے ایک خط اسکی بیوی نے لکھا تھا۔”کل رات میں نے ایک بھیانک خواب دیکھا ہے آپ کا م کرتے کرتے بہت اونچائی سے گر کر مالک حقیقی سے جا ملے ہیں خدانہ کرے ایسا ہولیکن جب سے خواب دیکھا ہے میں بہت پریشان ہوں آپ فوراً چلے آؤ۔“
دوسر ا خط مزدور نے اپنی بیوی کے خط کے جواب میں لکھا تھا جسے وہ پوسٹ نہیں کر پایا تھا۔ خط میں لکھا تھا۔
”میں یہاں خیریت سے ہوں تم پریشان کیوں ہوتی ہو۔
………… یاد رکھو خواب کبھی سچ نہیں ہوتے۔…………!!“
٭٭٭
3) سمجھوتہ

اس نے اپنے خط میں لکھا تھا۔۔۔ ”میں نے اجنبی زندگی سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اب مجھے ساری خوشیاں مل گئی ہیں۔ میں بہت خوش ہوں۔ اب تم میرے بارے میں سوچانہ کرو۔ خدا کرے تمہاری زندگی بھی تمہیں خوشیاں دیں“۔۔۔ اس کا خط میں مشکل سے پڑھ پاتا ہوں۔ کیونکہ سیاہی جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہے۔ میرے چہرے پرمسکراہٹ کی ایک ہلکی سی کرن نمودارہوتی ہے اور پھر اس کے خیال کے دو موٹے موٹے آنسو میری پلکوں پر چمکتے ہیں اورخط پر بنے ہوئے باقی حرفوں کو بھی سیاہی بنادیتے ہیں۔
شاید یہ لکھنے کے لئے ”میں بھی بہت خوش ہوں، مجھے بھی ساری خوشیاں مل گئی ہیں۔ پلیز تم میرے بارے میں سوچانہ کرو۔ ……!!“
٭٭٭
4) مصلحت

گاؤں کے اُس فقیر کی شادی ہوگئی جو دونوں آنکھوں سے اندھا تھا۔ لیکن افسوس کےِ جس لڑکی سے اس کی شادی ہوئی اللہ تعالیٰ نے اسکی آنکھیں بھی بچپن ہی میں چھین لی تھیں۔ وہ دونو ں ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہوئے بھی بے سہارا تھے لیکن جب میں چھ سات سال بعد اپنے گاؤں واپس لوٹا تو دیکھا کہ دونوں اپنے بچہ کے سہارے چل رہے تھے…… جس کی آنکھیں بڑی خوبصور ت تھیں!!
٭٭٭
5) یہ رشتے یہ موڑ

میں اس راستے پر چل پڑا جس راستے پر تم مجھے ہمیشہ ملا کرتی تھیں لیکن اس مرتبہ جب تم مجھے نہیں ملیں تومیں پریشان ہوگیا اور پھر نا امید ہوکر اس راستے پر نکل پڑا جسے نہ تم پسند کرتی تھیں اور نہ ہی میں۔
لیکن اسی راستے پر تم مجھے اچانک مل گئیں ……!!
٭٭٭

Plot no.41/A infornt of Markaz-E-Islami
Teachers Colony , Jafar Nagar
Nagpur-440013

Share
Share
Share