سراج بے زجاج :- ڈاکٹر رؤف خیر

Share
ڈاکٹر رؤف خیر

سراج بے زجاج

ڈاکٹر رؤف خیر

سراج اورنگ آبادی کے فکر و فن کا بنیادی حوالہ انہی کا یہ شعر ہے:
شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
ساداتِ کاظمیہ سے تعلق رکھنے والے سید شاہ سراج الدین ۱۱ مارچ ۱۷۲۱ عیسوی مطابق ۳۱ صفر ۱۱۴۲ ہجری بروز پیر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔

ان کے باپ سید درویش صوفی منشی ضرور تھے مگر درس و تدریس و اوراد واذکار میں مصروف رہتے تھے۔ سراج کی چار پشتوں کی نشان دہی یہ مصرع کرتا ہے۔ ”درویش گوہریست زدریاے اولیا“ جو دراصل سراج کے آبا و اجداد کے ناموں پر مشتمل ہے۔ سراج ابن درویش ابن گوہر ابن دریا ابن اولیا…… سراج کی تاریخ ولادت ظہور احمد- یا- خاتم الولایہ سے نکلتی ہے یعنی ۱۱۴۲ ہجری…… سید درویش نے سراج کو علوم متداولہ کی تعلیم تو دی تھی مگر آدمی کو بگڑتے دیر ہی کیا لگتی ہے۔ بارہ تیرہ برس ہی کی عمر میں سراج دیوانگی کا شکار ہوکر گھر بار چھوڑ برہان الدین غریب کے مزار پر ننگ دھڑنگ پڑے رہتے تھے۔ ان کے ماں باپ ان کے پیروں میں زنجیر ڈال کر رکھتے تھے۔ یہ صورت حال حیدر آباد سے لے کر بیجاپور تک آج بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ اکثر جوان عورتیں مزارات پر حاضری دینے والوں کو دیکھتے ہی بال کھول کر ناچنے لگتی ہیں جن کا روزینہ وہاں کے ذمہ داروں کی طرف سے مقرر رہتا ہے۔
جہاں تک سراج اورنگ آباد کا معاملہ ہے ان کے والد سید درویش اصول پسند تھے اور خانقاہوں میں بہ نگاہِ تقدس دیکھی جانے والی اس قسم کی مجذوبیت کو وہ زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ (بہ حوالہ مونوگراف سراج اورنگ آبادی از ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط مطبوعہ این سی پی یو ایل ۲۰۱۶ء)
مزے کی بات یہ کہ سراج اورنگ آبادی نے انوار السراج کے دیباچے میں خود لکھا ہے کہ عالم دیوانگی میں ان کی زبان سے بے ساختہ فارسی اشعار نکل پڑتے تھے جو بے توجہی کی وجہ سے ضائع ہوگئے۔ سراج کہتے ہیں اگر وہ اشعار لکھ لیے جاتے تو ایک ضخیم دیوان تیار ہوجاتا، ”بہ تکلیف نشہئ بے خودی اکثر درسوادِ روضہئ متبرکہ حضرت برہان الدین غریبؒ شبہا بروزمی آوردو از جوش ہماں مستی اشعار شور انگیز و ابیاات درد آمیز برزبان فارسی از مکن جان بہ عرصہ زبان می آورد بہ اقتضا، احوال خامہ رابہ تحریر آں آشنا نمی ساخت…… احیاناً شوق مندے حاضر الوقت می بود بہ جہت حلاوت ذائقہ طبع خود کاغذ را سیاہ می نمود گرآں اشعار تمام بہ تحریر می آمد دیوانے ضخیم ترتیب می یافت“
(بہ حوالہ امکان سراج نمبر پروفیسر نثار احمد فاروقی- سراج اورنگ آبادی پر نئی روشنی (ملاحظہ فرمائیے مونو گراف سراج اورنگ آبادی ان سی پی یو ایل ۲۰۱۶ء مرتب ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط)
اس مرحلے پر ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط نے بھی حیرت سے کہا:
ایک بارہ تیرہ سال کے بچے کا فارسی زبان میں شعر کہنا جہاں ایک طرف قابل تعجب ہے وہاں بچے کی (کے) تبحر علمی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔“
جنوں کی کارستانیوں کایحییٰ نشیط کو شاید اندازہ نہیں
پہلے دورانیے میں سراج تقریباً سات برس دیوانگی میں مبتلا رہے۔ پھر ایک صوفی بزرگ سید شاہ عبدالرحمن چشتی کے ہاتھ پر بیعت کرکے راہِ سلوک کی منزلیں طے کرنے لگے۔ اس دوران مرشد کے حکم پر شاعری ترک بھی کی تھی مگر چھٹتی کہاں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ چنانچہ ایک دیوان ”انوار السراج“ تیار ہوگیا جسے ان کے پیر بھائی عبدالرسول نے ۹۳۷۱ء میں مرتب کیا تھا (گویا مرزا غالب کی پیدائش سے ساٹھ برس پہلے)(ڈاکٹر یحییٰ نشیط نے لکھا ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عبدالرسول بھی سراج کے معشوق تھے) چند عرصے ترکِ شاعری کے باوجود سراج نے ایک مثنوی ”بوستانِ خیال“ ۱۱۶۰ ہجری مطابق ۱۷۴۷ء لکھی جو صرف دوہی دن کی فکر کا نتیجہ ہے۔ سراج نے شادی تو نہیں کی تھی مگر سراج کو ایک لالہ جی کے لڑکے سے عشق ہوگیا تھا۔ وہ لڑکا بھی سراج کے عشق میں گرفتار تھا جیسے سرمد بھی ایک برہمن زادے ابھے چند کے عشق میں اس قدر گرفتار تھے کہ کہتے ہیں:
نمی دانم کہ سرمد اندریں دیر
خداے من ابھے چند است یا غیر
(میں نہیں جانتا کہ اس بت کدے میں میرا خدا- ابھے چند سے ہٹ کر بھی کوئی ہے!)
اکثر اولیائے تصوف میں اس قسم کا عشق مجازی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دلی سے لے کر کڑپہ تک اس کی مثالیں مل جائیں گی۔
لالہ کے لڑکے سے سراج کے عشق کا چرچا عام ہوا تو لالہ کی قوم اور لڑکے کے ماں باپ نے اسے برا بھلا کہا چنانچہ سراج نے سمجھا بجھا کر لڑکے کو گھر بھجوا دیا۔ وہ سمجھا کہ سراج نے اس سے ”تعلقات“ ختم کر دیے ہیں اور وہ پھر لوٹ کر نہیں آیا۔ ادھر سراج بھی اس کی جدائی میں دل گرفتہ رہے۔ اس عرصے میں نواب نظام الملک بہادر کی فوج کے ایک خوبرو سردار زادہ سے سراج کی ملاقات ہوئی۔ اس نے لالہ کے بیٹے کی جدائی میں سراج کی بری حالت دیکھ کر پیش کش کی کہ چوں کہ وہ خود بھی خوب رو ہے وہ اس سے عشق فرما سکتے ہیں۔ مگر سراج یہ سن کر طیش میں آجاتے ہیں کہ وہ دوئی پسند نہیں ہیں۔ لیکن مثنوی بوستانِ خیال میں اس سردار زادے سے عشق کا تذکرہ موجود ہے۔ خود سراج اورنگ آبادی نے اس مثنوی کو اپنی آپ بیتی قرار دیا ہے۔
اے ہم نشینو مرا دکھ سنو
مرے دل کے گلشن کی کلیاں چنو
مرے پر عجب طرح کے درد ہیں
کہ سب درد اس درد کے گرد ہیں
کہوں کیا کلیجے میں سوراخ ہے
مری داستاں شاخ در شاخ ہے
اگر سنگ بھی حال میرے سنے
تو حیرت سے چکرت میں جا سر دھنے
نہ کھلتا ہے دل گشتِ گلزار میں
نہ لگتا ہے جی سیر بازار میں
جو دل کو خوشی ہو تو سب خوب ہے
جو مرغوب نئیں ہے سو مرغوب ہے
و گر نہ خدائی خوش آتی نہیں
کسی شخص کی بات بھاتی نہیں
اگر ناچ کا ہو کبھی اتفاق
تو واں بیٹھنا مجھ کو ہوتا ہے شاق
سبھی دل ربا ناچنے والیاں
کہ ہیں ایک سے ایک سب آلیاں
سو سب متفق ہو کے آپس میں مل
ہر ایک پوچھتی ہے مرا حال دل
تمہارے پہ طوفانِ غم ہے سو کیا
لبِ خشک اور چشم نم ہے سو کیا
و لیکن کہوں کیا کہ کیا حال ہے
ہر اک دم مری جان پر کال ہے
اب آگے سراج اورنگ آبادی اپنے معشوق کے تعلق سے اظہار خیال فرماتے ہیں:
کہ یارب کسی وقت جیتے تھے ہم
وہ ساقی سے مل جام پیتے تھے ہم
کبھی ہم بھی اس یار گل رو کے سات
رکھے ہات پر ہات کرتے تھے بات
کہوں کیا-کہا مجھ سے جاتا نہیں
لکھوں کیا کہ لکھنے میں آتا نہیں
اب آگے وہ اپنے معشوق کا تعارف کراتے ہیں:
وہ سردار نامی سراپا جمال
ہوا جس کا اظہار اتنا کمال
کیا عزم اپنے وطن کی طرف
وہ صحرا سے صحن چمن کی طرف
جب اس شخص نے اس طرح سے کہا
تو میں سن کے خاموش ہوکر رہا
ارادہ مرا گھر کے جانے کا ہے
یہ برسات کے بعد آنے کا ہے
اب اس کی جدائی میں سراج کا جو حال ہوا ہے اس کا بیان ہے:
نہ کھانا نہ پینا خوش آوے مجھے
نہ یہ بلکہ جینا خوش آوے مجھے
گزر گئے اسی طور سے چند روز
نہ آنا ہے ان کو نہ آئے ہنوز
وہ اپنی اس مثنوی ”بوستانِ خیال“ کے اشعار کی تعداد و کیفیت پر بھی خود ہی روشنی ڈالتے ہیں:
کیا میں جب اس مثنوی کا خیال
تھے ہجری ہزار و صد شصت سال
شمار اس کی ابیات کا جب کیا
تو ہجری کے سن کے موافق ہوا
زبس اس میں ہے سیر گلشن مدام
رکھا ”بوستانِ خیال“ اس کا نام
اس مثنوی کی اہم خوبی یہ بھی ہے کہ یہ سن ۱۱۶۰ ہجری میں لکھی گئی۔ اس میں اشعار کی تعداد بھی گیارہ سو ساٹھ ہے اور اس کا جو نام ”بوستانِ خیال“ ہے یہ تاریخی نام ہے۔ اس سے ۱۱۶۰ ہجری اعداد برآمد ہوتے ہیں جو اس کا سنِ تخلیق ہے۔
سراج اورنگ آبادی نے غلبہئ شوق میں لباس برہنگی کو اختیار کر لیا تھا اور اپنے تکیے میں مجرد تنہائی کی زندگی کاٹ رہے تھے۔ ویسے ان کے شاگردوں میں عبدالرسول خاں، تاج الدین، ضیاء الدین پروانہ، شاہ چراغ، لالہ جے کشن ہیجان وغیرہ تھے مگر سراج نے اپنی جانشینی و خلعت پروانہ کو سونپی جنہوں نے سراج کے تکیہ کی دیکھ ریکھ کی اور سراج کے مزار پر گنبد بھی تعمیر کروایا۔ وہاں کتبہ بھی لگوایا جس سے ان کی عقیدت بھی ٹپکتی ہے۔ مگر ان کے ایک اور شاگرد شاہ چراغ جو سراج کی مرضی کے خلاف احمد نگر میں رونق شاہ بن کر پیری مریدی کر رہے تھے اورنگ آباد لوٹ آئے اور سراج کی طرح ”خلعتِ برہنگی“ اختیار کی یوں سراج کے تکیے پر قبضہ جما لیا۔
علامہ آزاد بلگرامی کے شاگرد لچھمی نرائن شفیق کو بھی سراج سے عقیدت تھی چنانچہ سراج کے لیے تاریخ وفات نکالی۔
سید حق پرست عرفاں سنج
کہ از و یافت شعرِ حسن و رواج
سالِ رحلت شفیق کرد رقم
رو برحماں نمود شاہ سراج
۷۷۱۱ ہجری
سراج اورنگ آبادی کی مثنوی کی خوبی یہ ہے کہ وہ خالص عشق مجازی سے تعلق رکھتی ہیں، ان کا سلسلہ دور از کار تصوف سے جوڑنے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ اک اور مثنوی ”سوز و گداز“ میں بھی زمینی معشوق ہی کی جدائی کا بیان ہے۔
کب تلک یار رخ دکھاوے گا
مجھ طرف مہرباں ہو آوے گا
کب کھلے گی مراد دل کی کلی
کب نظر آئے گی صنم کی گلی
ہاتف غیب میں ندا آئی
کہ نہ ہو اس قدر یوں سودائی
حق ترے یار کو ملاوے گا
اس کے دیدار کوں دکھاوے گا
تب میں پھولوں میں نئیں سماتا ہوں
پیرہن میں تو کب اما تا ہوں
مختصر یہ کہ سراج اورنگ آبادی کا معشوق گوشت پوست کا پیکر ہے اور مرد ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ اس دور میں معشوق کا مرد ہونا ایرانی ذوق کے زیر اثر عام سی بات تھی۔ خدائے سخن فرماتے ہیں:
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اور غالب نے بھی تو فرمایا تھا:
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرہ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
سراج اورنگ آبادی کو (منٹو کی زبان میں) رحمۃ اللہ کی کھونٹی پر ٹانگنے کی ضرورت نہیں اور پھر جہاں تک اس عشق مجازی کا معاملہ ہے۔ لغت میں اک لفظ علت مشائخ بھی Coin کیا گیا ہے اور جہاں تک جذب و مجذوبیت کے زیر اثر لباس ”برہنگی کا تعلق ہے حیدرآباد میں ایک بزرگ برہنہ شاہ ہوا کرتے تھے جن کامزار آج بھی مرجع ”خوش لباساں“ ہے۔اردو ادب کے ایک برہنہ شاہ فراق گورکھپوری بھی تھے جن سے ملنے کے لیے پروفیسر گیان چند جین اور کالی داس گپتا رضا گئے تھے۔ تب بھی فراق بالکل برہنہ لیٹے ہوئے بات کر رہے تھے جین صاحب نے فراق سے کہا کہ کم سے کم ہم سے ملاقات کے وقت تو سترپوشی سے کام لیا ہوتا تو فراق نے بلا جھجک جواب دیا ”آپ ہم سے بات کیجئے-نیچے کیوں دیکھتے ہیں؟“
”آبِ حیات“ میں محمد حسین آزاد نے ایک شاعر عبدالحی تاباں کے بارے میں لکھا کہ وہ اتنے خوب رو و خوش اندام تھے کہ کئی لوگ ان کے پیچھے پڑے رہتے تھے۔ دور کیوں جائیے امروہہ کے ایک شاعر کی گردش پا لہر لہر ندیا گہری تھی۔ اس نے اپنی خود نوشت میں لکھا کہ جوشؔ و فراقؔ ان کے امیدواروں میں تھے۔
شکاگو کے افٹی (افتخار نسیم) تو علی الاعلان اپنے گے Gay ہونے کا اظہار کرتے تھے بلکہ ایک سکھ سے یہ کہہ کر تعارف کراتے تھے کہ وہ ان کا ہسبنڈ ہے۔ آپ اسے ”نصف بدتر“ کہہ لیں۔ سراج اورنگ آبادی کی مدافعت میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ ہمیں اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ سراج اورنگ آبادی نے شادی نہیں کی۔ آیا متاہل زندگی کے متحمل تھے یا نہیں۔ ہمیں اس سے کیا لینا دیناکیوں کہ بعض اولیا نے شادی وادی کو جی کا جنجال سمجھ کر تجرد اختیار کیا اور فطری تقاضوں کی نکاسی کی کوئی اور صورت ڈھونڈلی۔ ہمیں تو بس ان کی شاعری سے غرض ہے جو ہمارے پیش نظر ہے۔
(مآخذ: مونو گراف سراج اورنگ آبادی از ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط این سی پی یو ایل دہلی مطبوعہ ۲۰۱۶)
٭٭٭
Dr. RAOOF KHAIR,
MOTI MAHAL, GOLCONDA, HYDERABAD 500008
Cell: 09440945645 email:

Share
Share
Share