تعلیم و تدریس میں انفارمیشن کمیونیکش ٹکنالوجی کالزوم (1) :- فاروق طاہر

Share
فاروق طاہر

تعلیم و تدریس میں انفارمیشن کمیونیکش ٹکنالوجی کالزوم
قسط اول

فاروق طاہر
عیدی بازار – حیدرآباد۔

,9700122826

ٹیکنالوجی دنیا میں آئی اور اس نے انسان کو اپنا عادی بنا لیا۔آج انسان ٹیکنالوجی کا عادی ہوچکا ہے اور اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ انسان ہمیشہ آرام،راحت ا ور آسانی کا متلاشی رہا ہے اسی آرام،راحت اور آسانیوں کی چاہت نے اسے ایجاد و دریافت کی لذت سے آشنا کیا۔

آدمی کے آسانی و راحت کوشی کے جذبے نے ہی اسے ٹیکنالوجی کے ارتقائی سفر پر گامزن رکھا ہے۔ایجادات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور آئے دن ایسی ایجادات دیکھنے میں آرہی ہیں کہ جسے دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بغیر آج ترقی کا تصور بھی محال ہے۔انسان اور انفارمیشن ٹیکنالوجی لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔ جدید دور کے تقاضوں کے پیش نظر زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح تعلیمی شعبے میں بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی،نئے رجحانات اورجدید تکنیک کا استعمال آج ضروری ہوگیا ہے۔ ہم تعلیم کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیس کئے بغیروقت کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ روایتی تدریسی طریقے اب کارآمد نہ ہونے کی وجہ سے مستعمل نہیں رہے۔آج انفارمیشن ٹیکنالوجی تعلیم ا ور درس و تدریس کا ایک اہم اور اٹوٹ جزو ہے۔اگرماضی کے تعلیمی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ہمیں کل اور آج کی تعلیم اور درس و تدریس کے طریقوں میں ایک واضح فرق نظر آئے گا۔جن تکنیکوں سے کبھی ہم آشنا نہیں تھے اس سے آج ہماری نئی نسل فیضیاب ہورہی ہے۔ ٹیکنالوجی کو طلبہ کی تعلیم و بہتررہنمائی کے علاوہ والدین اور نصاب کی تیاری کے لئے استعمال کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ زمانے کی رفتار کا ساتھ دینے اور جدید تقاضوں کی تکمیل کے لئے تعلیم اور درس وتدریس کو ٹیکنالوجی سے مربوط کرنا بے حد ضروری ہوگیا ہے۔ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں خاص کر سرکاری تعلیمی اداروں میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کا خواب بڑی حد تک آج بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکاہے۔ ہمیں اس بات کا علم ضروری ہے کہ تعلیم کا دائرہ کار اب صرف پڑھنے اور لکھنے کی حد تک محدود نہیں رہاہے۔تعلیم کے تقاضے تبدیل ہورہے ہیں۔ اس کے مقاصد میں اب تعلیم کے ساتھ صحت اورروٹی کا حصول بھی شامل ہے۔ جہاں نان جویں کی فکر انسان کی فطری صلاحیتوں کو تباہ کردیتی ہے وہیں اس کا آسان حصول صلاحیتوں کو نکھار نے اور پروان چڑھانے کا باعث ہوتا ہے۔تعلیم اگر ٹیکنالوجی سے وابستہ ہوگی تو روزگار کے مواقعوں میں بھی بڑی حد تک اضافہ ہوگا۔فکرروزگار سے آزاد معاشرے میں فکری،فنی اور پیشہ وارانہ مہارتوں کا فروغ ایک عام بات ہے۔
آج بچوں کا سامنا انفجار معلومات (Knowledge Explosion) اور ترقی یافتہ مواصلاتی ٹیکنالوجی کی ایک ایسی دنیا سے ہے جہاں بود و باش اور زمانے سے اپنی وابستگی کی برقراری کے واسطے اعلیٰ، بہترین علوم اور عملی نظریات سے ان کا لیس ہونا بے حد ضروری ہے۔ ٹکنالوجی نے تعلیم کا چہر ہ بڑی حد تک بدل کر رکھ دیا ہے۔ میری نظر میں ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے ’’آج ہم پڑھانے کے مرحلے سے نکل کر سیکھنے کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں“ اور یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔آج بچے ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے آزادانہ طور پر سیکھنے کے لائق ہوچکے ہیں۔ہمیں اس حقیقت کو قبول کرلینا چاہئے اور اس پیش رفت پرطلبہ کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہئے۔ماہرین تعلیم مدارس،اساتذہ اورطلبہ کو زیادہ سے زیادہ وسیع مواصلاتی (انفارمیشن) ٹیکنالوجی سے مربوط کرنے پر زور دے رہے ہیں۔اگرچیکہ ہمارے بعض اسکولوں میں کسی حد تک نئی ٹیکنالوجی اکا استعمال پہلے ہی سے موجود ہے اور آئے دن اس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی انقلاب کی وجہ سے پیدا شدہ طلبہ کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے اساتذہ اور دیگر مدارس کو مناسب اقدام اٹھانے کی ضرورت ابھی باقی ہے۔اساتذہ کو خاص طور پر انفاارمیشن ٹیکنالوجی کے تدریسی وسائل کے مختلف پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔مسلسل اپنی ذاتی تکنیکی مہارتوں کو فروغ دیتے ہوئے ٹیکنالوجی کو کمرۂ جماعت کی تدریس سے مربوط کریں۔کمرۂ جماعت میں اساتذہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو مہارت سے جب استعمال کرنے لگتے ہیں تو اس سے طلبہ میں موثراکتساب پروان چڑھتا ہے۔ طلبہ ٹیکنالوجی کوعلم کے ایک سرچشمہ (Resource)کے طور پر استعمال کرنے کے لائق ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں خود کار اکتساب(اپنے آپ سیکھنےSelf Learning-) کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔
دنیا بھر میں اب درس و تدریس کے طریقوں میں سے چند کی از سر نو تنظیم و ترتیب اور تبدیلی کو ضروری تصور کیا جانے لگاہے تاکہ اکتساب کاعمل سہولت بخش موجودہ ضرورتوں کی تکمیل کا متحمل اور طلبہ کی دماغی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مددگار بن سکے۔موجودہ دور میں تعلیمی نظام اور اس کے تجدیدی طریقوں سے طلبہ کے ذہنوں کو مزید تخلیقی مضامین کی مددسے جلا بخشنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اس کاز کی موثر طریقے سے انجام دہی کے لئے درس و تدریس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مناسب طورپر شمولیت اور نظام تعلیم کا حصہ بنانا ضروری ہے۔کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے جہاں مختلف شعبوں میں اپنا لوہا منوایا ہے وہیں کمرۂ جماعت کے تدریسی امور پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں بلکہ کمرۂ جماعت میں اب اس کا تسلط قائم ہوچکا ہے۔کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے اکتسابی بہتری کے علاوہ طلبہ کو سیکھنے میں بڑی حد تک خودمکتفی و ذی اختیار بنادیا ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر مبنیو مربوط تدریسی طریقوں کو اپنے کلاس رومس میں کامیابی سے نافذ کرنے والے مدارس نے اسے طلبہ میں دلچسپی پیداکرنے اور معلومات کے قیمتی خزانے فراہم کرنے کی بنا پر بہت ہی خا ص اور اہم قرار دیاہے۔ اس میں تیارشدہ سرگرمیوں،وسیع تخلیقی امکانات اور اس کے زیر اثر تشکیل شدہ تدریسی و اکتسابی عمل کو دلکش و تخلیقی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔طلبہ کو بہتر اکتساب کی جانب مائل کرنے اور انھیں سیکھنے کی جانب راغب کرنے میں کمپیوٹر مربوط طریقہ تعلیم کلیدی کردار اداکرتا ہے۔اکتسابی و تدریسی امور کی عمدہ انجام دہی کے پیش نظر اس کی اہمیت و افادیت سے سرموئے انحراف بالکل ناممکن ہے۔کئی تعلیمی اداراجات انفارمیشن ٹکنالوجی کو کامیابی کے ساتھ نہ صرف متعارف کرچکے ہیں بلکہ بڑی عمدگی سے درس و تدریس کے عمل میں اس سے استفادہ کررہے ہیں۔اساتذہ اور طلبہ حصول علم،اس کی تفہیم و تنظیم اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو متنوع اور اطمینان بخش انداز میں پیش کرنے کے لئے سرگرمی سے مصروف نظرآتے ہیں۔کثیر جہتی ٹکنالوجی میں فروغ اکتساب کے وہ تمام لائحہ عمل جو زیادہ مستند،پر اثر و دلچسپ اکتسابی تجربات فراہم کرتے ہیں اور سیکھنے کی دلچسپی و لگن کو برقرار رکھنے میں مددگار ہوتے ہیں، شامل رہتے ہیں جہاں اکستاب خود ایک دائمی عمل بن جاتا ہے۔
بازار میں اب ایسی کئی نصابی کتب دستیاب ہیں جوکمپیوٹر مبنی طریقہ تعلیم سے آراستہ ہیں۔ان کتب کے ساتھ ایک CD بھی ہوتی ہے جس میں درس و تدریس کے کئی دلچسپ پہلو اور اکستاب کو فروغ دینے والی سرگرمیوں شامل رہتی ہیں۔کمرۂ جماعت میں کمپیوٹر کی دستیابی اور ان تک رسائی سے طلبہ کو فراہم کردہ CDs سے استفادہ کرنے اپنے فہم کو گہرائی،گیرائی اور تقویت بخشنے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔کئی ایسے ناشرین بھی ہیں جن کی ویب سائٹس پر نصابی مواد سے متعلق کئی دلچسپ سرگرمیاں اور معلومات موجود ہوتے ہیں جن تک رسائی حاصل کرتے ہوئے طلبہ اپنے علم میں پختگی اور گہرائی پیدا کرسکتے ہیں۔لیکن ان امور کی انجام دہی کے لئے کمرۂ جماعت میں کمپیوٹرس اور انٹرنیٹ کی موجودگی ضروری ہے۔اس ضمن میں اساتذہ کی جانب سے کئے گئے منصوبہ بند اقدام جیسے فعال انداز میں ٹکنالوجی میں شامل تخلیقی سرگرمیوں سے طلبہ کو واقف کرنا اور انھیں اکتساب سے مربوط کرناوغیرہ تعلیمی کاوشوں کو زیادہ سے زیادہ طلبہ مرکوز تدریس میں تبدیل کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور اساتذہ کی جانب سے اٹھائے گئے یہ اقدام قابل تحسین و ستائش کہلاتے ہیں۔زیادہ طالب علمی مرکز بنانے میں معاون ثابت ہوں گے اور اساتذہ کے اس طرح کے اقدامات کی بے حد تعریف کی جائے گی۔کمپیوٹر پر مبنی طریقہ تدریس کی مقبولیت اور ٹکنالوجی سے مربوط اکستاب (سیکھنے)کی بڑھتی ہوئی کشش کے پیش نظر اساتذہ کو یہ جاننے کی سعی و کوششکرنا ضروری ہے کہ
(1) کمپیوٹر ٹکنالوجی مضامین کی تدریس کو نتیجہ خیزوکارآمد بنانے میں کس طرح معاون و مددگار ہوتی ہے اور اس کے استعمال سے اکستاب کو کیسے فروغ دیا جاسکتا ہے؟
(2)اس کو برؤے کار لاتے ہوئے کس طرح اکتسابی سرگرمیوں کو دلچسپ بنانے اور طلبہ کو دلچسپ اکتساب کی جانب مائل کرنے کے امکانات پائے جاتے ہیں اور اس پر کس طرح عمل درآمد کیا جاسکتا ہے؟
(3)طلبہ کو کمپیوٹر ٹکنالوجی کے وسائل تک کتنا،کب اور کس طرح رسائی فراہم کی جائے،جو ان کے علم،فہم اور اکتسابی صلاحیتوں کو فروغمیں مددگار ہو؟
(4)کمپیوٹر ٹکنالوجی اور اس سے متعلق آلات اور وسائل تک رسائی کا حصول،کمرۂ جماعت اور دیگر تدریسی مواقعوں پر موثر انداز میں ان کا اطلاق کس طرح عمل میں لایا جائے؟
(5)کمپیوٹر ٹکنالوجی کے ذریعہ تدریس کے اطلاق کے لئے کلاس روم کی تنظیم و ترتیب کس طرح سے ہو تاکہ استاد اپنے نظریات اور علم کی ترسیل،اظہار و مظاہرے کو موثرطورپرانجام دے سکے۔اس کے علاوہ کمپیوٹر پر مبنی ہدایات کو کس طرح زیادہ متاثر کن انداز میں پیش کیا جاسکے؟
کلاس روم کو منظم کرنے کا طریقہ اور طلبہ کو کمپیوٹر ٹکنالوجی کے ذریعہ تدریس کا اطلاق کیا گیا، تاکہ نظریات اور علم کا موثر انداز میں مظاہرہ کیا جاسکے اور کمپیوٹر پر مبنی ہدایات کو زیادہ دلکش انداز میں کس طرح پیش کیا جاسکے؟
(6)تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ میں معاون نئے امکانات کی دریافت و تلاش کے لئے ذاتی نظریات و جدید ارتقائی طریقوں کااطلاق اور اس کا استعمال کیسے کیاجائے؟
(7)ایسے پروگراموں اور سرگرمیوں کی نشاندہی جو طلبہ کے اکتسابی و ذہنی معیار اور ضروریات کے مطابق ہوں اگر ان کی مناسب نشاندہی نہ ہو تو یہ غیر حقیقی اور نتیجے سے عاری ثابت ہوتے ہیں۔
(8)ہر قسم کے اضافی سوفٹ ویرز،پروگرامس جو وقتاًفوقتاً تیارکردہ طلبہ کے تخیلی صلاحیتوں کو فروغ دینے والے،سوچنے،سمجھنے،تخلیقی،تنقیدی اور تجزیاتی صلاحیتوں کو فروغ دینے والے ہر قسم کے اضافی سوفٹ ویرز اور پروگرامس سے آگہی اور ان کے استعمال سے شعوری واقفیت۔
(9)اساتذہ کے لئے معاون مواد کی سپلائی کرنے والوں افراد،ادارے، علاقے کے انفارمیشن ٹکنالوجی کوآرڈینیٹرز کے ساتھ کس طرح رابطہ رکھا جائے تاکہ مقامی اداروں کے تکنیکی ماہرین، سافٹ ویئر ڈویلپرز اور پروموٹرز سے مختلف و متضاد معلومات و مشورہ حاصل کرسکیں۔
بعض اوقات اساتذہ ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کرنے کو مشکل گردانتے ہیں اوراسے اپنے لئے ایک پریشا ن کن مسئلہ اور درد سر سمجھنے لگتے ہیں۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مستقبل کی تعلیم،درس و تدریس ٹیکنالوجی کو شامل کئے بغیرکسی بھی طور مکمل،پرکیف اور نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی۔لہذا اساتذہ مشکل و دشوار محسوس ہونے والی ٹیکنالوجی کو قبول کریں،اس کی مناسب تربیت حاصل کریں اور زمانے سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے اپنے درس و تدریس میں تاثیر پیداکرنے کے ساتھ ساتھ ہردم مستقل مزاجی،جدت طرازی اور الوالعزمی سے کام لیں۔
کمپیوٹرٹیکنالوجی پر مبنی طریقہ تدریس
بہ نسبت دیگر تدریسی طریقہ کار کے اس طریقہ تدریس میں سدھانے (Conditioning) کے متنوع اور سیکھانے(Learning) کیبہت زیادہ سہولتیں موجود ہیں جو مکتسب (Learner)کو اطمینان بخش اکتسابی تجربات فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ سبق کے وہ موضوعات جن کی بہتر تفہیم و تشریح کے لئے منطقی استدلال و پیش کش کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر ایسے موضوعات جس کی تفہیم عام فہم (Normal Explanation)سے بالاتر ہووہاں کمپیوٹر ٹکنالوجی کو برؤ ے کار لاتے ہوئے موضوعات کی دلکش تفہیم و مقناطیسی تشریح کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
اساتذہ جب کمپیوٹر ٹکنالوجی کا علم اور اسے استعمال کرنے کی استعداد و مہارتیں سیکھ لیتے ہیں تب وہ منتخبہ موضوعات کو کمپیوٹر سلیڈز کی صورت، عمدہ ڈیزائینگ اوریزنٹیشن کی شکل میں کمرۂ جماعت میں نہ صرف ان موضوعات کی موثر تشریح و تفہیم انجام دے سکتے ہیں بلکہ ان کی تدریسی میں ایک گوناں گو دلکشی اور معنیٰ معنی افرینی پیدا ہوجاتی ہے۔ اساتذہ اپنے روایتی،بے کیف تدریسی طریقوں اور اسلوب کو کمپیوٹر ٹکنالوجی کے موثر استعمال سے دلکش اور معنی خیز طریقہ تدریس میں تبدیل کرسکتے ہیں۔اس طریقہ تدریس کے متعدد فوائد ہیں مثلاً اس سے طلبہ میں سیکھنے کے عمل کو ترغیب و تحریک ملتی ہے اور معلومات ذہن میں طویل عرصے تک محفوظ رکھنے میں بھی یہ طریقہ تدریس بہت کارگر ثابت ہوا ہے۔ دلکش طریقے سے معلومات کی تشریح و ترجمانی کی وجہ سے طلبہ میں معلومات کے حصول اور مہارتوں کی تشکیل و تعمیر کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں جو ان میں انفارمیشن ٹکنالوجی کو بہتر اکتساب کے حصول میں بروئے کار لانے کا محرک بنتی ہیں۔اگر اسکولوں کے ارباب مجاز کمپیوٹر اور اس سے منسلک دیگر آلات (accessories) کی تنصیب کو یقینی بناتے ہوئے اور کمپیوٹر مبنی طریقہ تدریس پر عمل پیرائی کے ذریعے اکتسابی عمل اور اس سے وابستہ تجربات کو دلکش اور معنی خیز بناسکتے ہیں۔پڑھائے جانے والے ہر مضمون میں چند ایسے موضوعات و مواد موجود ہوتا ہے جس کو کمپیوٹر ٹکنالوجی کی مدد سے اعلیٰ معیار و عمدہ تاثیر کے ساتھ پڑھائے جاسکتے ہیں۔ایسے موضوعات کا انتخاب ضروری ہے جس کو کمپیوٹر ٹکنالوجی استعمال کرتے ہوئے پڑھائے یا پیش کیا جاسکتا ہے اس طرح کے انتخاب سے اساتذہ کو شعوری طور پر معلومات کی فراہمی اور تدریسی عمل میں سہولت حاصل ہوتی ہے۔
کمپیوٹر مبنی تدریسی ہدایات نہ صرف تکنیکی مہارتوں کے فروغ و نشوونما میں معاون و مددگار ثابت ہوئی ہے بلکہ اس کے علاوہ کمپیوٹر مبنی تدریسی ہدایات لامحدود تحقیقات،مسائل کے تدارک و حل اور منصوبہ بندی و مکالمہ کے لئے بھی وافرمواقع فراہم کرتی ہے۔چند کیسس میں دیکھنے میں آیا ہے کہ کمپیوٹر مبنی تدریسی ہدایات خصوصی ضرروتوں کے حامل (اسپیشل نیڈس-ذہنی طور پرمعذور) بچوں کی تدریسی ضروریات کی تکمیل میں بے حد معاون ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ اس طرح کے مخصوص بچوں کی توجہ کو اپنی جانب راغب کرنے میں بڑی کامیاب ثابت ہوئی ہے۔سوفٹ وئیر پروگرامس کی بڑھتی ہوئی تعدا د مطلوبہ مقاصد کے حصول میں ایک بنیادی فریم ورک(ڈھانچے) کے طورپر کا م کرتی ہے۔ابتدا یں ورڈ پروسر،پورپوائنٹ،ڈیسک ٹاپ پبلشنگ پیکج اور دیگر کارآمد ایپس کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اساتذہ کو مزید نظریات و رجحانات کا علم ہوگا بلکہ اساتذہ اپنے کمرۂ جماعت کے مظاہروں (Presentations)کو مزید دلکش،مبنی بر حقیقت اور معنی آفریں بنا نے میں کامیاب ہوجائیں گے۔اساتذہ مخصوص موضوعات اور سرگرمیوں کا انتخاب کریں جنھیں ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے بہترطورپر پڑھایا جاسکے۔ٹیکنالوجی کو تحریک دینے والا کمپیوٹر پر مبنی ایک ایسا پریزنٹیشن تیار کریں اور اس کی تدریس میں معاون طریقہ تعلیم ایسی توانائی و قوت سے بروئے کار لائیں کہ طلبہ کو اکتسابی کی حقیقی قدر اور سیکھنے کی سرخوشی میسر آجائے۔کمپیوٹر پر مبنی ہدایات پر کامیابی سے عمل پیرائی کرتے ہوئے نہ صرف آج کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کی جاسکتی ہے بلکہ اکستاب سے رغبت پیدا کرنے تیزی تر تحریک و ترغیب اور تعلیم کے حصول میں جوش و خروش پیدا کرتے ہوئے ان کی اسکولی زندگی اور اکتسابی زندگی کو بہتر بنا یا جاسکتا ہے۔اساتذہ اپنے تدریسی انداز کو تبدیل کرتے ہوئے اور لامحدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے تدریسی عمل و طریقہ کار کو عمدہ و بہتر بناسکتے ہیں۔
(جاری ہے)

Share
Share
Share