اذان کا چوتھا کلمہ – حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ (1) :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

اذان کا چوتھا کلمہ – حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ (1)

مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536

اذان کا چوتھا کلمہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ ہے (یعنی آؤ نماز کی طرف)اذان کا جہاں اہم مقصد دعوتِ دین ہے، وہیں ایک اہم مقصد نماز کی دعوت و اقامت بھی ہے، اس لئے قرآن و حدیث کی روشنی میں ذرا تفصیل کے ساتھ نماز کو قائم کرنے کا وسیع تصور پیش کیا جارہا ہے، تاکہ نمازیوں کا نماز سے علمی و عملی تعلق قائم ہو۔

دین کے کسی بھی حکم اور عمل کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کی لفظی و معنوی حقیقت کو سمجھا جائے اور چونکہ قرآن مجید دین کے ہر حکم و عمل کا علمی سر شمہ ہے اس لئے دین کے ہرحکم اور عمل کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے قرآن کی طرف رجوع ضروری ہے اوردین کے ہر حکم و عمل کی عملی ادائیگی کی کیفیت و حقیقت کو جاننے کے لئے آنحضورﷺ کی سیرت طیبہ کی طرف رجوع ضروری ہے کیونکہ خود قرآن نے آنحضورﷺ کی سیرت کو دین کا نمونہ قرار دیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا لَقد کَانَ لَکُم ْ فِی رَسُولِ اللہ ِ اُسْوَۃ حَسَنۃُ (سورۂ احزاب آیت ۱۲) یعنی تحقیق کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ قرآن و حدیث میں نماز کی جو حقیقت بیان ہوئی ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نماز کے سلسلہ میں ایک ہے نماز کی ادائیگی کا عمل اور ایک ہے نماز کو قائم کرنے کا عمل، نماز کی ادائیگی کے حکم میں دن و رات میں پانچ مرتبہ نماز کی نیت و تکبیر تحریمہ سے سلام کے پھیرنے تک کے عمل میں مصروف رہنا ہے اور یہ عمل ہر فرض نماز کا ٓٹھ تا دس منٹ میں ادا ہوتا ہے لیکن جہاں تک نماز کو قائم کرنے کی بات ہے تو اس کا تعلق پوری زندگی سے ہے ایک دن و رات کے حساب سے دیکھا جائے تو پورے چوبیس (۴۲) گھنٹوں میں سے صرف ایک گھنٹہ پانچ نمازوں کی ادائیگی میں صرف ہوتا ہے اور بقیہ تئیس ۳۲ گھنٹوں کا تعلق نماز کو قائم کرنے کے عمل سے ہے اس تناسب کو اگر فیصد میں سمجھا جائے تو نماز کی ادائیگی کا عمل پانچ فیصد ٹھہرتا ہے اس تعلق کو ذریعہ اور مقصد کے الفاظ سے بھی سمجھا جا سکتا ہے یعنی نماز کی ادائیگی کا عمل ذریعہ ہے اور نماز کو قائم کرنے کا عمل مقصد ہے مطلب یہ کہ نماز کے مقصد تک پہنچنے کے لئے نماز کی ادائیگی کا عمل لازمی ذریعہ ہے۔
یقینا نماز کی ادائیگی کا عمل بھی نماز کی اقامت کی تعریف میں آتا ہے۔ لیکن یہ نماز کی مکمل اقامت نہیں ہے، بلکہ اقامت کا آغاز ہے،اور نماز کی اقامت کے سلسلہ میں اس کا تناسب پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہے بقیہ پچانوے فیصد نماز کی اقامت کا عمل نماز کی باہر کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن اگر کوئی نمازکی ادائیگی کے عمل کو ہی کامل نماز کی اقامت سمجھ لے اور باہر کی زندگی میں نماز کو نظر اندازکردے تو وہ اس مسافر کی طرح ہے جو سفر کے سلسلہ میں راستہ کو منزل سمجھ لے اور منزل کو بھلادے تو ظاہر ہے ایسا مسافر برسہا برس بھی راستہ چلے تو وہ اپنی منزل تک نہیں پہونچ سکتا ٹھیک یہی حال اس نمازی کا ہے جو برسہا برس نماز ادا کرے لیکن زندگی میں اس کو قائم نہ کرے۔نماز کے قائم کرنے کے متعلق یہ تصور کسی کا اجتہاد نہیں ہے بلکہ خود قرآن کی بہت سی آیات سے واضح ہوتا ہے، چنانچہ سورہ عنکبوت کی پینتالسیویں آیت جو اکیسویں پارے کی پہلی آیت ہے۔ اُتلُ مَآ اُوحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃِ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآ ءِ وَ الْمُنْکَرِ وَ لَذِکْرُ اللّٰہ ِ اَکْبرُ وَ اللّٰہ ُ یَعْلَمُ مَا تَصْنعُونَ۔ (عنکبوت آیت ۵۴) ترجمہ: تلاوت کیجئے اس کتاب کی جو آپؐ کی طرف بھیجی جارہی ہے اور نماز قائم کیجئے بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی اوربرائی سے، اور یقینا اللہ کا ذکر یعنی قرآن سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو-
مذکورہ آیت میں نماز کے قائم کرنے کا حکم ہے اور نماز کی صفت میں تاکید کے ساتھ یہ بات کہی گئی کہ بیشک نمازبے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے ظاہر ہے اس سے مراد نماز کی ادائیگی کا عمل نہیں ہے کیونکہ حالت نماز میں کسی سے کوئی بے حیائی اور بُرائی کا کام ہو ہی نہیں سکتا اس لئے کہ نماز کی حالت میں نمازی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں، اور پیر ایک جگہ جمے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ اللہ کا کلام پڑھنے اور سننے میں مصروف ہوتا ہے اس لئے مذکورہ آیت میں نماز کو قائم کرنے اور نماز کے بے حیائی اور بُرائی سے روکنے سے مراد لازماً نماز کی ادائیگی کے بعد کا عمل ہے،مطلب یہ کہ نماز میں جو اللہ کا کلام پڑھا اور سنا جاتاہے وہ نمازی کوبے حیائی اور بُرائی سے روکنے کا ذریعہ بن جاتا ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ نمازی نماز میں پڑھی اور سنی جانے والی آیات اور سورتوں کو سمجھے، تب ہی نماز بے حیائی اور بُرائی سے روکنے کا ذریعہ بن سکتی ہے ساتھ ہی مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ نماز کو قائم کرنے سے مراد نماز کے تقاضہ کو قائم کرنا ہے اور نماز کا تقاضہ نماز کو ادا کرنے کے بعد عائد ہوتا ہے اور نماز کے تقاضہ سے ناواقف رہنا گویا نماز کے قائم کرنے کے تقاضہ سے ناواقف رہنا ہے اور یہ بات ایک نماز ی کے لئے کتنی افسوس ناک ہے کہ ایک طرف تو وہ برسوں سے نماز ادا کررہا ہے اور دوسری طرف ابھی وہ نماز کے تقاضہ سے ناواقف اور لا علم ہے۔ نماز کو قائم کرنے کا یہی مفہوم سورہ بقرہ کی پینتالیسویں آیت سے بھی واضح ہوتا ہے، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے، وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ وَ اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃً اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ۔ (بقرہ آیت ۵۴) ترجمہ: اور مدد چاہو صبر اور نماز کے ذریعہ اور بیشک یہ نماز یقینا بھاری ہے مگر اللہ سے ڈرنے والوں پر، مطلب یہ کہ جو اللہ سے ڈرنے والے نہیں ہیں ان کے لئے نماز بہت بھاری ہے، اس آیت سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس سے مراد نماز کی ادائیگی نہیں ہے بلکہ نماز کے پیغام کو زندگی میں قائم کرنا ہے، کیونکہ نماز کی ادائیگی کے عمل میں ایک بھی چیز ایسی نہیں ہے جس کو ادا کرنا بہت بھاری ہو نہ تکبیر تحریمہ کی ادائیگی بھاری ہے نہ قیام و قرآت رکوع و سجود و قعدہ کی ادائیگی بھاری ہے یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ کے دور میں منافقین بھی نماز ادا کرتے تھے، کیونکہ جو ایمان کے دعویدار نماز ادا نہیں کرتے تھے وہ ایمان والوں میں شمار نہیں ہوتے تھے اور اسلام کا یہی اصول قیامت تک کے لئے ہے لیکن چونکہ اس وقت دنیا میں اسلامی خلافت قائم نہیں ہے اس لئے نماز ادا نہیں کرنے والے مسلمان بھی ایمان والوں میں شمار ہوتے ہیں۔
لیکن ان بے نمازی مسلمانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ شمار بھی صرف دنیا کی زندگی میں ہو سکتا ہے آخرت کی زندگی میں اپنے آپ کو مومنین میں شامل کرنے کے لئے پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ ان نمازوں کے پیغام کو اپنی زندگی میں قائم کرنا بھی ضروری ہے اور اس تحریر کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ نماز ادا کرنے والے صرف نماز کی ادائیگی کو آخرت کی کامیابی کے لئے کافی نہ سمجھے بلکہ نماز کے قائم کرنے کو بھی ضروری سمجھے اور مذکورہ آیت میں اسے قائم کرنے کے عمل کو ہی بھاری کہا گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر ہے ان کے لئے نماز کے پیغام کو اپنی زندگی میں قائم کرنا بھاری نہیں ہے کیونکہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جان دینا بھی آسان ہوتا ہے نماز کا یہی وسیع تصور حضرت شعیب ؑ کی دعوت کے حوالہ سے قرآن میں بیان کیا گیا ہے چنانچہ سورہ ہود میں حضرت شعیبؑ کے مخالفین کے اعتراض کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُکَ تَاْ مُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبآ ءُ نَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰوُء ا اِنَّکَ لَاَ نْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ (ھودآیت ۷۸) ترجمہ: انہوں نے کہا اے شعیب کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم ہمارے باپوں کے معبودوں کو چھوڑ دے یا ہمارے مالوں میں اپنی مرضی کو چھوڑ دے توُتو بڑا نیک راست باز ہے۔
مذکورہ آیت میں بھی نماز کا لفظ نماز کے پیغام کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ورنہ ظاہر ہے حضرت شعیبؑ اپنی قوم کو حالت نماز میں معبودان باطل کی عبادت سے نہیں روکتے ہوں گے بلکہ نماز کے علاوہ روکتے ہوں گے لیکن خصوصیت کے ساتھ یہ کہہ کر روکتے ہوں گے کہ میری نماز مجھے یہ حکم دیتی میں تمہیں جھوٹے معبودوں کی عبادت سے منع کروں اسی طرح مالوں میں بھی تمہاری مرضی کے تصرف سے منع کروں، لیکن آج کے دور کے نمازیوں پر افسوس ہے کہ ان کی نماز انہیں اللہ کے علاوہ معبودوں سے واقف بھی نہیں کراتی اس کی بھی اصل وجہ یہی ہے کہ آج کے دور کے نمازیوں نے صرف نماز کی ادائیگی کو ہی کامل نماز سمجھ لیا جب کہ وہ نماز کو علمی و عملی لحاظ سے قائم کرنے کی ایک مشق او ر نظم ہے اور کسی بھی چیز کی مشق اور کسی بھی چیز کا نظم اسی لئے کیا جاتا ہے کہ وہ زندگی کا حصہ بنے، جس طرح مختلف جماعتیں اپنے افراد کو جماعت سے فکری علمی،عملی و تنظیمی لحاظ سے جوڑنے کے لئے یومیہ ہفتہ واری ماہانہ اور سالانہ اجتماعات کا نظم کر تی ہیں،لیکن ان جماعتوں کے پیش نظر صرف اتنا نہیں ہوتا کہ لوگ اجتماع میں آکر کچھ وقت کے لئے بیٹھ جائے اور بات سن لیں بلکہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ لوگ اجتماع میں بیان کی ہوئی باتوں کو سمجھیں اور اجتماع کے بعد ان باتوں پر عمل کریں یہی وجہ ہے کہ جو افراد ان اجتماعات میں شرکت کے باوجود اجتماع میں بیان کی ہوئی باتوں کو سمجھتے نہیں اور نہ اجتماع کے بعد ان باتوں پر عمل کرتے ہیں تو خود یہ جماعتیں ایسے افراد کو اپنی جماعت کا فرد نہیں سمجھتی اور اگر ایسے افراد اجتماع میں بیان کی ہوئی باتوں کے خلاف عمل کریں تو پھر یہ جماعتیں ایسے افراد کو اپنا مخالف اور دشمن سمجھتی ہیں اور اپنے لئے بدنامی کا ذریعہ سمجھتی ہیں اورلوگوں میں یہ اعلان کردیتی ہیں کہ ان افراد سے ہماری جماعت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

Share
Share
Share