کیا آن لائن تراویح کی نماز درست ہے؟ :- مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share
مفتی امانت علی قاسمی

کیا آن لائن تراویح کی نماز درست ہے؟

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ و مفتی دار العلوم وقف دیوبند

Mob: 07207326738

رمضان المبارک میں لوگ تراویح کا بہت اہتمام کرتے ہیں اور حتی الامکان ایک قرآن تراویح میں ختم کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں،لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر سے نکلنے پرپابندی ہے، اور امکان یہی ہے کہ رمضان میں بھی یہی نظام باقی رہے گا،اس صورت حال نے لوگوں کو بے چین کردیا ہے کہ ہماری تراویح کا کیا ہوگا؟

ظاہر ہے کہ ہر گھر میں حافظ میسر نہیں ہوتے ہیں، اس لیے لوگوں میں اضطراب ہے اور لوگ اپنے طور پر تروایح پڑھنے کے لیے نئے نئے طریقے تلاش کررہے ہیں۔اس ضمن میں بہت سے سوالا ت لوگ معلوم کررہے ہیں، بعض لوگوں نے معلوم کیا ہے کہ ہمارا بھائی حافظ ہے اور وہ شہر میں ہی ہے لیکن گھر سے دور ہے کیا ایساکرنا جائز ہے کہ وہ تراویح پڑھائے اور ہم لوگ گھر میں اسکائپ کے ذریعہ تراویح پڑھ لیں؟ بعض دوستوں نے معلوم کیا ہے کہ کیا ایسا کرسکتے ہیں کہ ایک گھر میں تراویح ہو اور مائک لگادیا جائے اور چار پانچ گھروں میں لوگ نماز پڑھ لیں،اسی طرح بعض جگہوں پر لوگ اس طرح نماز پڑھ رہے ہیں کہ ایک بلڈنگ میں مائک سے نماز ہورہی ہے اوربازو کی بلڈنگ میں لوگ اس کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں، اسی طرح آن لائن نماز پڑھنے کاکیا حکم ہے؟ امام حرم کی ٹیلی ویزن پر نشر ہونے والی تراویح کی اقتداء کرنے کا کیاحکم ہے؟مسجد میں تراویح ہو اور نیٹ کے ذریعہ لائیو اس کو چلایا جائے اور لوگ گھر میں تراویح پڑھ لیں؟اس طرح کی بہت سی صورتیں لوگوں کے ذہنوں میں آرہی ہیں اور لوگ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا اس طرح بھی تراویح ہوسکتی ہے؟
اس سلسلے میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اقتداء کے شرائط کو معلوم کرلیا جائے کہ کوئی شخص کسی امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو اقتداء کے صحیح ہونے کے لیے کیا شرائط ہیں؟ علامہ شامی نے اقتداء کی دس شرطیں ذکر کی ہیں
(۱) مقتدی اقتداء کی نیت کرے کہ میں اس امام کے پیچھے یہ نماز پڑھ رہا ہوں
(۲) دونوں کی نماز ایک ہو اگردونوں کی نماز الگ الگ ہوگی مثلا امام ظہر کی نماز پڑھا رہا ہو اور مقتدی عصر کی نیت کرے یا امام نفل کی نیت کیا اور مقتدی فرض کی نیت کرے تو نماز نہیں ہوگی
(۳)مکان متحد ہو-
(۴) امام کی نماز صحیح ہو،
(۵) عورت،مرد کے محاذات میں نہ ہو،
(۶) مقتدی امام سے آگے نہ ہو اگر مقتدی امام سے آگے ہوگیا تو مقتدی کی نماز نہیں ہوگی
(۷) مقتدی کو امام کے حرکات و انتقالات کا علم ہو
(۸) مقتدی کو امام کے مسافر یا مقیم ہونے کا علم ہو
(۹) مقتدی امام کے ارکان میں شریک ہواگر امام کسی رکن میں ہو اور مقتدی دوسرے رکن میں ہو تو مقتدی کی نماز درست نہیں ہوگی،
(۱۰)مقتدی امام کے برابر ہو یا اس سے کمتر ہو مثلا اگر تندرست آدمی نے معذور کی اقتداء کی تو نمازدرست نہیں ہوگی یا رکوع سجدہ کرنے والا شخص اگر اشارہ سے نماز پڑھنے والے کی اقتداء کرے تو اقتداء درست نہ ہوگی۔(رد المحتار باب الامامۃ ۴/۲۱۰)
یہ اقتداء کی شرطیں ہیں اس میں ایک شرط بہت اہم ہے جس کا تفصیلی تذکرہ ہمارے مسئلے کو حل کرنے میں معاون ہوگا۔وہ یہ کہ امام اور مقتدی کی جگہ کا ایک ہونا ضروری ہے یہ اتحاد مکان حقیقی ہو یا حکمی ہو۔مثلا مسجد میں امام ہے اور اسی مسجد میں مقتدی ہے تو یہ اتحاد مکان حقیقی ہے اور نیچے کی منزل میں امام ہے اور اوپر کی منزل میں مقتدی ہے تو یہ اتحادِ مکان حکمی ہے، اقتداء کی یہ صورت درست ہے۔
اتحاد مکان کی شرط، سوائے امام مالک کے تمام ائمہ کے یہاں ضروری ہے،یہی وجہ ہے کہ مکہ کے ہوٹلوں میں رہ کر کوئی حرم شریف کے امام کی اقتداء کرے تو سوائے امام مالک کے تمام ائمہ کے یہاں نماز درست نہیں ہوگی؛ اس لیے کہ اقتداء، تابع ہونے کا تقاضہ کرتا ہے اوراتحاد مکان تابع ہونے کے لیے لازم ہے جب مکان مختلف ہوگا تو تبعیت ختم ہوجائے گی، اور تبعیت کے ختم ہونے سے اقتداء ختم ہوجائے گی۔
احناف کے یہاں اتحاد ِمکان کی تفصیل یہ ہے کہ امام او رمقتدی کے مکان کا مختلف ہونا یہ مفسد نماز ہے خواہ مقتدی پر امام کی حالت مشتبہ ہو یا نہ ہو، اسی وجہ سے اگر پیدل چلنے والا سوار شخص کی اقتداء کرے تو نماز درست نہیں ہوگی، یا دو لوگ الگ الگ سواری میں ہو ں اور ایک دوسرے کی اقتداء کریں تو نماز درست نہیں ہوگی، اسی طرح امام اور مقتدی کے درمیان میں راستہ ہو جس میں لوگ گزرتے ہوں یا نہر ہو جس میں کشتی چلتی ہو، یا بہت بڑی مسجد ہو اور اس میں دو صف کا انقطاع ہو تو ان تمام صورتوں میں اقتداء درست نہیں ہوگی، اس سلسلے میں ایک دلیل حضرت عمر کا قول ہے من کان بینہ و بین الامام نہر أو طریق أو صف من النساء فلا صلاۃ لہ (شرح صحیح البخاری لابن بطال ۲/۳۵۱))
مسجد مکان واحد کے حکم میں ہے لہذ۱ اگر دیوار وغیرہ حائل ہو اور مام کے انتقالات کا علم ہورہا ہو تو ااقتداء درست ہے اگر امام کی حالت مشتبہ ہو تو پھر اقتداء درست نہیں ہے۔اگر مقتدی مسجد کی چھت پر ہو یا مسجد سے متصل مکان کی چھت پرہو اور اس مکان اورمسجد کے درمیان کوئی راستہ وغیرہ حائل نہ ہو تو اقتداء درست ہوجائے گی؛ اس لیے کہ اتحاد مکان حکما موجود ہے۔
اگر کوئی آدمی اپنے گھر سے امام کی اقتداء کرے اور اس کے گھر اور مسجد کے درمیان راستہ وغیرہ کا فاصلہ ہو تو اقتداء درست نہیں ہوگی؛ اس لیے کہ مکان مختلف ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اقتداء کی شرطوں میں اہم شرط مکان کا متحد ہونا ہے خواہ امام کی حالت کا علم ہو یا علم نہ ہو، علامہ شامی لکھتے ہیں:فقد تحرر بما تقرر ان اختلاف المکان مانع من صحۃ الاقتداء و لو بلا اشتباہ و لا یصح الاقتداء و ان اتحد المکان ثم رأیت الرحمتی قد قرر ذلک فاغتنم ذلک (رد المحتار۱/۵۸۸)
اس تفصیل کی روشنی میں موجودہ مسئلہ کو آسانی کے ساتھ حل کیا جاسکتا ہے کہ آن لائن کی تمام صورتیں ناجائز ہے؛اس لیے کہ اقتداء کی بنیادی شرط اتحاد مکان مفقود ہے۔
اگر امام مسجد میں تراویح پڑھائے او رآواز گھر وں میں آرہی ہو تو اگر گھر مسجد سے متصل ہے اور درمیان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے تو اقتداء درست ہے لیکن اگر درمیان میں کوئی فاصلہ ہو تو پھر اقتداء درست نہیں ہے، اسی طرح،ایک گھر میں تراویح ہو اور مائک کے ذریعہ دوسرے گھر وں میں اقتداء کی جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے،اس لیے کہ مکان مختلف ہے۔
اسکائپ کے ذریعہ اقتداء کرنے میں مذکورہ خرابی کے علاو ہ دوسری بہت سی خرابیاں ہیں،مثلانیٹ میں بعض مرتبہ کنکشن کٹ سکتا ہے اور امام کے انتقال کا علم نہیں ہو پائے گا، اسی طرح اسکائپ میں یا انٹر نیٹ کے ذریعہ جو آواز آئے گی وہ عکس ہوگی، تصویر کے سامنے نماز پڑھنا لازم آئے گا،عام طور پر لائیو میں بھی پہلے تصویر محفوظ ہوتی ہے پھر ٹیلی کاسٹ ہوتی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی پروگرام دو ٹی وی چینل پر لائیو چلتا ہے لیکن دونوں کے درمیان فرق ہوتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لائیوپروگرام پہلے محفوظ ہوتا ہے پھر نشر ہوتاہے اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ امام رکوع سے واپس آجائے او رلوگ ابھی قیام میں ہی ہوں،پھر اگر موجودہ ضرورت کی وجہ سے اس کی اجازت دے دی جائے گی تو کل جب یہ ضرورت ختم ہوگی تو بھی لوگ مسجد میں آنے کے بجائے آن لائن نماز ہی پڑھنا چاہیں گے جو کہ جماعت کے مقصد کے بالکل خلاف ہے اس لیے کہ جماعت کا مقصد اجتماعیت اور مسجدوں کو آباد کرنا ہے آن لائن سسٹم اس اجتماعیت کو ختم کردے گا؛ اس لیے اسکائپ بلکہ آن لائن کی تمام صورتیں ناجائز ہیں اس سے نماز صحیح نہیں ہوگی۔
موجودہ حالات میں بھی یہی ضروری ہے کہ امام اور مقتدی ایک ساتھ نماز تروایح پڑھیں اگر حافظ امام مل جائے تو بہت اچھی بات ہے ورنہ سورہ تراویح کے ذریعہ تراویح کا اہتمام کریں، ایسا نہ ہو کہ حافظ امام نہ ملنے کی صورت میں تراویح ترک کردی جائے،بلکہ اگر جماعت کے ساتھ تراویح کا نظم نہ ہو سکے تو لوگ انفرادی طور پر سورہ تراویح کا نظم کرلیں لیکن ہمیشہ کی طرح تراویح کا اہتمام ضرور کریں۔

Share
Share
Share