سیاق و سباق – مصنف : صابر علی سیوانی : مبصر :- ڈاکٹر عزیز سہیل

Share

سیاق و سباق
(تنقیدی مضامین کا مجموعہ)

مصنف : صابر علی سیوانی
مبصر : ڈاکٹر عزیز سہیل

ڈاکٹرصابر علی سیوانی نسل نو کے ادیبوں میں انفرادیت رکھتے ہیں ان کے بیشتر مضامین روزنامہ سیاست حیدرآباد اور شمالی ہند کے معتبر اخبارات و رسائل میں مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں۔ان کے مضامین کی خصوصیت ہے کہ وہ قاری کو اپنی تحریر میں کوئی نقص تلاش کرنے کا موقع نہیں دیتے

جبکہ عصر حاضر کا المیہ یہ ہے کہ آج بھی اردو ادب کے میدان میں طبع آزمائی کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے کمی ہے توصرف اچھی تحریروں کی جس میں جاذبیت ہو،جواملا کی غلطیوں سے پاک ہو اور تحریرحقائق کو ملحوظ رکھ کر لکھی جائیں۔ تحقیق سے متعلق کہا جاتا ہے ”تن آسانی تحقیق کی سم قاتل ہے“۔ لیکن موجدہ دور کے لکھنے والے نو آموز قلم کار وں میں تن آسانی کے پہلو کو محسو س کیا جاسکتا ہے۔بہر حال ڈاکٹرصابر علی سیوانی اپنی تحریر کو تحقیق و تنقید کے تناظر کو مدنظر رکھ کر عملی جامع پہنانے کا فن جانتے ہیں۔ ان کے مضامین کے مطالعہ سے قلم کی مضبوطی اور تحقیق کا عنصر آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ایک اور خوبی وہ یہ کہ ان کے مضامین موضوعات منفرد ہوتے ہیں وہ عام دگر سے ہٹ کر چلتے ہیں ان کی یہی خوبی ان کو انفرادیت عطا کرتی ہے۔ڈاکٹر صابر علی سیوانی نے اپنی پہچان بحیثیت محقق،نقاد،مضمون نگار،مخطوطہ شناس،صحافی اورخطاط کے بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ان کوارد و کے ساتھ ساتھ فارسی،عربی اور انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل ہیں ان کی پہلی تصنیف ”سیاق وسباق“ حالیہ دنوں منشہ شہود پر آئی ہے،یہ کتاب اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش کے جزوی مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے جس کے ناشر ایجوکیشنل پبلکشنگ ہاوس دہلی ہے۔
”سیاق وسباق“میں کل22 مضامین شامل ہیں اوریہ کتاب224 صفحات پر محیط ہے۔جن میں ۳۱ مضامین مختلف شخصیات کا احاطہ کرتے ہیں اور۰۱ مضامین تحقیق و تنقید سے متعلق ہے جن کے مطالعہ سے صابر علی سیوانی کی انفرادیت نمایاں طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ان مضامین میں قرانی ضرب الامثال اور اردو شاعری،مشرقی شعریات اور تنقیدی رحجانات,افسانہ کفن اور پریم چند کی تخلیقی ہنر مندی،افسانوی شخصیت کے مالک ابرہیم جلیس،مشفق خواجہ کی کالم نگاری،شاد عظیم آبادی کی غزل گوئی،ادبی تحقیق:مشکلات اور موجودہ رحجان،تحقیق اور ترتیب متن کے امتیازات،ادبی تخلیق اور سماجی عوامل،فارسی کی اہم باغی شاعر:فروغ ؔفرخزاد،منٹو کی معنویت موجودہ تناظر میں،جمیل ؔمظہری کی شاعری کے امتیازی نشانات،پروفیسر قمر رئیس بحیثیت پریم چند شناس،مجروحؔ سلطان پوری کی شخصیت اور شاعری،ڈاکٹر انور بہمنبر وی شخصیت اور شاعری،ترجمہ نگاری کا فن،پڑھ کے لکھا تو تبصرہ کیاہے؟،رضالائبریری رامپور،خدا بخش خان شخصیت اور خدمات،فن خطاطی کا تاجدار:خلیق ٹونکی،اردو اخبارات: مرحلہ در مرحلہ،کلاسیکی لب ولہجے کا شاعر:آزاد گراداسپوری شامل ہیں۔
زیر نظر کتاب کاپیش لفظ خود مصنف نے لکھا ہے جس میں کتاب سے متعلق لکھا ہے ”سیاق وسباق“میرے ان تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو بیشتر رسائل،جرائد اور اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں،ان مضامین میں بعض تحقیقی اور بیشتر تنقیدی مضامین ہیں جسے میں پٹنہ،دہلی،اور حیدرآباد کے دوران قیام تحریر کئے ہیں،اردو ادب کے مختلف گوشوں،تحقیق،تنقید،شااعری،نثر نگاری،خطاطی،افسانہ نگاری اور اردو تذکرہ نگاری جیسے موضوعات پر تحریریں اس کتاب میں شامل ہیں،یہ کتاب میرے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ہے جسے نذر قارئین کررہا ہوں“۔
اس کتاب میں شامل مضامین میں پہلا مضمون ”قرانی ضرب الامثال اور اردو شاعر ی“کے عنوان سے شامل ہیں۔یہ ایک تحقیقی مضمون ہے جس کے ابتداء میں ضرب المثل کے معنی ومفہوم اور اس کی قسموں کو بیان کیا گیا ہے،فارسی زبان کے حوالے سے ضرب المثل کی مثالیں دی گئی ہے۔اس مضمون میں قرآن ہمار ے لیے کس طرح ضابطہ حیات ہے بیان کیا گیا ہے انہوں نے ضرب المثل کا استعمال سے متعلق لکھا ہے۔؎”رب کریم نے خاکساری،عاجزی اور انکساری کو پسند کیا ہے اللہ سے بندہ ہ اگر عاجزی سے گڑ گڑ ا کر دعا کرتا ہے تو وہ ضرور قبول فرماتا ہے مگر ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جن کے اندر مکروفریب ریاکاری اور غرور ہوتا ہے متکبر انسان صرف اپنی نظروں میں بڑا ہوتا ہے اور پوری دنیا اسے حقارت سے دیکھتی ہے۔قرآن میں ذکر ہے کہ ولاتمش فی الارض مرحا(زمین پر اکٹر کر مت چلو)کسی مغرور آدمی کا تکبرحد سے تجاوز کرجاتا ہے تو دیدہ ور لوگ اسے نصیحت کرنے کے لئے اس ضرب المثل کا استعمال کرتے ہیں۔“ اس مضمون میں بڑے اچھے انداز میں پند و نصیحت کی گئی ہے اور 8قرانی آیت کے حوالے سے ضرب الامثال کی تفہیم شاعری کے حوالے سے کی گئی ہے،جو لائق تعریف ہے۔
زیر نظر کتاب کا دوسرا مضمون”مشرقی شعریات اور تنقیدی رحجانات“کے عنوان سے شامل ہے جس میں فاضل مصنف نے قدیم اور جدید تعلیم نظام کا تذکرہ کیا ہے مختلف علوم کی اہمیت کو بیان کیا ہے انہوں نے ماہرین علوم اور سائنسدانوں کے حالات کا ذکر کیا ہے۔وہیں مشرقی شعریات اور حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ”1893ء میں خواجہ الطاف حسین حالی کی شاہکار تنقیدی تخلیق ”مقدمہ شعر وشاعری،شائع ہوئی جو باضابطہ طور پر اردو ادب کی پہلی تنقیدی کتاب شمار کی جاتی ہے اوراس دور میں جبکہ مشرقی شعریات ہی ادب کے لیے سب کچھ تصور کیاجاتا تھااور روایتی انداز اور اسلوب ہی حرف آخر تسلیم کیا جاتا تھا،حالی نے مغربی افکار اور غیر ملکی تنقیدی نظریات کو اردو ادب میں پیش کیا“۔
اس کتاب میں شامل مضامین میں ایک مضمون ”پڑھ کے لکھا تو تبصرہ کیا ہے“کافی اہم اور تنقیدی مضمون ہے جس میں صاحب کتاب اور مبصر پر کھل کر تنقید کی گئی ہے اور موجودہ دور کے تبصروں کا المیہ پیش کیا گیا ہے لکھا ہے ”موجودہ دور میں کتاب شائع ہونے سے قبل تبصرے تیار رہتے ہیں،جوں ہی کتاب منظر عام پر آئی اسی ہفتے کے اول دنوں میں اس کتاب پر تبصرہ یا تو اخبارات میں شائع ہوجاتے ہیں یارسائل میں چھپ جاتے ہیں۔مصنف تبصرہ نگار کو پہلے ہی اپنی کتاب کے اوصاف کے متعلق بتادیتا ہے اور وہ اسی روشنی میں قصیدہ سرائی کا ایک مکمل ملغوبہ تیار کردیتا ہے پھر اس کتاب پر تبصرہ شائع ہو جاتا ہے“۔
ڈاکٹرصابر علی سیوانی نے موجودہ دور کے تبصروں پر اپنے اس مضمون میں کڑی تنقید کی ہے اور تبصرہ نگار کو مشورہ دیا ہے کہہ وہ پوری کتاب پڑھ کرکتاب کے محاسن ومعائب کو بیان کرے کتاب کے دونوں پہلومثبت اور منفی کو قارئین کے سامنے لائیں۔صاحب کتاب نے موجودہ دور کے تبصرہ نگاروں اور جامعات کے اساتذہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے ”آج کا تبصرہ نگارموجودہ دور کا ناقد کہلاتا ہے،چارپانچ ماہ پرانا لکچرار جس کے دو مضامین آج کل اور اردو دنیا میں شائع ہوجائیں تو وہ خود کو ناقد گرداننے لگتا ہے اور قارئین و ماہرین سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اسے ناقد کے نام سے مخاطب کریں جسے لفظ انتقاد،تنقید،نقد اور ناقد کی صحیح تعریف اور اس لفظ کا مخرج ومشق تک نہیں معلوم ہوتاہے،یہی موجودہ دور کے ناقدین بڑی بڑی دانشگا ہوں میں علم وفضل کی کرسیوں پر براجمان ہیں،موجودہ تنقید کا خداہی حافظ ہے“۔صابر علی سوانی کا یہ تاثر کافی حدتک درست بھی ہے آج کل ادب اور ادیب کی یہی کچھ صورتحال ہے، لیکن کچھ تقاضے اور مصلحتیں ہوتی ہیں جس کے پیش نظر مبصر کو تبصرہ کرنا پڑھتا ہے،دور حاضر میں لوگوں میں ادب سے دلچسپی بھی کم ہوگئی ہے اردوادب لکھنے اور پڑھنے والے بھی کم ہوتے جارہے ہیں اس صورتحال میں ایک مبصر کو کتاب کاصحیح ڈھنگ سے تعارف کروانا بھی بڑی بات نظر آتا ہے۔
زیر نظر کتاب میں شامل دیگر مضامین بھی کافی اہم اور اپنے اندر معلومات کا خزانہ لئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صابر علی سیوانی نے اپنی تحقیقی و تنقید صلاحیتوں کے ذریعے ایک اہم ادبی تصنیف کو وجود بخشا ہے انہوں نے اس کتاب میں یہی کوشش کی ہے کے کچھ معیاری اور عام ڈگر سے ہٹ کر لکھا جائے تاکہ یہ ادب اورقارئین کے لئے فائدہ بخش ثابت ہو۔ڈاکٹر صابر علی سیوانی کا لکھنے پڑھنے کا یہ عمل جاری رہا تو مستقبل میں اور بہتر و مفید کام انجام پاسکتے ہیں،اس کتاب کی اشاعت پر ڈاکٹرصابر علی سیوانی کو مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔اپنے مضامین کے لحاظ سے یہ اعلی معیاری کتاب ہے امید کے ادبی حلقوں میں اس کتاب کی خوب پذیرائی ہوگی۔کتاب کا ٹائٹل خوبصورت ہے طباعت بھی عمدہ ہے اس کتاب کی قیمت 200روپئے رکھی گئی ہے اس کتاب کوہدی بک ڈپو پرانی حویلی حیدرآباد یا ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی سے خریداجاسکتا ہے۔
——

صابر علی سیوانی
ڈاکٹر عزیز سہیل
Share
Share
Share