افسانہ : تھم گئے قدم :- ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ : تھم گئے قدم

ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

ریاض میری گود میں کھیل رہا تھا ریاض میرے چھوٹے بیٹے ایازکابیٹا ہے۔ ریاض ہنستا ہے تو سارے لوگ ہنسنے لگ جاتے ہیں اس کے ننھے ننھے ہاتھ اور اس کا رگڑ رگڑ کا چلنا اور مستی کرنا سب کو پسند آتا تھا۔ میں ریاض کو کھیل لگا ہی رہا تھا کہ اس نے یک دم ہو کر رونا شروع کر دیا۔

اس کے رونے پر ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے کوئی بڑی پریشانی آنے والی ہو۔ میں نے ریاض کی امّی میری چھوٹی بہو فریدہ کو بلایااور کہا کہ ریاض کو شاید بھوک لگی ہے تم اسے اس کی غذا دے دو۔ فریدہ ریاض کو کمرے میں لے گئی۔دودھ پلانے کی کوشش کی مگر اس نے نہیں پیا۔ فریدہ بہت کوشش کرتی رہی کہ ریاض چُپ ہوجائے مگر ریاض کا رونا اور بڑھنے لگا۔ اتنے میں میرا بڑا بیٹا محمود آیا۔ وہ بچے کا طایا ابّو تھا اس نے بھی ریاض کو کئی طرح سے چُپ کرانے کی کوشش کی مگر وہ تو آج رونے پر اتر آیا تھا مجھے بڑی فکر ستانے لگی تھی آخر اس کا رونا بند کیوں نہیں ہو رہا ہے آخر کار گھر کے تمام افراد نے یہ طے کیا کہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے اِدھر ایازاور اس کی بیوی فریدہ دونوں مل کر ریاض کو ڈاکٹر کے پاس لے کر کے گئے ڈاکٹر نے کئی طرح سے جانچ پڑتال کی بلا آخر ڈاکٹر نے یہ کہا کہ کبھی کبھی بچے اس کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ڈاکٹر نے ریاض کے لیے دوائی لکھ دی اور اگر اس کا رونا کم نہ ہوا تو پورے جسمانی اعضاء کی جانچ کی جائے گی۔ ایاز اور اس کی بیوی فریدہ گھر آگئے اور ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ریاض کو دوا پلائی۔ دواؤں کے اثر سے ریاض سو گیا گھر میں سبھی نے اطمینان کی سانس لی۔ محمود نے نیوز دیکھنے کے لیے ٹی وی آن کیا۔ ٹی وی پر بار بار بریکنگ نیوز دکھائی جا رہی تھی کہ پوری دنیا میں ایک کورونا وائرس نامی وبا پھیلی ہے جس کی وجہ سے لوگ لگا تار مر رہے ہیں۔ محمود نے ایاز سے کہا کہ تم کچھ روپے لے کرکے اپنے پاس رکھنا کیونکہ یہ وبا پوری دنیا میں پھیلی ہے اور ظاہر ہے اس کے اقدامات بھی اٹھائے جائیں گے۔آج ہی تم نے دیکھا کہ ریاض نے سب کو پریشان کر دیا تھا۔ اتنے میں محمود کی بیوی عارفہ بول پڑی تم اپنے بھائی سے کہہ رہے ہو تم اپنا بھی کچھ خیال کر لینا تمہاری بیٹی ایمن بھی ہے اس کی ضرورتیں اب بڑھ رہی ہے اور اب تو ایمن بڑی بھی ہو رہی ہے۔ محمود نے کہا اچھا بھئی میں بھی کر لوں گا۔
محمود اور ایاز دونوں اس رات میرے کمرے میں آئے اور کہنے لگے کہ ابّا جی آپ بالکل بھی فکر نہ کریں ریاض کی حالت اب بہتر ہے اور ایمن بھی ٹھیک ہے۔ دونوں نے کچھ پیسے میرے ہاتھوں میں رکھ دئے، یہ دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو کا سیلاب امڈ آیا۔ اور کچھ وقت کے لیے اس کمرے میں خاموشی چھا جاتی ہے میں اپنے دل میں کہنے لگا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو رضا کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی شاید اللہ تعالیٰ نے مجھ جیسے گنہگار پر رحم فرمایا کہ اس نے مجھے نیک اولاد دی۔ مجھے جہاں دلی سکون محسوس ہو رہا تھا وہیں بے چینی نے ایسا زور پکڑا کہ مجھے ساری رات بے چینی رہی۔ صبح ہونے پر ریاض نے پھر سے رونا شروع کر دیا۔ ادھر گھر کے باہر پولیس والوں کی اچانک گاڑیاں آنی شروع ہوئی اور لوگوں کو اطلاع دئے جا رہے تھے کہ آپ لوگ گھروں میں رہے وزیر اعظم کا اعلان ہوا ہے کہ دنیا میں جو کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہے اس کی کو روک تھام کا ایک کار گر طریقہ یہ ہے لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہی رہے زیادہ بھیڑ میں نہ جائے۔زیادہ سے زیادہ لوگ الگ الگ رہنے کی عادت ڈالے۔ یہ ایک انسانی چیپی وبا ہے اس کی دوا دنیا میں آتے آتے وقت لگ سکتا ہے فی الحال اس کا کوئی علاج نہیں ہے لہٰذا ہاتھ دھونا، صفائی رکھنا، اور سردی کھانسی ہونے پر ڈاکٹر کے پاس جانا بے حد ضروری ہے۔
ایاز اور محمود نے دونوں اپنے لیے اور کنبے کے لیے ضروری سامان لینے کے لیے گھر کے باہر ہی نکلے تھے کہ پولیس نے انہیں واپس گھر بھیج دیا۔ دونوں نے آتے ہی ٹی وی آن کیا اور دیکھا کہ یہ وبا ہندوستان میں بھی پھیل چکی ہیں۔ اک طرف کورونا وائرس کی وبا کے اثر سے کتنے لوگ اب تک اثر ہوچکے ہیں بتایا جا رہا تھا وہیں دوسری نیوز چینل پر لوگوں کو اپنے اپنے وطن جانے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد دکھائی جا رہی تھی تیسرے نیوز چینل پر بتا یا جا رہا تھا پورے ہندوستان میں اکیس ۱۲ دن کا لوک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے لیکن راحت کی بات یہ تھی کہ ضرورت کا سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔میں اپنے کمرے سے اٹھ کر دیوان خانے میں آگیااور جیسے ہی میں نے نیوز چینل کی خبروں کو دیکھا اور سُنا تو میں یک دم ہو کر رہ گیا۔ اتنے میں فریدہ ریاض کو لے کر آئی اور کہنے لگی ریاض چُپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے اس کا لگا تار رونا مجھ سے دیکھا نہیں جا رہا ہے۔ ایاز اپنی بیوی سے کہتا ہے ابھی کہی کوئی باہر جا نہیں سکتا۔ ایک کورونا وائرس نامی جان لیوا وبا پھیلی ہوئی ہے جس کے باعث سب کو الگ الگ رہنے کی ہدایت دی جارہی ہے ہسپتال کے سارے ڈاکٹر اور نرس اسی مہیم میں لگے ہوئے ہیں کہ اس کورونا وائرس سے کیسے بچا جاسکتا ہے اور کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ ایاز اپنی بیوی فریدہ سے کہتا ہے کہ تم کو جو ڈاکٹر نے دوا لکھ کر دی وہ اسے ابھی پلا دو۔ ایک نیوز چینل پر دکھایا جارہا تھا کہ اس وبا کے اثر سے سب سے زیادہ متاثر مزدور طبقہ ہوا ہے،۔ مزدوروں سے پوچھا گیا تو کہنے لگے کہ ہم تو مزدور ہیں ہم تو روز کماتے ہیں اور روز کھاتے ہیں اب ہم بھوک سے مر رہے ہیں ہمیں اس وبا سے مرنے سے زیادہ بھوک سے مرنے کا اندیشہ ہو رہا ہے سارے کام کاج بند ہیں۔
میں اپنے دونوں بیٹوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا مجھے تقسیم ہند کی یاد آگئی۔ وہ جنگ غلامی سے آزاد ہونے کی تھی سب لوگوں نے مل کر اپنے ملک کو آزاد کیا تھا لیکن اس کورونا وائرس کی وبا نے ایسا منظر دوبارہ کھڑا کر دیا ہاں یہاں لوگوں کو الگ الگ رہ کر جان بچانا بے حد ضروری ہے بھلے ہی ہم الگ الگ رہ کر ایک ہو کر اپنے ملک کو اس وبا سے آزاد کرانا ہوگا۔ اتنے میں ریاض کے رونے کی آواز نے سب کا دھیان کھینچ لیا۔ پولیس سے ایاز نے بات کی میرا بیٹا بہت بیمار ہے وہ لگا تا ر رو رہا ہے ڈاکٹر سے میری بات ہو گئی ہے کہ انہوں نے کہا اسے میرے گھر کے پاس والے کلینک پر لے آؤ۔ پولیس نے اجازت دے دی اور ایاز اور اس کی بیوی فریدہ دونوں ڈاکٹر کے پاس لے کر کے گئے۔ ڈاکٹر نے ریاض کو کئی طرح سے چیک کیا۔پھر اس ننھی سی جان کا پورا باڈی چیکپ کیا گیا پتہ چلا کہ اس کو کوئی تکلیف نہیں ہے۔ کیا وجہ تھی کہ اس کا رونا بند نہیں ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر نے اندیشہ لگایا کہ اس کو دماغی سکون نہیں مل رہا ہے کیا آپ اسے موبائل وغیرہ کھیلنے کے لیے دیتی ہو۔ فریدہ نے کہا کبھی کبھی میں موبائل دے دیا کرتی ہوں کیونکہ مجھے اس وقت کام ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا یہ ایک نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے اتنا چھوٹا بچہ بھی اس بیماری سے بچ نہ سکا۔ہاں شاید اس ننھی سی جان کو اپنی چیز حاصل کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہے اس لیے وہ بار بار رونے کا اظہار کرتا ہے۔ویسے ہم انسان فطرتاً ایسے ہی ہوتے ہیں۔خیر آپ سبھی لوگ اس پر توجہ فرمائیں تو شاید اس کی یہ بیماری آگے نہ بڑھ پائے۔ آخر میں ڈاکٹر نے کہا گھر پررہے اور اگر کوئی تکلیف ہو تو فون پر معلوم کر لینا۔ ایاز اپنی بیوی فریدہ اور بیٹے ریاض ڈاکٹر کے یہاں سے رخصتی لے کر کے گھر واپس آتے ہیں۔ گھر میں ریاض کا اچھے سے خاص خیال رکھا گیا۔ ریاض میرے پاس آکر خوش خرم ہوگیا تھا۔ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے ریاض کو اچانک سے بخار آگیا۔ایاز اور اس کی بیوی نے ریاض کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے بجائے فون پر معلومات حاصل کرکے علاج کرنے لگے۔ ڈاکٹر کی ہدایت پر کام کیا گیا مگر ریاض کی طبیعت میں کوئی فرق نہیں ہوا۔اسی بخار میں رہنے کے باعث ریاض نے آخر کار دم توڑ دیا۔ریاض کی اچانک ہوئی موت نے سب کو چونکا دیا۔ریاض کی موت دماغی بخار سے ہوئی تھی مگر گھر گھر میں خبر پھیل گئی کہ ریاض کی موت اسی وبا سے ہوئی ہے گھر کے تمام افراد کو شک کی بنا کر کورن ٹائن کر دیا گیا۔ اس ننھے سے ریاض کی جانچ کی گئی اس کی موت دماغ تک بخار چڑھنے کے سبب ہوئی لیکن تب تک تو سب کچھ تھم چکا تھا گھر بکھر چکا تھا۔ اس گھر کی طرف بڑھنے والے سارے قدم تھم گئے۔اس ننھی سی جان کیا گئی سب کے تھم گئے قدم۔۔۔!
—–
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad

Share
Share
Share