اک منکرِ خدا کی دعا کی قبولیت کی کہانی :- ابنِ عاصی

Share
ابنِ عاصی

مائیکروفکشن
اک منکرِ خدا کی دعا کی قبولیت کی کہانی

ابنِ عاصی
جھنگ ۔ پاکستان

شہر میں عجیب سی وبا پھیل چکی تھی اور مرنے والوں کی تعداد میں روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔سارے طبیبوں،ویدوں اور دوادارو کرنے والوں نے ہاتھ کھڑے کر دئیے تھے۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آرہا تھا۔ہر طرف خوف اور پریشانی کا دور دورہ تھا۔

ایسے میں کسی بزرگ نے مشور دیا کہ شہر کی قدیم پہاڑی کے پاس جاکرسب مذاہب کے لوگ اپنے اپنے عقیدے اور رواج کے مطابق اپنے اپنے خدا سے اس وبا سے نجات کی دعا کریں۔
مقررہ روز سب مذاہب کے ماننے والے شہر کی قدیم پہاڑی کے پاس پہنچ گئے۔
مشورہ دینے والے بزرگ نے کہا
جب اور جس کی دعا قبول ہوگی،سامنے پہاڑی پر سے سرخ روشنی نکل کر شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔جو دعا کی قبولیت کی علامت ہوگی۔
سب مذاہب سے ایک ایک نمائندے کو آگے آکر اپنے اپنے خدا سے دعا کے لئے کہا گیا۔باری باری ہر کوئی آتا اور دعا کرتا لیکن پہاڑی پر سرخ روشنی کا دور دور تک کوئی نام و نشان بھی نظر نہ آیا۔۔۔۔۔۔سب مایوس ہو کر واپس گھروں کی طرف لوٹنے لگے تو کیا دیکھا کہ ہجوم میں شہر کا سب سے بڑا خدا کا منکر بھی موجود ہے۔
سب نے سوچا کہ خداؤں نے تو مایوس کردیا ہے اب کیوں نہ اس منکرِ خدا سے کہا جائے کہ وہ ہی کچھ کرے۔
منکر نے سب کی بات سن کر زوردار قہقہہ لگایا اور کہا
لیکن میں تو کسی خدا کو مانتا ہی نہیں ہوں،میں کس سے درخواست کروں؟کس کے آگے ہاتھ پھیلاؤں؟
مشور دینے والے بزرگ آگے بڑھے اور کہا
اس شہر کے لوگ تیزی سے مررہے ہیں۔تمہیں خدا سے یقینا کوئی ہمدردی اور دلچسپی نہیں ہے لیکن کیا تمہیں اپنے ہم جنسوں کی بھی فکر نہیں ہے؟ان سے بھی لاتعلق ہوچکے ہو؟اب سب کی نظریں تم پر لگی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔واحد امید بن چکے ہو تم سب کی۔
پھر سب ہی مذاہب کے لوگوں نے اس منکرِ خد کی منتیں کرنا شروع کردیں تو وہ عجیب سی ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوگیااور چند لمحوں بعد پھر دھیرے سے بولا
ٹھیک ہے۔۔۔۔۔میں دعا مانگوں گا لیکن کس سے؟ یہ مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے۔
تم دعا مانگو۔۔۔۔۔بزرگ نے کہا۔۔۔۔۔کسی سے بھی مانگو۔۔۔۔لیکن مانگو ضرور۔۔۔۔ہوسکتا ہے تمہاری ہی دعا مانگنے کا کہیں انتظار ہورہا ہو۔
اور پھر سب کے بے حد اصرار پر اس منکرِ خدا نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے اور عین اسی وقت سامنے موجود قدیم پہاڑی پر سے سرخ روشنی کا ایک بڑا سا دائرہ نمودار ہوا اور اس نے آہستہ آہستہ اس وبا میں گھرے سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

Share
Share
Share