ادب کا اطلاق اور ادبی معیارات :- پروفیسر مجید بیدار

Share
پروفیسر مجید بیدار

ادب کا اطلاق اور ادبی معیارات

پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبہ اردو،
جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد

کسی بھی زبان کے نثری اور شعری اظہار میں ادب کی نمائندہ خصوصیات کو شامل کرنا بلا شبہ ادب کے نکھار کا ضامن ہوتا ہے۔ لازمی ہے کہ اخبارکی خبر یا کسی حادثہ کی رپورٹ کو اد ب کا ذریعہ قرار دیا نہیں جاسکتا۔ اس کے علاوہ صحافت سے متعلق بے شمار تحریریں بھی ادب کے دائرہ میں شامل نہیں کی جاسکتیں‘

اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ادب کا اطلاق ایسی ہی تحریروں پر ہوتا ہے جو زبان و بیان اور اظہار کی خوبیوں اور تخلیقی خصوصیتوں سے وابستہ ہوتی ہیں۔لازمی ہے کہ کسی بھی ادبی تحریر میں تشبیہہ‘استعارہ‘ محاورہ اور فن اور تکنیک کی خصوصیات کا شامل ہونا ضروری ہے۔ اگر ان ضرورتوں کی تکمیل کے بغیر صرف اخباری زبان کو بنیاد کا درجہ دے کر اطلاع بہم پہنچانے کی روش کو فروغ دیا جائے تو ایسی لکھی ہوئی تحریر کو ادب میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔سماجی حقیقتوں اور زندگی کی اونچ نیچ کے علاوہ احساسات اور تجربات کے بیان کے لئے ادب کا استعمال کیاجاتا ہے جس کے ذریعہ شاعر‘ادیب نہ صرف صنائع و بدائع کا استعمال کرتا ہے‘ بلکہ تحریر کو ادبی وقار کی حیثیت سے نمایاں کرنے کے لئے فکر اور وجدان کو کام میں لاتا ہے۔تب ہی کوئی تحریر ادب کے دائرہ میں داخل ہوتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی ترسیلی زبان کو ادب کی نمائندہ صلاحیت میں شمار نہیں کیاجاسکتا کیونکہ ادب کا مقصد صرف ترسیل ہی نہیں‘ بلکہ ترسیل کے ساتھ ساتھ اظہارمیں تمام ادبی اور فنی محاسن کو شامل کرنا ضروری ہوتاہے اور اگر کسی تحریر یا شعری فکر میں زبان و بیان اور اظہار کی خوبیوں کو شامل نہ کیا جائے تو ایسے فن پارے کو ادب کا حصہ قرار دینا ممکن نہیں ہے۔عام طو رپر عربی اور فارسی تراکیب کے علاوہ دور اذکار تشبیہات کے ساتھ ساتھ مبہم اور غیر واضح تحریر کو اظہار کا ذریعہ بنایا جائے تو اس اندازکو بھی ادب کے دائرہ میں شامل نہیں ہوکیا جاتا‘بلکہ ادب کا اطلاق صرف ان تحریروں کے لئے مخصوص ہے‘جن میں جدت پسندی‘ نیرنگی‘ ایجادی صلاحیت اور زبان و بیان کی ہنرمندی کو شامل کیا جائے۔ اس اعتبار سے ادبی تحریروں میں نہ صرف تسلسل و تواتر برقرار رہتا ہے‘ بلکہ ابتداء سے آخر تک ہر ادبی تحریر کو اس طرح محسوس کیا جاسکتا ہے جیسے ایک لڑی میں پھولو ں کو پرودیا گیا ہے۔اس کااطلاق نثر پر ہی نہیں‘ بلکہ شاعری پر بھی ہوتا ہے۔جب تک نثر کے جملوں اور فقروں اور شاعری کے اشعار اور اصناف کے دوران شامل ہونے والی لفظیات میں باہمی ربط قائم نہیں ہوگا۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایسی نثر اور شاعری کو ادب کے دائرہ میں قبول کردیاجائے۔ نثر کے مقابلہ میں شاعری کے لئے زیادہ پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔نثر کا اطلاق ایسی تمام تحریروں پر ہوگا جس میں علمی‘ ادبی‘ فنی اور تکنیکی خصوصیات کا استعمال قواعد کی رو سے کیا جائے ۔ اس کے بجائے شاعری کے دوران نہ صرف شاعر کو وزن‘ بحر‘ قافیہ‘ ردیف اور زبان کے فطری وسیلو ں کو استعمال کرنا پڑے گا‘ بلکہ اس کے ساتھ ہی شاعرانہ مزاج اور فکر کی نمائندگی بھی ضروری ہے ورنہ شعر کسی بھی اعتبار سے شاعری کا وسیلہ نہیں‘ بلکہ غیر شاعری کا نمونہ بن جائے گا۔اس خصوص میں صنائع و بدائع ہی نہیں‘ بلکہ علم عروض کی خصوصیات اور ہر لفظ کے آہنگ سے وابستہ ہوتے ہوئے شعری اوزان سے واقفیت ضروری ہے۔تب کسی شاعری کو ادب کے دائرہ میں شامل کیا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ ادب کے توسط سے کسی بھی نثر اور شاعری کا جائزہ لینا بالکلیہ ایسا ہے‘جیسے کوئی شخص تجربہ گاہ میں کسی وجود کو تحلیل کرکے اس کے مختلف اجزاء کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی طرح ہر ادبی تحریر یا پھر شاعری میں ادبی خصوصیات کو محسوس کرنا اور ان کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے اس کے متعلقات پر روشنی ڈالنا درحقیقت ادب کے اطلاق کی ایسی نشانی ہے کہ جس کی وجہ سے ادبی خصوصیات جلوہ گر ہوتی ہیں۔
ادب کیا ہے اورادب کی خصوصیات میں کن عوامل کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اگراس بارے میں غورکیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ انسانی زندگی اور اس کے مسائل ہی نہیں‘ بلکہ تجربات اور احساسا ت کے علاوہ تخئیلات کو زبان اوراظہار کی بندش میں اس طرح پیوست کرنا کہ اس کے توسط سے نہ صرف اس میں حسن پیدا ہو‘ بلکہ پڑھنے والے کو مسرت کے ساتھ بصیرت بھی حاصل ہو تو ایسی تحریریں یا شاعری جن میں ربط و تسلسل کے ساتھ ساتھ زندگی کی سرگرمیاں اور ادب کی بے شمار خوبیاں شامل ہوجائیں تو ایسی تحریر یا شاعری کو ادب میں شامل کیا جاتا ہے اور ان میں شامل محاسن پر غور کرنے کا عمل بلا شبہ ادب کے اطلاق کا وسیلہ بن جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی کتاب میں لکھی ہوئی تحریر‘ کیمیا اور طبعیات کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر‘حساب‘ جغرافیہ کے علاوہ طب اور قانون کی کتابوں میں لکھی ہوئی زبان کو کسی بھی اعتبار سے ادبی زبان کا درجہ نہیں دیا جاسکتا‘ کیونکہ اس زبان کے ذریعہ کسی بھی عمل‘رویہ یا پھر وجود کی تشریح کا کام انجام دیا جاتا ہے۔ ان مضامین میں تشریح اور وضاحت کا عمل ضرور کار فرما ہے۔لیکن ادبی محاسن کا انداز شاید نہ ہونے کی وجہ سے ایسی تحریروں کو ادب کا حصہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔اس کے بجائے وہ تمام تحریریں جن میں تخلیق کا عنصر شامل ہوتا ہے اور شاعر یا نثر نگار زبان و بیان اور پیشکش کی خوبصورتی اور بے ساختگی کے علاوہ صنف اور فن کی خصوصیت کو شامل کرتا ہے تو پھر اس قسم کی تحریر پر ہی ادب کا اطلاق ممکن ہے۔ عصر حاضر میں یہ بحث غورطلب ہے کہ ادب کیا ہے اور کن عوامل کے شامل ہوجانے سے کسی تحریر کو غیرادب میں شامل کیاجائے گا۔ اس خصوص میں کسی قسم کی بحث کے بجائے اس حقیقت پر غور کرنا ضروری ہے کہ ترسیل اور وضاحت کی خصوصیات سے وابستہ تحریروں کو ادب کی حیثیت سے پیش نہیں کیا جاسکتا۔جبکہ اظہار اور پیشکش کی جبلی اور تخلیقی خصوصیات کو پیش نظر رکھ کر لکھی جانے والی نثری اور شعری خصوصیات کو ادب میں شامل کیا جاتا ہے۔ادب کے ذریعہ زندگی کی قربت ہی نہیں‘ بلکہ انسان کی زندگی کے ہر عمل کی نشاندہی مکمل طور پر تخلیقی انداز سے کی جاتی ہے۔بعض اوقات تخلیق کے بجائے تقلید کا رویہ بھی شامل ہوجاتا ہے۔ اس خصوص میں ادب کے تمام ضروری وسائل کو پیش نظر رکھنا اور زبان کی صحت کے ساتھ ساتھ اہل زبان کے اصولوں پر لب ولہجہ کی بھرپور نمائندگی کی طرف توجہ دینا ہی ادب کی خصوصات میں شامل ہے۔تاہم کوئی بھی ادب اپنے زمانے کے بجائے سابقہ زمانے کی نمائندگی کا علمبردار ہو تو اسے اد ب کا حصہ ضرورقرار دیا جائے گا‘ لیکن ان کا شمار کلاسیکی ادب میں ہوگا۔تاہم یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ آج کے دور کے ادیب یا شاعر کو آج کے دور کی فطری خصوصیات اور انسانی ضروریات سے وابستہ انداز کو بیان کرنا پڑے گا۔ دو سو سال یا اس سے زیادہ عرصہ پہلے کی زبان میں کوئی تحریر پیش کردی جائے یا کوئی شعری نمونہ منظر عام پر لایاجائے جو روایتی انداز سے مربوط ہو تو تو ایسی ادبی تحریر میں عصری خصوصیت کی حامل نہیں قرار دی جائے گی جس کی وجہ سے اس کا شمار ادب کے عصری رحجان میں نہیں کیاجاسکتا۔ اسی لئے ادب لکھنے کے لئے اپنے دور اور عہد کے سماج اور طرزمعاشرت کے علاوہ طرز زندگی کے ساتھ ساتھ تمام عملی خصوصیات کو بھی سماجی پس منظر میں غور کرنا ضروری ہے۔۔ اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی ادیب یا شاعر سارے معاشرہ کو اکیسویں صدی کا ظاہر کرتے ہوئے گھر میں ٹی وی‘ فریج‘سیل اور فون کا وجود ضرور بتادے لیکن گھرکی روشنی کے لئے لال ٹین اور چراغ کے استعمال کا سہارا لے تو بلا شبہ ایسی نمائندگی ادب کے مطابق نہیں قرار دی جائے گی۔کیونکہ موجودہ دور میں موجود ضروریات زندگی کا حصہ روشنی کے طو رپر لائٹ اور بلب سے مربوط ہے۔ اس لئے ادب کی نمائندگی کے لئے ہر شاعر اورادیب کو اس کے اپنے زمانے اور اسی کے ساتھ تخلیق کی نمائندگی کی طرف توجہ دینا ضروری ہے‘ تب ہی کسی تحریر کو اد ب کے دائرہ میں شما رکیا جاسکتا ہے۔
ادبی تحریر بلا شبہ ادبی معیارات کے بغیرمکمل نہیں ہوتی۔ ادب کا معیار نہ صرف اظہار سے قائم ہوتا ہے‘ بلکہ تحریر کے علاوہ تخلیق کی خصوصیت اور اس کی صنفی تکنیک سے مربوط ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہرادب تحریر کرنے والا نہ صرف شعری و نثری اعتبار سے کسی نہ کسی صنف کی نمائندگی کی طرف توجہ دیتاہے‘ بلکہ اس کے ساتھ ہی تخلیقی سطح پر جدت طرازی‘ندرت‘انوکھا پن اور ایجادی صلاحیتوں کے کارفرما ہونے کی وجہ سے بھی ادب میں خوبی پیدا ہوتی ہے۔بعض اوقات تکنیکی تجربے بھی مددگارثابت ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کسی نئی تکنیک کی ایجاد بھی ممکن ہے۔دنیا کے ادبیات میں اہم شعری و نثری اصناف میں جہاں مشرقی شعریات اور مشرقی اصناف کو اہمیت حاصل ہے‘وہیں مغربی شعریات اور مغربی شعری و نثری اصناف کو بھی استحکام کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔اگر کوئی ادبی اصناف کی نمائندگی کرتے ہوئے مشرقی زبانو ں کے اصناف جیسے مثنوی‘ مرثیہ‘ قصیدہ‘ رباعی‘ غزل‘ شہر آشوب اورریختی کی طرف مائل ہے تو بلا شبہ تخلیق کار کے رحجان کو مشرقی اندازکا نمائندہ قرار دیا جائے گا۔اس کے بجائے سانیٹ‘ ترائیلے‘ ہائیکو‘گیت‘ دوہے اور نظم کے انداز کو اختیار کیاجائے تو اس قسم کی شعری اصناف کو مغربی شعری اصناف کادرجہ دیاجائے گا۔نثری اصناف میں داستاں کو مشرقی نثری صنف کا درجہ حاصل ہے جبکہ ناول‘ افسانہ‘ ڈرامااورناولٹ کو مغربی نثری اصناف کی حیثیت سے اہمیت حاصل ہوتی ہے۔غیر افسانوی نثرکی بیشتر اصناف مغربی انداز کی نمائندگی کرتی ہیں جبکہ تذکرہ‘ سوانح‘سفر نامہ اور آپ بیتی جیسی اصناف کا بلا شبہ مشرقی غیر افسانوی نثر سے وابستہ ہیں‘ اس کے بجائے رپورتاشخاکہ‘ خود نوشت سوانح‘ تبصرہ‘ پیش لفظ‘دیباچہ‘ تحقیق‘ تنقید اورمضمون کے علاوہ انشائیہ کی غیر افسانوی اصناف پر توجہ دی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان غیرافسانوی اصناف کاتعلق مغربی ادبیات سے حد درجہ گہرا ہے۔موجودہ دور میں دنیاکی ہر زبان کی ادبی خصوصیات اورادبی معیارات کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوروپی زبانوں سے استفادہ میں تمام دنیا کی زبانیں نہ صرف استفادہ کے دور سے گذر رہی ہیں‘ بلکہ مکمل طور پریوروپی اثرات کو قبول کرنے پر مجبوربھی ہیں۔چنانچہ برصغیر ہی نہیں‘ بلکہ تمام تر براعظم ایشیاء کی زبانو ں پر سب سے زیادہ انگریزی ادبیات کا اثر نمایاں ہوتاجائئے ہے جس کے بعد فرانسیسی‘ جرمنی اور روسی زبانوں کے اثرات سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔غرض ادب کا اطلاق اور ادبی معیارات کی چھان بین کے لئے کسی زمانے میں ہندوستان میں پیدا ہونے والی اردو زبان کے رابطہ کو عربی‘ فارسی اور ترکی زبان سے استفادہ کا موقع حاصل ہوا تھا۔لیکن اب اردو زبان عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کرنے کے بعد ہندی زبان سے نہ صرف دوہا‘ گیت اور پہیلیوں کے علاوہ کہہ مکرنیوں سے استفادہ پر مجبور ہے‘ بلکہ پنجابی زبان کے ماہیاکا اثر بھی اردو کی ادبی اصناف میں شامل ہے‘ بلکہ جاپانی زبان کے ہائیکو اور ٹنکاکا اثر بھی اردو زبان کی شعری ہئیت میں نمایاں ہوتا جارہا ہے۔اس طرح یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اردو زبان اگرچہ ہندوستان کی سرزمین کی پروردہ ہے‘لیکن اس زبان نے عالمی سطح پر موجود مختلف زبانوں کے ادبیات کی اصناف سے استفادہ کیا ہے‘ اس لئے اردو زبان کو ایک عالمگیر زبان ہی نہیں‘ بلکہ عالمی سطح پر مشہور زبانوں کی اصناف سے استفادہ کرنے والی زبان اور اس کے ادب کی نمائندگی کرنے والی اہم ادبی خصوصیت کی حیثیت سے اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔اس لئے اردو ادب پر عالمی ادبی اصولوں کے علاوہ شعری و نثری معیارات کا اطلاق بھی جاری ہے‘ چنانچہ اردو ادب رہ اچھے معیار کو قبول کرنے اور ناپسند معیار کو ترک کرکے ادب کی موجودہ صورت گری کا حق ادا کررہا ہے۔

Share
Share
Share