کرونا عذاب ‘ وائرس یا بزنس :- یس۔ یم۔ نعیم اللہ ظہوری

Share
یس۔ یم۔ نعیم اللہ ظہوری

کرونا عذاب ‘ وائرس یا بزنس

 

یس۔ یم۔ نعیم اللہ ظہوری
پی ہچ ڈی اسکالر،مدراس یونیورسٹی، ٹمل ناڈو۔

اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا اظہا ر کچھ اس طرح سے کر رہا ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی ہر ٹکنالوجی اور مڈکل سائنس عاجز ہیں،قادر مطلق کے سامنے گھٹنے ٹیک کراپنی بے بسی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ جو ممالک دنیا کے سامنے سوپر پاوربن بیٹھے ہیں وہ بھی ایک پاورفل وائرس کا مقابلہ کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے۔

ٹکنالوجی کی حد زمین سے لیکر افلاک تک پہنچ گئی کونسے سیارے میں کیا ہے اورچاند میں کیا ہے کھوج کربتانے پر قادر ہے وہ کرونا وائرس کے وجہ تخلیق سے کیوں ناواقف ہے۔صرف اتنا پتہ ہے کہ یہ چین کاایک شہر وہان کے بازار سے شروع ہوا،اس پر مختلف آراء پیش کئے گئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ وائرس لیبریٹری میں ایک ٹیشٹ کے دوران شروع ہوا، کوئی کہتا ہیکہ چمکاڈر کے تناؤل سے کوئی بتا رہا ہے کہ یہ انسان اور جانور کے اختلاط سے پھیلا۔ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر میکل بیکر جو چمکا ڈر میں وائرس پر رسرچ کیا ہے،ان کا کہنا ہیکہ”در حقیقت ہمیں اس کا صحیح علم نہیں کہ یہ وائرس کہاں سے شروع ہوا بس اتنا جانتے ہیں کہ یہ وہان شہر کا ایک جانور کے مارکٹ سے شروع ہوا ہم اس کا انداذہ کر سکتے ہیں، لیکن وہ بہت جلد اس کا صفایہ کر دئے“۔(27-Apr-The guardian)
مڈکل سائنس اتنی طرقی کر گئی ہیکہ انسان کے رگ رگ سے واقف ہے،لیکن کرونا کو شروع ہوے چھہ ماہ سے زائد ہو چکے ابھی تک اس کی واکسن نا بن سکی، ان باتوں سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کوئی آم بیماری نہیں ہے یہ اللہ کا قہر وغضب ہے،ایسا لگ رہا ہے کہ اللہ تعا لیٰ قیامت کا اک جھلک دکھارہا ہے جس کو قرآن یوں بیان کیا ہے ”لمن الملک الیوم۔ للہ الواحد القھار۔ آج کس کی بادشاہت ہے سوائے اس اکیلا غالب اللہ کے“ اور ہمیں اس وائرس سے لڑنا نہیں ہے جیسا بار بار بتایا جارہاہے،بلکہ اللہ کے سامنے آجزی و انکساری کے ساتھ گڑگڑانا ہے تاکہ اس کی دواء جلد بن جائے اور یہ پوری دینا سے ختم ہو جائے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ: ”جو انسان عاجزی و انکساری کر تا ہے اللہ اسے بلندی عطا کرتاہے اور جو تکبر کرتا ہے اسے زلیل و رسوا کر تا ہے“۔سیاق میں بتا ئے گئے جملوں پر غور کرنا ضروری ہے آج ٹکنالوجی آسمان چھورہی ہے مڈکل سائنس عروج پر ہے عربوں روپیہ ہے سب کچھ ہو نے کے باوجودکچھ بھی نہیں کر سکتے ہر کوئی بے بس ولاچار نظر آرہاہے۔
احتیاط بہت ضروری ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا،کسی سے ہاتھ نہ ملانا، ایک میٹر کافاصلہ رہنا جب بھی فون لگائیں یہی سنائی دیتا ہے کہیں لوگ ایک دوسرے سے نہ ملے اس وجہ سے تالا بندی پڑگیا، اطباء کا کہنا ہیکہ نوٹ میں دودھ کے پیکتس میں یہاں تک کہ اخباروں میں بھی ۲۷ گھنٹے وائرس رہنے کے امکانات ہیں۔ جب وائرس کو پھیلنا ہی ہے تو وہ ہر راستے سے پھیلے گا صرف انسانوں سے ہی کیوں جانوروں سے بھی پھیلے گا جبکہ وہ جانوروں سے ہی شروع ہوا ہے وائرس کو اس بات کی سمجھ ہے یا پھر وہ جانوروں سے نہ صرف اور صرف انسانوں کو ہی اپنا نشانا بنا سکتا ہے۔
کیا کرونا سے ہی انسان مر سکتا ہے کسی اور ذیعہ سے مرا تو وہ موت نہیں ہے، ہندوستان میں ہونے والے کچھ اموات کی داستان سنے؛
ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ”2017 آنکڈے کے مطابق ہندوستان میں آپسی دشمنی سے 67,774 لوگ مارے گئے، زمین و جائداد کے معاملے میں 51,554مرگئے اور محبت کے معاملے میں 41,412مارے گئے۔18-Nov-TOI))
NCRB نیشنل کرائم رکارڈبیورو جو کرئم رپورٹ اپنے ویب سائٹ میں ہر سال جمع کرتا ہے وہ دوسال بعد ایک رپورت جاری کیا ہے، جس میں بتا یا گیا ہیکہ”ہندوستان میں ہر ۵۱ منٹ کو عورتوں کے ساتھ بلاتکارہوتا رہتا ہے، NCRB نے یہ ڈیٹا دو سال بعد جاری کیا اور وہ بھی ادھور ا بہت کچھ ڈیٹا چھوٹ گیا ہے۔ (15-Jan-2020,Asian times)
یہی نہیں ہر سال کسان کتنے مرتے ہیں،راستے میں ہادسات سے کتنوں کی جان جاتی ہے،دنگے فساد سے جا ن ومال کا نقصان ہو تا ہے اور جو لوگ ایک ایک روپیہ تھوڑا تھوڑا کر کے بینک میں جمع کیا تھا اس کو لٹیروں نے لوٹ کر ودیش بھاگ گئے۔سا لوں سال گزرگئے آج تک نہ وہ لٹیرے پکڑا گئے نہ ہی وہ روپیہ واپس آیا۔تالا بندی میں بھوک سے کئی موت کا نوالا بن گئے۔’د ا ہندواخبار‘ کے مطابق ان دنوں بارہ کروڑلوگوں نے روزگار کھودیا ہے۔انسان صرف کرونا سے ہی نہیں مرتا، کوئی اپنا روزگار کھویا کوئی اپنی عزت وآبورو تو کوئی اپناروپیہ جو اپنے چھوٹے چھوٹے سپنو ں کو پورا کر نے کیلئے جمع کیا تھا، کرونا سے تو ایک یا چند دن میں مرجائے گا مگر اپنا مال کاروبار،روزی روٹی کھو کر روز مرتا رہے گا یہ سب ایک زندہ لاش بن کررہ جائیگے،ان لوگوں کیلئے کیا کیا اخدامات اٹھائے گئے اور کتنوں نے فنڈ دئے ہیں۔
ہمیں کبھی کبھی میڈیا سے بھی آگے سوچناہو گا،تالا بندی کا دوسرا رخ پر بھی نظر ڈالنا ہوگا،تالا بندی سے روزی کا چھوٹے بڑے کاروبار کا ووعظیم نقصان سے عوام مصیبت و پریشانی جھیل رہی ہے اور کہتے ہیں کہ ہندوستان بیس سال پیچھے چلا گیا،یہ اس کا ظاہری رخ تو اس سکے کا دوسرا رخ پر نظر ڈالیں توانسانی عقل دنگ رہ جائے گی در حقیقت انٹرنیشنل مارکیٹنگ ہو رہی ہے،جس جگہ سے ساری دینا میں کرونا کی وباء پھیلی آج وہی ملک وائرس سے بچاؤکے تمام سامان پوری دینا کو روانا (Export) کر ریا ہے، انسان آنے سے وائرس پھیل سکتا ہے لیکن سامان آنے سے نہیں پھیلے گا، کیا ہی عجیب بات ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ”ہندوستا ن کے سفیر وکرم مسری نے بتا یا کہ15 ملین PPEاور3 ملین COVID-19کے ٹسٹینگ کٹس (Testing Kits)ہندوستان کی سرکار نے چین سے خریدا ہے اور اس کے علاوہ ہزاروں ونٹلیٹرس(Ventilators) پورے گیارہ قسم کے اشیاء نہ صرف سرکار کو بلکہ دوسری نجی کمپنی بھی چین سے خریدا گیا اور ہندوستان بھی drug’ ”Anti Malaria ‘hydroxycloroquine’ اور کئی مڈسن امریکہ، اسرائل،افریقہ وغیرہ ممالک کوبھیج رہاہے۔
"14-Apr-2020,Economic times”
چین پچاس سے زائد ممالک کو اپنی اشیاء بھیج کر عربوں روپیہ حاصل کر رہا ہے، ہندوستان مڈسن بیچ کر اور COVID Fund کے نام سے اربوں روپیہ جمع کر ریا ہے،کہنے کو تو ہندوستان بیس سال پیچھے ہو گیا در اصل حکومت بیس،تیس سال آگے نکل گئی۔ بے چارہ غریب کیلئے اپنے ہی وطن میں اپنے گھر جانے کیلئے کوئی انتظام نہیں کوئی سوؤں میل چل کر اپنی جان کھو دیتا ہے اور مالدار کیلئے ہوائی جہاز سے اپنے وطن آنے کے سارے انتظام ہو سکتے ہیں، اسکول، کالج،یونورسٹی یہاں تک کہ مساجد اور تمام عبادت گاہیں اس لئے بند کر ئے کیوں نکہ لوگ ایک جگہ جمع ہو نے سے وباء پھیلنے کے امکانات ہیں مگر شراب کے اڈے کو کھول دئے گئے وہاں جمع ہو نے سے وائرس پھیل نے کا کوئی خوف نہیں،وہ اس لئے کہ کرونا نے رندوں کے ساتھ سمجھوتا کر لیا ہے کہ ’بھائی اگر چہ کہ تم بغیر دانت صاف کئے ہاتھ منہ دھوئے شراب خریدنے آجاؤاور ایک ہی جگہ ہزاروں کی بھیڑ جم جاؤ تو تمہیں وائرس چھوبھی نہ سکے گا، ہا ں اگر مسلمان پاک و صاف ہو کر اچھی طرح سے تین تین بار اپنا ہاتھ منہ ناک چہرہ اور پیر دھوکر مسجد میں جمع ہو جائے تو اسے وائرس پھیلنے کے پورے پورے امکانات ہیں“،آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے، یہ انسان کے روزی روٹی کے ساتھ اس کے مذہب کے ساتھ اس کے احساسات سے اور اس کے جزبات کے ساتھ کھلواڑ نہیں تو کیا۔
رندان شراب محرم کیلئے اڈے کھول دئے
رندان شراب توحید کیلئے مسجد جانا منع ہے

Share
Share
Share