کالم : بزمِ درویش – انسان کے روپ :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
انسان کے روپ

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

تنویر میرے سامنے کھڑا تھا اُس کی غیر متوقع آمد میرے لیے حیران کن تھی مجھے دیکھتے ہی وہ شرمندہ لہجے میں بو لا سر میں بہت شرمندہ ہوں اتنی تیز گرمی میں آپ کو تنگ کر نے آگیا ہوں‘ ملتان سے لاہور آیا تو بہت جی چاہا آپ کو دیکھتا جاؤں میر ابھکاری والا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا‘ تنویر کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ خوشی اور خدا یاد آجاتا تھا

میں زندگی میں اکثر لوگوں کو کہتاسنتا ہوں کہ میں خدا کا نور دیکھنا چاہتا ہوں تو میں اُن سے ہمیشہ کہتا ہوں کہ جب بھی خدا کافضل ہو‘کرم ہو‘بیماری سے شفا ملے‘بہت بڑی خوشی ملے‘زندگی میں ا ٓسانی پیدا ہو تو سمجھ لو یہی خدا کا نور ہے‘ تنویر خدا کے نور کی شکل میں میرے سامنے تھا میں نے اُس کو ساتھ لیا اور آکر اپنے کمرے میں بیٹھ گیا فوری طور پر جا کر سکنجبین کا جگ اور گلاس لا کر رکھ دئیے‘اُس کی گرمی کے توڑ کے لیے ٹھنڈے آلو بخارے کا باؤل بھی لا کر سامنے رکھ دیا ساتھ ہی اُس کو آفر کی اگر تم نہانا چاہو تو سامنے واش روم حاضر ہے تو وہ بولا نہیں سر ٹھنڈے پانی اور آپ کی طلب تھی اب جب آپ دونوں میسر ہیں تو چند گھڑیا ں آپ کی قربت میں گزار کر واپس ملتان چلا جاؤں گا‘ مجھے تنویر اپنے سامنے جیتا جاگتا صحت منددیکھ کر بہت اچھا لگ رہا تھا کچھ لوگ آپ کو ناگوار نہیں گزرتے وہ انتہائی ملائم خاموش عاجز ہوتے ہیں کہ آپ کی ذات میں مخل نہیں ہوتے بلکہ آپ کے ساتھ آسانی سے ایڈ جسٹ کر جاتے ہیں‘ تنویر بھی ایسا ہی تھا حالانکہ پہلی بار جب یہ آیا تو غصے میں تھا لیکن وہ غصہ جائز تھا کینسر کی بیماری نے اُس کے اعصاب کو توڑ کر ڈپریشن ہیجان میں مبتلا کر دیا تھا تنویر نے دو تین میٹھی نمکین سکنجبین کے گلاس حلق سے اتارے تو میں نے آلو بخارے سامنے کر دئیے مجھے اُس کی خدمت اور قربت اچھی لگ رہی تھی آج بھی اِس سے پہلی ملاقات یادتھی جب دو سال پہلے یہ میرے پاس آیا تھا میں حسب معمول اپنے دفتر میں آنے والے سائلین سے مل رہا تھا کافی لوگ آئے ہوئے تھے مری سے بیس کے قریب لوگ ویگن بھر کر آئے تھے جب ایک ہی گروپ بہت زیادہ تعداد میں آجائے چند خاندان مل کر آجائیں تو اُن سب کو فارغ کر یں تو وہ جاتے ہیں ورنہ دوسروں کے انتظار میں بیٹھ کر رش پیدا کر تے ہیں اُس دن بھی یہی حال تھا پانچ چھ خاندانوں نے ویگن بک کر الی اور میرے آفس ہلا بول دیا اب میں اِس جتھے کے علاوہ بھی کچھ لوگ آئے ہو ئے تھے میں مری کے گروپ کو بار ی باری فارغ کر نے کے چکر میں تھا ایک خاندان نے میرے پاس بینچ پر آکر اپنے مسائل سنانے شروع کیے میں اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اُن کے سوالوں کے روحانی جواب دے رہا تھا‘ تنویر بھی اُس دن آیا ہوا تھا پریشانی اورلاعلاج بیماری میں مبتلا تھا کسی نے میرا بتا یا تو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مُجھ سے ملنے آگیا اب اِس کی پریشانی بیماری بہت شدید تھی یہ شدید خوف پریشانی تکلیف میں تھا اِس لیے فوری طور پر مُجھ سے ملنا چاہتا تھا اب جب ایک خاندان اپنی تسلی کر کے اٹھتا تو یہ بیچارہ بے صبری سے آگے بڑھتا کہ اب مجھے باری دیں تو میں اِس کو اشارے سے روک دیتا اِسی دوران مری کے گروپ سے آکر دوسرا خاندان بیٹھ جاتا اب میں اُن کے ساتھ مصروف ہو جاتا اب یہ بیچارہ بے چینی بے صبری میں انتطار کی سولی پر لٹک جاتا اب اِس انتظا ر میں کہ جب یہ خاندان اٹھے گا تو میں بڑھ کر باری لوں گا پھر پروفیسر صاحب مجھے خود ہی اشارہ کر کے اپنے پاس بلا لیں گے۔جب میں کسی دوسرے کے ساتھ مصروف ہو جاتا تو یہ بے چینی بے قراری مایوسی ڈپریشن میں ادھر اُدھر ٹہلنا شروع کر دیتا کبھی مسلسل ہر کسی سے باتیں کر نا شروع کر دیتا کبھی ہاتھ پکڑی فائل میں کاغذات کو الٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کر دیتا کبھی میری طرف آنے کی کو شش کر تا لیکن لوگوں کو میرے پاس بیٹھا دیکھ کر راستے سے ہی مڑ جاتا میں نے اِس بیچارے کو نوٹس کر نا شروع کر دیا تھا کہ یہ نوجوان کسی ذہنی پریشانی میں مبتلا ہے میں روٹین کا عشق والا مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کر رہا تھا یا پھر نو کری وغیرہ‘نوجوانوں کو یہ دومسئلے ہی ہوں تو پیروں بابوں کے پاس لے کر جاتے ہیں ورنہ جوانی کے نشے میں انسان اپنے ہی نشے میں جوانی کے جھولے جھولتا ہے اُس کو کسی کی کو ئی فکر نہیں ہو تی نہ ہی پریشانی کہ وہ جاکر کسی کے در پر انتظار کر ے‘جوان خون غصہ جوش انسان اِس عمر میں کسی کو خاطر میں بھی تو نہیں لاتا۔ جب میں نے اِس کے سامنے تیسرے خاندان کو دیکھنا شروع کیا تو تنویر کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا‘ تیزی سے میری طرف بڑھا اب اِس کی چال چہرے آنکھوں سے غصے کی نشریات جاری نظر آرہی تھی لیکن میرے بہت قریب آکر خود پر قابو پاتے ہو ئے واپس گیا کاغذ نکا لا اوراُس پر کچھ لکھنا شروع کر دیا میں اِس کے غصے اور اضطرابی حالت کو نوٹ کر رہا تھا میں سمجھ گیا تھا کہ اب یہ اپنا غصہ ڈپریشن اِس کاغذ پر نکالے گا پھریہ کاغذ مجھے یا کسی بندے کو دے کر چلا جائے گا لیکن اِس نے لکھا اور اُٹھ کر میری طرف آنا شروع کر دیا پھر میرے ہاتھ میں رقعہ دیا اور تھوڑی دیر جا کر میرے رد عمل کا انتظار کر نے لگا کہ میں کیا جواب دیتا ہوں‘ میں نے رقعہ پڑھا جس پر مختصر لکھا ہوا تھا سر میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ بہت مصروف ہیں آپ کے پاس مُجھ غریب بیمار کے لیے وقت نہیں ہے لیکن میرے پاس زندگی کا صرف ایک مہینہ بچا ہے جس میں مجھے بہت سارے کام کر نے ہیں کیا آپ باقی لوگوں کو چھوڑ کر جن کے پاس سالوں کی زندگیاں پڑی ہیں مجھے پہلے وقت دے سکتے ہیں میں مشکور ہوں گا۔وہ رقعہ مجھے دے کر میری طرف دیکھ رہا تھا میں اٹھا اور اُس کے پاس گیا میں نے فوری طور پر شفقت پیار ملنساری کا گیئر لگا لیا تھا جا کر اُس کے کندھے پر پیار سے ہاتھ رکھا اور بولا دیکھو بیٹا آپ کا مسئلہ تھوڑا سیریس لگ رہا ہے میں آپ کو اِن سب سے زیادہ وقت دینا چاہتا ہوں آپ صرف جا کر نماز پڑھ آئیں پھر ہم تفصیل سے ملتے ہیں میرے دوستانہ اور پیار بھرے روئیے سے اِس کے تنے اعصاب نارمل ہوئے اورغصہ تھوڑ ا کم ہواوہ یہ کہہ کر چلا گیا ٹھیک ہے سر میں نماز پڑھ کر آتا ہوں لیکن آپ نے مجھے آتے ہی باری دینی ہے میری تفصیل سے بات سننی ہے اُس کے جاتے ہی میں نے جلدی جلدی مری کے لوگوں کو فارغ کیا وہ نماز پڑھ کر واپس آیا تو اُس کو لے کر پیچھے سر سبز و شاداب گراؤ نڈ میں لے جا کر چہل قدمی کرتے ہو ئے کہا لو بیٹا اب آرام سے اپنی بات کرو تو وہ بولا سر موت کا سایہ میرے سر پر منڈلا رہا ہے مجھے دماغی رسولی کا کینسر ہے ڈاکٹروں نے کہا ہے یہ رسولی دماغ سے گردن سے ہوتی ہو ئی پھپھڑوں تک پہنچ رہی ہے ایک ماہ تک سانس کی نالی کو بند کردے گی اِسطرح میری زندگی کا چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھ جائے گا سر کاری ڈاکٹروں نے جواب دے دیا شوکت خانم والے آخری درجے کے کینسر والے مریضوں کو لیتے نہیں‘ پیسہ ہے نہیں اب آپ بتائیں آپ میری کیا مدد کر سکتے ہیں‘ آپ صدقہ کہیں تو میں یتیم اکلوتا بیٹا ہوں باپ ہے نہیں صرف ماں ہے‘فیکٹری میں جاب کرتا ہوں صدقہ خیرات نہیں کر سکتا وہ خوب بولتا رہا جب خوب بول چکا‘ اپنا غم ہلکا کر چکا تو میں بولا تم اکیلے نہیں آج سے تم میرے بھائی ہو تمہارے پاس پیسے نہیں کوئی بات نہیں اپنے محلے میں دو تین ایسے لاوارث یتیم بچے دیکھوں جو پڑھائی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تم ان کو گورنمنٹ کے سکول میں داخل کراؤ خود ان کو ٹیوشن پڑھاؤ جہاں مالی تنگی آئے مجھے بتا دینا پھر ہم دونوں نے بہت ساری باتیں کیں میں نے دم کیا اللہ کے نام اور قرآنی آیات پڑھنے کو دیں خوب امید حوصلہ دیا تو تنویر چلا گیا ایک ماہ بعد واپس آیا تو کہنے لگا میں نے سارے علاج بند کر دئیے اب دیکھی جائے گی جو ہو گا پھر تین ماہ بعد آیا تو مطمئن اور یقین میں تھا چھ ماہ گزر گئے تو ہماری دوستی ہو گئی ایک سال گزر گیا اُس کا جب دل کر تا میرے پاس آکر دل کی باتیں کر کے چلا جاتا آج دو سال ہو گئے بیماری اِس کے جسم میں ہے یا نہیں یہ خدا ہی جانتا ہے لیکن میں جب بھی تنویر کو دیکھتا ہو تو مجھے خدا کا نور نظر آتا ہے کہ خدا نے اِس پر کرم کر دیا میں نے آج پھر پوچھا تنویر پیسوں کی مالی مدد کی ضرورت ہے تو بتاؤ وہ ہمیشہ کی طرح بولا نہیں سر میں اتنا کما لیتا ہوں کہ اچھا گزارا ہو جاتا ہے پھر تنویر اٹھ کر چلا گیا تو میں سوچھنے لگا ایک طرف تنویر ہے جو صبر قناعت کی دولت سے مالا مال ہے بیمار ہو کر بھی پیسے نہیں لیتا دوسری طرف بلیک میلر بھکاری ہیں جو لوگوں کو ڈرا کر ان کو لوٹنے کا کام بد معاشی سے کر رہے ہیں۔

Share
Share
Share