حیدرآباد میں مساجد کا انہدام :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

حیدرآباد میں مساجد کا انہدام
کس کو الزام دیں کس سے منصفی چاہیں !

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ایک سو سال پرانی بات ہے۔ ملک میں انگریزوں کی حکو مت تھی۔ گوروں کے خلاف کچھ کہنا بغاوت کے زمرے میں آ تا تھا۔ سا مراج کا دبد بہ اپنی پوری آب و تاب پر تھا۔ ایسے میں ا گسٹ 1913میں کان پور میں مسجدِ مچھلی بازار کا خو نین حاد ثہ پیش آ تا ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ شہر میں ایک نئی سڑک نکالی جا رہی تھی۔

اس سے ایک مسجد کے وضو خانہ کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ حکومت سڑک سیدھی کر نے کے لئے مسجد کے وضو خانہ کو توڑ نا چاہتی تھی۔ شہر کے مسلمانوں نے اس کے خلاف زبردست احتجاج شروع کر دیا اور انگریز حکومت کے خلاف نفرت کا ایک ماحول بن گیا۔ مسلمان انگریز کی اس کاروائی کو روکنے کے لئے سڑکوں پر نکل آ ئے اور ایک جلسہ عام بھی رکھ دیا۔ اسی جلسہ عام میں علماء دین نے یہ جرات مندانہ فتویٰ بھی دے دیا کہ مو قوفہ زمین کو کسی دوسرے مقصد کے خا طر استعمال نہیں کیا جا سکتاہے۔ لیکن انگریز حکومت مسجد کے وضو خانہ کو توڑنے پر بضد رہی اور متولّی سے خفیہ ساز کر کے معا ملہ کو اپنے حق میں نمٹانا چاہا۔ یہ وقت وہ تھا جب ملک میں جدوجہدِ آزادی کی تحریک بھی زوروں پر چل رہی تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا طو طی بول رہا تھا۔ جب مولانا آزاد کو مسجد مچھلی بازار کان پور کے قضیہ کا علم ہوا تو انہوں نے جس ایمانی حرارت اور غیرتِ ملّی کا ثبوت دیتے ہوئے جو بیان دیا وہ تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھ دیا گیا۔ مولانا نے کہا۔۔۔
: مسجدوں کی بحث جب چھڑ تی ہے تو یہ صرف چند عمارتوں کا سوال نہیں ہوتابلکہ قومی عزّت و ذلّت اور دینی تذ لیل و تعظیم کا معا ملہ ہوتا ہے۔ ایک نظیر اگر آج قائم ہوتی ہے تو کل کے لئے اس کے دامن میں ہزاروں واقعات پنہاں ہوں گے۔ اس وقت مسجد کے وضو خا نے کا سوال ہے کس کو معلوم ہے کہ کل محراب و مبنر کو منہدم کر نے کی کوشش ہوگی۔ اگر مسجدیں ڈھا کر سڑ کیں نکالی جا سکتی ہیں تو پھر اقلیمِ ہند کے کسی شہر کی کسی مسجد کی زندگی بھی خطرے سے خالی نہیں : (حوالہ: ہفتہ وار الہلال، کلکتہ، جلد دوم شمارہ ۱۱۔۳۲/ جون ۳۱۹۱ ص ۵۹۳ )
مولانا ابوا لکلام آزاد نے جن اند یشوں کا اظہار دور ِ غلامی میں ایک صدی پہلے کر دیا تھا، ملک کی آ زادی کے بعد پے در پے مسجدوں کو ڈھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آزادی کے فوری بعد بابری مسجد کا تنازعہ کھڑا کیا گیا۔ ایو دھیا میں واقع بابری مسجد، جسے مغلیہ سلتنطت کے بانی ظہیرالدین بابر کے ایک وزیر میر باقی نے ۸۲۵۱ میں تعمیر کروایا تھا اور اسے با دشاہِ وقت کے نام سے موسوم کر تے ہوئے بابری مسجد کانام دیا تھا۔ جہاں مسلمان ساڑھے چار سو سال سے عبادت کر تے آ رہے تھے، ابھی وطنِ عزیز کی آ زادی کے شاد یانے بجائے جا رہے تھے، اچانک فرقہ پرستی نے اپنا سَر ا ٹھایا اور ڈسمبر ۹۴۹۱ کی ایک رات کی تا ریکی میں با بری مسجد میں مور تیاں رکھ دی گئیں۔ انصاف کا تقا ضا تھا کہ صبح ہو تے ہی مسجد سے مورتیاں نکال دی جا تیں اور مسجد کو پاک و صا ف کر کے مسلمانوں کو عبادت کی اجازت دے دی جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مسجد کو مقفل کر دیا گیا۔ ملک کی عدالتوں میں مقدمات چلتے رہے۔ مسلمان بھی مطمئن ہو کر بیٹھ گئے کہ آزاد اور جمہوری ملک میں مسلمانوں کی عبادت گاہ کے ساتھ انصاف کیا جا ئے گا۔ لیکن جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا کے سا منے ہے۔ سارے تاریخی شواہد بابری مسجد کے حق میں رہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے قوی تو قع تھی کہ وہ ملک کے دستور اور قانون کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ثبوتوں کی بنیاد پر اپنا فیصلہ دے گی۔ لیکن جج صا حبان نے آ ستھا کو بنیاد بنا کر ان لوگوں کے حق میں فیصلہ دے دیا جنہوں نے ۶/ ڈسمبر ۲۹۹۱ میں مسجد کو ڈھایا تھا۔
اس وقت ملک میں مسجدوں کے انہدام کے واقعات دن بہ دن بڑ ھتے جا رہے ہیں۔ وہ حکومتیں جو اپنے آپ کو سیکولر کہلوانے میں فخر محسوس کرتی ہیں وہاں بھی مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مختلف بہانوں سے زمین دوز کر نے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دیکھی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں تلنگانہ حکومت نے قدیم تاریخی سکر یٹریٹ کی عمارتوں کو منہدم کر تے ہوئے دفاتر معتمدی میں واقع دو مسجدوں کو بھی ڈھا دیا۔ اس انہدامی کاروائی میں ایک مندر بھی زد میں آ ئی۔ عبادت گاہوں کا انہدام، چاہے وہ کسی بھی مذ ہب سے تعلق رکھتی ہوں ایک قا بلِ مذمت اقدام ہے۔ اس قسم کی جارحانہ اور بد بختانہ کارستانی کی کوئی تا ئید نہیں کر تا۔ اس لئے عوام کے مختلف گوشوں سے اس کے خلاف شد ید غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہاہے۔ ریاست کے سر براہ چیف منسٹر کے۔ چندر شیکھر راؤ نے خود بھی ان دلسوز واقعات پر سخت ردّعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ عبادت گاہوں کوجو نقصان پہنچا ہے وہ غیر ارادی طور پر ہوا ہے۔ انہدامی کاروائی کے دوران ان عبادت گاہوں پر ملبہ کے گرنے سے انہیں نقصان پہنچا ہے۔ چیف منسٹر نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ حکومت اپنے خرچ پر ان عبادت گاہوں کی تعمیر کر ے گی۔ وزیر اعلیٰ کے اس بیان کے ساتھ ہی معا ملہ بظاہر کچھ حد تک تھم گیا۔ بر سرِ اقتدار پارٹی کے قائدین نے چیف منسٹر کے حق میں دعائیں دینی شروع کر دیں۔ حکومت کی تائید کر نے والی مسلم جماعتوں نے بھی چیف منسٹر کے بیان کا خیرمقدم کیا۔ لیکن عوامی جذبات ابھی تھمے نہیں ہیں۔ عوام چیف منسٹر کے بیان سے مطمئن نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ آیا حکومت کو نہیں معلوم تھا کہ جب ساری عمارتوں کو منہدم کیا جائے گا تو احاطہ میں موجود مذہبی عبادت گاہیں بھی اس کی زد میں آ ئیں گی۔ یہ بات سراسر غلط ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ ہے۔ یہ کاروائی دانستہ طور پر ہو ئی ہے۔ اس سازش میں کون کون شا مل ہیں، یہ آ نے والا وقت ضرور بتا ئے گا۔ قدیم سکر یٹر یٹ کو منہدم کر کے نئی عمارت کی تعمیر کی باتیں بہت زمانے سے ہو رہی تھیں۔ معا ملہ ہائی کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ ابھی بھی یہ مقد مہ عدالت میں زیرِ دوراں ہے۔ چیف منسٹر کو ایک اچھی خا صی عمارت کو توڑ کر نئی عمارت بنانے کی کیوں سو جھی، اس پر بحث کر نا فضول ہے۔ جب حکمرانوں میں جمہوریت کی نقاب میں شاہانہ مزاج پلتا ہے تو ایسے ہی عوام کے پیسے کو ضا ئع کیا جاتا ہے۔ نئی سکر یڑیٹ کی تعمیر کو لے کر جتنے منہ اتنی با تیں ہو رہی ہیں۔ اب تو یہ بات بھی سا منے آ رہی ہے کہ ایک بیش بہا دفینہ کی تلاش میں یہ سب کام ہو رہے ہیں۔ کسی نے چیف منسٹر سے کہہ دیا کہ پرانی سکریٹریٹ کی عمارتیں ان کے اقتدار کے لئے خطرہ ہے لہذا انہیں منہدم کر دیا جائے تا کہ ان کا اقتدار با قی رہ سکے۔ اوہام پرستی اور فرسودہ روایات کا بھی اس معا ملے میں بہت بڑا دخل ہے۔ بات چاہے جو بھی ہو، یہ حکومت کا اختیار ہے کہ وہ قدیم عمارتوں کو منہدم کر کے نئی شاندار عمارتیں تعمیر کر سکتی ہیں۔ لیکن ایک ایسے وقت جب کہ ریاست کی عوام کی جان کے لالے پڑے ہیں، حکومت اپنی ساری توجہ ایک لا یعنی کام پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔ کورونا وائرس، تلنگانہ میں شیطان کی آ نت کی طرح پھیل رہا ہے۔ ہر روز مر نے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ دواخانے مر یضوں سے بھر چکے ہیں۔ حکومت سردی، زکام اور بخار جیسے معمولی امراض کا علاج کر نے میں نا کام ہو گئی ہے۔ ایک طرف کورونا نے زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے تو دوسری طرف غریب عوام فاقہ کشی میں مبتلا ہوتی جا رہی ہے۔ پڑھے لکھے لوگ مزدوری کر نے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ڈگری کالج میں معاشیات پڑھانے والی مسلم لکچرر، بیروزگاری سے تنگ آکر حیدرآباد کی سڑکوں پرچائے بیچ رہی ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کس قدر پریشان ہیں۔ ایسے میں نئی سکریٹریٹ کی تعمیر تانا شاہی دور کو یاد دلادیتی ہے۔
مساجد کے انہدام کے بعد حکومت نے جو یقین دہانی کرائی ہے کیا اس پر یقین کر کے خاموش بیٹھ جانا چاہئے یا پھر اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کر نا لازمی ہے اس پر سنجیدگی سے غور ہونا ضروری ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے فوری بعد اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نر سمہا راؤ نے پوری دنیا کے سا منے قوم سے خطاب کر تے ہوئے یہ وعدہ کیا تھا کہ با بری مسجد کو وہیں پر تعمیر کیا جائے گا جہاں اس کی شہادت ہوئی تھی۔ لیکن یہ وعدہ وفا نہیں ہوا اور اب تو وہاں قانون کی آڑ میں رام مندر بھی تعمیر ہوگئی، اور مسلمانوں کو ان کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ آج ریاست کے چیف منسٹر اگر یہ کہتے ہیں کہ نئی سکر یٹر یٹ کے احا طہ میں ایک شاندار مسجد حکومت اپنے پیسے سے تعمیر کر ے گی تو اس کی ضمانت کیا ہے کہ حکومت اپنا یہ وعدہ پورا کرے گی۔ کیا صرف زبانی وعدے پر مسلمان مطمئن ہو جائیں یا پھر اس کے لئے حکومت کوئی سرکاری اعلامیہ جاری کر تی ہے۔ نئی سکر یٹریٹ کا جو نقشہ اس وقت منظرِ عام پر آ یا ہے اس میں مسجد کہاں بنائی جائے گی اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ کیا حکومت نقشہ کو بدلتے ہوئے مسجد کے لئے جگہ فراہم کرے گی۔ ایسے بہت سارے سوالات عوام کے ذہنوں میں ابھر رہے ہیں، جس کا تسلّی بخش جواب حکومت کے اربابِ حل و عقد کی جانب سے آ نا چا ہیئے۔ بر سر اقتدار پارٹی سے وابستہ مسلم قائدین، چیف منسٹر سے یہ ٹھوس تیقن لیں کہ منہد م کی گئیں دونوں مساجد اپنی اصل جگہ پر تعمیر کی جائیں گی۔ چیف منسٹر یہ یقین دہانی کراتے ہیں تو پھر اس مسئلہ پر احتجاج کی نوبت نہیں آئے گی۔ صرف زبانی بیان بازی مسلمانوں کے جذبات کو تھنڈا نہیں کر سکتی۔ مسلمانوں کی سیاسی، ملّی یا دینی قیادت کے پیمانے مسلمانوں کے سوادِ اعظم سے ہٹ کر ہوں گے تو آ نے والے دنوں میں ان پر بھی مسلمانوں کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔ بابری مسجد کی شہادت اور پھر گزشتہ سال ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد مسلم قیادت اپنی ساکھ بڑی حد کھو چکی ہے۔ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ہونے والے احتجاج میں بھی مسلمانوں کی روایتی قیادت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ نوجوانوں اور خواتین نے بغیر قائد کے اس احتجاج کو عالمی منظر نامے میں تبدیل کر کے بتا دیا کہ آج کا مسلمان اپنے تشخص اور اپنے شعا ئرِ اسلامی کے تحٖفظ کے لئے کسی قائد کے انتظار میں نہیں ہے۔ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ اوقافی جائدادوں کے تحفظ کی ذ مہ داری جس ادارے پر ہے اس نے اس سارے معا ملے میں کوئی سرگرمی نہیں د کھائی۔ تلنگانہ وقف بورڈکیا اس بات سے واقف نہیں تھا کہ قدیم سکر یٹر یٹ میں دو مسجدیں موجود ہیں۔ اگر وہاں نئی عمارتیں تعمیر کر نے کے لئے پرانی عمارتیں منہدم کی جا تیں ہیں تو ان مساجد کا کیا ہوگا؟ کیا وقف بورڈ کی یہ اولین ذ مہ داری نہیں تھی کہ وہ اس بارے میں چوکس اور چو کنّا رہے۔ اس گھناؤنی حرکت کے لئے جہاں دوسروں کو ذ مہ دار ٹہرایا جا سکتا ہے اتنا ہی وقف بورڈ بھی ذ مہ دار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب جب کہ یہ دونوں مسجدیں شہید کر دی گئیں ہیں ان کی دوبارہ اسی مقام پر تعمیر کے لئے مشترکہ جدوجہد کی جائے۔ اسے سیاسی مسئلہ نہ بنایاجائے۔ سیاسی پارٹیاں اسے سیاسی رنگ دینے کی پوری کوشش کر رہی ہیں، لیکن اس سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے ِ۔آخر میں، میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ان جملوں کو دہرا دیتا ہوں جو انہوں نے کان پور کی مسجدِ مچھلی بازار کے حادثہ کے موقع پر ادا کئے تھے: تمام مسلمان اپنے اس عزم کا اظہار کریں کہ ان کے جسموں سے زندہ گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے،کٹی ہوئی رگوں اور ٹپکتے ہوئے خون کے ساتھ کاٹ لئے جا سکتے ہیں مگر مسجد کی زمین، اس کی عمارت اور اس کی چار دیواریوں کے اندر کے کسی جُز سے ایک انچ، ایک انگل،ایک جَو برابر بھی ٹکڑا نہیں نکالا جا سکتا: یہ جذ بہ جس دن مسلمانوں میں پیدا ہوگا مسجدوں کو ہاتھ لگانے کی کسی کو ہمت نہیں ہوگی۔

Share
Share
Share