افسانہ : داداجی :- آبیناز جان علی

Share
آبیناز جان علی

افسانہ : داداجی

آبیناز جان علی
موریشس

میں نے دونوں ہاتھوں سے پھاٹک پر زور دیا اور داداجی کے گھر کا دروازہ اندر کی طرف کھل گیا۔ پھاٹک پر کچھ ہفتے پہلے کالا رنگ چڑھایا گیا تھا اور اس میں لگے پھول اور بیل پر سنہر ہ رنگ دور سے اس پھاٹک کے حسن کو اجاگر کر رہا تھا۔
داخل ہوتے ہی مجھے چھینک آنے لگی۔ تہ خانے کا دروازہ آج بھی کھلا تھا۔ خدا جانے اندر کیا کیا سامان پڑا ہوا ہے۔

مجھے کبھی اندر جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ مکان کی دوسری طرف ایک دروازہ ہے جس سے براہِ راست تہ خانے میں داخل ہوسکتے ہیں۔ ایک دن پچھلی گلی سے میرا گزر ہوا تو تہ خانے کے اندر جھانک کر زمین سے فرش تک گدے اور پلنگ نظر آئے۔ اس وقت داداجی کے مزدور راستے پر لگے لاری میں گدے اور تکیہ لاد رہے تھے۔ شاید کسی کے ہاں شادی ہوگی اور یہ سامان برات میں کام آئے گا۔
مرکزی پھاٹک کی دائیں جانب سے سلائی کی مشین کے چلنے کی آواز آئی۔ آج ماسٹرجی آئے ہونگے۔ دیوالی قریب ہے۔ بھابھی کو کئی آڈر ملے ہونگے۔ بھابی سے کبھی بات نہیں ہوئی۔ ان کا گھر نچلی منزل پر تھا۔ بس ایک دوبار مکان میں آتے جاتے ان سے آنکھیں چار ہوئی تھیں۔ ایک خفیف سا تبسم ہم دونوں کے لب پر آجاتا۔ ویسے بھی مالک مکان تو داداجی تھے۔ کرایہ کے سلسلے میں جو بھی بات کرنی تھی ان سے ہی ہوتی تھی۔ بھابی کے ساتھ ان کی دو بیٹیاں تھیں جو اسکول میں پڑھتی تھیں اور سب سے بڑی بیٹی کی شادی ہوچکی تھی۔
داداجی کے یہاں نو بجے گیٹ بند ہوجاتا تھا۔ ایک بار دکان سے سامان لانا تھا تو میں ذرا گھبرائی۔ میں نے داداجی کی پوتی سے کہا
”مجھے ذرا سامان خریدنا ہے۔ ذرا دیر ہوجائے گی۔“
”کچھ نہیں ہوگا۔“ لڑکی نے فون سے نظر ہٹائے بغیر میری یقین دہانی کی۔
اس سے زیادہ کبھی کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ دوسری بیٹی کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔
زینے کے کچھ قدم چڑھتے ہوئے بھابی کے گھر کادروازہ کھلا ہوا ملا لیکن پورا گھر اتنا تاریک تھا کہ کچھ نظر نہیں آتا۔ اندر کے سارے دروازے بند تھے اور پردے سرکائے گئے تھے۔ گھر سے ہی سامنے والی دکان تک جانے کا راستہ نکلتا تھا۔
کام والی بائی پشپادیدی زینہ صاف کررہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے اپنا ہاتھ روک لیا اور گندے پونچھے کو پانی کی بالٹی میں ڈال دیا۔ نیچے کی صفائی کی وجہ سے پانی اب بھورا ہوگیا تھا۔
”ٹھینک یو دیدی۔ میں ابھی ایک گھنٹے تک کمرے میں ہوں۔ جب ختم کر لو تو میرا بھی کمرہ صاف کردینا۔“
”اچھا بی بی جی۔“
پشپا کبھی پاخانہ صاف نہیں کرتی تھی۔ پیدائشی پندٹ تھی لیکن کھریلو پریشانیوں کی وجہ سے گھر کے کام کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ پاخانہ صاف
کرنے کے لئے ہفتے میں ایک بار رامو آتا۔ بہ صورتِ دیگر سب کچھ ویسا ہی رہتا۔
پہلی منزل کو جاتے ہوئے زینے کے بیچ ایک چھوٹا کمرہ تھا۔ اس کا دروازہ کھلا تھا اور گلاب کی اگربتی کا دھواں کمرے سے نکل رہا تھا۔داداجی کچھ منتر پڑھ رہے تھے۔ گھنٹی کی آواز بھی آرہی تھی۔ میں آہستہ چڑھتی گئی تو پہلی منزل سے تیز گھی کی بو آنے لگی۔ دادی جی باورچی خانے میں مصروف ہونگی۔ اس عمر میں بھی سب کچھ اپنے ہاتھوں سے بناتی ہیں۔ دہی اور اچار بھی خود ہی بناتی ہیں۔
میں نے دادی جی کو ہمیشہ سادہ لباس میں ہی دیکھا۔ شلوار قمیض پہنے اور سر پر دوپٹہ اوڑھے کبھی کبھی بغل میں پالر جاتے ہوئے نظر آتیں۔ اس کے گول بے داغ چہرہ پر ہمیشہ پاودر کا نشان رہتا۔ دائیں گال پر کالا تل تھا اور ان کے سفید پتلے بال ہمیشہ گوندھے ہوئے رہتے۔ بات کرتے کرتے دادی جی اپنے بیٹے کا ضرور ذکر کرتیں پھر رو دیتیں۔ ان کو روتی ہوئی دیکھ کر داداجی کا بھی دکھ تازہ ہوجاتا اور اس کے چہرے پر افسردگی کے بادل چھا جاتے۔
”جوان بیٹا تھا۔ فوج میں بھیجا تھا۔ اس کی لاش واپس آئی تھی۔‘‘ دادا جی کی باتوں سے دادی جی زار و قطار روتیں۔ ”کتنا فرمانبردار لڑکا تھا ہمارا۔“
دوسری منزل کا دروازہ حسب معمول بند تھا۔ فاطمہ اور اس کا شوہر صبح جلدی نوکری کے لئے نکلتے اور شام سات بجے کے بعد ہی گھر لوٹتے۔ دہلی میں جب سے میٹرو کا کام شروع ہوا تھا ٹرافیک مزید بڑھ گیا تھا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں زیادہ وقت برباد ہوجاتا۔ فاطمہ اور اس کا شوہر کم دکھائی دیتے۔ شام کو کبھی کبھی سیڑھی چڑھتے وقت ان سے ملاقات ہوجاتی۔ فاطمہ کے نوکیلے جوتوں کی آواز بہت پہلے سنائی دیتی۔ وہ اپنے شوہر کا ہاتھ پکڑے ہوئے اپنی فلیٹ کی طرف جاتی۔ راستے میں داداجی کو پیار سے سلام کرتی اور خیر خیریت پوچھتی۔ فاطمہ کو جب بھی دیکھا ہے اس کے چھوٹے بال کھلے ہوئے نظر آئے۔ معلوم ہوتا ہے ابھی ابھی برشنگ کیا ہوا ہو۔ اس کا ڈریس یا اسکرٹ زانو سے اوپر رہتا۔ چہرے پر ہر وقت پرکشش میک اپ رہتا۔ اس کے بھوؤں پر تیز پنسل چلائی گئی تھی۔ ہونٹ تربوز کی طرح گلابی اور گال جیسے شرمیلی دلہن کی طرح سرخ لگتے۔ میرے خیال سے کسی فلم کی ہروئن سے کم نہیں لگتی تھی۔ دادی جی بتا رہی تھیں کسی بڑی کمپنی میں محاسب تھی۔ سنا ہے شوہر سے زیادہ کماتی ہے۔ شوہر کی تو لاٹری لگ گئی ہوگی۔
دوسری منزل اور تیسری منزل کے درمیان زینے کے بیچ میں میراکمرہ تھا۔ اوپر انیسا آپا کی فلیٹ تھی۔ وہ برقعے میں رہنے والی خاموش اور ملنسار خاتون تھی جو اپنے دو بچوں کے ساتھ اسکول آتی تھی اور انہیں واپس بھی لاتی تھی۔ دراصل انیسا آپا اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ گھر سے نکلنے سے پہلے اپنے دستانے پہن کر نقاب اوڑھ لیتی تھی۔ اسکول سے آنے کے بعد اپنا دروازہ بند کردیتی تھیں۔
میں نے چابی کو تالے میں لگایا اور اپنے کمرے کا دروازہ کھولتے ہی کمرے کی چاروں طرف مایوسی سے دیکھنے لگی۔ طاقیں خالی پڑی تھیں۔ زمین پر میرے دونوں سوٹ کیس تیار تھے۔ میں نے کل رات سارا سامان باندھ کے رکھ دیا تھا۔ جوتے نکال کر پلنگ پر آلٹی پالٹی بیٹھ گئی۔ خالی کمرے کے درودیوار کو تکنے لگی۔ سامنے دیوار میں ایک الماری بنی ہوئی تھی جو میرے اصرار پر داداجی نے بنوایا تھا۔
ملازم کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر داداجی نے بتایا کہ پاکستان میں طالبِ علمی کے زمانے میں ان کا کمرہ اس سے بھی چھوٹا تھا۔ داداجی کو اردو بھی آتی تھی۔ میری کتاب پر اردو میں میرا نام اور کالج کا نام لکھ کر دکھایا بھی تھا۔
صائمہ کریمن
کروڑی مل کالج
ان کا رسم الخط بہت صاف اور خوبصورت تھا۔ اپنے اردو رسم الخط کو یاد کرتے ہوئے میں ذرا پشیماں ہوئی تھی۔
”داداجی یہ جو پتھر باقی رہ گئے ہیں ان کو دیواروں میں جوڑ کر طاق بنوا دیجئے۔ میں ان میں اپنی کتابیں رکھ پاؤں گی۔ داداجی نے کاغذ پر ایک بڑا ڈائرہ بنایا اور اس کے بغل میں ایک چھوٹا تل لگایا۔ پھر فرمانے لگے: ”یہ ہاتھی ہے اور اس کے بغل میں چیونٹی۔ اگر ہاتھی دھیان نہیں دے گا تو چیونٹی اس کو کھاجائے گی۔“
میں نے حیرت و استعجاب سے ان کو دیکھا۔ ’’کیا؟“ لیکن جواب نہ دارد۔
بہرکیف طاق بھی بنوائے گئے۔ سمینٹ کو صحیح طور پر جمنے کے لئے کچھ دن اس پر مسلسل پانی بھی ڈالا گیا اور بلآخر نہایت صبر و تحمل سے میں نے اس کمرے میں اپنا سارا سامان سجایا تھا۔ طاق کے برابر چھوٹے دریچے سے داداجی کا بالکنی نظر آتا۔ اس وقت وہ دھوپ میں کرسی پر بیٹھے تھے اور پشپا دیدی ان کی ٹانگوں کی مالش کررہی تھی۔ داداجی دائیں جانب کھڑی ان سے باتیں کررہی تھیں۔ بزرگوں کو دیکھ کر ہی محبت پر یقین مستحکم ہوتا ہے۔ زندگی کے تمام سرد و گرم برداشت کرنے کے باوجود، لڑ جھگڑ کر بھی ایک ساتھ پوری زندگی کاٹ دیتے ہیں۔
نیچے راستے پر کباڑی والا صدا لگاتے گزر رہا تھا۔
”کباڑی کباڑی۔۔۔“
میں نے کھڑکی کھولتے ہوئے آواز دی۔ ”بھیا ذرا اوپر آنا۔“ وہ آدمی رک گیا اور میری کھڑکی کی طرف دیکھا۔
”ذرا اوپر آنا۔“
کچھ دیر بعد سیڑھی چڑھنے کی آواز آئی۔ میں نے کمرے سے اپنا صندوق نکالا۔
”بھیا یہ صندوق بیچنا ہے۔ کتنا دوگے؟“
”یہ تو ذرا پرانا ہوگیا ہے۔ نیچے زنگ لگا ہوا ہے۔ پچاس روپے لگیں گے۔“
”کچھ اور بڑھا دو۔ زیادہ استعمال بھی کہاں ہوا ہے۔ بس دو سال پرانا ہے۔ پچھتر روپے دے دو۔“
”نہیں بی بی جی اتنا نہیں ہوپائے گا۔ پچپن روپے دے سکتا ہوں۔ بس“
”کیا کہہ رہا ہے؟“ داداجی اچانک اوپر آگئے۔
”داداجی میم صاحب کا صندوق ہے۔ پچپن روپے لگیں گے۔“
”کیا بات کر رہا ہے۔ دس روپے لگا لو۔‘‘ داداجی نے کباڑی والے کے ہاتھ سے پینسٹھ روپے چھینتے ہوئے مجھے تھمادئے۔
”مجھے پلنگ بھی بیچنا ہے۔“
”لڑکے تم جاؤ۔ پلنگ میں لے لوں گا۔‘‘کباڑی والا خاموش چلا گیا۔
”پلنگ کے لئے یہ دو سو روپے لے لو۔ میں لڑکے سے کہہ کر اتروا دیتا ہوں۔‘‘ داداجی نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
”لیکن میں نے تو پانچ سو میں خریدا تھا۔“
”ہاں تو سیکنڈ ہینڈ کا اتنا ہی لگتا ہے۔‘‘ مجھے دو سو روپے دیتے ہوئے داداجی نیچے چلے گئے۔ مجھے ہاتھی اور چیونٹی کی کہانی یاد آگئی۔
دہلی میں طالبِ علموں کے لئے اچھا کمرہ ملنا کتنا مشکل ہے اور اس سے بھی مشکل اچھا مالک مکان ملنا۔ مجھے اپنا پچھلا کرایہ کا کمرہ یاد آگیا جہاں کے مالک مکان نے اپنے کمرے کی بجلی کے تار میرے کمرے سے لگا رکھے تھے۔ ہر بار بجلی کا بل زیادہ آتا۔ ایک بار گھر پہنچی تو میرے میٹر میں بجلی کا لال بلب تیز رفتاری سے تمتماتا ہوا نظر آیا۔ مطلب کے بہت بجلی استعمال ہورہی تھی۔
”لیکن اس وقت تو میں باہر سے آرہی ہوں۔“
معلوم پڑا مالک مکان اپنے کمرے میں اپنے ٹیلی ویژن کی مرمت کررہے تھے۔ پوچھنے پر بھی وہ کہاں اعتراف کرنے والے تھے کہ اپنی بجلی کا بل میرے کمرے سے جوڑا گیا تھا۔ یہاں ایک سال قیام کرنے کے بعد داداجی رینٹ بڑھانا چاہتے ہیں۔ مجبوراً دوسرا کمرہ دیکھنا پڑا۔ وہاں تمام فرنیچر کمرے میں موجود ہے۔ آخری سال بچا ہے۔ اللہ اللہ کرکے بس یہ سال بھی گزر جائے۔
فاطمہ کو سونے میں تکلیف ہورہی تھی۔ ویسے ان دنوں کچھ خیالات اسے بیدار رکھتے۔ کروٹ بدلتے ہوئے اس نے آنکھیں بند کیں۔ ریحان پہلے سے خوابوں کی دنیا میں مغرق تھا۔ فاطمہ کی آنکھوں کے سامنے شاہراہ پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آئیں اور ان کے ہارن سنائی دئے۔
”تماشا بنا رکھا ہے۔۔۔۔ خاندان کا نام مٹی میں ملائے گی۔۔۔“
داداجی کے چلانے کی آواز سے وہ اٹھ گئی اور بالکنی کا دروازہ کھولا۔ آوازیں اب صاف سنائی دینے لگیں۔ نیچے دو گاڑیاں گھر کے سامنے کھڑی تھیں۔
”شادی کے بعد گھر میں کیسے رہا جاتا ہے، تجھے بس یہی سکھایا گیا تھا؟“
”سارا قصور تو میرا ہی ہے۔“
”زبان چلاتی ہے۔“
فاطمہ نے نفی میں سر ہلایا۔ داداجی کی بڑی پوتی کی ایک سال پہلے شادی ہوئی تھی۔ اسی کے سسرال والے اس کو لے کر آئے ہونگے۔
”ساری قربانیاں تو لڑکی کو ہی دینی ہے۔ وہ تو دوسروں کے لئے خود کو فنا کرنے کے لئے دنیا میں آئی ہے۔‘‘ فاطمہ نے آسمان کو دیکھتے ہوئے خودکلامی کی۔
فاطمہ کے مسوڑھے درد کرنے لگے۔ گھڑی کے مطابق رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ کل جلدی اٹھ کر ریحان اور اپنا ٹفن تیار کرنا ہے۔ سلاد بنانا ہوگا اور سبزی بھی گرم کرنی پڑے گی۔
”بھنڈی میں صرف دو چمچ تیل ڈالنا ہے۔‘‘فاطمہ کو اپنی امّی کی ہدایت یاد آگئی۔
فاطمہ کو امّی کی آنکھوں میں وہ مایوسی یاد ہے جب اس نے ریحان کو ان سے پہلی دفعہ ملایا تھا۔
”وہ پیسوں کے لئے تم سے شادی کر رہا ہے۔“
”ایسا نہیں ہے۔‘‘ اپنی آنکھوں سے امڈتے ہوئے سیل کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے فاطمہ نے جواب دیا تھا۔ ’’وہ مجھے دل و جان سے چاہتا ہے۔“
”محبت سے پیٹ نہیں بھرتا۔ رشتہ برابر والوں سے کیا جاتا ہے۔“
ریحان اپنے خاندان کو چھوڑ کر فاطمہ کے کہنے پر داداجی کے یہاں فلیٹ لینے پر بھی تیار ہوگیا۔ ریحان اس کی ہر بات مانتا ہے۔ فاطمہ نے اپنی نرم انگلیوں میں شادی کی انگوٹھی کو گھوماتے ہوئے سوچا۔ کل داداجی کو کرایہ کے پیسے دینے ہیں۔ بجلی کا بل بھی ادا کرنا ہے۔ پچھلے مہینے سے داداجی نے پانی کا بل بھی علیحدہ کردیا ہے۔ گاڑی کی ٹنکی بھی خالی ہونے والی ہے۔ مہینے کا راشن بھی لانا ہے اور ہر مہینے کی طرح فاطمہ ہی تمام بل اد کرنے والی ہے۔ شاید امی ٹھیک کہہ رہی تھیں۔
بالوں کو سہلاتے ہوئے فاطمہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس مہینے بھی پالر نہیں جاپائے گی۔ گولڈ فیشیل کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ یہ شب فاطمہ کے لئے بہت طویل ہونے والی ہے۔ اس کی نظر آسمان پر چمکتے ہوئے تاروں کی طرف گئی۔
صبح دروازے پر دستک ہوئی۔ انیسا کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ اس نے اپنا دوپٹہ سر پر اوڑھا اور چہرے پر نقاب لگایا۔
”آرہی ہوں۔“ دروازے پر داداجی کے ہاتھ میں صابن کا ایک پیکٹ تھا۔دوسرے ہاتھ میں صابن دان میں ایک اور صابن تھا جس کا لفافہ نکال کرصابن کو استعمال کیا جاچکا ہے۔ اتنی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد داداجی ہانپ رہے تھے۔
”یہ تم نے مجھے چھوٹاصابن دیا تھا۔ ہم نے تمہیں بڑا والا دیا تھا۔ یہ دیکھو۔‘‘ داداجی نے صابن کے نئے پیکٹ کو اپنے استعمال شدہ صابن سے ملاتے ہوئے دکھایا۔
”اچھا دکان جاتے ہوئے میں بدلوا کر آپ کو واپس کردوں گی۔“ انیسا نے اپنا صابن واپس لیتے ہوئے دروازہ بند کردیا۔ شام کو اسکول سے لوٹنے کے بعد باورچی خانے میں برتن کا انبار پڑاتھا۔ ستم بالائے ستم صاف کرنے کا صابن بھی ختم ہوچلا تھا۔ انیسا نے سوچا اتنی ساری سیڑھیاں اترنے اور چڑھنے کی جگہ یہی مناسب رہے گا کہ داداجی سے ایک صابن ادھار لے لوں۔ اب لوٹانے پر اس سے یہ غلطی ہوگئی کہ اس نے دیکھا نہیں کہ صابن چھوٹا ہے یا بڑا۔ ویسے داداجی نے اکثر اس کی مدد کی ہے۔ ایک بار ایک ہفتے تک بنک کی ہرتال تھی۔
گھر میں پیسے ختم ہوگئے تھے۔ بچوں کے لئے دودھ اور اسکول کا سامان لینا تھا۔ ایسے میں یوسف اور وہ داداجی کے یہاں گئے۔ داداجی صوفے پر اسٹیل کی پلیٹ میں کھانا کھا رہے تھے۔ روٹی ختم کرتے ہوئے داداجی نے یوسف کی بات کو غور سے سنا۔
”پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ یہ دو ہزار روپے لے لو۔ جب آجائیں تو واپس کردینا۔ داداجی نے اسٹیل کی گلاس کے پانی سے اپنا ہاتھ دھونے کے بعدہاتھ کو تولیہ سے پونچھا اور اپنے سفید کرتے کی دائیں جانب جیب سے پیسے نکالتے ہوئے یوسف کو دے دئے۔ دادی جی نے فرطِ عقیدت پلیٹ اٹھا دیا تھا۔
”ناشتہ تیار ہے؟‘‘ یوسف آرام کمرے میں اپنے جوتے پالش کرتے ہوئے اپنے سوال سے انیسا کو حال میں لے آیا۔
”ابھی کرتی ہوں۔“
”کتنا وقت لگاتی ہو؟ ہمیشہ تمہاری وجہ سے آفس دیر سے جاتا ہوں۔‘‘ یوسف نے ٹائی درست کی۔
”ابھی لاتی ہوں۔‘‘ انیسا بھاگتی ہوئی باورجی خانے سے سامان لے آئی۔ پھر یوسف کے قریب بیٹھ کر اسے کھاتے ہوئے دیکھتی رہی۔ کل رات جو انسان اتنا قریب تھا آج اجنبی سا کیوں لگ رہا تھا؟ ناشتے کے بعد یوسف نے اپنا بریف کیس لیا اور جلدی سے زینہ اترنے لگا۔ شوہر تو خدائے مجازی ہے۔ وہ جب چاہے اپنے حقوق طلب کرسکتا ہے۔ اس کی ناراضگی سے فرشتے ناراض ہوتے ہیں۔
”تمہاری اچھی بات یہ ہے کہ ہر بات پر ہاں کہتی ہو۔‘‘ داداجی کی یہ کہی ہوئی بات اچانک اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔
یوسف گھر کی ساری ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ راشن لاتے ہیں۔ بچوں کی ضرورت کے تمام سامان مہیا کرتے ہیں۔ بالکنی سے یوسف کی گاڑی کو جاتے دیکھ کر انیسا کی نظر فاطمہ اور ریحان پر پڑی۔ ریحان گاڑی میں فاطمہ کا بستہ ڈال رہا تھا۔ اس نے فاطمہ کے لئے سامنے کا دروازہ کھولا اور اس کے گال پر ایک ہلکا سا بوسہ دے کر ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھ گیا اور آنِ واحد میں گاڑی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ داداجی اپنی بالکنی میں پودوں کو پانی دے رہے تھے۔ انیسا نے بچوں کے کمرے کا رخ کیا۔

Share
Share
Share