نئی تعلیمی پالیسی (NEP) – سوالات کے گھیرے میں :- فاروق طاہر

Share
فاروق طاہر

نئی تعلیمی پالیسی (NEP) ۔  سوالات کے گھیرے میں

 

فاروق طاہر
حیدرآباد ، انڈیا

9700122826

مرکزی کابینہ کی جانب سے گزشتہ ماہ کی 29تاریخ کو ڈرافٹ نیو ایجوکیشن پالیسی کومنظوری دے دی گئی۔ حکومت دعوی کررہی ہے کہ اس کا مقصد تعلیم تک ہر کس و ناکس کی رسائی اور مساوات کو فروغ دیناہے لیکن پالیسی کے متن اور مشمولات کا باریک بینی سے جائزہ لینے سے حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔

قوی احتمال ہے کہ منظور شدہ نئی تعلیمی پالیسی(NEP) سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ طبقات کی پسماندگی میں میں مزیداضافے طبقاتی کشمکش،سماجی تفریق و تفاوت کو فروغ دیناکا ایک مذموم وسیلہ بن جائے گی۔کہا جارہا ہے کہ نیشنل ایجوکیشن پالیسی (NEP)وزیراعظم کے بلند بانگ، مقبول و معروف نعرے ”خودمکتفی بھارت“(آتمانربھربھارت) کے بنیادی اصول پر مبنی ہے۔پالیسی میں پیش کردہ اغراض و مقاصد، اصول اور طریقہ کار کو وضع کرتے وقت زمینی حقائق، ملک کی سماجی، معاشی اور طبقاتی صورتحال سے مکمل انحراف کیا گیا ہے۔حقائق پر مبنی اصول،اغراض و مقاصد اور عملی طریقہ کار کے بجائے صرف تخیلاتی نظریات پرمبنی ناقابل عمل افسانوی طریقہ کارکو بڑی شد ومد سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کا مسودہ جو کہ 480صفحات پر مشتمل تھا،کے مطالعے اور منظورہ شدہ پا لیسی جو کہ 60صفحات پر مشتمل ہے کے مطالعے سے یہ حقیقت صاف طور پر عیاں ہوجاتی ہے کہ حکومت تعلیم کی یقینی فراہمی کے عمل سے خو د کو پیچھے کرتے ہوئے خانگی اور پرائیوٹ تعلیم ادارہ جات کے فروغ کے ذریعے ملک کو تعلیمی تجارت کے ایک مرکز کے طورپر فروغ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ منظورہ شدہ نئی تعلیمی پالیسی کے مطالعے سے معلوم ہوگا کہ حکومت خانگی تعلیمی اداروں کو اپنے من پسند طریقے سے چلانے کی طاقت، توانائی اور قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں متعدد اخراجی نظام (Multiple Exit Points)کے انوکھے سیلنگ پوائنٹ کے ذریعے تبدیلی (پیراڈم شفٹ) کی بات زور و شور سے پیش کرتے ہوئے معصوم عوام کو دام فریب میں گرفتار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس سے صرف اور صرف عدم مساوات کو فروغ حاصل ہونے کے کچھ اور نہیں ملے گا۔یہ پالیسی جہاں غریبوں اور کمزور طبقات کو حصول علم سے باز رکھتے ہوئے انھیں تعلیمی دائرے سے بے دخل کرنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے وہیں مرفہ حال اور اہل ثروت طبقے کو تعلیم کی تکمیل کا مواقع فراہم کرنے میں پیش پیش دکھائی دیتی ہے۔ایک جانب جہاں نئی تعلیمی پالیسی نصاب کی یکسانیت(ہم آہنگی و یکجہتی)، مشترکہ امتحانات (Common Public Examination)اور انتظامیہ پر مرکز ی حکومت کے کنٹرول کی بات کرتی ہے وہیں دوسری جانب سرکاری اور خانگی تعلیمی اداروں کو عوام کا مالی استحصال کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتی دکھائی دیتی ہے۔نئی تعلیمی پالیسی میں بیان کردہ اسکولوں اور اعلیٰ تعلیم دونوں میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شب (شراکت داری)کادل فریب اصول عوام کو گمراہ کرنے کی سوا کچھ اور نہیں ہے اس طرح کے طرز عمل سے صرف نجی و خانگی تعلیمی اداروں کو فروغ حاصل ہوگا جسے حکومت فروغ دینے کے لئے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔اس طرح کے اصول و ضوابط مدون کرنے کا صاف مطلب ہے کہ سماجی انصاف کو یقینی بنانے کے لئے حکومت خانگی اور سرکاری اداروں کو جوابدہی کے کٹھرے میں لانے سے روکنے کی کوشش کررہی ہے۔نئی تعلیمی پالیسی میں طلبہ تنظیموں کے پرزور مطالبے اور تحریکوں کے باوجود خانگی تعلیمی ادارہ جات میں آئین کی جانب سے فراہم کردہ لازمی تحفظات(ریزرویشن) کی ضرورت اور ریزرویشن پالیسوں کو نافذ کرنے کے مثبت اقدامات کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا۔نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعے آئین کے وفاقی ڈھانچے پرشب خون مارا گیا ہے۔تعلیم چونکہ آئین کی متوازی فہرست(Concurrent List)میں شامل ہے۔یہ شق بے شک مرکز اور صوبائی حکومتوں کے مابین مشاورت اور ہم آہنگی کا مطالبہ کرتی ہے لیکن ملک کے طول و عر ض میں اس کے یکساں نفاذ سے مرکز ی حکومت کو بازبھی رکھتی ہے۔ مرکزی حکومت نے اس نکتہ پر کسی قسم کی توجہ نہ دے کردستور کے وفاقی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔نئی تعلیمی پالیسی میں ڈ یجیٹل اور آن لائن ایجوکیشن اور ٹیکنالوجی کے فروغ کی بات ضرورکی گئی ہے لیکن ٹیکنالوجی کے فروغ،اس کی وسعت پذیری اور طلبہ کی ٹیکنالوجی تک رسائی جیسے اقدامات کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی ہے۔ملک کی اولین تعلیمی پالیسی(کوٹھاری کمیشن1968) کی تدوین سے آج تک بجٹ کا 6فیصدجی ڈی پی(GDP)تعلیمی اخراجات کے لئے مقرر کرنے کے مطالبات کئے جارہے ہیں۔اس حکومت نے بھی اس طرح کا دعوی کیا ہے وہ بھی ایسے حالات میں جب کہ ملک اپنی تاریخ کے بدترین معاشی اور مالی دور سے گزررہا ہے۔حکومت کے اس مالی اعانت کے دعوؤں کی قلعی بھی اس بات سے کھل جاتی ہے کہ تعلیمی سرمایہ کاری اور اخراجات کا بوجھ ”خانگی -مخیر“اشتراکیت (Private-Philanthropist Partnership) کی صورت عوام کے کندھوں پر ڈال کر حکومت اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کررہی ہے۔اس تناظر میں حکومت کا تعلیمی اخراجات کی مد میں 6فیصدGDP خرچ کرنے کا دعویٰ صرف زبانی جمع خرچ ہی معلوم ہوتا ہے۔پرائیوٹ،فلنٹرافسٹ پارٹنر شب پروگرام اسکولی اور اعلیٰ تعلیم دونوں جدید تعلیمی پالیسی کی آڑ میں نفع خور عوام کا خون چوسنے والے کارپوریٹ اداروں کے قبضے میں دینے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ اسکول اور اعلیٰ تعلیم کے بنیادی قومی شعبوں کو خانگی و نجی اداروں کے حوالے کرتے ہوئے اور خانگی تعلیمی نظام کو فروغ دیتے ہوئے حکومت اپنے فرائض کی ادائیگی سے پہلو تہی کررہی ہے۔

اسکولی تعلیم :
NEP موجودہ اسکولی تعلیم کے 2 + 10 ڈھانچے کو "ایک نئے درسیاتی، تدریسی اور نصاب کی تنظیم نو” کے ذریعے 5+3+3+4 ڈھانچے میں تبدیل کردی گئی۔ یہ نیا ڈھانچہ 3سال سے لے کر 18سال کے طلبہ کا احاطہ کرے گا۔ نئی تعلیمی پالیسی کے مدوین کا خیال ہے کہ موجودہ 2+10 کا ڈھانچہ 3سے 6سال کی عمر کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کا متحمل نہیں ہے۔ چونکہ بچوں میں رسمی تعلیم کا باضابطہ آغاز اول جماعت 6سال کی عمر سے ہوتا ہے۔موجودہ پالیسی میں ابتدائی تعلیم (چھ سال سے کم عمر کے طلبہ کی تعلیم)کا کوئی باضابطہ نظام موجودہ نہیں ہے۔لہذا نیاتعلیمی ڈھانچے 5 +3+3+4 میں ای سی سی ای،ارلی چائلڈ ہڈ کیراینڈ ایجوکیشن (Early Childhood Care and Education – ECCE)کے ذریعے 3سال سے6 سال تک کی عمر کے بچوں کی دیکھ بھال اور انھیں حصول تعلیم کا مواقع مہیاکرتا ہے۔موجودہ نظام میں ECCE کی ذمہ داری آنگن واڑی مراکز کے تحت ہے جسے نئی تعلیمی پالیسی میں برقرار رکھا گیا ہے۔آنگن واڑی ورکرس /ٹیچرس کوتربیت سازی،اعلیٰ معیاری انفراسٹرکچر اورکھیل کے سامان کی فراہمی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔10+2 اور اس سے زیادہ کی قابلیت رکھنے والے آنگن واڑی ورکرس /اساتذہ کو ای سی سی ای میں 6ماہ کا سرٹیفکیٹ پروگرام کی تربیت کی فراہمی کی بھی بات کی گئی ہے۔مذکورہ تعلیمی قابلیت سے کم قابلیت کے حامل ورکرس و اساتذہ کو ایک سال کے ڈپلومہ پروگرام کے ذریعے تربیت فراہم کرنے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔بچوں میں فاصلاتی تعلیم کے فروغ کو یقینی بنانے کے لئے ڈی ٹی ایچ(DTH)چینلس اور اسمارٹ فونس کے استعمال کی بھی بات کی گئی ہے۔لیکن نئی تعلیمی پالیسی میں آنگن واڑی مراکز پر کنڑایکٹ /اعزازیہ کی بنیاد پرخدمات انجام دینے والے ملازمین کو مستقل طورپر تعینات کرنے کا کوئی تیقن یا تذکرہ نہیں دیا گیا ہے۔مستقل ملازمت تو درکنا کم سے کم اجرت کی بھی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی گئی ہے۔تعلیم کے ڈیجٹالائزیشن پر نئی تعلیم پالیسی کچھ نہیں کہتی کہ کس طرح طلبہ تک ڈیجیٹل رسائی میں اضافہ کیا جائے خاص طور پر ایسے طلبہ جن کے پاس ٹی وی نہیں ہے،بغیر رکاوٹ کے بجلی کی فراہمی،انٹرنیٹ،اسمارٹ فونس یا الکٹرانک گیاٹ گیجس تک جن کی رسائی نہیں ہے۔آج بھی ملک کے 40 فیصدعوام کو ہی انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔یہ حالت دیہی علاقوں میں مزید ابتر اور ناقابل بیان ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی ”مقامی و غیر مقامی تربیت یافتہ رضاکاروں اورسابقہ طلبہ کے ذریعے شخصی تدریس (one on one peer tutoring)، اضافی سیشنس کے علاوہ کیرئیر سازی،طلبہ کی رہنمائی و رہبری اور درس تدریس و اکتساب سے متعلق دیگر امور تربیت یافتہ اساتذہ کی نگرانی میں بچوں کی حفاظت اورنگہداشت کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے انجام دینے کی پرزور وکالت کرتی ہے۔بچوں کی تعلیم وتربیت اور درس و اکتساب کی ذمہ داریوں کو رضاکارافراد و اداروں کے کندھوں پر ڈالتے ہوئے حکومت بچوں کے لازمی حق تعلیم کو سلب کرنے کے ساتھ بچوں کی لازمی تعلیم کو یقینی بنانے سے پہلوتہی اور اپنی ذمہ داریوں سے دستبرداری اختیار کررہی ہے۔حکومت کسی بھی طور عوام کی تعلیم و تربیت،معیاری اور سستی تعلیم کی فراہمی کے اپنے فرض منصبی سے فرار اختیار نہیں کرسکتی۔

حکومت کی فرض منصبی اورذمہ داریوں سے پہلو تہی و فرار کی حکمت عملی :
نئی تعلیمی پالیسی میں لفظ خانگی (نجی /پرائیوٹ) کے بجائے عوامی فلاحی شراکت (Public – Philanthropist Partnership استعمال کرتے ہوئے حکومت عوام کو گمراہ کررہی ہے۔اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ عوام اور رضاکار مخیر افراد و اداروں کے سر منتقل کرتے ہوئے حکومت اپنی ذمہ داریوں و فرض منصبی سے نہ صرف پہلوتہی بلکہ فرار اختیار کررہی ہے۔ اس قسم کی فرائض اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی ملک کی آزادی سے لیکر آج تک کسی حکومت کے دور میں دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔مودی حکومت عوامی فلاحی شراکت داری کی آڑمیں اسکولوں کے معیار انفراسٹرکچر کو یقینی بنانے سے مجرمانہ فرار اختیار کررہی ہے۔ پبلک،فلانٹرافسٹ پارٹنر شب کے نام پر اسکولوں و اسکولی تعلیم کو چند پیسوں والے افراد کی صوابدید پر چھوڑدینے کی کوشش یقینا قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے۔اس طرح کا کوئی بھی قدم ملک کے اسکولی تعلیمی نظام کو کارپویٹ سیکٹر اوراور نجی افراد کے حوالے کرتے ہوئے غریب طلبہ کے حصول تعلیم و ترقی کے خوابوں کی تکمیل کو چکنا چور کرنے کے مترادف ہوگا۔اس طرح کے اقدامات سے تعلیمی تجارتی کو فروغ ملے گا اور تعلیم ایک بکاؤ جنس بن کر رہ جائے گی۔غریب اور پسماندہ خاندان کے بچوں کے لئے اس طرح کی حکمت عملیاں انھیں تعلیم کے حصول سے یکسر محروم کردے گی۔ملک کی تقدیر اور سرمایہ پہلے ہی چند افراد تک محدود ہے یہ پالیسی ان کی اجارہ داری کو مزید تقویت دے گی۔غریب اور پسماندہ خاندانوں کی زندگیاں جہالت اور علمی کی کمی کی باعث ظلمتوں کی نذر ہوکر مزید اجیرن ہوجائے گی۔

دوسری کلاسیکی زبانوں پر سنسکرت زبان کی بالادستی قائم کرنے کی مذموم کوشش :
دوسری زبانوں کے مقابلے میں سنسکرت زبان کے فروغ کو زیادہ ترجیح دینا مودی سرکار کا سنسکرت کو ملک کی دیگر کلاسیکی زبانوں کے مقابلے میں فوقیت دینا،سنسکرت کوقومی زبان کے طور پر ترقی و ترویج دینے کے عزائم کا مظہر ہے۔ اگرچہ نئی تعلیمی پالیسی میں دوسری زبانوں کی بات ضرورکی گئی ہے لیکن سنسکرت پر زیادہ زور دینے سے حکومت کی ترجیحات پتا چلتاہے۔اس کے علاوہ حکومت کی تمام تر توجہ ہندوستان کے قدیم تعلیمی نظام اور طریقہ تعلیم پر مرکوز کرنے کی کوششوں سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ مختلف ادوار و مراحل میں تیارکردہ و ترقی یافتہ تعلیمی تجربات و طریقوں کو حکومت یکسر نظر انداز اور مسترد کرتے ہوئے تعصب کا اظہار کررہی ہے۔تعصب اور علم دشمنی پر مبنی اس طرح کی پالیسوں سے ملک کو شدید نقصان پہنچے گا۔
جہاں کہیں ممکن ہو،کم سے کم پنجم (پانچویں جماعت) لیکن ترجیحی بنیادوں پر آٹھویں جماعت اور اس سے آگے تک ذریعے تعلیم گھر کی زبان/مادری زبان/مقامی زبان/علاقائی زبان میں فراہمی کی بات کہی گئی ہے۔یہ ذریعہ تعلیم کے نظام میں ایک بڑی تبدیلی کا باعث ہوسکتا ہے۔اس تبدیلی پر کئی اندیشے اور سوالات سر اٹھارہے ہیں جو کہ حق بجانب اور زمینی حقائق پر مبنی ہیں۔یک لخت ذریعہ تعلیم کی تبدیلی کے کیا ہم متحمل ہیں؟ اساتذہ اور معیاری تعلیمی موادکی دستیابی اور اس پر عمل درآمد پر کیسے ہوگا؟اس طرح اور کئی سوالات سراٹھارہے ہیں۔سرکاری و خانگی مدارس میں کیا مادری زبان میں تعلیم کی فراہمی ممکن ہو پائے گی؟ کیا یہ صرف ایک اشارہ ہے کہ مادری/مقامی زبان میں پانچویں جماعت تک تعلیم دی جانی چاہئے۔کیا اسے ایک قانون کی شکل میں نافذ کیا جائے گااور جس پر عمل پیرائی لازمی تصور کی جائے گی؟کیا سرکاری مدارس میں بھی تین سال کی عمر کے بچوں کی تعلیم کے نظم کاآغاز ہوگا؟اگر ہوگا تو کیا یہ مادری زبان میں ہوگا یا پھر انگریزی زبان میں ہوگا؟آندھراپردیش حکومت نے انگریزی میڈم کو تمام مدارس میں متعارف کروانے کا عزم کیا ہے۔کیا اب ایسی کوششوں پر پابندی عائد کی جائے گی؟نئی تعلیمی پالیسی کے مسودے میں بتایا گیا تھا کہ بچوں میں زبانیں سیکھنے کی صلاحیت دس سال کی عمر تک بہت زیادہ ہوتی ہے۔پنچم جماعت تک کے بچے جو دس سال تک کی عمر کے ہوتے ہیں کیا ان کو صرف ایک زبان سیکھنے تک محدود کردینا،زبان سیکھنے کے عالمی اصولوں اور خود مذکورہ پالیسی کے اصولوں کے مغائر نہیں ہے۔ دس سال کی عمر تک بچوں کو صرف ایک زبان سیکھانے سے کیا آگے کے سالوں میں بچوں میں انگریزی و دیگرزبانوں کو سیکھنے کی صلاحیت و رفتار سست بلکہ تباہ نہیں ہوجائے گی؟۔چین،جنوبی کوریااور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ تعلیم انجینئرنگ،میڈیسن ان کی اپنی مقامی زبانوں میں دستیاب ہے۔ہمارے ملک میں اگر نیٹ(NEET)،آئی آئی ٹی (IIT)جے ای ای (JEE)جیسے امتحانات انگریزی میں منعقد کئے جاتے ہیں تو کیا والدین اپنی مادری زبان میں بچوں کو پڑھانے پسند کریں گے؟ اس طرح کے کئی سوالات و اندیشوں کے جوابات اگر یہ پالیسی نہیں دے سکتی ہے تو کیا پھر اسے صرف کھوکھلے مثالی پن کے دعوی داری کی ایک علامت سمجھاجائے؟

سرکاری اسکولوں کو بند کرنے کی کوشش :
NEP میں گروہی تنظیم جیسے اسکول کمپلیکس کے نام پر بہت ہی منظم طریقے سے سرکاری اسکولوں کو بند کرنے کی کوششوں کو راہ دی گئی ہے۔اکثر کم انرول مینٹ کی شرح(بچوں کے کم شرح داخلہ) اور معاشی مسائل کوسرکاری مدارس بند کرنے کی وجوہات میں نمایا ں کرکے بتا یا جاتا ہے۔جبکہ ہر کوئی اس حقیقت کو جانتا ہے کہ سرکاری مدارس میں طلبہ کی شرح داخلہ میں کمی کی اصل وجہ حکومت کی جانب سے خانگی اداروں کی حوصلہ افزائی اور ان کے فروغ کے لئے ساز گار حالات فرہم کرنا ہے۔سرکاری مدارس میں تعلیمی سہولتوں پر فنڈس و سرمایہ لگانے سے حکومت کا گریز و اجتناب سرکاری مدارس کے معیار اور مقبولیت میں کمی کی سب سے اہم وجہ ہے۔ نقائص و جھول کو دور کرنے کے بجائے NEP سرکاری اسکولوں کی مسدودی کے عمل کو مزید تیز تر کردے گی۔
نجی(خانگی) اسکولوں کواستحصال کی مکمل آزادی:NEP تعلیمی اداروں کے سلف ریگولیشن یا الحاق کی منظوری کے سلسلے میں تعلیم نظام کے تمام مراحل من جملہ پری اسکول کی تعلیم سے لیکر دیگر سطحوں پر پرائیویٹ پبلک فلن ٹرافسٹ طریقے کو رائج کرنے کی تجویز پیش کرتی ہے تاکہ معیار کے ضروری تقاضوں کی تکمیل کو یقینی بنایا جاسکے۔ ریاست میں اسٹیٹ اسکول اسٹینڈرڈز اتھارٹی (ایس ایس ایس اے۔SSSA) کے نام سے ایک آزاد ادارہ قائم کیا جائے گا۔ معیار کے حصول اور اسے یقینی بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ اقدام مدارس کو نجی شراکت داروں کی صوابدید پر چھوڑدینے اور ان امور سے حکومت گلو خلاصی حاصل کرتے ہوئے اپنا دامن جھاڑ لینے کی ایک مذموم کوشش کررہی ہے۔یہ عمل بھی بالکل اسی عمل کی ایک کڑی اور تسلسل ہے جس طرح سے ملک کی معیشت کو مختلف شعبوں کا نجی کرن کرتے ہوئے تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔

اعلیٰ تعلیم :
تعلیمی امور کی (نصاب کی تیاری وغیرہ)آزادی میں یکسانیت اور مرکزیت ایک بڑی رکاوٹ تمام یونیورسٹیوں، کالجوں اور انسٹی ٹیوٹ کے لئے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کے ذریعہ امتحانات کے انعقاد کو سنٹرلائز کرنا اگرچہ مثالی معلوم ہوتا ہے لیکن یہ یو نیورسٹیوں اور خود مختاری کے نظام کے تحت چلنے والے کالجوں / یونیورسٹیوں کی خود مختاری کو تسلیم کرنے سے انکار کے مترادف ہے۔اگر چیکہ NEPتعلیمی امور ونصاب وغیرہ کے بوجھ کو کم کرنے کی بات کرتی ہے لیکن NEET اور دیگر تمام ریاستوں کے امتحانوں کے انعقاد کا معاملہ مرکزی ایجنسیوں (NTA) اور اس جیسی دیگر ایجنسیوں کو سپرد کرتے ہوئے پریشانیوں اور مسائل کے ایک نئے سیلاب کو دعوت دے رہی ہے۔
پبلک فنڈیڈ یونیورسٹیز اور کالجس کا خاتمہ:NEP ا سکولی تعلیم کی طرح بڑی کثیر جہتی(Multi disciplinary) یونیورسٹیز، کالجس اور ایج ای آئی(Higher Educational Institutions- HEI) اور نالج ہبس جیسے کلسٹرس اور علمی مراکز کے قیام کی تجویز پیش کرتی ہے جہاں 3000 اور اس سے زیادہ طلبہ کو داخلہ دیا جائے گا۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ چھوٹی یا درمیانے درجے کی سرکاری فنڈز سے چلنے والی یونیورسٹیوں / کالجوں یا انسٹی ٹیوٹ کو بڑی کثیر جہتی یونیورسٹیوں کے قیام کے نام پر بند کردیا جائے گا۔ انتہائی متعصب انداز میں اس پالیسی کے ذریعہ بڑی جامعات کی تعمیر کے نام پر کالجوں کو بند کرنے کے لئے نالندا(Nalanda)اور تکشاشیلہ(Taksashila) جیسے ناموں کے ذریعے اپنی بدنیتی کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔
تنظیم نو کے نام پر فنڈس کی مسدودی اورنجی کرن کی کوشش:تمام اعلیٰ تعلیمی ادارے(HEI’s) ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف انڈیا (HECI)کے زیر انتظام ہوں گے۔HEI’s سے متعلق امور کی نگرانی کے لئے HECI کے تحت کئی ضمنی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اعلیٰ تعلیم کے تما م شعبے بشمول اساتذہ کی تعلیم و تربیت سوائے قانون اور میڈیسن کی تعلیم کی نگرانی کا کام انجام دینا والا نیشنل ہائیر ایجوکیشن ریگولیٹری کونسل (NHERC) واحد نگران ادارہ (Single Point Regulator) ہوگا۔نیشنل ایکریڈیشن کونسل (NAC)تعلیمی اداروں کو منظوری و الحاق فراہم کرنے والا دوسرا ادارہ ہوگا۔ہائرایجوکیشن گرانٹس کونسل(HEGC)تیسرا ادارہ ہوگا جو مالی امور (فنانسنگ) کی انجام دہی کرے گا۔تعلیمی معیار کی نگرانی کے لئے جنرل ایجوکیشن کونسل(GEC)چوتھا ادارہ ہوگا۔اس طرح کے کئی شعبوں اور اداروں کے قیام کا تکنیکی طور پر یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ سرکار یوجی سی (UGC)اور ا اس جیسے موجودہ کئی اداروں کے وجود کو ختم کرتے ہوئے اپنی سیاسی طاقت،زور اور توانائی کے ذریعے ملک کے کثیر جہتی تعلیمی نظام کوصرف اپنے نظریات کے مطابق بنانا چاہتی ہے۔
HEI’sکی نگرانی و سربراہی کا فریضہ بورڈ آف گورنرس (BoG)انجام دیں گے۔BoG کو فیس،اسٹاف کی تقرری بشمول HEI’s کے سربراہ (صدر) کی تقرری اور تعلیمی ادارجات کے انتظام اور دیگر امور پر فیصلہ سازی جیسے معاملات کے اختیارات حاصل رہیں گے۔ حکمرانی کے اس ماڈل کی وجہ سے موجودہ خود مختا ر ادارے مرکزیت(Centralization)کی بھینٹ چڑھ کر اپنی تعلیمی فضیلت کو گنوابیٹھیں گے۔
مختلف سرکاری اداروں جیسے ڈپارٹمنٹ آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی (DST)، محکمہ جوہری توانائی (DAE)، شعبہ بایو ٹکنالوجی (DBT)، انڈین کونسل آف اگریکلچر اینڈ ریسرچ(ICAR)،انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (ICMR)،انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ (ICHR)اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC)کی مالی اعانت کے لئے ایک قومی تحقیقی فنڈ(National Research Fund) قائم کیا جائے گا۔ یہ تمام اقدامات،ادارجات میں ربط ضبط و ہم آہنگی کی بات صرف اور صرف تعلیم کے لئے مختص خود مختار فنڈنگ نظام کو سیاسی کنٹرول فراہم کرنے کے لئے کئے گئے ہیں۔اس طرح کے اقدامات سے پہلے ہی سے سیاسی و سرکاری رشوت خوری کی وجہ سے ادھ مرا نظام مزید کرپشن کا شکار ہوکر سماجی ا ضطراب کے باعث بدترین نمونہ بن جائے گا۔
NEPکے مطابق خانگی(پرائیویٹ) اور سرکاری اداروں میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔اس اعلان سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ حکومت سرکاری تعلیمی ادارجات کو دی جانے والی مالی اعانت سے دستبرداری کا اشارہ دے رہی ہے۔نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق ایک خود مختار ڈگری دینے والا کالج(Autonomous College-AC)جو انڈرگرایجویٹ ڈگری دیتا ہے اور بنیادی طورپر انڈرگرایجویٹ تعلیم پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا ایک اعلیٰ تعلیم کے بڑے کثیر جہتی ادارے کے مماثل ہوگا۔اس پر کسی قسم کی بندش و تحدید ات عائد نہیں کی جائیں گی۔یہ ادارہ ایک عام یونیورسٹی سے چھوٹا ہوگا۔
روہت ویمولا قتل اوراس طرح کے متعدد واقعات سامنے آنے کے باوجود NEP 2020 ہندوستانی تعلیمی نظام میں پائے جانے والے امتیازی سلوک کے وجود کو تسلیم کرنے سے قاصرہے۔ اس مسئلے کوNEP صرف پسماندہ طلبہ کے تال میل(ایڈجسٹمنٹ) کے ایک چھوٹے مسئلہ کے طور پر دیکھتی ہے۔معاشرتی تفریق اور انصاف کے فقدان کے باعث ادارہ جاتی قتل کے وارداتیں بھی ہمارے تعلیمی نظام میں ایک ناسور کے طور پر پھیلتے ہی جارہی ہے۔NEP2020کی اس اہم مسئلے سے روگرانی تشویش کا باعث ہے۔

درجاتی عدم مساوات(Graded Inequality)اور زبردستی ترک تعلیم (Forced Drop out) کا فروغ :
NEP کا چارسالہ کثیر الجہتی ییچلر پروگرام ناکامی سے دوچار ہوگا جس کا عملی مشاہدہ سارے ملک نے دہلی یونیورسٹی میں FYUP نظام کی شکل میں کیا ہے۔یہ چار سالہ کورس نہ صرف طلبہ کی جانب سے ہدف تنقید بنا بلکہ اساتذہ نے بھی اس کی پرزور مخالفت کی ہے۔آخر کار انتظامیہ کو تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہونے کی وجہ سے کورس سے دستبردار ہونا پڑا۔اعلیٰ تعلیم میں متعدد داخلہ/اخراج کا لازمی مطلب یہ ہوگا کہ صرف اچھی مالی حالت کے حامل طلبہ ہی اپنی ڈگری مکمل کرسکیں گے۔غریب طلبہ کو صرف ڈپلومہ پر اکتفاء کرنا پڑے گا۔ نیز ایک سال میں سرٹیفکیٹ،دوسال میں ڈپلومہ،تین سال میں ڈگری عطا کرتے ہوئے ڈگری کو بے وقعت کیا جارہاہے۔ان ڈگریوں کو جو بھی شخص حاصل کرے گا اسے ایک ڈراپ آؤٹ ہی تصور کیا جائے گا۔اگر یہ کورسز الگ الگ نہیں ہیں اور چارسالہ کورس کے ایک بڑے ماڈیول کا حصہ ہی ہیں تو اس طرح کی ڈگری کے حامل افراد کا علم بھی انتہائی محدود اور غیر معیار ی ہوگا۔

نجی یونیورسٹیوں کو فروغ دینے اور فنڈس دینے کی پالیسی :
NEP 2020 میں بار بار تعلیم میں نجی سرمایہ کاری اور انسانی سخاوت(Philanthropist) کی ’اہمیت‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔یہ نجی اورکاروباری اداروں کو ہائر ایجوکیشن میں اپنے کاروبار کو وسعت اور فروغ دینا کا ایک واضح پیغام ہے۔ بلکہ حکومت کی جانب سے ان کی مالی اعانت کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ یہ مخیر انسان وحضرات کون ہوں گے۔ یہ اعلیٰ تعلیم کوکارپوریٹ اور نجی کنٹرول میں دینے کی ایک شاطر چال کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔
ایک طرف الحاق و معیار کے نام پر عوامی فنڈز سے چلنے والی جامعات کو بند کرنے کا NEP ایک ڈیزائن بناتی ہے وہیں دوسری جانب یہ نئے ہائر ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ کو کھولنے کے لئے بہت ہی کم اصول و ضوابط کا وعدہ کرتی ہے۔اس دوغلی منافقانہ پالیسی سے صاف عیا ں ہے کہ اصول و ضوابط کو کم کرتے ہوئے نئے ادارہ جات کو اجازت دے کر معیار اور معیار کی برقراری اور اس کی دیکھ بھال نہ کرنے کا حکومت ایک مذموم ارادہ رکھتی ہے۔اس طرح کی پالیسی سے فیس میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا۔یہ پالیسی تعلیمی مافیا کے لئے سونے کا انڈادینے والی مرغی سے کم نہیں ہوگی۔NEP واضح طورپر اعلیٰ تعلیم میں فیس کے اضافے کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کے حصول سے پسماندہ اور غریب عوام کو دانستہ طور پر محروم کررہی ہے۔
خودمختاری کے نام پر فیسوں میں اضافے اور سیلف فنانسنگ کا نفاذ: کالجوں اور یونیورسٹیوں کی خودمختاری کا انحصار ان کی گریڈڈ درجہ بندی پر ہوگا۔ اس طرح کی درجہ بندی سے ان اداروں کو اپنی فیس میں اضا فے کا موقع ملے گاجس کی وجہ سے غریب معیاری تعلیم سے محروم ہوجائیں گے۔ بعض یونیورسٹیز کی جانب سے چلائے جانے والے سیلف فنانسنگ کورسز اس طرح کی محرومی و بے بسی کی منہ بولتی تصویر پیش کررہے ہیں جو ہمیں درس عبرت دے رہے ہیں۔

نجی یونیورسٹیوں کو استحصال کی آزادی :
سیلف ریگولیشن سسٹم نجی یونیورسٹیوں پر حکومت کرے گا جہاں انسٹی ٹیوشنزکو تدریسی، تعلیم، انفراسٹرکچر، فیس اور دیگر تفصیلات کے معیار کے بارے میں صرف ایک اقرار نا مہ داخل کرنا کافی ہوگا۔اس طرح کے عمل سے سرکاری قواعد و ضوابط کا کردار یک لخت ختم ہوکر رہ جائے گاجس سے اعلیٰ تعلیم تباہی و بربادی سے دوچار ہوجائے گی۔ نجی اداروں کی جانب سے فیس میں اضافے سے غریبوں اور پسماندہ افراد میں ترک تعلیم کا رجحان بھی عام ہوجائے گا۔
آن لائن تعلیم کے نام پر ڈیجیٹل تقسیم اور ترک تعلیم:NEP کے ذریعے 100 اعلیٰ یونیورسٹیز میں آن لائن تعلیم شروع کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ یہ پسماندہ اور غریب طبقات کو تعلیمی عمل سے بے دخل کرنے کی ایک شاطرانہ چال ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی انٹرنیٹ کی رسائی و فروغ پر کوئی بات نہیں کرتی،ڈیجیٹل تفریق و تفاوت کو کم کرنے اور اس کی فراہمی پر بھی یہ خاموش ہے جس کے ذریعے تعلیم کے معیار کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔فاصلاتی تعلیم پر حددرجہ زور تعلیم کے بنیادی نظریات کے مغائر ہے۔
اسکول اور اعلیٰ تعلیم دونوں کی طرح،تعلیم، جانچ،تشخیص، منصوبہ بندی، انتظامیہ وغیرہ کی بہتری کے لئے NEP ایک خود مختار ادارہ نیشنل ایجوکیشنل ٹیکنالوجی (NEFT)کی تخلیق و تشکیل کی بات کرتی ہے۔ تاہم ڈیجیٹل تقسیم کو کم کرنے اور اس کے خاتمہ کے لئے کوئی ٹھوس تجویز پیش نہیں کئے گئے ہیں۔آن لائین تعلیم کے فروغ میں معاون انٹرنیٹ،گیاٹ گیجس تک عام طلبہ کی رسائی اور مالی اعانت کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں پیش کی گئی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے طلبہ معاشی و ذہنی خلفشار سے دوچار ہوں گے۔تعلیمی تجارت و نجی کاری کو NEP کی آڑ میں ایک محفوظ راستہ فراہم کیا گیا ہے۔
ایم فل کورس کو ختم کرنا اورانٹگریڈڈ پروگرام میں ایم اے کی میعاد کو کم کرنے کی پالیسی کو تیار و منظور کرنے والوں کی ریسرچ و تحقیق کے بارے میں فکر و فہم کی اور لیاقت پر سوالیہ نشان ابھرنے لگے ہیں۔ ایم فل ایک تربیتی میدان ہے جس سے تحقیقی جذبے کو فرو غ ملتا ہے۔ ایم فل کے خاتمے سے حکومت نے ہندوستان میں تحقیق کے لئے فنڈز اور امدادمیں تخفیف کا واضح اشارہ دیا ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی بنیادی طور نصاب کو بہتر بنانے،بہترین تدریسی مواد کی تیاری اور عمدہ و بہتر اساتذہ کی تیاری میں ممدو معاون ہوتی ہے۔اساتذہ نئے رجحانات و نظریات سے متصف ہوکر سماج کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرتے ہیں۔لیکن جب ترقی و تعمیر کے آڑمیں تخریب کو جگہ دی جاتی ہے،عوام کے آرمانوں و آرزؤں کا گلہ گھونٹ کر خواص کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے وہاں اضطراب، بے چینی ،غم و اندوہ کے علاوہ کوئی دوسری چیز کو فروغ حاصل نہیں ہوسکتا۔سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے نعرے کے پردے میں جب سب کا ساتھ بعض کا وکاس ہوتو پھر قوم ایسے گناہوں کو کبھی معاف نہیں کرسکتی۔نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے قبل اسے پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے تمام کی آرا حاصل کرتے ہوئے نقائص کو دور کیا جاسکتا ہے اور یہ ہی دستوری عمل ہے جس سے مکمل اعراض کرتے ہوئے آئین کی توہین کی گئی ہے۔نئی تعلیمی پالیسی کو آئین کی روح کے مطابق اور ہندوستان کے کثرت میں وحدت کے نظریے کے مطابق عوام دوست بنایا جائے تاکہ ایک جدید، خوش حال،مستحکم اور طاقت ور بھارت کی تعمیر میں مزیدکوئی تاخیر نہ ہونے پائے۔

Share
Share
Share