کورونا مرض کے پھیلاؤ کے باوجود نمازوں میں کوتاہی :- ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

Share
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی

کورونا مرض کے پھیلاؤ کے باوجود نمازوں میں کوتاہی افسوس ناک

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
(www.najeebqasmi.com)

دسمبر 2019 میں چین سے پھیلا کورونا وائرس ابھی تک ایسا معمہ بنا ہوا ہے جس کے اسباب وعلامات وعلاج سے دنیا ترقی کے منازل طے کرنے کے باوجود مکمل طور پر واقف نہیں ہے۔ اِس وبائی مرض کے وجود کا انکار نہیں کیا جاسکتا مگر یہ حقیقت ہے کہ اس مرض کے ضمن میں بعض عالمی وعلاقائی ادارے وحکومتیں وافراد ناجائز فائدہ ضرور اٹھارہے ہیں۔

اس وبائی مرض کے متعلق عالمی ادارہ صحت (WHO) کا کردار بھی مشکوک رہا ہے، متعدد بیانات بدلنے پر WHO کی ساخت بہت خراب ہوئی ہے۔ بابری مسجد کی جگہ پر 5 اگست کو رام کے نام پر ایک مندر کی بنیاد بھی رکھ دی گئی، جس سے عام مسلمانوں میں ناراضگی ہے مگر ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلہ کی وجہ سے مسلمانوں نے کوئی مظاہرہ نہ کرکے صبر کی بہترین مثال قائم کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم اللہ کے گھر کی اپنی استطاعت کے مطابق ہی حفاظت کرنے کے مکلف ہیں۔
مصیبت کی اس گھڑی میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہئے تھا مگر انتہائی افسوس وفکر کی بات ہے کہ چند ماہ سے جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے نماز پڑھنے والوں کی تعداد کم ہوگئی ہے، بعض ہمارے بھائی جو نمازوں کا اہتمام کرتے تھے، وہ بھی ان دنوں کوتاہی کررہے ہیں حتی کہ گھروں میں بھی نماز نہیں پڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ ہمیں ایسے اوقات میں نمازوں کا خاص اہتمام کرنا چاہئے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورۃ البقرۃ 153) اگر کوئی پریشانی یا مصیبت آئے تو نماز کی ادائیگی اور صبر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، یہ چیز شاق وبھاری ہے مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے مشکل نہیں۔ (سورۃ البقرہ 45) نیز نماز ایمان کے بعد اسلام کا اہم ترین رُکن ہے۔ قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں نماز کی اہمیت وفضیلت کو کثرت سے ذکر کیا گیا ہے جن میں نماز کو قائم کرنے پر بڑے بڑے وعدے اور نماز کو ضائع کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ قرآن وحدیث میں اس اہم اور بنیادی فریضہ کو کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔ صرف قرآن پاک میں تقریباً سات سو مرتبہ، کہیں اشارۃً اور کہیں صراحۃً مختلف عنوانات سے نماز کا ذکر ملتا ہے۔ صرف نماز ہی دین اسلام کا ایک ایسا عظیم رُکن ہے جس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ اس اہم حکم کی اہمیت وتاکید کے متعلق بعض آیات واحادیث شریفہ کا ترجمہ ذکر کررہا ہوں۔

آیاتِ قرآنیہ: جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کیجئے، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ (سورۃ العنکبوت 45) نماز میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے مگر دن میں چوری کرتا ہے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی نماز عنقریب اُس کو اِس برے کام سے روک دے گی۔ (مسند احمد، صحیح ابن حبان)
اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم رکھوگے اور زکاۃ دیتے رہوگے۔ (سورۃ المائدہ 12) یعنی نماز کی پابندی کرنے سے بندہ اللہ تعالیٰ کے بہت زیادہ قریب ہوجاتاہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بندہ کو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب سجدے کی حالت میں حاصل ہوتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لانے، خاص کرنماز کا اہتمام کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کے ساتھ ہوجاتا ہے۔۔۔
یقینا ان ایمان والوں نے فلاح (کامیابی) پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔۔۔ اور جو اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں، یہی وہ وارث ہیں جو (جنت) الفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (سورۃ المؤمنون 1۔ 11) ان آیات میں کامیابی پانے والے مؤمنین کی چھ صفات بیان کی گئی ہیں: پہلی صفت‘ خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا اور آخری صفت پھر‘ نماز کی پوری طرح حفاظت کرنا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کا اللہ تعالیٰ کے پاس کیا درج ہ ہے اور کس قدر مہتم بالشان چیزہے کہ مؤمنین کی صفات کو نماز سے شروع کرکے نماز ہی پر ختم فرمایا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے، جنت بھی جنت الفردوس جو جنت کا اعلیٰ حصہ ہے جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوئی ہیں۔ غرض جنت الفردوس کو حاصل کرنے کے لئے نماز کا اہتمام بے حد ضروری ہے۔
احادیث نبویہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود، مسند احمد)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کی فرمانبرداری۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری، مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم ﷺنے نماز کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگی، اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔ اور جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لئے قیامت کے دن نہ نور ہوگا، نہ اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی کوئی دلیل ہوگی، نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا۔ اور وہ قیامت کے دن فرعون، قارون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان، طبرانی، بیہقی، مسند احمد) علامہ ابن قیمؒ نے (کتاب الصلاۃ) میں ذکر کیا ہے کہ ان کے ساتھ حشر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ان ہی باتوں کی وجہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی تھیں۔ پس اگر اس کی وجہ مال ودولت کی کثرت ہے تو قارون کے ساتھ حشر ہوگا اور اگر حکومت و سلطنت ہے تو فرعون کے ساتھ اور وزارت (یا ملازمت) ہے تو ہامان کے ساتھ اور تجارت ہے تو ابی بن خلف کے ساتھ حشر ہوگا۔ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے باوجود بالکل نماز ہی نہیں پڑھتے یا کبھی کبھی پڑھ لیتے ہیں، وہ غور کریں کہ ان کا انجام کیا ہوگا۔ یا اللہ! اس انجامِ بد سے ہماری حفاظت فرما۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو اِن نماز کو اس طرح لے کر آئے کہ ان میں لاپرواہی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے تو حق تعالیٰ شانہ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں ضرور داخل فرمائیں گے۔ اور جو شخص ایسا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد اس سے نہیں، چاہے اس کو عذاب دیں چاہے جنت میں داخل کردیں۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو نماز کو (قیامت کے دن) اس طرح لے کر آئے کہ ان میں لاپرواہی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کی ہو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس بندے سے عہد کرکے اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے اور جو نماز کواس طرح لے کر آئے کہ ان میں لاپرواہیوں سے کوتاہیاں کی ہیں تو اللہ کا اس سے کوئی عہد نہیں چاہے اس کو عذاب دیں، چاہے معاف فرمادیں۔ (موطا مالک، ابن ماجہ، مسند احمد) غور فرمائیں کہ نماز کی پابندی پر جس میں زیادہ مشقت بھی نہیں ہے، مالک الملک دو جہاں کا بادشاہ جنت میں داخل کرنے کا عہد کرتا ہے پھر بھی ہم اس اہم عبادت سے لاپرواہی کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت کی کنجی نمازہے، اور نماز کی کنجی پاکی (وضو) ہے۔ (ترمذی، مسند احمد)
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرمﷺ کے پاس (آپ کی خدمت کے لئے) رات گزارتا تھا، ایک رات میں نے آپ کے لئے وضو کا پانی اور ضرورت کی چیزیں پیش کیں۔ آپ ﷺنے فرمایا کچھ سوال کرنا چاہتے ہو تو کرو۔ میں نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ جنت میں آپ کے ساتھ رہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: اس کے علاوہ کچھ اور۔ میں نے کہا: بس یہی۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے زیادہ سے زیادہ سجدے کرکے میری مدد کرو۔ (یعنی نماز کے اہتمام سے یہ خواہش پوری ہوگی)۔ خوش نصیب ہیں اللہ کے وہ بندے جو اِس دنیاوی زندگی میں نماز کا اہتمام کرکے جنت الفردوس میں تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ کی مرافقت پائیں۔ (مسلم)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں رکھی گئی ہے۔ (نسائی، بیہقی، مسند احمد)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی: نماز، نماز۔ اپنے غلاموں (اور ماتحت لوگوں) کے بارے میں اللہ سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق ادا کرو۔ جس وقت آپ ﷺنے یہ وصیت فرمائی آپ ﷺکی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ (مسند احمد)
حضرت عمرو اپنے والد اور وہ اپنے دادا (حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم کرو۔ دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو، اور اس عمر میں علیحدہ علیحدہ بست روں پر سلاؤ۔ (ابوداود) والدین کو حکم دیا گیا کہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسکی نماز کی نگرانی کریں، دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر پٹائی بھی کریں تاکہ بلوغ سے قبل نماز کا پابند ہوجائے، اور بالغ ہونے کے بعد اس کی ایک نماز بھی فوت نہ ہو کیونکہ ایک وقت کی نماز جان بوجھ کر چھوڑنے پر احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، بلکہ بعض علماء کی رائے کے مطابق وہ ملت اسلامیہ سے نکل جاتا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو یہ حکم جاری فرمایا کہ میرے نزدیک تمہارے امور میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے۔ جس نے نمازکی پابندی کرکے اسکی حفاظت کی، اس نے پورے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ نماز کے علاوہ دین کے دیگر ارکان کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔ (موطا امام مالک) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جو شخص نماز میں کوتاہی کرتاہے، وہ یقینا دین کے دوسرے کاموں میں بھی سستی کرنے والا ہوگا۔ اور جس نے وقت پر خشوع وخضوع کے ساتھ نماز کا اہتمام کرلیا، وہ یقینا پورے دین کی حفاظت کرنے والا ہوگا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شبِ معراج میں نبی اکرم ﷺ پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں، پھر کم ہوتے ہوتے پانچ رہ گئیں۔ آخر میں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اعلان کیا گیا۔ اے محمد! میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی، لہذا پانچ نمازوں کے بدلے پچاس ہی کا ثواب ملے گا۔ (ترمذی) صرف نماز ہی دین اسلام کا ایک ایسا عظیم رُکن ہے جس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم ﷺ تک نہیں پہنچا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب ﷺ کو عطا فرمایا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز کا اہتمام کرنے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔

Share
Share
Share