ہندوستان کی آزادی میں اردو زبان و صحافت کا حصہ :- سید اسرارلحق سبیلی

Share
ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی

ہندوستان کی آزادی میں اردوزبان وصحافت کا حصہ

 

سید اسرارلحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ ڈگری کالج
سدی پیٹ،تلنگانہ

آزادیئ ہند کی جنگ تقریباً نوے سال رہی ہے، جنگ کے اس پورے عرصہ میں اردو صحافت وادب کا کردار بہت اہم رہاہے، ہمارے ادیب، صحافی اور شاعر نے صرف گل وبلبل کی داستانیں ہی نہیں سنائی ہیں بلکہ انہوں نے انگریزی حکومت کے مکروفریب کو سمجھا، ملک وقوم کو انگریزوں کے ظلم واستحصال سے باخبر کرتے رہے اور اپنی قوم کو انگریزوں کے خلاف آزادی کی خاطر ابھارتے رہے۔

چنانچہ ۱۸۵۷ء کی معرکہ خیز جنگ آزادی پر گورنر لارڈ کیٹنگ نے اپنے نوٹ میں لکھا تھا کہ
”دیسی اخبارات نے خبریں شائع کرنے کی آڑ میں ہندوستانی باشندوں میں دلیرانہ حد تک بغاوت کے جذبات پیدا کردیئے ہیں“۔
واضح رہے کہ اردو کا پہلا اخبار مولوی محمد باقرنے نکالا، جو خود مجاہد آزادی تھے، وہ انگریز پولیس کی زیادتیوں اور چیرہ دستیوں کو اپنے اخبار”دہلی اردو اخبار“ کے ذریعہ بے نقاب کیاکرتے تھے، جس کی وجہ سے انگریزوں نے ان کو گولی مارکرہلاک کردیا۔ اسی طرح اس زمانہ کے اخباروں میں صادق الاخبار وگلشن نوبہار(کلکتہ) بہت مشہور ومقبول انقلابی اخبار تھے۔ ان اخباروں میں خبریں بظاہر غیرسیاسی ہوتی تھیں، لیکن انداز بیاں اور مواد کی گہرائی میں غم وغصہ کا ایک دبا ہوا طوفان ہوتا تھا جو قارئین کے دل ودماغ میں سرایت کرجاتاتھا۔
انگریزوں نے اردو صحافت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی، چنانچہ ہسٹری آف انڈین جرنلزم میں بتایا گیاہے کہ ۱۸۵۳ء کی سرکاری فہرست میں اردو اخبارات کی تعداد۳۵/تھی او ر۱۸۵۸ء کی فہرست میں گھٹ کر صرف بارہ رہ گئی تھی۔ اسی انیسویں صدی کے اخیر کے اخباروجرائد میں تاریخ اخبارِ ہند(آگرہ) خیرخواہِ خلق(اجمیر) علی گڑھ انٹی ٹیوٹ گزٹ، اودھ پنچ(لکھنؤ) اور سفینہئ ہند(میرٹھ) وغیرہ نے تحریک آزادی میں نمایاں رول ادا کیاہے۔
بیسوی صدی کی ابتدا سے آزادیئ ہند تک تو کافی کامیابی وبے باکی کے ساتھ اردو صحافت وادب نے تحریک آزادی میں حصہ لیا۔ چنانچہ ۱۹۰۳ء میں مولانا حسرت موہانی ؒنے”اردوئے معلی“ جاری کیا، جس کا اعلانیہ مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو قومی سیاست میں تعمیری دلچسپی کے لیے تیار کیا جائے۔ انہوں نے مجاہدانہ اعلان کیا کہ قومی سیاست کا مقصد کامل آزادی ہے اور اس کے لیے جدوجہد کرنا ہر ہندوستانی کا فرض ہے۔ حسرت ایک بے باک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخلص مجاہد آزادی بھی تھے او راس کی خاطر انہوں نے قیدوبند کی دشوار ترین صعوبتیں بھی قبول کیں۔
۱۹۰۷ء میں ہفت روزہ”آفتاب“ کے ایڈیٹر سید حیدر رضا دہلوی نے اپنی شعلہ بار تحریروں اور تقریروں سے دہلی کی صحافتی اور سیاسی زندگی میں بڑا معرکہ قائم کیا۔ مولانا ظفر علی خاں جو اپنے والد سراج الدین احمد کی وفات کے بعد”زمین دار“ کے ایڈیٹر ہوئے، مجاہدانہ جذبہ اور حوصلہ سے سرشار تھے، وہ تحریر وتقریر دونوں کے دھنی تھے او رشعری صلاحیت کی بدولت انہوں نے سیاسی نظم کو اردو صحافت کا امتیازی عنصر بنادیا،زمین دار کی معرکہ خیز خبروں اور ولولہ انگیز نظموں نے اردو صحافت کی تاثیر اور شہرت میں بے پناہ اضافہ کیا اور یہ صحافت برطانیہ مخالف جذبات کا طوفان بن گئی، حکومت نے اس صحافت کے سالار مولوی ظفرعلی خاں سے پے درپے ضمانتیں طلب کیں، یہاں تک کہ ان کو کریم آبادمیں نظر بند کردیا۔
جولائی ۱۹۱۲ء میں مولانا محی الدین ابوالکلام آزادؒ نے کلکتہ سے ”الہلال“ جاری کیا، جو نومبر ۱۹۱۴ء تک جاری رہ سکا، اس کے بعد مولانا آزاد نے نومبر۱۹۱۵ء کو ”البلاغ“ نکالا، جو صرف پانچ مہینہ تک زندہ رہا، الہلال کے مقصد کا اظہار مولاناآزاد نے ۲۵/اگست ۱۹۱۲ء کو مجلس خلافت آگرہ میں خطبہئ صدارت پیش کرتے ہوئے کیاتھا۔
”اصل مسئلہ جس پر میں گام فرسائی کررہاتھا، یہ تھا کہ ہندوستان کی نجات کے لیے، ہندوستان میں مسلمانوں کے بہترین فرائض انجام دینے کے لیے ہندومسلم اتحادضروری ہے، یہ میرا مقصد ہے، جس کا اعلان ۱۹۱۲ء میں ”الہلال“کے پہلے ہی نمبر میں کرچکاہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ایسے لوگ موجود ہوں گے، جنہوں نے الہلال کو فراموش نہ کیا ہوگا“۔
”الہلال“ کے پہلے نمبر میں جس بڑے نمایاں مقصد کا اعلان کیاگیا،کیاتھا؟ میں فخر کے ساتھ اظہار کرنا چاہتاہوں کہ وہ ہندومسلمانوں کا اتفاق تھا، میں نے مسلمانوں کو دعوت دی تھی کہ احکام شرح کی روسے مسلمانوں کے لیے اگر کوئی فریق ہوسکتاہے، جو نہ صرف ایشیاء کو بلکہ اس تمام کرہئ ارضی کی سچائی کو آج چیلنج دے رہا ہے، اس کو مٹارہا ہے، جس کے غرور سے اللہ کی عالم گیر صداقت کو سب سے بڑا خطرہ ہے، وہ برٹش گورنمنٹ کے سوا کوئی دوسری طاقت نہیں“۔ (ماخوذ:مقدمہ الہلال۱/۷ ط:اترپردیش اردواکادمی لکھنؤ ۱۹۸۸ء)
الہلال اور البلاغ نے تحریک آزادی کے مدھم چراغ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ چنانچہ ممتاز نقاد اورمحقق ڈاکٹر مالک رام نے لکھا ہے:
”جب جولائی ۱۹۱۲ء میں الہلال جاری ہوا، اس وقت مہاتماگاندھی ہنوز جنوبی آفریقہ سے ہندوستان نہیں پہنچے تھے، پوری سیاسی تحریک بہت ہی نرم اور نرم گفتار تھی، حکومت پر اس کے اعمال واقوال پر کڑی نکتہ چینی کی ابتدا الہلال ہی سے ہوئی“۔
الہلال او رالبلاغ نے آزادی کی خاطر ہندومسلم اتحاد میں بڑا رول اداکیا۔ حقیقت یہ ہے کہ الہلال اور البلاغ کے تذکرہ کے بغیر تحریک آزادی کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔
۱۹۲۵ء میں جمعیۃ العلماء ہند نے دہلی سے ایک ہفت روزہ”الجمیعۃ“ جاری کیا، جس نے تحریک ترک موالات اور آزادیئ ہند کی پرزور حمایت کی۔ چنانچہ ابتداہی میں یہ پرچہ برطانوی عتاب کا شکار ہوگیا۔۱۹۲۴ء میں حکومت نے ایمرجنسی ایکٹ کے تحت تمام اخباروں پر لازم قراردیا کہ وہ ”وہ ہندوستان چھوڑو تحریک“ کی خبروں اور اس کی اشاعت سے قبل حکومت کو ان کا معائنہ کروائیں۔ اس طرح آزادی کی کوئی صداقت پسند تاریخ اردو صحافت وادب کی نگارشات اور خدمات کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔
ہندوستان کی تحریک آزادی میں اردو شعرا نے اپنے اشعار کے ذریعہ موثر رول ادا کیاہے۔اگر اردو ادب کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگاکہ تحریک آزادی میں عوام کو انقلاب کی جانب متوجہ کرنے میں اردو شاعری نے اہم حصہ ادا کیاہے، ان میں چند شعرا ایسے بھی ہیں، جنہوں نے خود جدوجہد آزادی میں حصہ لیا اور اس اشعار بھی کہے، چنانچہ مغلوں کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر نے ۱۸۵۷ء کی جنگ ہارنے کے بعد بیان غم کرتے ہوئے کہا:
گئی یک بیک جو ہوا پلٹ، نہیں دل کو میرے قرار ہے
کروں اس ستم میں کیا بیاں، میراغم سے سینہ فگار ہے
نہ تھا شہر دہلی یہ تھا چمن، کہوں کس طرح کا تھا یاں امن
جو خطاب تھا وہ لٹادیا، فقط اب تو اجڑا دیار ہے
اشفاق اللہ خاں جنہوں نے ۱۹۵۲ء میں انقلاب کے لیے درکارسرمایہ حاصل کرنے کی غرض سے خزانہ لے جانے والی ٹرین کاکوری میل کو لٹوادیاتھا، جس کی وجہ سے فیض آباد جیل میں ان کی پھانسی دی گئی، فیض آباد جیل میں انہوں نے یہ اشعار کہے تھے ؎
سبھی سامانِ عشرت تھے، مزے سے اپنی کٹتی تھی
وطن کے عشق نے ہم کو ہوا کھلوائی زنداں کی
وہ گلشن جو کبھی آزاد تھا گزرے زمانہ میں
میں شاخ خشک ہوں وہاں یہاں اسی اجڑے گلستاں کی
اور ان کے رفیق مجاہدآزادی رام پرساد بسمل نے کہا تھا:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
وقت آنے پر بتادیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی کیا بتائیں کہ ہمارے دل میں ہے
جلیانوالہ باغ امرتسر میں انگریزی حکومت کے بہیمانہ اور وحشیانہ درندگی کے ہولناک مظاہرہ پر علامہ اقبال تڑپ اٹھے:
ہر زائر چمن سے یہ کہتی ہے خاکِ باغ
غافل نہ رہ جہاں میں گردوں کی چال سے
سینچا گیاہے خون شہیداں سے اس کا تخم
تو آنسوؤں کا بخل نہ کر اس خیال سے
اسرارالحق مجاہد نے انگریزوں کے خلاف فوری بغاوت کی تعلیم دی:
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کر
جوش ملیح آبادی نے پرجوش انداز میں کہا:
اٹھو، چونکو، بڑھو، منھ ہاتھ دو، آنکھوں کی مل ڈالو!
ہوائے انقلاب آنے کو ہے، اے ہندوستاں والو!
سیاسی شاعر پنڈت برج نارائن چکبست نے وطن کا راگ یوں گایاہے:
وطن پرست شہیدوں کی خاک لائیں گے
ہم اپنی آنکھ کا سرمہ اسے بنائیں گے
غریب ماں کے لیے درد و دکھ اٹھائیں گے
یہی پیام وفا قوم کو سنائیں گے
مولانا ظفر علی خاں نے آزادی کی پیش گوئی اس طرح دی:
وہ دن آنے کو ہے آزاد جب ہندوستاں ہوگا
مبارکباد اس کو دے رہا سارا جہاں ہوگا
ہمارا ناحق خون یوں ہی رائیگاں وبے کار نہیں جائے گا، پنڈت تلوک چندمحروم کے الفاظ میں:
دیکھ لینا خون ناحق رنگ اک دن لائے گا
خود غرض ظالم کئے پر اپنے خود پچھتائے گا
ہمارے اتحاد پر کوئی رخنہ انداز نہ ہو، احسان دانش کہتے ہیں:
جن کی خواہش ہے بجھ جائے اخوت کا چراغ
پیس دے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ان کا دماغ
ہماری جاں بازی اور استقامت دیکھ کر ظالم انگریز گھبرا اٹھے تھے، ساحرلدھیانوی کہتے ہیں:
کانپ رہے ہیں ظالم سلطاں، ٹوٹ گئے دل جباروں کے
بھاگ رہے ہیں ظلِ الٰہی، منہہ اترے ہیں غداروں کے
۱۹۵۴ء میں جب وائسرائے لارڈ دیول نے اعلان کیا کہ بہت جلد ہندوستان آزاد کردیا جائے گا اور انگریز ہندوستان چھوڑ دیں گے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی اردو شعرانے آزادی کی خوشخبری میں اشعار کہے:
ایک حقیقت بن کے ملا خواب ارمان وطن
اے زہے قسمت کہ اپنے جیتے جی آہی گیا
اور سکندر علی وجد نے کہا:
دامان چاک اشک مسرت سے تر ہے آج
دوسو برس کے بعد طلوع سحر ہے آج
غرض آزادی کی پوری تاریخ میں اردو صحافت وادب نے ہمیشہ ساتھ دیاہے، اس لیے تحریک آزادی میں اردو کی خدمات کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے اور نہ ہی اسے صرف مذہبی اور ایک فرقہ کی زبان کہا جاسکتاہے۔

Share
Share
Share