نئی قومی تعلیمی پالیسی اور ہماری سرد مہری -1 :- عبد الرشید مصباحی

Share
عبد الرشید مصباحی

نئی قومی تعلیمی پالیسی اور ہماری سرد مہری 1

عبد الرشید مصباحی
جامعہ سکینہ اشرف البنات دھانے پور

کسی بھی نظام میں تبدیلی ایک فطری و وقتی تقاضہ ہے جب نظام زندگی کے بنیادی اصول فرسودگی کا شکار ہونے لگیں تو اس میں تجدیدی عمل وجدید تقاضوں سے ہم آہنگ ردو بدل کرنے سے تعمیر وترقی کی نئ راہیں ہموار ہوتی ہیں.جس طرح ٹھہرا ہو اپانی جلد گندہ وبدبو دار ہو جاتا ہے اسی طرح کسی بھی نظام وپالیسی میں جمود وتعطل بھی ہماری زندگی کے آب رواں کو بدبو دار بنا دیا کرتا ہے.

اسی بنیادی اصول و فطری تقاضہ کے تناظر میں ہمارے نصاب ونظام تعلیم میں تبدیلی ایک امر ناگزیر ہے تاکہ جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ,تعلیمی وتکنیکی ترقی کے نئے اصول ہم دنیا کو متعارف کرا سکیں .جدید ٹکنالوجی ,سائنسی اختراعات, ودفاعی قوت میں خود انحصار ترقی کے اس دور میں دنیا آج گلو بل ویلیج بن چکی ہے اور نت نئے ایجاد نے دنیا کو آج حیرت میں ڈال دیا ہےجس کی وجہ سے آج پوری دنیا سائنس وٹکنالوجی کی ترقی میں نئ تاریخ رقم کر رہی ہے اور مغربی ممالک ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ہوڑ میں ہیں.سائنس وٹکنالوجی کی یہ ہمہ جہت ترقی یقینا تعلیم ونظام تعلیم کی ہی مرہون منت ہے مگر یہ اس وقت ممکن ہے جب قانون ساز وپالیسی میکرس بلا تفریق رنگ ونسل ملک وسماج کی ترقی میں مخلص ہوں اور کسی مخصوص نظریاتی مشن پر کاربند نہ ہو ں, ورنہ پھر تمام ترقیاتی منصوبے ترجیحی بنیاد پر انتشار وافتراق کا شکار ہو جائیں گے جس کے نتیجہ میں ملک کا امن وامان غارت گری کی نذر ہو جائے گا اور وہ ملک مادی ,اقتصادی, معاشی, وتجارتی ترقی پر گامزن ہونے کے بجائے فرقہ وارانہ منافرت کا شکار ہو کر رہ جائے گا.
اب ظاہر ہے ایسی حکومت اعلی تعلیمی ادارے, سائنس وٹکنالوجی کے اعلی مراکز,تحقیق وریسرچ کے مرکزی سینٹر, کے قیام ومحکمۂ صحت وزراعت کو سہولیات بہم بہم.پہنچانے میں اپنی دلچسپی کیسے ظاہر کر سکتی ہے ؟ہاں ایسی حکومت اپنی ساری توانائ ان پالیسیز میں ضرور صرف کرتی ہے جو اس کے مشن وایجنڈے کی ترویج واشاعت کا پیش خیمہ ثابت ہو .
زیر بحث عنوان کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت اپنے چھ سالہ دور حکومت میں تعمیر وترقی, فلاح وروزگار سے متعلق کوئ قابل ذکر عملی پیش رفت نہ تو اب تک کر سکی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کی کوئ امید بھی نظر آرہی ہے.البتہ وزارت عظمہ پر قابض ہمارے پردھان سیوک نے اپنے شمشان ,قبرستان والے بیانات کے ذریعہ پورے ملک کی فضا مکدر کر دی ہے اور فرقہ واریت کی ایسی ہوا چلائ کہ پورا ملک ہجومی تشدد ,موب لنچنگ, اقلیت کشی وقتل وغارت گری کی آماجگاہ بن گیا.آزادی کے بعد سے وطن عزیز نے تاریخ کا وہ شرمناک دور بھی دیکھا کہ جب ملک کی عظیم.سماجی, ثقافتی ,ادبی شخصیتوں نے اس دہشتناک صورت حال پر اپنی خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” اب ملک میں رہتے ہوئے ڈر لگنے لگا ہے ” اور جس کے احتجاج میں انھوں نے تمام سرکاری ایوارڈ حکومت کو واپس کر دیا. ایک جمہوری ملک میں اس طرح کے واقعات کو بڑی سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے .
مگر بے حیا باش ہر چہ خواہی کن .
اب ہمیں سمجھنا ہوگا کہ خوف ودہشت کا یہ ماحول اور ہجومی تشدد وماب لنچنگ کے واقعات یقینا اسی مخصوص پالیسی کا نتیجہ ہیں جس کے تحت مودی جی اقتدار پر قابض ہوئے ہیں ,تین طلاق ,370 ,بابری مسجد ,شہریت ترمیمی قانون ,این آر سی ,این پی آر ,جے این یو ,جامعہ ,علی گڑھ وغیرہ یہ سب ایشوز کسی فلاحی وترقیاتی منصوبہ کا حصہ نہیں اور نہ دفاعی قوت کو مضبوط کرنے والے اور نہ ہی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ,آتم نربھر بھارت کے نرمان میں بھی ان کا کوئ رول نہیں ہوسکتا , بلکہ بی جے پی کے اسی کیسریا مشن کا حصہ ہیں جس کا پچھلے ایک صدی سے وہ خواب دیکھ رہے ہیں .آری ایس ایس کی مسلمانوں کے خلاف اسی نفرت انگیز پالیسی کا ہی نتیجہ تھا کہ کرونا جیسی مہاماری بھی بھارت میں مسلمان ہو گئ اور پقرے ملک میں مسلمانوں کو بھارتیہ میڈیا واکثریتی ٹولہ کے مظالم.کا شکار ہونا پڑا, جمہوریئہ ہند نے تاریخ کا اتنا بد ترین دور شاید ہی کبھی دیکھا ہو جب کسی ٹھیلہ والے وسبزی فروشوں سے اس کے مذہبی شناخت پر خریداری کی گئ ہو .
آر ایس ایس کے نظریاتی واعتقادی فکر کی ترجمان اسی بی جے پی حکومت نے حالیہ دنوں جدید قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے جس کی تیاری حکومت کی مرکزی کابینہ , وپالیس ساز کمیٹی میں شامل آر ایس ایس کے ارکان پچھلے چھ سالوں یعنی مودی جی کے آغاز اقتدار سے ہی کر رہے تھے .اور اس کا مسودہ اب ایک قانونی حیثیت پانے کے لئے تیار ہے . یہ مسودہ ہمارے ملک کے جمہوری اقدار وروایات ,افکار ونظریات ,اور تہذیب وثقافت کو فروغ دینے میں کیا رول ادا کرے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر جو حکومت اپنے دور اقتدار میں فلاح وتعمیرات سے قطع نظر صرف غیر ضروری مسائل میں الجھی رہی اور ایک مخصوص مشن پر کاربند رہی ہواس سے کسی خیر کی امید کیاے کی جا سکتی ہے .
اس لئے جدید قومی تعلیمی پالیسی ترجیحات و عصبیت , سے پاک ہوگی اور یکساں نظام تعلیم کی آئینہ دار ہوگی ! یہ بات بھی قابل غور ہے .
موجودہ جدید قومی تعلیمی پالیسی کہیں آر ایس ایس کے سوسالہ منصوبہ جاتی ایجنڈے ” نئے بھارت کی تشکیل ” کا حصہ تو نہیں؟ جمہوریت پسند و سیکولرزم کے حامی ملک کے دانشوران کو اس سے بھی متنبہ رہنے کی ضرورت ہے .
کیونکہ یہ اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی ملک و ریاست کا تعلیمی نصاب ونظام اس ملک کا مستقبل متعین کرنے میں بڑا عمل دخل رکھتا ہے.
اور آر ایس ایس اپنے ابتدائے قیام سے ہی اس مشن پر گامزن ہے کہ کسی طرح قدیم ہندوستانی اقدار وروایات , تہذیب وثقافت, جمہوری اصولوں کی پاسداری , فرقہ وارانہ ہم آہنگی وآپسی رواداری کو ختم کرکے ملک کے آئین پر زعفرانی خول چڑھا دی جائے اور اسی ایجنڈے کے تحت ملکی تعلیمی پالیسیز و نصاب ونظام میں بڑے پیمانہ پر پچھلے کچھ سالوں سے خفیہ طور پر پھیر بدل جاری ہے. تاریخی نصاب سے مسلم حکمرانوں کا اخراج , انھیں ظالم وجابر بناکر نئ نسل کی ذہن سازی , مسلم حکمرانوں کو لٹیرا ,بلوائ , ہندومت کا.دشمن , منادر و دیوی دیتاؤ ں کا دشمن ثابت کرنا اور اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر تاریخی حقائق کو مسخ کرنا اور تاریخ نگاری میں خیانت ودنایت سے کام لیناجیسی گھنونی سازشیں آزادی کے بعد ہی سے جاری ہیں مگر ہم خواب غفلت میں مست ابھی تک مسلکی رسہ کشی میں ہی سرگرداں ہیں .
نہ تو ہمیں جمہوریت کی پاسداری کی فکر ہے اور نہ ہی اپنی ملی تشخص کی , ایک خفیہ پلاننگ کے ذریعہ پوری ملک کے تعلیمی ڈھانچہ کو کیسریا رنگ میں رنگنے کی مہم برسوں سے چل رہی ہے جس میں آرایس ایس کے ارکان نے اپنی پوری توانائ و اپنی زندگیوں کے قیمتی لمحات کو جس کے لئے وقف کر دیا مگر ہمارے اکابرین ومشائخ خواب خرگوش میں مست ,عیش وعشرت میں مدہوش رہے اور مسلم.طلباء کی صحیح رہنمائ اور ان کے اخلاق و کردار کی حفاظت کے لئے کوئ لائحہ عمل تیار نہیں کیا .
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا .

مجھے رہزنوں سے غرض نہیں تیری رہبری کا سوال ہے. (جاری )

بانی ومہتمم .جامعہ سکینہ اشرف البنات دھانے پور گونڈہ

Share
Share
Share