توہینِ رسالت بد بختانہ واقعات اور مسلمانوں کا ردِ عمل

Share

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
9885210770

آزادیِ اظہار رائے کی آڑ میں فرانس میں حالیہ دنوں میں شانِ رسالتمآبﷺ میں گستاخی کے جو بد بختانہ واقعات پیش آ ئے اس سے دنیا کے سارے مسلمانوں کے دل ملول اور رنجیدہ ہیں۔ ایک نام نہاد مہذب سماج کے ٹھکیداروں نے انسانیت کے سب سے بڑے محسنؐ کے توہین آمیز کارٹونوں کو شائع کر کے ایک ایسا جرمِ عظیم کیا ہے کہ جو نا قابلِ معافی ہے۔

آزادیِ اظہارِ رائے کے نام پر کسی مذہب کے ماننے والوں کے جذبات اور احساسات کو ٹھیس پہنچانے کا لائسنس ہر کسی کو دے دیا جائے تو پھر کوئی مذہب اور کوئی مذہبی ہستی قابلِ احترام اور قابلِ تقلید نہ ہوگی۔ فرانسیسی حکومت کی سر پرستی میں وہاں کے جنو نیوں نے داعی اسلام محمد رسولﷺ کے فرضی خاکے بناکر جہاں رسول مقبولﷺ کی شان میں گستاخی کی وہیں ساری دنیا کے مسلمانوں کے دل چھلنی کر دئے۔ ان کا یہ مجرمانہ عمل اس بات کا تقا ضا کر تا ہے کہ مسلمان اس پر اپنا زبر دست ردِ عمل ظا ہر کریں۔ چناچہ اس گھناو نی حرکت کے خلاف ساری دنیا میں مسلمان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ مختلف ممالک میں ہونے والے اس احتجاج کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ مسلمان، اپنے رسولؐ سے کس قدر محبت کا جذبہ اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔ فرانس میں ہونے والے توہین رسالتؐ کے واقعہ کو محض ایک حادثہ یا چند بد طینیت افراد کی کارستانی پر محمول کر دینا مسلمانوں کی بہت بڑی بھول ہو گی۔ فرانس میں اس سے پہلے بھی اس قسم کی شرپسندی کی گئی تھی۔ مستقبل میں بھی اس نوعیت کے مجرمانہ حرکتیں وہاں ہونے کے پورے آ ثار پائے جا تے ہیں۔ اس لئے ان گستا خانِ رسولؐ کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے وقتی احتجاج کے ساتھ ساتھ کچھ ٹھوس اقدامات بھی کر نے ضروری ہیں۔ مسلمانوں کا ردِ عمل جتنا سخت ہوگا اتنا زیادہ ہی ان شیطانی حرکتوں پر روک لگے گی۔ یہ دراصل ایک نئی کشمکش کا آ غاز ہے۔ مسلمانوں کے دلوں سے رسول کریمﷺ کی محبت کو ختم کرنے کے لئے یورپ میں توہین رسالتؐ کے واقعات ہر تھوڑے دن کے وقفے کے بعد پیش آ تے رہے ہیں۔ فرانس میں حکومت نے گستاخانِ رسولؐ کے ساتھ ہمدردی اور ان کی پشت پناہی کر نے کا بھی مذموم رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ فرانس کے صدر نے اہانتِ رسولؐ کے وا قعات کو روکنے اور اس جرم کا ارتکاب کر نے والوں کو سزا دینے کے بجائے ان کی حمایت کی۔ میکرون کی سر پرستی میں ہی یہ ساری جارحانہ کاروائیاں ہوتی رہی ہیں۔
رسول مقبولﷺ کی شانِ اقدس میں کیا پہلی مر تبہ اس قسم کی گستاخی کی گئی ہے؟ اس سے پہلے بھی اس طرح کی گستا خانہ حر کتیں مغربی ممالک کی جانب سے کی جاتی رہیں۔ ڈنمارک میں رسول اکرمؐ کے خاکے بنائے گئے۔ اس کی تقلید کرتے ہوئے دیگر ممالک میں بھی اس قسم کی دل آزار ی کی گئی۔رسول کریمؐ کے کارٹونس کے علاوہ آپؐ کی ازواجی زندگی پر مبنی فلمیں بھی بنائی گئیں جس میں آپؐ کے مثالی ازواجی کردار کو مسخ کر کے پیش کیا گیا۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد سے ہی مغربی دنیا، اسلام دشمنی میں آگے ہی بڑ ھتی چلی گئی۔ اسلام کے مقدسات کی بیحرمتی کرنا حکومتوں کی پالیسی بن گئی۔ ان کی ان بد تمیزیوں نے مسلم امت کے صبر کے پیمانے کو لبریز کر دیا۔ لیکن مغربی ممالک کے حواری مسلمانوں کے اس غم و غصہ کو دہشت گردی سے تعبیر کر تے ہیں۔ چنا چہ حالیہ فرانس کے واقعات میں بھی مسلمانوں کو موردِ الزام ٹہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب فرانس میں ایک اسکول ٹیچر نے حضور اکرمﷺ کے خلاف نا زیبا کارٹون کلاس میں دکھانے شروع کئے تو ایک 18سالہ مسلم طالب علم سے اس ٹیچر کی یہ گستا خی بر داشت نہ ہوئی اور اس نے اپنی ایمانی حرارت اور اپنے رسولؐ سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اس ٹیچر کا سر قلم کر دیا۔ اس موقع پر جمہوریت کے علمبرداروں کو ٹیچر کی فاش غلطی تو نظر نہیں آ ئی البتہ ایک نوجوان کے غم و غصہ میں خطرناک دہشت گردی نظر آئی اور امن کے سارے پجاری فرانس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ بات قارئین کی معلومات میں اضا فہ کا با عث ہو گی کہ فرانس میں توہین رسالت کو 1881 سے ہی جائز مانا جاتا ہے اور اسے اظہارِ خیال کی آ زادی سے تعبیر کر تے ہوئے داعی اسلامﷺ کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہو تے ہیں اور جب مسلمان ان نا زیبا حرکتوں پر اپنا ردِ عمل ظاہر کر تے ہیں تو انہیں ہی مجرم قرار دے کر شدید ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی جا تی ہیں۔چناچہ اس وقت فرانس میں مسلمان شدید قسم کے دباؤ کا شکار ہیں۔ 29/ اکتوبر کو ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد، فرانس میں مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یوروپ میں فرانس ہی وہ ملک ہے جہاں مسلمان سب سے زیادہ آباد ہیں۔ فرانس میں اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہیں پر سب سے زیادہ اسلام دشمنی دیکھی جا تی ہے۔ فرانس میں 2004میں اسلام مخالف لہر اس وقت دیکھی گئی جب مسلم طالبات کو اسکارف پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 2010میں چہرہ ڈھاپنا ممنوع قرار دیا گیا اواب صورت حال اس قدر بھیانک ہو گئی ہے کہ بعض مسلمان فرانس سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ حالات جان بوجھ کر پیدا کئے جا رہے ہیں تاکہ مسلمان کہیں پر بھی اپنے دین اور ایمان کے ساتھ اطمینان اور سکون کی زندگی گذار نہ سکیں۔
حالات کی اس سنگینی میں یہ سوال اہم ہے کہ مسلمانوں کا ردِ عمل کس نو عیت کا ہو۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اسلام میں رسول مقبولﷺ کا جو مقام و مرتبہ ہے اس کے اعتبار سے آپؐ کی شان میں گستاخی کرنا جرمِ عظیم ہے۔ اس کی سزا قتل ہے۔ یہ سزا اسی وقت ٹل سکتی ہے اگر گستاخ رسولؐ، اپنے جرم پر نادم اور شرمسار ہوکر معافی کا خواستگار ہو۔ تاریخِ اسلام میں اس ضمن میں حضرت کعبؓبن زہیر کے واقعہ سے رہنمائی ملتی ہے۔ گستاخِ رسولؐ کی کیا سزا ہو اس سوال کا جواب بر صغیرِ ہند کے دو واقعات سے بھی دیاجا سکتا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کی حینِ حیات میں ہونے والے ان واقعات نے علامہ کو کتنا مضطرب کر دیا تھا اور انہوں نے کیا موقف اختیار کیا تھا، وہ موجودہ حالت میں ہمارے لئے ایک بہترین مثال ہے۔ پہلا واقعہ 1924کا ہے۔ جب راج پال نامی ایک ہندی مصنف نے حضور سرورکائناتؐ کی ذات اقدسؐ پر رکیک حملہ کر تے ہوئے ایک کتاب لکھی۔ علامہ اقبال رقمطراز ہیں کہ: اس رسوائے زمانہ کتاب کا نام لینا بھی سوء ادب اور شان رسالتؐ میں گستاخی سمجھتا ہوں اور نقل کفر، کفر نباشد کی میں جراء ت بھی نہیں کر سکتا: راج پال کی اس کتاب کی اشاعت نے مسلمانوں میں غم و غصہ کی وہ لہر پیدا کر دی کہ انگریز بھی پریشان ہو گئے۔ عدالت میں مقدمہ چلا اور عدالت عالیہ نے راجپال کو بری کردیا۔ لیکن مسلمانوں کا غصہ کم نہیں ہوا۔ پہلے ایک غیور مسلمان خدا بخش نے راج پال پر حملہ کیا وہ بچ گیا۔ پھر ایک افغان نوجوان عبد العز یز نے راج پال کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی لیکن پھر گستاخَ رسول کی جان بچ گئی۔ لیکن علم الدین نامی ایک غیرت مند مسلمان نے راج پال کا کام تمام کر دیا اور خود بھی خوشی خوشی جامِ شہادت نوش کر لیا۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے جو بات کہی وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ فرمایا: ہم لوگ باتیں بناتے رہ گئے اور یہ نجار کا لڑکا کام کر گیا: دوسرا واقعہ بھی علامہ اقبال کے حوالے سے ضبطِ تحریر میں لایا جا رہا ہے۔ آریہ سماج کے ایک لیڈر نتھو رام نے: ہسٹری آف اسلام: کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔ اس کتاب میں بھی آ قائے دو جہاں ﷺ کی شانِ اقدس میں سخت گستاخی کی گئی۔ کتاب کو ضبط کر لیا گیا اور مصنف پر مقدمہ دائر کیا گیا۔مقدمہ چلا اورنتھورام کو ایک سال کی قید کی سزا کے ساتھ معمولی جرمانہ عائد کیا گیا۔ اس شاتم رسولؐ کی ضمانت بھی منظور کرلی گئی اور وہ ایک سال بھی قید میں نہیں رہا اس سے مسلمانوں کو بڑا صدمہ ہوا۔ ایک نوجوان عشقِ نبویﷺ میں اپنی جان کا نذرانہ دینے کی تیاری کر لیتا ہے۔ وہ نوجوان عبد القیوم تھا، جس نے دل ہی دل میں ٹھان لیا کہ اس گستاخ رسولؐ کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر چین سے نہیں رہے گا۔ چنا چہ بھری عدالت میں اس نے ناموسِ رسالتؐ کی لاج رکھتے ہوئے نتھورام کا کام تمام کردیا۔ ستمبر1934کو ہونے والے اس واقعہ پر انگریز جج بوکھلا گیا اور اس نے عبد القیوم سے پوچھا: تم نے اس شخص کو کیوں قتل کیا: غازی عبد القیوم نے عدالت میں آویزں جارج پنجم کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ: یہ تصویر تمھارے بادشاہ کی ہے۔ کیا تم اپنے بادشاہ کی توہین کرنے والے کو موت کے گھاٹ نہیں اتادو گے؟۔ پھر عبدالقیوم نے کہا اس شخص نے میرے آ قا اور شہنشاہ کی شان میں گستاخی کی ہے جسے میری غیرتِ ایمانی برداشت نہ کر سکی۔ عبدالقیوم پر قتل کا مقدمہ چلا اور جج نے سزائے موت کا فیصلہ دیا۔ اس موقع پر عبدالقیوم نے یہ تاریخی جملے کہے: جج صاحب! میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے آپ نے موت کی سزا دی۔ یہ ایک جان کس گنتی میں ہے، اگر میرے پاس لاکھ جانیں بھی ہوتیں تو ناموسِ رسالت پر نچھاور کر دیتا: اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی۔ اس وقت کے نامور قانونی ما ہرین نے مقدمہ کی پیروی کی۔ لیکن ایسے نازک وقت بھی عبدالقیوم نے اپنے ایمان کی استقامت کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ تحت کی عدالت میں میں نے جو اقبالی بیان دیا ہے اسی پر قائم ہوں۔ سارے دلائل سننے کے باوجود عدالت میں اپیل خارج ہو گئی اور عبدالقیوم کے لئے سزائے موت بحال رہی۔ اس مقدمے کی ساری تفصیل میں گئے بغیر یہ بتادوں کہ اس وقت کی سربرآوردہ شخصیتیں علامہ اقبال سے معا ملے کو رجوع کر تی ہیں اور درخواست کرتی ہیں کہ علامہ وائسرائے سے ملاقات کر کے عبدالقیوم کی سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے کے لئے انگریز حکومت سے سفارش کریں۔ انہیں یقین تھا کہ علامہ ان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے وائسرائے سے سفارش کریں گے۔ لیکن علامہ کی اس وقت جو کیفیت تھی وہ بڑی عجیب و غریب تھی۔ ایک عاشقِ رسولؐ کا معا ملہ دوسرے عاشقِ رسولؐکے سامنے تھا۔ علامہ اقبال ساری باتوں کو سن کر کچھ دیر خاموش رہے پھر سکوت کو توڑتے ہوئے فرمایا: کیا عبد القیوم کمزور پڑ گیا ہے؟ وفد نے کہا نہیں بلکہ وہ اپنے بیان پر قائم ہے۔ یہ سنتے ہی علامہ کا چہرہ تمتمانے لگا اور برہمی کا لہجہ اختیار کر تے ہوئے فرمایا کہ: جب وہ کہہ رہا کہ میں نے شہادت خرید لی تو میں اس اجر و ثواب کی راہ میں کیسے حائل ہوسکتا ہوں۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں ایسے مسلمان کے لئے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی ہے اور مر گیا تو شہید ہے: تفصیل کے لئے دیکھئے: (روزگار فقیر، جلد اول و دوم، مصنف فقیر سید وحید الدین )ان دو واقعات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنے رسولؐ کی شان میں گستاخی اس کے لئے نا قابل برداشت ہے۔ گستاخانِ رسولؐ کی ان حرکتوں سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سے مسلمانوں میں آپؐ سے محبت کا جذبہ کم ہوگا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ ان اوچھی حرکتوں سے رسولؐ سے والہانہ وابستگی اور بڑھے گی اور اسلام کی حقانیت اور رسول کریمﷺ کی عظمت دوبالا ہوگی۔ اقبال کے الفاظ میں: ستیزہ کار رہا ازل سے تا امروز: چراغِ مصطفویٰ سے شرارِ بو لہبی۔

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
Share
Share
Share