ناکامی، اکتساب و تحریک عمل کی کلید

Share

فاروق طاہر
حیدرآباد،انڈیا۔
, 9700122828

ایڈون سی بلس کے مطابق”کامیابی سے مراد ناکامیوں کی عدم موجودگی نہیں بلکہ مقاصد کا حصول ہے۔اس کامطلب جنگ میں فتح پانا ضرور ہے لیکن ہر جنگ میں نہیں“۔(Success does not mean the absence of failures.It means the attainment of ultimate objectives.It means winning the war,not every battle.W.C.Bliss) اس قول کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ ناکامی تعلیمی عمل میں پائی جانے والی ایک ناگوار شئے نہیں بلکہ اکتسابی (سیکھنے کے) عمل کا اٹوٹ حصہ ہے۔

ماہرین تعلیم و نفسیات کے مطابق ناکامی اکتساب و تحریک عمل میں معاون ومددگار ہوتی ہے۔ ہر دور میں طلبہ کی ایک قابل قدر تعداد ناکامی کے خوف سے ڈری سہمی رہی ہے۔ اکثرسیکھنے میں پیچھے رہ گئے یا ناکام طلبہ خود کو ذہنی طور پر کم زور اور کم تر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ جب کہ درس واکتساب کی دنیامیں ناکامی ایک عام بات اور فطری عمل ہے۔ماہرین تعلیم ناکامی کو اکتسابی عمل بلکہ فروغ اکتساب کا ایک کارگر وسیلہ مانتے ہیں۔
ناکامی، سیکھنے میں کیسے سہولت بخش ہے؟
کولمبیا یونیورسٹی کے ادراکی محقق(Cognitive Researcher)،ژاؤڈونگ لن سیگلر، ناکامی کے تعلیمی مقاصد جیسے اختراعی موضوع پر آج بھی تحقیقی کاممیں مصروف ہے۔محترمہ نے 2016 میں شائع شدہ اپنی مطالعاتی اٹلانٹک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ” ہائی اسکول کے طلبہ جنھوں نے آئن اسٹائن، میری کیوری جیسے سائنس دانوں کی نہ صرف کامیابیوں اور حصولیابیوں (Achievements) کی معلومات بلکہسائنس دانوں کی فکر ی جد وجہد اور مشکلات سے بھی آگہی پیدا کی ان کے سائنس سبجیکٹ کے گریڈس میں بہتراور نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جب کہ ایسے طلبہ جنھوں نے خود کو صرف سائنسدانوں کے کارناموں و کامیابیوں (Achievements) کے علم و معلومات ہی تک محدود رکھا تھاان کے گریڈ میں کمی اور تنزلی واقع ہوئی۔“ لن سیگلر اپنی تحقیق ”ناکامی کے تعلیمی مقاصد“کے ذریعے طلبہ کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ اکتسابی (سیکھنے کے) عمل میں ناکامی کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ سیکھنے کے دوران ناکامیوں سے دوچار ہونا ایک عام اور فطری بات ہے۔سیکھنے کے دوران حاصل ہونے والی ناکامی بھی ہمیں درجہ ذیل امور کا علم، ادراک اور احساس فراہم کرتی ہے۔ان نکات سے شعوری آگہی پیدا کرتے ہوئے ناکامی کو کامیابی کا زینہ بنایا جاسکتا ہے۔
1۔تجربہ (Experience)
ناکامی سے سب سے پہلا حاصل ہونے والا اہم سبق ”تجربہ“ ہوتا ہے۔جب کوئی ناکام ہوتا ہے تو کیا ہو تا ہے؟ اس بات سے کون انکار نہیں کرسکتا ہے کہ زندگی کے سفر میں اس کے ساتھ اس کے تجربات بھی محو سفر رہتے ہیں۔تجربے کامیاب ہو یا ناکام، انسان کو زندگی کا گہرا فہم ومعنویت عطا کرتے ہیں۔ آدمی تجربات کی روشنی میں اپنے فیصلوں میں رد وبدل کرتا رہتاہے۔جس طرح سے کامیاب تجربات انسان میں آسودگی کو فروغ دیتے ہیں بالکل اسی طرح کسی چیز میں ناکام ہونے کا تجربہ بھی انمول ہوتا ہے۔ان تجربات کی روشنی میں آدمی اپنی کمیوں،کوتاہیوں پر قابو پاتے ہوئے ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کرسکتا ہے۔ناکامی کے درد کی تہہ کے نیچے کامیابی اور آسودگی کے سرچشمے چھپے رہتے ہیں۔ناکامی پرمایوسی کا شکار ہونے کے بجائے اس کے اسباب کا پتا لگاکر ناکامی کو کامیابی کا پہلازینہ بنا سکتے ہیں۔اس طرح کا شعوری عمل اشیاء کی اصل نوعیت اور ہماری زندگی میں ان کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ناکامی کے اسباب پر غور وخوص سے ہمارے اندر مثبت،صحت مند اور خوش گوار تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔
2۔ علم و آگہی(Knowledge)
ناکامی سے ہم اپنی کمیوں،کوتاہیوں اور خرابیوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ناکامی سے حاصل ہونے والی حیرت انگیز معلومات وتجربات سے ہم مستقبل میں ناکامیوں پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔دوسروں کے تجربات سے فیض اٹھاتے ہوئے خود کو مزید تکالیف،مصائب،پریشانیوں اور الجھنوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ناکامی سے حاصل ہونے والا علم بہت ہی بیش قیمت ہوتا ہے اس کی جگہ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔ناکامی وقتی طور پر بے چینی اور اضطراب کی وجہ ضرور بن سکتی ہے لیکن اس میں پوشیدہ حقائق سے آگہی پیدا کرتے ہوئے بے چینی و اضطراب کو آسودگی و اطمینان میں بدلا جاسکتا ہے۔تھامس ایلوا ایڈیسن الکٹرک بلب کی ایجاد کے دوران 10000مرتبہ ناکام ہوا۔جب اس کی بیوی نے کہا کہ دس ہزار مرتبہ کوشش کے باوجود تم بلب کی ایجاد میں ناکا م رہے،بہتر ہے اب اسے چھوڑدو۔ایڈیسن نے کہا کہمیں 10000مرتبہ ناکام نہیں ہوا بلکہ ان تجربات سے مجھے معلوم ہواہے کہ یہ دس ہزار طریقے الکٹرک بلب بنانے میں کارگر نہیں ہیں۔ناکامیاں چاہے طالب علمی کے زمانے کی ہویا زندگی کے سفرکی،یہ بے حد ناگزیر ہوتی ہیں۔ناکامی سے ہمیں اپنی غلطیوں کو سدھارنے اورزندگی میں آگے بڑھنے کی تحریک ملتی ہے۔ناکامی سے آدمی عجز و انکسار پیدا ہوتا ہے۔ناکامی کا صدمہ ہی ہمیں اس پر غلبہ پانے کی جرات فراہم کرتا ہے۔
3۔لچک،ابھرنے کی قوت(Resilience)
ناکامی کے باوجود پھر سے کامیابی کی تیاری کا نام ہی لچک (Resilience)ہے۔جب بھی آپ ناکامی سے دوچار ہوں پھر سے کامیابی کی تیاری میں لگ جائیں۔تیاری کا مطلب صرف ناکامی کو برداشت کرنا ہے اور نہ دل برداشتہ ہوکر میدان سے بھاگ جانا ہے بلکہ ناکامی کواپنی زندگی کا خاتمہ نہ تسلیم کرتے ہوئے پھر سے کامیابی کی طرف قدم بڑھانے ہی اصل تیار ی کہلاتی ہے۔ناکامی و نامرادی پر اشک شوئی کے بجائے حوصلہ و ہمت سے محاذ پر ڈٹ جاناتیاری ہے۔حالات کی سختی سے خمیدہ گردن کو اونچا اٹھا کر مسائل و نامرادی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھنے کا نام ہی لچک اور ابھرنے کا نام ہے۔جس طرح پودے ہواؤں کے سخت جھکڑ پر جھک جاتے ہیں اور بعدمیں پھر اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ گر کر پھر سے اٹھنے کا لچکیلا رویہ و حوصلہ ہی انسان کی ہرہارکو جیت میں بدل دیتا ہے۔ لچک دار رویہ آدمی میں حوصلہ اور امید پیدا کرتا ہے۔ ہر کسی سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔غلطیاں کرنا بالکل غلط نہیں ہے۔لیکن غلطیوں کو دہرانا غلط ہے اور بے وقوف انسان غلطی کوباربار دہراتا ہے۔ناکامیوں سے سیکھنے والے آخر کارکامیاب ہو جاتے ہیں۔بڑی کامیابیوں کے خواہش مند افراد کو چاہئے کہ اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں۔ آپ خوش نصیب ہیں اگر آپ کی پہلی یا ابتدائی چند کاوشیں کامیابی سے ہمکنار ہوگئی ہیں لیکن آپ کو ان خوشیوں سے زیادہ اس تکلیف (ناکامی)کا سا منا کرنے کا اپنے اندر حوصلہ پیدا کرنا چاہئے جس سے آپ کا کبھی نہ کبھی سامنا ہوسکتا ہے۔ لچک زندگی میں ہر گھڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔لچک منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والی ایک بیش قیمت کلید ہے۔لچک کے سہارے انسان میں استقامت اور استقلال کا جذبہ باقی رہتا ہے۔اونچی توقعات کے حصول میں لچک دار رویہ بہت کارآمد ثابت ہوتا ہے۔

4۔ترقی و نشوونما(Growth):
یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ ہم جب بھی ناکام ہوتے ہیں تو بحیثیت انسان ہماری بالیدگی و شعور ی میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔انسان میں جب بالیدہ فکر پیدا ہوجاتی ہے تب وہ زندگی کے حقائق اس کے معنی و مفاہیم تک رسائی پیدا کرلیتا ہے اور اپنے ہر کام میں جواز تلاش کرنا شروع کردیتا ہے کہ وہ یہ کام کیوں اور کس لئے کررہا ہے۔ذہنی بالیدگی کی اس نشوونما و ترقی کی بدولت انسان مصائب و مسائل اور تکلیف دہ حالات سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کی سعی و کوشش کرتا ہے۔ناکامی انسان کو تجزیے کی صلاحیت سے ممیز کرتی ہے۔ایک بالیدہ فکر کا حامل انسان تجزیہ کرتا ہے اور وہ کبھی اپنی ناکامی کے جواز نہیں تراشتا ہے۔جواز ترشنا تو ناکام لوگوں کا شیوہ ہے۔ناکام افراد کے پاس اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کرنے کے لئے جوازوں سے بھری ہمیشہ ایک کتاب موجود رہتی ہے۔ہر کسی کو اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ زندگی ہمیشہ رواں دواں رہنے کے لئے بنائی گئی ہے۔یہ کبھی ساکت و جامد نہیں رہ سکتی۔
تو اسے پیمانہء امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں،پیہم دواں،ہردم جواں ہے زندگی
سائنسی مطالعات سے پتاچلتاہے کہ عالمی سطح پر انسانی جینیاتی ریشے معاشرے کے تانے بانے بنتے ہوئے آدمی کو ایک انفرادی حیثیت عطا کرتے ہیں۔اس انفرادی حیثیت میں ترقی ایک بنیادی جزو تصور کی جا تی ہے۔ترقی کے بغیر انسان، زندگی کے کسی محاذ پر کامیابی حاصل کرسکتا ہے اورنہ ہی ایک بہتر زندگی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکتا ہے۔
سمجھ لیں، ناکامی کوئی غیرمناسب فعل نہیں:
جب کبھی ہم ناکامی سے ابھرنے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ ناکام ہونا کوئی برا فعل نہیں ہے۔زندگی کے سفر میں ناکامی ایک عام بات ہے۔ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ جو لوگ رکاوٹوں کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں وہ رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنے والے لوگوں سے زیادہ محفوظ رہتے ہیں۔دنیا میں ہر انسان مسائل سے دوچار ہے۔بعض اوقات خو د کو بے حوصلہ اور ناامید ی کی دہلیز پر کھڑا پانا ایک فطری اور بشری تقاضاہے۔ہر کوئی مایوسی سے دوچار ہوتا ہے۔لیکن جیتنے والے کبھی حوصلہ نہیں ہارتے اور نہ بے ہمت ہوتے ہیں۔مستقل مزاجی ہر مسئلے کا حل اور کامیابی کی کلید ہے۔
ناکام ہونا ٹھیک ہے، ہمت ہارنا ٹھیک نہیں :
: خدا نہ خواستہ اگر آپ ناکام ہوگئے ہیں اور ناکامی آپ کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے تب بھی ہار مان لینا اور ہمت ہارنامناسب نہیں ہے۔اگر آپ بارہا ناکام ہوجاتے ہیں تب بھی اس وقت تک کوشش کرتے رہنا ضروری ہے جب تک کہ آپ کامیاب نہیں ہوجاتے۔جہدمسلسل کے بعد کامیابی کا پھل جب آپ کے ہاتھ آئے گا وہ بہت ہی لذیذ اور شیریں ہوگا۔آگے بڑھنا اور ہارنہ ماننا ناکامی سے نجات کا سب سے بہترین ممکن طریقہ ہے۔کوئی ناکامی حقیقی اور ابدی نہیں ہوتی۔اپنے دل سے ناکامی کا خیال جڑسے نکال پھینکیں اور عزم و ہمت کے ساتھ اپنے سفر پر روانہ ہوجائیے۔انگریزی کا مقولہ ہے”غیر متلاطم (پرسکون)سمندر کبھی کسی کو ماہر ملاح نہیں بناتا۔“ (A smooth sea never made a skilled sailor.Franklin D.Roosevelt)ناکامی کامیابی کی شاہراہ عظیم ہوتی ہے۔تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کامیابی کی تمام داستانیں ناکامی کی ہی کہانیاں ہیں۔ہماری نظریں کامیاب افراد کی اکثران ناکامیوں کا جائزہ لینے سے قاصر رہتی ہیں جن کی بدولت انھیں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
ناکامی کا احسا س بھی مناسب ہے:
اگرچیکہ ناکامی درد سے عبارت اور تکلیف کی علامت ہے لیکن ہمیں اس درد کا خوش دلی اور خندہ پیشانی سے سامنا کرنا چاہئے۔ہم میں یہ احساس جاگزیں ہونا ضروری ہے کہ زندگی میں ترقی و فروغ کا راستہ ناکامیوں سے ہوکر ہی گزرتا ہے۔ہمیں اس بات کا شعوری ادراک ہونا چاہئے کہ کامیاب افراد کی زندگیوں میں ناکامی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ناکامی کی ظلمتوں سے انھوں نے کامیابی کے روشن سورج طلوع کئے ہیں۔ انسان میں جب یہ احساس بیدار ہوجاتا ہے تو عزم وحوصلے کی ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے وہ ان راستوں پر چل پڑتا ہے جس پر کبھی وہ ناکامی کے خوف سے قدم رکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔عزم و حوصلے کا یہ سفر آدمی کو تراش کر ایک بہتر اور اولوالعزم انسان بناتا ہے۔ہمیشہ ایک فاتح کی طرح سوچیں۔ ناکامی کے ملبے کے نیچے خود کو دفن نہکریں۔خوف اور شک ذہنوں کو جلاکر راکھ کردیتے ہیں۔ہرناکامی کے بعد خود سے پوچھیں ”میں اس ناکامی سے کیا سیکھا ہوں؟“۔اسی فکر کی بدولت آدمی راستے کے ہروزنی پتھر کو اونچائی پر پہنچانے والے زینے کی طرح ا ستعمال کرنے کا قابل ہوتاہے۔
ناکامی سے بازیابی، منصوبے کی تشکیل:
ناکامی کے قعر مزلت سے باہر آنا چاہتے ہوتو ایک جامع لائحہ عمل (ایکشن پلان) تشکیل دیں۔اپنے اہداف اورترجیحات کا انتخاب کریں ان کے حصول میں مددگار منصوبے بھی ترتیب دیں۔جامع مبسوط منصوبہ بندی کے باوجود اگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تب اپنے اہداف کے حصول کے لئے دوسرا منظم متبادل منصوبہ بھی تیار رکھیں۔اہداف اور منصوبہ بندی سے ہم اپنے کام کو آسان بنا سکتے ہیں اگر اہداف کے حصول میں مشکل پیش آرہی ہوتب اسے طویل مدتی اور مختصر مدتی زمروں میں بانٹ کا یکسوئی سے مقاصد کے حصول میں مصروف ہوجائیے۔منصوبہ ایسا ٹھوس ہو کہ وہ آپ کو زندگی کے ٹھوکروں سے بچانے میں مددگار ثابت ہو۔مناسب منصوبہ بندی،اہداف کے تعین اور بہتر لائحہ عمل کے ذریعے ناکامی سے بازیابی حاصل کرنامشکل نہیں ہے۔
کامیابی کے اہم اجزاء:
ناکامی کے خوف سے سیکھنے اور کامیابی کے اہم اجزا جیسے تجربات و جدت طرازیوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔کسی بھی کام کو نئے طریقے سے انجام دینے سے بالکل نہ گھبرائیں خواہ آپ کو ناکام ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔اس بات پر مسرت اور فخرمحسوس کریں کہ آپ نے مسائل کے حل میں رواجی طریقوں کو استعمال نہ کرتے ہوئے ایک نیا طریقہ اپنایا ہے۔
اپنی غلطیوں سے سیکھیں:
اکثر طلبہ(مکتسب) اکستاب کو نتیجے کے ترازو میں تولتے ہیں۔نتائج بدلتے رہتے ہیں جب کہ سیکھناایک مستقل عمل ہے اور غلطیاں و ناکامیاں جس کا ایک اہم حصہ ہے۔غلطیوں کے سیکھنے کے عمل میں حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے جو غلطی پہلی بار کی تھی وہ آپ کی آخری غلطی ہوگی۔ جب آپ اپنی ناکامیوں پر غور و فکر کرتے ہیں تب ٹرائیل اینڈائرر(Trail and Error) کے ذریعے غلطیوں سے سیکھنے کا عمل دائمی طور پر جاری و ساری رہتا ہے۔اسی غور وفکر کی عادت سے آپ کو علم ہوجاتا ہے کہ آپ نے کیا کیا،اور کیا کرنا تھا۔یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص کسی آدمی کو اس کے کرئیر اور زندگی میں سیکھنے سے بازنہیں رکھ سکتا۔ زندگی ہر لمحہ اور ہر موڑ پر اسے سیکھنے اور غلطیوں کو درست کرنے کے مواقع فراہم کرتی رہتی ہے۔
ناکامی سے ترغیب لیں:
جی ہاں ناکامی کی کرچیوں کوسمیٹ کر آگے بڑھنا سہل نہیں ہے۔بے شک ہر ناکامی انسان کے لئے جذباتی ہیجان اور دل گرفتگی کا سببس ہوتی ہے۔ایسی صورت میں ماضی کی تمام ناکامیوں کو فراموش کرنے کا مشورہ میں آپ کو بالکل نہیں دوں گا۔ بلکہ میری تجویز ہے کہ آپ اپنی ماضی کی ناکامیوں کے تلخ تجربات سے خو د کو مضبوط و مستحکم کریں۔ مستقبل میں چوکنارہیں اور مستعدی سے کام لیں۔ ماضی کی ناکامی بالکل ایسی ہے جیسے کوئی بچپن میں سائیکل یا موٹر بائیک سے کرنے کو دل سے نہیں لگاتا۔گر کر اٹھتا ہے اور ناکامی پر شرمندہ اور غمگین نہیں ہوتا اور پیہم رواں دواں رہتا ہے۔بالکل اسی طرح اگر کسی مضمون کی پیش کش میں آپ کو ناکامی کا سامنا کرنے پڑے جس کی اور زیادہ سخت محنت و مطالعہ کی ضرورت پیش آئے۔ہرگز ملول و مایوس نہ ہوں۔انہماک اور دل جمعی سے اپنے کام کو انجا م دیتے رہیں۔ناکامی مستقل طور پرکبھی کسی کو روک نہیں سکتی۔ناکامی پر ذاتی ترغیب و تحریک کے ذریعے وار کریں۔ ناکامی کوتاہیوں،غفلت اور بے پروائی کے جائزہ کا موقع فراہم کرتی ہے۔ بے شک زندگی میں بہت زیادہ رکاوٹیں ہوتی ہیں لیکن ہمارا رویہ منفی ہوتو ہم خود اپنے راستے کی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔کامیابی کے حصول کے لئے ناکامیوں پر غلبہ پانا ضروری ہے۔اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اپنی ناکامیوں پرآپ کیسے غلبہحاصل کرتے ہیں۔
ناکامیوں کے اسباب کا اشتراک کریں:
اکثر لوگ اپنی ناکامیوں کو چھپانا چاہتے ہیں۔ دوسروں کو اپنی ناکامیاں بتانے سے کتراتے ہیں۔یہ بالکل ایک ناقص سوچ ہے۔ دوسروں کے ساتھ اپنی ناکامی پر روشنی ڈالتے اور گفتگو کرتے ہوئے حیرت انگیز طور پر نہ صرف ہم کامیابی کے گر سیکھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی حصول کامیابی کے موثر طریقے بتاتے ہیں۔اپنی ناکامیوں کو بیان کریں احساس محرومی و کمتری کے خول سے باہر نکلیں۔ نہ صرف اپنی ناکامی کے اسباب کا جائزہ لیں بلکہ دوسروں کی غلطیوں،خامیوں اور ناکامی کے مطالعے سے اپنی کامیاب کے راستے ہموار کریں۔

فاروق طاہر
Share
Share
Share