تبدیلی مذہب کے خلاف قانون‘ دستور ہند سے کھلا کھلواڑ

Share

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
9885210770

ایک ایسے وقت جب کہ کورنا وائرس کی دوسری لہر سے ملک کی ایک بڑی آ بادی کے متا ثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایسے نازک وقت فرقہ پرست طاقتیں سماج میں مذہبی منافرت کو پھیلا کر وہ زہریلے بیج بو رہی ہیں جو کورنا وائرس سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ ان فرقہ پرست طا قتوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا کہ وہ اپنے حقیر مفادات کی تکمیل کے لئے اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو اپنے نشانہ پر رکھتی ہیں۔ اب جب کہ ملک میں بی جے پی حکومت کی ساکھ متاثر ہوتی جا رہی ہے۔

ملک کی عوام کو اندازہ ہو گیا کہ مودی حکومت نے جو وعدے کئے تھے وہ محض انتخابی ہتھکنڈے تھے، جس کو استعمال کر تے ہوئے 2019میں بی جے پی اقتدار کو دوبارہ ہتھیانے میں کا میاب ہو گئی۔ حالیہ بہار ریاستی اسمبلی الیکشن میں اگر چکہ نیتش کمار کی قیادت میں این ڈی اے پھر ایک بار حکومت بنانے میں کا میاب ہو گیا، لیکن جس انداز میں وہاں حکومت تشکیل پائی اس سے بی جے پی کی تو قعات پوری نہیں ہوئی۔اس لئے بی جے پی اب پھر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کیلئے فرقہ وارانہ ایجنڈا پر اُ تر آئی ہے۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں اس ایجنڈا پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ تین دن پہلے اتر پردیش کی بی جے پی حکومت نے شادی کے لئے مذہب کی تبدیلی کے خلاف آر ڈیننس منظور کر لیا ہے۔ گزشتہ منگل (24/ نومبر (کو منظور کئے گئے اس قانوں کی رُو سے خاطیوں کو دس سال کی سزا ہو سکتی ہے اور پندرہ ہزار روپیئے جر مانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔ بظاہر اس قانون کا مقصد شادی کے لئے مذہب کو تبدیل کرنے کے رجحان کو ختم کر نا ہے۔ لیکن اصل میں اس کے پسِ پردہ جو عزائم ہیں وہ دراصل مسلمانوں کو بدنام کر نا ہے۔ حالیہ دنوں میں پھر ایک مر تبہ: لو جہاد: کا شو شہ چھوڑ کر ملک کی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے مسلم نوجوان شادی کی آڑ میں ہندو لڑ کیوں کا مذہب تبدیل کر رہے ہیں۔ اس قسم کا پروپگنڈا ایک زمانہ دراز سے کیا جارہا ہے۔ اب قانون کا سہارا لے کر تبدیلی مذہب پر پابندی لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اترپردیش کے بعد، مدھیہ پردیش، ہریانہ، آسام اور کرنا ٹک میں بھی اسی نو عیت کی قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ ان تمام ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ بہار میں اس قسم کا سخت قانون لاگو کیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ ابھی وہاں نتیش کمار کی شکل میں سیکو لر چہرہ ہے اس لئے جلدبازی سے کام نہیں لیا جارہا ہے۔لیکن کسی بھی وقت بہار کی حکومت تبدیلی مذہب کے قانون کو منظور کر سکتی ہے۔ بی جے پی کے پاس اب کوئی تعمیری ایجنڈا باقی نہیں رہا اس لئے جار حانہ فرقہ پرستی ہی کا سہارا لیا جارہا ہے۔ 2021میں مغربی بنگال میں مہا بھارت کی جنگ ہونے والی ہے۔ ترنمول کانگریس اور خاص طور پر اس کی سر براہ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی، بی جے پی کے سا منے گھٹنے نہیں ٹیکی ہیں اور وہ ہر محاذ پر بی جے پی کو چیلنج کر رہی ہیں اس لئے بنگال اسمبلی کے انتخابات میں کا میابی کے لئے اشتعال انگیزی کے سارے حربے آ زمائے جا رہے ہیں۔ بی جے پی کے ہا تھوں یہ آ سان نسخہ لگا کہ ملک کے ماحول کو گرما کر عوام کے ووٹ بٹور لئے جائیں۔ بی جے پی کے آ غاز سے لے کر اب تک کی کہانی اسی ایک نکتہ کے اطراف گھومتی ہے۔ 90کے دہے میں بابری مسجد۔رام جنم بھومی کے تنازعہ کو ہوا دے کر بی جے پی نے اقتدار حا صل کیا۔ اس کے بعد کے ہر الیکشن میں پارٹی نے کسی نہ کسی جذباتی ایشو کو بنیاد بناکر راج سنگھاسن پر قبضہ کیا۔ 2019میں بی جے پی کو مرکز میں دوبارہ اقتدار ملنے کے کوئی آثار نہیں تھے
وزیراعظم نریندر مودی نے راتوں رات نوٹ بندی کا جو اعلان کیا تھا اس سے ملک کا ہر طبقہ اور خاص طور پر غریب کافی پریشان ہو گئے تھے اور وہ آ نے والے الیکشن میں حکو مت سے بدلہ لینے کی تیاری کر چکے تھے۔ لیکن مودی حکومت نے پلوامہ حملہ اور پاکستان پر سرجیکل اسٹرئک کا زبردست پروپگنڈا کر کے دوبارہ اقتدار حاصل کر لیا۔قوم پرستی کے نعروں کی گونج میں سیکولرازم کی آواز دب گئی اور مودی لہر اپنا کام کر گئی۔ اب جبکہ پھر ایک بار عوام میں حکومت کے تئیں ناراضگی بڑ ھتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر کویڈ۔ ۹۱ کے دوران عوام کو جن نا قابلِ بیان مشکلات سے دوچار ہونا پڑا، اس سے مودی حکو مت کے سارے دعوؤں کی پول کھل گئی اور اب رائے دہندوں کا اعتماد بی جے پی حکومت پر سے اٹھتا جارہا ہے۔ ایسے وقت عوام کے دل جیتنے اور انہیں راحت پہنچانے کے بجائے بی جے پی عوام میں مذہبی منافرت پھیلا کر اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ بی جے پی کی زیرِ اقتدار ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے قانون کو اسی تنا ظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس قانون کو ریاستوں میں نافذ کر نے کے بعد ملکی سطح پررائج کر نے کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔ اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو فروغ دے کر بی جے پی اپنی سیا سی طاقت میں اضا فہ کر نا چاہتی ہے۔ اس کے لئے مسلمانوں کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے۔ قبل ازیں تین طلاق کے خلاف قانون سازی کر کے یہ باور کرا یا گیا کہ اس کے ذریعہ مسلم خواتین کے ساتھ انصاف کیا گیا۔ اب لو جہاد کے نام پر یہ زہریلا پرو پگنڈا کیا جارہا ہے کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو عشق کے نام پر گمراہ کر کے ان سے شادیاں رچا رہے ہیں۔ اس کے لئے ہندو لڑکیوں کے مذہب کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ اس کے لئے ایک خاص اصطلاح لو جہاد کے نام پر گھڑی گئی۔ حالانکہ لو(Love) اور جہاد ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ جہاد جیسے مقدس لفظ کو عشق سے جوڑنا خود ایک گھناونی حرکت ہے۔ یہ الفاظ محض مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کر نے کے لئے فرقہ پرستوں کی جانب سے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ یہ اصطلاح 2009میں اس وقت کافی زیرِ بحث آ ئی جب کرناٹک میں ایک 18سالہ غیر مسلم لڑکی ایک اپنے مسلمان بوائے فرینڈ کے ساتھ گھر چھوڑ کر بھاگ گئی۔ پھر 2017میں کیرالہ کی ہادیہ کا کیس سامنے آیا اس لڑکی کو انصاف کے حصول کے لئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت تک جانا پڑا۔ تب کہیں اسے انصاف ملا۔ سوال یہ ہے کہ لو جہاد کی کوئی تعریف دستورِ ہند میں کی گئی ہے؟ کیا دستور کسی شہری کو اس بات سے منع کر تا ہے کہ وہ کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے سے شادی نہ کرے یا دستور میں اس بات کی ممانعت ہے کہ کوئی لڑکی یا لڑ کا شادی کی خاطر اپنا مذہب نہیں بدل سکتا۔ ہمارے ملک کے دستور میں ایسی کوئی پابندیاں نہیں ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس دن اتر پردیش کی حکومت نے شادی کے لئے تبدیلیِ مذہب کے خلاف آرڈیننس منظور کیا، اسی دن الہ آ باد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں کہا کہ ملک کے دستور کے مطابق کسی بھی شخص کو اپنی پسند کی شادی کرنے اور مذہب اختیار کرنے کا حق حا صل ہے۔ عدالت یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر کوئی شخص شادی کے لئے اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے تو اسے یہ حق قانونی طور پر حا صل ہے۔ الہ آ باد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد آیا اترپردیش کابینہ کامتنازعہ آرڈیننس کی کوئی معنویت باقی رہتی ہے؟ ملک کے دستور کو ملک کے ہر قانون پر بالا دستی حا صل ہے۔ عدالتیں ایسے قوانین کو کالعدم قرار دے سکتی ہیں جو دستور سے ٹکراتے ہیں۔ بی جے پی حکومتیں اپنی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے خلاف جن قوانین کو لاگو کر نا چاہتی ہیں وہ راست طور پر ملک کے دستور ی دفعات کے خلاف ہیں۔ دستور، ہر شہری کو مذ ہبی آ زادی کا حق دیتا ہے۔ اس بات کا بھی حق دیا گیا کہ کوئی اپنی مرضی سے اپنا مذہب تبدیل کر سکتا ہے۔
ان تمام دستوری تیقنات کے باوجود تبدیلیِ مذہب کے خلاف قانون سازی کا مقصد کیا ہے؟ جب تک لو جہاد کی قانونی تشریح نہ ہو اس ضمن میں کسی قانون کو ملک میں نافذ کرنے کی تیاری اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی ملک کے فوری حل طلب مسائل کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے عوام کی توجہ کو اصل مسائل سے ہٹانا چاہتی ہے۔ ملک میں بے روزگاری کا مسئلہ منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ کویڈ۔۹۱ نے عوام کی زندگی کو مسائل میں اس قدر الجھا دیا ہے کہ عوام دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہیں۔ ملک کی معیشت سسک رہی ہے۔ حکومت کا کوئی ترقیاتی ایجنڈا نہیں ہے۔ کورنا کی وباء اگر پھیلتی چلی جائے تو نہیں معلوم کہ کتنے لوگ موت کی آ غوش میں چلے جا ئیں گے۔ ایسے نا گفتبہ حالات میں لایعنی مسئلوں کو ہوا دینا ملک کی عوام کو مزید مصیبت میں ڈالنا ہے۔ ہر تھوڑے دن کے بعد کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑا جا تا ہے جس سے سماجی ہم آ ہنگی کے تانے بانے ٹوٹنے لگتے ہیں اور کشیدگی بڑھتی جاتی ہے۔ 2015سے ہندوستانی مسلمانوں کو گھیرنے کا جو سلسلہ چل پڑا ہے وہ رُ کنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ بیف کے نام پر معصوم مسلمانوں کی جانیں لی گئیں۔ ہجومی تشدد کے ظالمانہ کارستانیوں کے ذریعہ بے گناہ مسلمان موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔ملک میں نئی تعلیمی پالیسی کو نافذ کر کے مسلمانوں کے عقائد اور ان کی زبان اور تہذیب کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایودھیا میں رام مندر کی بھومی پوجا کے موقع پر آر ایس ایس کے سر سنچالک موہن بھاگوت نے وزیراعظم نریندرمودی کی موجودگی میں اعلان کر دیا کہ آج محض ایک تاریخی رام مندر کا سنگِ بنیاد نہیں رکھا جارہا ہے بلکہ آج ہندو ستان کے ہندو راشٹر ہونے کا اعلان کیا جارہا ہے۔ نام نہاد لو جہاد کا سہارا لے کر جس قانون کو ملک میں لانے کا جو منصوبہ بنا یا گیا وہ بھی درا صل ہندو راشٹرا کی ایک کڑی ہے۔ لو جہاد کی اصطلاح ہندوتوا پر یقین رکھنے والوں نے وضع کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کا دھرم پریورتن کر کے ان سے شادیاں رچا رہے ہیں۔ اگر یہ الزام سچ بھی ہے تو اس میں قصور کس کا ہے؟ ہندو توا کے علمبرار سو چیں کہ آخر ہندو مذہب کی لڑکیاں مسلم نوجوانوں سے عشق لڑا کر شادیاں کرنے سے کیوں نہیں ہچکچارہی ہیں؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس قسم کی شادیوں کا فیصد کیا ہے۔ یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ عشق کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اسے کسی خاص مذہب سے جوڑنا، سماج میں افراتفری پیدا کر دے گا۔ ہندوستانی سماج میں بین مذاہب اور بین جاتی شادیوں کا رواج ایک زمانے سے موجود ہے۔ خود بی جے پی کے حلقوں میں مسلمان کہلوانے والے لیڈراں کی بیویاں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتی ہیں۔ کئی مسلم د انشوروں، صحافیوں اور سیاسی قائدین کی بیویاں مسلمان نہیں ہیں۔ اسے مسلمانوں نے کبھی لو جہاد سے تعبیر نہیں کیا۔ بین المذاہب شادیاں کوئی انہونی بات نہیں ہے لیکن اسے مسلمانوں سے جوڑ کر مسلمانوں کو بدنام کر نا فرقہ پرستوں کا آزمومودہ تجربہ ہے۔ اسی لئے اس نوعیت کے ہر چھوٹے بڑے واقعہ کو فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھ کر ملک کی فضاء کوآ لودہ کر دیا جاتا ہے۔ 24نومبر2020کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد ہندوتوا طاقتوں کو سوچنا چاہیئے کہ آیا وہ ملک میں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں یا وہ من مانی کر تے ہوئے ملک کو فرقہ پرستی کے دلدل میں ڈھکیلناچاہتے ہیں۔ ملک اور قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ شہریوں کی اس آزادی کو تسلیم کیا جائے جس کی دستور نے ضمانت دی جائے۔ مذہبی آزادی شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ کوئی حکومت شہریوں کے اس حق کو چھین نہیں سکتی۔ اس لئے تبدیلیِ مذہب کے خلاف قانون سازی دستورکے ساتھ کھلا کھلواڑ ہے۔کوئی بھی حکومت اس میں رکاوٹ ڈالتی ہے تو ملک کی باشعور عوام کو اس کے خلاف بلا لحاظِ مذ ہب زبردست احتجاج کرنا لازمی ہے تاکہ جمہوریت کا تحفظ ہو سکے۔

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
Share
Share
Share