علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تئیں وزیراعظم کی حقیقت بیانی

Share

ڈاکٹرسید اسلام الدین مجاہد

وزیراعظم نر یندرمودی نے علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کی صد سالہ تقاریب کا افتتاح کر تے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا ملک کے مختلف طبقوں نے خیرمقدم کیا ہے۔ وزیراعظم نے واقعی اس یاد گار موقع پر دل کو چھولینے والی باتیں کہی ہیں۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایک سو سالہ تعلیمی خدمات کو کھلے دل کے ساتھ سراہتے ہوئے کہا کہ علم و دانش کے اس گہوارے نے گزشتہ 100برس کے دوران ایسی عظیم شخصیتوں کو پیدا کیا جنہوں نے ساری دنیا میں ہندوستان کے نام کو روشن کیا اور آج بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں علی گڑھ مسلم  یونیورسٹی اپنا کلیدی رول ادا کر رہی ہے۔

کویڈ۔ ۹۱ کے دوران علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کی برادری نے متا ثرین کی جس انداز میں مدد کرتے ہوئے اپنی انسانی ہمدردی کا ثبوت دیا ا س کی بھی زبردست ستائش کر تے وزیراعظم نے کہا کہ ایک ایسے وقت جب کہ پورا ملک اس عالمی وباء سے انتہائی نازک دور سے گذر رہا تھا، اس جامعہ کے طلباء و اساتذہ نے انسانی جانوں کو بچانے اور انہیں راحت فراہم کر نے کے لئے خدمت خلق کا ایسا زبردست مظاہرہ کیا کہ اس سے پورے ملک کی عوام کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم کیر فنڈ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے ایک بڑی رقم کا تعاون یہ دکھاتا ہے کہ آپ معاشرے کے تئیں اپنے عہد کی تکمیل کے لئے کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ وزیر اعظم نے اے ایم یو کو مِنی انڈیا سے تعبیر کر تے ہوئے علم و دانش کے اس مرکز کو ملک کا قابلِ فخر ورثہ اور گنگا جمنی تہذیب کا مسکن بھی قرار دیا۔ وزیراعظم نے منگل (22/ ڈسمبر) کے روز ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی صدی تقاریب کا افتتاح کر تے ہوئے اپنے خطاب میں سر سید کے اس بیان کو یاد کیا کہ: اپنے وطن سے لگاؤ رکھنے والے کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ تمام لوگوں کی بہبود کے لئے کام کرے: سر سید کے آباد کئے ہوئے چمن کو سر سبز و شاداب ہوتے دیکھ کر ملک کے وزیراعظم متا ثر ہوتے ہیں اور اس کی 100سالہ خدمات کاا عتراف کر تے ہوئے اس کی دیرینہ روایات کی پاسداری کا عہد کرتے ہیں اور اسے ملک اور قوم کا ایک نا قابلِ فراموش اثا ثہ قرار دیتے ہیں تو یہ بات ملک کے تمام ہی افراد اور خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے لئے باعث اطمینان اور باعثِ مسرت ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقاریب کے افتتاح کے مو قع پر کیا جانے والا وزیراعظم نریندمودی کا خطاب، اس جامعہ پر لگنے والے ان تمام الزامات کی تردید کر دیتا ہے جو کئی دہوں سے فرقہ پرست طاقتوں کی جانب سے لگائے جا رہے ہیں۔ آزادیِ وطن کے بعد سے ہی علی گڑھ مسلم ینیورسٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے اقلیتی کردار کو ختم کر نے کی کو شش کی گئی۔ حالیہ عرصہ میں محمد علی جناح کی فوٹو لے کر ایک ہنگا مہ کھڑا کیا گیا۔ مسلم یونیورسٹی کو دہشت گردوں کا اڈّا بھی قرار دیا گیا۔اور اب بھی کسی نہ کسی عنوان سے اسے بدنام کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف گزشتہ سال جو احتجاج منظم کیا گیا تھا اس کے بعد سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی فرقہ پرستوں کی زد میں رہی ہے۔
اتر پردیش کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کی شبیہ کو مسخ کر نے میں ہمیشہ آ گے رہے ہیں۔ جب سے یوگی کو یوپی میں اقتدار ملا ہے وہ ہندو۔ مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا ہر حربہ استعمال کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے انہوں نے علیگڑھ مسلم یونیور سٹی کے خلاف بھی زہریلا پروپگنڈا شروع کر دیا ہے۔ اتر پردیش کے حالیہ ضمنی الیکشن کے دوران انہوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ راجہ مہیندرا پر تاب سنگھ نے علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کی تعمیر کے لئے اپنی پوری جائیداد عطیہ میں دے دی، لیکن ان کے نام کی ایک تختی بھی یونیورسٹی کے ذ مہ داروں نے نہیں لگائی، اور نہ ان کے نام پر کوئی شعبہ کھولا گیا۔ یہ الزام برسوں سے کئی فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے عناصر مسلم یو نیورسٹی پر لگاتے آ رہے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے با لکل بر عکس ہے۔ راجہ مہیندر پر تاب سنگھ، اے ایم او کالج کے طالب علم تھے، انہوں نے سر سید احمد خان کو دیکھا تھا اور وہ ان کے جنازے میں بھی شریک تھے۔ لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ان کی جانب سے زمین بطورِ عطیہ دینے کی بات بالکل غلط ہے۔ وہ اس لئے کہ راجہ مہیندر پرتاب سنگھ کی پیدائش یکم ڈسمبر 1886 ہوئی۔ جب کہ اس سے بہت پہلے 7/ جنوری 1877 کو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج بن کر تیار ہو چکا تھا۔ اس سے دو سال قبل ہی 24/ مئی 1875 کو سرسید نے اپنے ہاتھوں سے مدرستہ العلوم کا افتتاح کر دیا تھا۔ یہی مدرسہ اور محمڈن کالج ایک یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا۔ 1920 میں آج سے ٹھیک 100 پہلے برطانوی پارلیمنٹ کے ایک خصوصی ایکٹ کے تحت اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ اور اب اسی یونیورسٹی کی صد سالہ تقاریب منائی جا رہی ہیں۔ اس کا افتتاح وزیراعظم نریندر مودی نے 22 / ڈسمبر 2020کو اپنے خطاب سے کیا۔ آج جب کہ یہ شہرہ آ فاق یو نیورسٹی اپنے قیام کا سو سالہ جشن منا رہی ہے ایسے وقت یہ کہنا کہ جس شخص نے اپنی زمین یونیورسٹی کو دی تھی اس کی یاد نہیں منائی جا رہی ہے یہ دراصل ملک کی عوام کو دانستہ طور پر گمراہ کر کے ملک میں فرقہ وارانہ کشید گی کو فروغ دینا ہے۔ اب جب کہ خود وزیراعظم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کر تے ہوئے یہ کہہ دیا کہ یہ یونیورسٹی خالص ہندوستانی مزاج کی عکاسی کرتی ہے اور نئے چیلنجس کا سامنا کرنے کی اپنے اندر صلا حیت رکھتی ہے یوگی جیسے افراد اپنے لیڈر کی تقلید کرتے ہوئے مسلم یو نیورسٹی کے تعلق سے اپنے شاکلہ ذہنی (Mind Set) کو بدلنا ضروری ہے تاکہ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی ملک اور قوم کی تعمیر کے سفر کو مزید تیز گامی سے طے کر سکے۔ آزادی کے بعد سے بھی اگر یو نیورسٹی کی تعلیمی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے ہر شعبہ حیات میں یہاں کے فارغِ التحصیل طلباء نے اپنے مادر علمی کا نام روشن کرتے ہوئے ملک و قوم کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس یونیورسٹی کے سپوت ملک کے صدر جمہوریہ، نائب صدر جموریہ، ریاستوں کے گورنراور چیف منسٹر، سپریم کورٹ اور ریاستوں کی ہائی کورٹ اور بیرونِ ملک کے سفیروں جیسے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوکر اپنی خدمات کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ آج اگر وزیراعظم اس جامعہ کے حق میں رطب اللسان ہیں تو وہ اس وجہ سے کہ تاریخی حقیقتوں سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ مدرستہ العلوم کے قیام سے لے کر محمڈن اورینٹل کالج کے قائم ہونے تک سرسید احمد خان نے اپنا جو خونِ جگر لگایا تھا اور جس اخلاص کے ساتھ تاریخ کے نازک ترین دور میں ملت اسلامیہ کی کشتی کو تعلیم کے زیورسے آراستہ کرکے اسے زمانے کے طوفان کی نذر نہ ہونے دیا تھا اس کا تقا ضا تھا کہ سر سید کا لگایا ہوا چھوٹا سا پودا ایک سایہ دار شجربن کر ساری انسانیت کے لئے فیضان رسانی کا ذریعہ بنے۔آج سو سال بعد بھی علم و دانش کا یہ مرکز لاکھوں تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے میں لگا ہوا ہے۔
وزیراعظم نریندرمودی اس حیثیت سے خوش نصیب ہیں کہ وہ ملک کے تیسرے وزیراعظم ہیں جنہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تقریب سے خطاب کر نے کا موقع ملا۔ قبل ازیں 1964میں سابق وزیراعظم لال بہادر شاستری نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے وہاں خطاب کیا تھا۔ لال بہادر شاستری سے پہلے ملک کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے مسلم یو نیورسٹی کا چار مرتبہ دورہ کیا تھا اور انہیں علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی تھی۔ لال بہادر شاستری کے بعد اور نریندرمودی سے پہلے 11 وزرائے اعظم گذرے ہیں ان میں اندراگاندھی، راجیو گاندھی، وی پی سنگھ، پی وی نرسمہاراؤ، اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ جیسے قدآور شخصیتیں بھی شامل ہیں، لیکن انہیں علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کی کسی تقریب سے خطاب کر نے کا موقعہ نہیں ملا۔ مسز اندرا گاندھی 16برس تک ملک کی وزیر اعظم رہیں لیکن وہ بھی علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی میں خطاب کر نے سے محروم رہیں۔ ان کے دور میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی آوازیں زور و شور سے اٹھتی رہیں۔ 56برس کے طویل وقفہ کے بعد ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے مسٹر نر یندر مودی کو یہ اعزازحاصل ہوا کہ وہ عالم گیر شہرت رکھنے والی یو نیورسٹی کی ایک یاد گار تقریب سے خطاب کریں۔ یہ بات بھی خوش آ ئند رہی کہ وزیراعظم نے اس تاریخی موقعہ کا فا ئدہ اٹھاتے ہوئے جو باتیں بیان کیں ہیں اس سے بلا شبہ مسلم یونیورسٹی کے تئیں ان کے نیک جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کے لب و لہجہ سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ وہ سر سید کے لگائے ہوئے باغ کی نگہبانی کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے۔ وزیراعظم کا علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کی صد سالہ تقریب سے ایک ایسے وقت خطاب ہوا ہے جب کہ مودی حکومت کے بہت سارے غلط اقدامات کی ضرب ہندوستان کے مسلمانوں پر پڑ تی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیور سٹی کے طلباء کو جس انداز میں بدنام کیا گیا اور پھر بعد میں دہلی فسادات میں انہیں ماخوذ کرنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے اس سے مسلمانوں کے تئیں مودی حکومت کے مذموم عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ اس منفی پروپگنڈا کے بیچ وزیراعظم جب یہ کہتے ہیں کہ مسلم یونیور سٹی ایک چھوٹا ہندوستان ہے اور جہاں کے طلباء پوری دنیا میں بھارت کی ثقا فت کی تر جمانی کر تے ہیں تو وزیراعظم کے یہ جملے ان فرقہ پرست طا قتوں کے منہ پر ایک زبردست طماچہ ہیں جو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ مسلم یونیورسٹی دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنتی جا رہی ہے اور جہاں سے ہندوستان کے ٹکڑے کرنے والے گینگ نکل رہے ہیں۔ جب کبھی ملک پر کوئی آ فت آ تی ہے ملک کی فضاؤں میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے اور اس میں مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کو بھی گھسیٹ لیا جاتا ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی کے اس خطاب کے بعد اب کم از کم نئی شروعات کا آغاز ہونا چاہئے تا کہ وطن عزیز میں بھائی چارے کا ماحول بنا رہے اور ملک کا ہر تعلیمی ادارہ سیاست کی آلودگیوں سے پاک رہ کر قوم کی تعمیر میں اپنا حصہ ادا کر سکے۔ ملک کے حکمرانوں میں سیاسی عزم ہو تو ہر تفرقہ پسند طاقت کو کچلا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں میں قوتِ ارادی کی کمی نے اس ملک میں ایسی طاقتوں کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع دیا جو ملک اور قوم کے لئے ایک کینسر ثابت ہوئیں۔ آج جب کہ ہندوستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے وزیراعظم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تاریخی رول کو سراہتے ہوئے یہ پیام دیا ہے کہ اس ملک کی تعمیراور ترقی میں ہر طبقہ کا کلیدی کردار رہا ہے اگر کوئی اسے نہیں مانتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ سر سید نے ایک عظیم خواب کو لے کر اپنی تحریک کو شروع کیاتھا، انہوں نے کہا تھا کہ میں اپنے بچوں کے ایک ہاتھ میں فلسفہ اور دوسرے ہاتھ میں سائنس اور سر پر لا الٰہ الا اللہ کاتاج دیکھنا چا ہتا ہوں۔ وزیراعظم نریندرمودی نے بھی مارچ 2018میں دہلی وگیان بھون میں ایک تقریب سے خطاب کر تے ہوئے کہا تھا کہ میں مسلم نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتا ہوں۔ سر سید اور وزیراعظم کا جذبہ نیک ہے۔ سر سید اپنا مشن پورا کر کے دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں، وزیراعظم اپنے جذبہ کے تئیں مخلص ہیں تو تو انہیں ان کے مشن سے کوئی روک نہیں سکتا ہے۔اس کے لئے خوش بیانی سے زیادہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
Share
Share
Share