ملک کی لڑکھڑاتی معیشت اور حکومت کے دعوے

Share

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
91+9885210770

مرکزی وزیر فینانس نر ملا سیتا رمن نے یکم/ فروری2021کو یکم / اپریل 2021سے شروع ہونے والے مالیاتی سال کے لئے حکومت کا بجٹ پیش کر تے ہوئے دعویٰ کیا کہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جانے والا یہ بجٹ ملک کے تمام طبقوں کی توقعات پر پورا اُترے گا۔وزیر فینانس کی بجٹ تقریر کے بعد وزیراعظم نریندرمودی نے ان کی نشست پر پہنچ کر نرملا سیتا رمن کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ خود انحصار یا آ تما نر بھرتا کا ویژن پیش کرتا ہے اور سماج کے تمام طبقات کا احا طہ کر تا ہے،

خاص طور پر کسانوں کو اس میں بڑی راحت دی گئی ہے۔ وزیراعظم کے ان ستائشی کلمات کو غلط کہنا اس منصبِ جلیلہ کی توہین ہو گی۔ لیکن حقائق کی روشنی میں لوک سبھا میں پیش کئے گئے بجٹ کااگر سر سری بھی جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آ تی ہے کہ اس میں ملک کے عام لوگوں کے لئے کوئی سو غات نہیں ہے۔ اس بجٹ سے کسان، مزدور، اور غریب کافی مایوس ہو گئے ہیں۔ کویڈ۔ ۹۱ کے بعد سماج کے ان طبقات کی جو حالت ہو گئی اس سے ہر شخص واقف ہے۔ امید کی جارہی تھی کہ بی جے پی حکومت اپنے ٹھوس اقدامات کے ذریعہ ان کو راحت پہنچائے گی۔ لیکن بجٹ میں صرف سرمایہ داروں کے مفادات کا بھر پور تحفظ کیا گیا۔ ایک ایسے وقت جب کہ ملک کی معیشت ڈانوا ڈول ہے حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ اس کی قومی آ مدنی میں اضافہ ہوگا۔ ملک کے ماہرین معا شیات کا کہنا ہے کہ 1952کے بعد پہلی مرتبہ ملک سنگین معاشی بحران کا شکار ہوا ہے۔ کورنا وائرس اور حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں ملک کی مجموعی پیداوار میں انحطاط دیکھا گیا۔ ملک بیرونی قرضوں میں ڈوب گیا اور سرمایہ کاری کی رفتار انتہائی سست ہو گئی۔ اس کے باوجود معاشی شعبہ میں انقلابی تبدیلیوں کا نہ آ نا اس بات کو ظاہر کرتا ہے موجودہ حکومت ملک کی معاشی ترقی کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ مجوزہ بجٹ میں ان ریاستوں کے لئے بجٹ کا قابلِ لحاظ حصہ مختص کیا گیا جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ آسام، تامل ناڈو، مغربی بنگال اور کیرالا میں اپریل یا مئی میں الیکشن ہونے والا ہے اس لئے ان ریاستوں کا بجٹ میں خاص خیال رکھا گیا۔ اس طرح بی جے پی حکومت نے بجٹ کو بھی ووٹ بینک کے طور پر استعمال کر تے ہوئے وہاں کے رائے دہندوں کو اپنے طرف راغب کر نے کی کوشش کی ہے۔ دیگر ریاستوں کے ساتھ ناانصافی کر تے ہوئے ان کے واجبی مطالبوں کو نظرانداز کر دیا گیا۔ ایک جمہوری حکو مت میں اس قسم کا امتیازی برتاؤ کوئی مناسب عمل نہیں ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ عام آدمی کی ضرورتوں کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا۔ پٹرول اور ڈیزل پر سیس لگانے کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ ہر چیز ٹرانسپورٹ کے ذریعہ عوام تک آ تی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہوگا تو اشیا ء ضروریہ کی قیمتوں کا بڑھنا یقینی ہے۔ مجموعی طور پر بجٹ میں کوئی ایسا عنصر نظر نہیں آ رہا ہے جس سے یہ اندازہ کیا جاسکے کی واقعی یہ بجٹ عوام کے لئے راحت رسانی کا ذریعہ بنے گا۔ عام آ دمی کے لئے اس میں کوئی خوش کردینے والی بات نہیں ہے۔ اس کے باوجود حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس میں عوام کے لئے بہت ساری سہولتیں فراہم کی گئیں ہیں۔ وزیراعظم نے تو کہہ دیا کہ "اس بجٹ کے دل میں غریب اور کسان ہیں "وزیراعظم کے اس بیان میں سچائی ہے تو پھر کسان گزشتہ دو مہینوں سے زرعی قوانین کے خلاف کیوں احتجاج کر رہے ہیں۔ حکومت کیوں ان کے مطالبات کو سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کسانوں کو دھوکہ دے رہی ہے۔
بی جے پی کے قائدین ہمیشہ یہ دعویٰ کر تے رہے کہ ان کی پارٹی ایک منفرد پارٹی ہے۔ وہ سودیشی کے نعرے لگاتے رہے ہیں اور کسانوں اور غریبوں کو اوپر اٹھانا اپنا مقصد بتاتے رہے ہیں۔ لیکن جب سے بی جے پی کو اقتدار ملا ہے ان کے یہ سارے فلسفے اور نعرے فضا میں بکھر کر رہ گئے۔ اپنی پہلی معیاد کے دوران بی جے پی حکو مت نے دعویٰ کیا کہ ہر غریب کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپئے جمع کرائے جائیں گے لیکن آج تک یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اسی طرح یہ کہا گیا تھا کہ بیرونِ ملک سے کالا دھن واپس لایا جائے گا یہ خواب بھی ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے۔ وزیراعظم نے راتوں رات نوٹ بندی کا اعلان کر کے سو سے زائد لوگوں کی جان لے لی۔ اس قسم کے جلدبازی کے فیصلہ سے کن کے مفادات کی تکمیل کی گئی اس سے سارا جہاں واقف ہے۔ مودی حکومت نے عوامی شعبہ کے بجائے خانگی سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے جو پالیسیاں بنائیں اس سے روزگار کے مواقع دن بہ دن کم ہو تے چلے گئے۔ اب جو بجٹ پیش کیا گیا اس میں بھی صنعتکاروں کے مفادات کو ترجیح دی گئی۔ زراعت اور کسانوں کو راحت پہنچانے کے دعوے تو گئے لیکن زراعت کے بجٹ میں چھ فیصد کمی کر دی گئی۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کسانوں کے حق میں صرف زبانی ہمدرددی کا ڈرامہ رچایا گیا۔ عوامی دولت کو سرمایہ داروں میں تقسیم کر نے میں موجودہ حکومت جس فراخدلی کا ثبوت دے رہی ہے اس کی نظیر سابق میں نہیں ملتی۔ اس لئے ملک کی ساری اپوزیشن پارٹیوں نے اس بجٹ کو عام آدمی کے لئے فائدہ مند نہیں قرار دیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ دینے والی مودی حکومت اپنا بجٹ بناتے وقت عام آدمی کی ضرورتوں کا خیال کیوں نہیں رکھتی۔ اقلیتوں کے حوالے سے بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ بجٹ 2021میں ان کے ساتھ کھلی نا انصافی کی گئی۔ مرکز کی مودی حکومت نے مسلمانوں کو پوری طرح سے فراموش کر دیا۔ اس سے حکومت کا مسلمانوں کے تئیں حقیقی چہرہ بھی آشکارہ ہو گیا۔ بی جے پی قائدین دعویٰ کر تے ہیں کہ وہ کسی طبقہ کی خوشامد پر یقین نہیں رکھتے بلکہ وہ سب کی ترقی چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک ملک کے تمام شہری یکساں ہیں اور مذہب کی بنیاد پر کسی سے کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جاتا ہے۔ اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کا اس وقت تعلیم اور روزگار میں جو حال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ایک سو چے سمجھے منصوبے کے تحت انھیں ان شعبوں میں پیچھے کر دیا گیا۔ ملک کی آزادی کے بہتّر سالوں کے دوران ان کے ساتھ جانبداری کے ساتھ ساتھ بعض مرتبہ تعصب سے بھی کام لیا گیا۔ ملک کی چودہ فیصد آ بادی اگر پسماندہ رہے تو کیا ملک ترقی کر سکتا ہے اس بارے کبھی اربابِ حل و عقد نے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کانگریس کی سیکولر حکومت میں بھی مسلمانوں کو دل بہلانے کی باتیں کی جاتی رہیں اور اب تو سرے سے ان کو خاطر میں نہ لانے کا رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔ جب جب حکومت سے اقلیتوں کی ترقی اور ان کی بہبود کے بارے میں سوال کیا گیا اسی بات کو دوہرایا گیا کہ بی جے پی حکومت سب کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتی ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی کی کئی تقاریر میں اس بات کا یقین دلایا گیا کہ ملک کی اقلیتوں کو برابری کے مواقع دئے جائیں گے۔ ابھی گزشتہ دنوں وزیراعظم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقاریب سے خطاب کر تے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر کسی سے کوئی امتیاز نہیں بر تا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کے وسائل پر ہر ایک کا برابر کا حصہ ہے۔ اگر وزیراعظم کے دعویٰ میں سچائی ہے تو پھر زندگی کے مختلف شعبوں میں ملک کے مسلمانوں کے ساتھ انصاف کیوں نہیں ہوتا؟ اس کی جیتی جاگتی تصویر پارلیمنٹ میں پیش کیا جانے والا حالیہ بجٹ ہے کسی بھی ملک کا بجٹ اس ملک کی عوام کی امنگوں اور آرزؤں کو پورا کرنے والا ہو۔ اگر یہ صرف زبانی وعدوں اور بلند بانگ دعووں کی حد تک محدود ہوجائے تو اس سے نہ ملک کا بھلا ہوگا اور نہ ملک کی عوام اس سے مطمئن ہوگی۔ اسے ستم ظریفی کہیں یا کچھ اور! مودی حکومت ملک کی معاشی ترقی کے بارے میں زمین آسمان کے قلابے ملارہی ہے لیکن زمینی حقیقتوں سے آ نکھیں چرا رہی ہے۔ نرملا سیتا رمن کے بجٹ سے متوسط طبقہ بھی ناراض ہے۔ تنخواہ یاب طبقہ کو بھی کو ئی راحت نہیں دی گئی۔انکم ٹیکس کے سلاب کو جوں کا توں رکھا گیا۔ جس کے نتیجہ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ کا بڑا حصہ ٹیکس میں منہا ہو جائے گا۔ اس لحاظ سے بجٹ2021میں سرمایہ داروں کے سوا کسی کو کوئی راحت ملتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ یہی عنصر سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ بی جے پی حکومت کسی کو نہیں توکم از کم کسانوں کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہوئے انہیں راحت پہنچاتی تو اس بجٹ کا خیرمقدم کیا جا سکتا تھا۔ آج کسان سب سے زیادہ پریشان ہیں۔ ان کی محنت کا انہیں صِلہ نہیں مل رہا ہے۔ حکومت نے تین زرعی قوانین بناکر ان کی روزی روٹی چھین لی ہے۔ گزشتہ کئی دہوں سے کسان خود کشی کر رہے ہیں۔ ہزاروں کسان اب تک لقمہ اجل ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت ان کے ساتھ ہمدرددی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو یہ صورت حال نہ صرف افسوسنا ک ہے بلکہ قابلِ مذمت ہے۔ حکومت کے لئے لازمی ہے کہ وہ کسانوں کی زندگیوں کو بچانے کے لئے اپنی موجودہ پالیسیوں کو تبدیل کرے اور کسانوں کے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں راحت پہنچائے۔ ہندوستان میں زرعی انقلاب لانے کے لئے کسانوں کے ساتھ انصاف ہونا ضروری ہے۔ جن قوانین کو پارلیمنٹ میں عددی طاقت کی بنیاد پر حکومت نے منظور کر لیا ہے، اسے منسوخ کیا جائے۔ کسانوں کے معاشی حقوق کا تحفظ کیاجائے اور انہیں بڑے سرمایہ داروں کے چنگل میں جانے سے بچایا جائے۔ جن زرعی قوانین کو ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے کارپوریٹ طبقہ کسانوں کا استحصال کرے گا۔ پیداواری اشیاء کی من مانی قیمتیں طے کی جا ئیں گی۔ اس لئے بجٹ میں کسانوں کو راحت پہنچانے کے لئے خاطر خواہ رقم مختص کی جائے۔ بجٹ میں ازالہ غربت کو کیسے ختم کیا جائے گا اس تعلق سے کوئی ٹھوس بات نہیں کی گئی۔ ملک سے غربت اور بھکمری کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن وہ کیا طریقے ہوں گے جس کے ذریعہ غربت کا خاتمہ ہوگا اس کی تفصیل بھی عوام کے سامنے آنی ضروری ہے۔ بجٹ میں صحت کے شعبہ میں مصارف کو دوگنا کر دینے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ حکومت کی اچھی سوچ ہے۔ ملک کی عوام کا صحت مند ہونا ملک کی ترقی کے لئے لازمی ہے۔ کویڈ۹۱ کے حوالے سے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ صحت کا ہے۔ کوویڈ۔۹۱ کے دوران لوگوں نے دیکھا کہ وقت پر علاج نہ ہونے سے کئی افراد کی جانیں چلی گئیں۔ آج بھی ہندوستان کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں ابتدائی طبی امداد کی بھی سہولتیں نہیں ہیں۔ ہمارا میڈیکل انفرا اسٹکچر بھی دقیانوسی ہے۔ اس لئے عوام خانگی دواخانوں سے رجوع ہونے پر مجبور ہے۔ سوشیل میڈیا میں آ ئے دن ایسی تصویریں دیکھنے کو ملتی ہے کہ گاؤں کے لوگ کسی حا ملہ عورت کو چارپائی پر لیٹا کر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو لے جاتے ہیں کیوں کی ان کے گاؤں میں طبی سہولتیں نہیں ہیں۔ یہ صورت حال جہاں تشویشناک ہے وہیں حکمرانوں کے لئے قابلِ غور بھی ہے۔ کورنا وائرس نے ملک میں جو تعلیمی بحران پیدا کر دیا ہے اس کی پابجائی کیسے ہوگی اس پر بجٹ میں کوئی اہم نکتہ بیان نہیں کیا گیا۔ غریب اور نادار بچے، تعلیم کیسے حاصل کر سکیں گے اس پر حکومت نے کوئی ٹھوس بات بجٹ میں بیان نہیں کی۔ مختصر یہ کہ بجٹ2021عام لوگوں کے لئے نہیں بلکہ سرمایہ داروں کے مفادات کو پیشِ نظر رکھ کربنا یا گیا بنایاگیا۔

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
Share
Share
Share