کب تک چلے گی مسلمانوں کے نام پر سیاست ؟ :-ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share

کب تک چلے گی مسلمانوں کے نام پر سیاست ؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
91+9885210770

پارلیمانی انتخابات کے لئے ابھی تین سال با قی ہیں۔ لیکن بی جے پی آئندہ سال کے اوائل میں ہو نے والے اتر پردیش اسمبلی الیکشن کے ساتھ ساتھ 2024کے لوک سبھا انتخابات میں تیسری مر تبہ اپنی کا میابی کو یقینی بنا نے کے لئے اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈہ پر پھر سے واپس آگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوپی کے ماحول کو کا فی گرمایا جا رہا ہے۔ پوری ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی سو چی سمجھی اسکیم پر عمل کیا جارہا ہے۔ ہجومی تشدد کے واقعات میں اچانک اضا فہ ہوگیا ہے۔

اور اب "دھرم پریو ورتن”کا جھوٹا الزام لگا کر مسلم مذہبی پیشواؤں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ چار دن پہلے لکھنو میں دو افراد کو یوپی پولیس نے یہ کہتے ہوئے گر فتار کر لیا کہ ان لوگوں نے ایک ہزار سے زائد افراد کے مذہب کو جبری طور پر تبدیل کر تے ہوئے مسلمان بنا دیا۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے مبینہ طور پرغریب خاندانوں، بے روزگار نوجوانوں اور جسمانی معذروین کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں دھرم پریورتن پر مجبور کیا۔ پولیس نے جو کچھ کہانی بنائی ہے اس کے کوئی ثبوت یا شواہد پیش نہیں کئے۔ دوسری طرف سنگھ پریوار سے ملحقہ گروہوں کی جانب سے بھی اشتعال انگیزی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ایک نام نہاد سادھو نے یوگی حکومت کو یہ "زرین "مشورہ دیا کہ وہ آ بادی پر کنٹر ول کے لئے قانون بنائے اور دو سے زیادہ بچے پیدا کر نے والے شخص کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیا جائے۔ نہیں معلوم آ نے والے دنوں میں اور کس قسم کے نامعقول مشورے ہندوتوا پر ایقان رکھنے والے یوگی اور مودی حکومت کو دیتے جا ئیں گے۔ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے سنگھ پریوار نِت نئے قوانین وضع کر کے ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو پریشان کر نا چاہتا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران یوپی حکومت نے یوگی کے دور میں کو ئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا جس کی بنیاد پر وہ عوام کے درمیان جا کر ووٹ مانگ سکے۔ ا سی لئے سماج کو فر قہ وارانہ خطوط پر تقسیم کر نے کی سازش رچائی جا رہی ہے۔ تبدیلی مذہب کے معا ملے کو دیکھا جائے تو دستورِ ہند ہر شہری کو اس بات کی کھلی آزادی دیتا ہے کہ ملک کا کوئی بھی شہری کسی بھی مذہب کو قبول کر سکتا ہے۔ دستور نے مذہبی آزادی کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا ہے۔ ملک کے شہریوں کو اس بات کی آزادی دی گئی کہ وہ اپنے مذہب کی پرامن تبلیغ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن موجودہ مودی اور یوگی حکومت شہریوں کے اس بنیادی کو چھین لینا چاہتی ہیں۔کسی بھی شخص کو جبری طور پر کسی مذہب کو قبول کر نے کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن حکومت "جبری تبدیلی مذہب”کی اصطلاح کو گھڑ کر عام ہندوستانیوں کو یہ تا ثر دے رہی ہے کہ عیسائی مشنریاں اور مسلمان یہاں کے ہندوؤں کا مذہب تبدیل کر تے ہوئے انہیں عیسائی اور مسلمان بنا رہے ہیں۔ یہ ایک جھوٹا پروپگنڈا ہے جس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ ہندو مذہب کے دیو مالائی قصوں اور کہانیوں پر سے خود ہندوؤں کی ایک بڑی اکثریت کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اونچ نیچ کی تقسیم نے ہندو مذہب میں ایسی دراڑ ڈال دی گئی ہے کہ اب دلت اور بچھڑے ہوئے طبقے علی الاعلان ہندو دھرم سے اپنی بیزارضگی ظاہر کرتے ہوئے دوسرے مذاہب کو قبول کر رہے ہیں۔ اپنے دھرم کی خرابیوں کو دور کرنے اور سب کے ساتھ مساویانہ سلوک کر نے کے بجائے تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی کر کے سنگھ پریوار اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ اس کے ذریعہ ہندو دھرم کا تحفظ ہو گا اور دوسرے مذاہب کی طرف ہندو راغب نہیں ہوں گے۔ اسی مقصد کے خاطر مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔
جارحانہ فرقہ پر ستی کی ان کارستا نیوں نے ہندو ستان کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر بھی مجروح کر دیا گیا۔ ہندوستان اپنی مذہبی روداری اور فرقہ وارانہ ہم آ ہنگی کی ایک شاندار تاریخ اپنے پہلو میں رکھتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند دہوں سے ہونے والے فرقہ پرستی کے بد بختانہ واقعات نے دنیا کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ ہندوستان اب اپنی دیرینہ روایات سے انحراف کر تا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجہ میں ملک میں عدم تحمل اور عدم بر داشت کے بدترین مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکی کمیشن برائے بین الا قوامی مذہبی آ زادی نے ہندوستان اور خاص طور پر اتر پردیش میں اقلیتوں کے تئیں روا رکھے گئے غیر منصفانہ سلوک پر اپنی سخت تشویش کا اظہار کر تے ہوئے جن تلخ حقائق کو اپنی رپورٹ میں پیش کیا ہے اس سے عالمی سطح پر ملک کا چہرہ داغدار ہوا ہے۔ کمیشن نے کہا کہ یوپی حکومت نئے نئے قوانین لا کر اقلیتوں کو پریشان کر رہی ہے۔ کٹر پسند ہندو ان قوانین کا سہارا لے کر مسلمانوں کی زندگی دو بھر کر دئے ہیں۔ خاص طور پر مذہبی آزادی کے حق کو چھیننے کی کوشش ایک منظم انداز میں کی جا رہی ہے۔ لو جہاد سے متعلق قانون مسلم اقلیت کو نشانہ بنانے کے لئے لایا گیا۔ علاوہ ازیں مساجد کو منہدم کر نے کی کاروائیاں یوپی حکومت کی جانب سے کی جا رہی ہیں۔ امریکی کمیشن نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ نفرت پر مبنی تقاریر کے ذریعہ سارے ماحول کو زہر آلود کر دیا جا رہا ہے۔ حکومت ان زہر یلی تقاریر کر نے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کر نے کے بجائے ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اس سے قانون شکن عناصر کے حو صلے بلند ہو رہے ہیں۔ ایک امریکی کمیشن نے نہیں بلکہ اس سے پہلے کئی بین الا قوامی اداروں نے ہندوستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر سوال اٹھائے ہیں۔ گز شتہ سال ایک خلیجی ملک کی شہزادی نے بھی ہندوستان میں مذہب کے نام پر ہونے والے بد بختانہ واقعات پر سخت تشویس کا اظہار کر تے ہوئے اپنی بیچینی ظاہر کی تھی۔ لیکن افسوس کہ مودی حکومت بین الاقوامی سطح پر ہونے والی بدنامی کو روکنے کے بجائے یہ کہہ کر اپنی ساکھ کو بچانے کی فکر کر تی ہے کہ یہ سب ہندوستان کے اندرونی معا ملات ہیں۔ حکومت کسی بیرونی دباؤ کو قبول نہیں کرے گی۔ آیا حکومت کے اس موقف سے عالمی سطح پر ہندوستان اپنی نیک نامی میں اضا فہ کر سکے گا۔ ملک میں اگر نفرت کے ماحول کو ختم نہ کیا جائے تو دنیا کے مختلف ممالک بھی اس معا ملے میں لب کشائی کر سکتے ہیں۔ لیکن جب سیاست ہی مجبوری بن جائے تو اس قسم کا واقعات کا ہونا کوئی عجب نہیں ہے۔ اس وقت بی جے پی کے پاس کوئی مثبت ایجنڈا نہیں ہے اور وہ اس لئے اشتعال انگیز سر گرمیوں کے ذر یعہ اپنے سیاسی مفادات کو حا صل کر نا چا ہتی ہے۔ یوپی الیکشن میں بی جے پی اپنے فرقہ پرستی کے کارڈ کو کھیلنے میں کا میاب ہو جا تی ہے تو پھر تین سال بعد ہونے والے لوک سبھا الیکشن میں بھی وہ اسی آ زمائے ہوئے نسخہ کو پھر سے آزمائے گی۔ یوپی میں اس وقت جس انداز میں فرقہ پرست عنا صر کی جانب سے حالات کو بگاڑنے کی تیاری کی جا رہی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یوپی میں دوسری مرتبہ اقتدار پر آ نے کے لئے پہلے سے زیادہ جارحانہ ہتھکنڈے استعمال کر نے میں لگی ہوئی ہے۔ گز شتہ ایک ہفتہ کے دوران جو کچھ واقعات یوپی کے سامنے آ ئے ہیں اس سے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ مسلم دشمنی ہی اب بی جے پی کا واحد ہتھیار ہے۔ یوپی کے چیف منسٹر یوگی آ دتیہ ناتھ، ملک کے وزیراعظم نریندرمودی سے آ گے جانا چاہتے ہیں۔ وہ سنگھ پریوار کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہندوتوا کے نفاذ میں وہ مودی سے آ گے ہیں۔ یوگی، یوپی کے چیف منسٹر سے زیادہ اب ملک کے ویزراعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ جا نتے ہیں مودی نے بھی گجرات میں مسلم نسل کشی کر کے سنگھ پریوار کا اعتماد حاصل کیا ہے اس لئے وہ بھی مسلم دشمنی میں بہت آگے نکل گئے۔
2022میں ہونے والے اتر پردیش اسمبلی انتخابات ہوں یا 2024کا لوک سبھا الیکشن ہو، اس میں بی جے پی کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور ہندو عسکریت پسندی کا کھل کر مظاہرہ ہو گا۔ فسطائی عناصر سابق میں بھی اسی ہتھیار کو استعمال کئے تھے اور اب بھی اقتدار کے حصول کے لئے ہندوتوا کا راگ الاپنے کے سوا بی جے پی کے پاس بچا کچھ نہیں ہے۔ خالص جھوٹ اور افترا پردازی کے سہارے دوبارہ مسندِ اقتدار پر فائز ہونا ان کا مطمعِ نظر ہے۔ جذباتی مسائل کو اچھال کر اپنی سیاسی دکان چمکانا بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی رہی ہے۔ گزشتہ ایک سال کے زائد عرصہ سے عوام جن مشکلات سے دوچار ہے اس کا احساس بھی حکمرانوں کو نہیں رہا۔ اگر ان کا ضمیر زندہ ہوتا اور انہیں انسانی جانوں کی فکر لاحق ہوتی تو یوپی میں فرقہ پر ستی کے یہ منظر دیکھنے کو نہ ملتے۔ سماج کو اس طرح تقسیم نہ کیا جا تا۔ عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کے دلخراش واقعات سامنے نہ آ تے۔ لیکن دیکھنے میں آ رہا کہ ایک ایسے وقت جب کہ سارا ملک ایک بحرانی دور سے گذر رہا ہے لیکن یوگی اور مودی حکومت اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ منظم انداز میں ان کو دوسرے درجہ کے شہری بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ان کے خلاف خوف اور دہشت کا ماحول بنا کر ان کے حو صلے پست کئے جا رہے ہیں۔ ایک ضیعف العمر شخص کو بیدردی سے مارا پیٹا جا تا ہے۔ اس کی داڑھی کاٹ دی جاتی ہے۔ اسے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود الزام بھی اسی پر لگایا جاتا ہے۔ جو لوگ اس ظلم سے دنیا کو سو شیل میڈیا کے ذریعہ آ گاہ کر تے ہیں ان پر پولیس مقد مہ ٹھونک دیتی ہے۔ یہ کون سا انصاف ہے اور کیا یہی قانون کی حکمرانی ہے؟ مسلمانوں کو قتل کرنے والے نہ صرف دندناتے ہوئے شہروں میں گھومتے ہیں بلکہ انہیں اسمبلی اور پارلیمنٹ کی رکنیت سے نوازا جا تا ہے۔ جن کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہو تے ہیں ان کے گلے میں پھول کے ہار ہمت افزائی اور عزت افزائی کے طور پر ڈالے جا تے ہیں۔ نفرت کے ان سودا گروں کی ہر سطح پر پشت پناہی ہو تی ہے۔ حکو مت سے لے کر میڈیا ان کا طرفدار بن کر ان کی حمایت میں اُ تر آ تا ہے۔ آ نے والے دنوں میں حالات اور بھی سنگین ہو تے چلے جائیں گے۔ یوپی الیکشن تک سیاست کے اکھاڑے میں بی جے پی کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ سارا سنگھ پر یوار بھی اس کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہو گا۔ ہندوؤں کے جذبات کو بھڑکانے کی ہر تدبیر اختیار کی جا ئے گی۔ عوام سے جو وعدے یوگی اور مودی نے کئے وہ تو پورے ہونے سے رہے اس لئے عوام کی توجہ کو اصل مسائل سے ہٹانے کے لئے فرقہ پر ستی کے کارڈ کا بھر پور استعمال کیا جارہا ہے۔ مثبت ایجنڈے کے ذریعہ اقتدار پر آنا اب بی جے پی کے لئے ممکن نہ رہا۔ اس لئے مذہبی منافرت کو بڑھانے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ یوپی میں اس وقت یوگی آ دتیہ ناتھ جو کچھ کر رہے ہیں وہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی ہو یا لو جہاد کا معا ملہ یا پھر مساجد کا انہدام ہو، یہ سب کارستانیاں اس لئے کی جا رہی ہیں کہ مسلمان ردّعمل کے طور پر سامنے آ ئیں۔ ان کاروائیوں کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر یں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی ہندو ووٹ لینے میں کا میاب ہو جائے۔ یہ عین ممکن ہے کہ الیکشن سے پہلے یوپی کے مختلف شہروں میں مسلم قائدین، مذہبی رہنماؤں اور مسلم نوجوانوں کو بے بنیاد الزامات لگا کر گرفتار کرلیا جائے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو الیکشن سے پہلے ہی پست ہمت کر دینا ہے۔ حالات کے اس تناظر میں ملک کے مسلمانوں کو بہت زیادہ چوکس رہتے ہوئے اپنی سیاسی بے وزنی کو ختم کرنا ہو گا۔ ورنہ دشمن انہیں سیاست سے ہی نہیں صفحہِ ہستی سے مٹانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اسپین کے حالات ہندوستان میں دوہرائے جا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
Share
Share
Share